Posts

Showing posts from June, 2017

Kahaan Woh.... Kahaan Yeh... Zulfiqar Ali Bhutto say Bilawal Zardari Tak, Peoples Party Ki siyasi Taarikh-4

کہاں وہ..... کہاں یہ..... ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک ۔4 تحریر شاہد لطیف   بینظیر کے بھائی، مُرتضیٰ بھٹو کو حکومت میں حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے اپنے بہنوئی کے اثر و نفوز اور بہن کی پالیسیوں سے شدید اختلاف تھا جِس کی وجہ سے دونوں کے باہمی تعلقات میں دراڑ آ گئی۔ نصرت بھٹو کی ہمدردیاں مُرتضیٰ کے ساتھ تھیں جِس سے بینظیر کا خوف زدہ ہونا فطری ردِ عمل ہو سکتا ہے۔  مرتضیٰ بھٹونے بینظیر حکومت کی بد عنوانیوں کے خلاف آواز اُٹھانی شروع کر دی اورایک سیاسی اجتماع میں پیپلز پارٹی میں انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ کر دیا۔غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے بینظیر کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت ، اُن کے شوہر پر بد عنوانی کے الزامات اور مرتضیٰ کے لئے نصرت بھٹو کی حمایت یہ وہ کھلے اشارے ہیں جِن سے پارٹی انتخابات میں بینظیر کو شکست ہوتی۔یوں مرتضیٰ بھٹو وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے چیر مین بن جاتے۔ بالآخر ۲۰ ستمبر، ۱۹۹۶ کو مُرتضیٰ بھٹو کراچی میں اپنے گھر کے سامنے مبیّنہ طورپر پولیس کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔یہ غیر حل شدہ کیس پیپلز پارٹی کے دامن پر ایک بد نما داغ ہے کہ بہن کی وزارتِ عظمیٰ میں بھا

Zulfiqar Ali Bhutto Say Bilawal Zardari Tak.....Pakistan Peoples Party Ki Siasi Taarikh-3

ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک......پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ۔۳ تحریر شاہد لطیف   قریب تھا کہ  حکومت اور اپوزیشن کسی سمجھوتے پر پہنچ جا تے لیکن وہی ہوا جو ۱۹۵۸ میں اُس وقت کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہوا جب اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دھر ایا اور ۵ جولا ئی۱۹۷۷ کو چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ بعد کے اہم واقعات میں ۱۹۷۴ میں ہونے والے نواب محمد احمد خان کے قتل کی پولیس رپورٹ پر کاروائی کا ہونا ہے جِس میں مبیّنہ طور پر بھٹو صاحب کے حکم پر اِس قتل کے کرنے کا ذکر ہے ۔یہ کیس تیز رفتاری سے سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ اور آگے چل کر اپنے سیاسی حریف کو قتل کروانے کا جُرم ثابت ہونے کے فیصلہ کے نتیجہ میں ۴ اپریل ، ۱۹۷۹ کو اُن کی پھانسی پر ختم ہوا۔ بھٹو صاحب کی موت کے فوراََ بعد ، بائیں بازو کے ۶۷ دانشوروں کی سرکردگی میں سوشلسٹ جمہوری اجلاس بلوایا گیا (وہی جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا چئرمین نامزد کیا تھا)۔اجلاس میں پارٹی کے معتبر لیڈران نے پارٹی کی چیرمینی اُن کی بیگم نصرت بھٹو ک

Kahaan Woh....Kahaan Yeh.... Peoples Party Ki Siasi Taarikh Ka Jaizah.2

کہاں وہ.... کہاں یہ.... پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ۔2 تحریر شاہد لطیف اِ سٹیبلِشمنٹ ( ملک کی مقتدرہ بادشاہ ساز) نے صدر یحیےٰ کوصدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور نہایت جلد بازی میں بھٹو صاحب کو کُرسیِ صدارت پر بٹھا دیا ۔یوں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلسٹ اقتدار میں آئے۔ ایک غلط فہمی لوگوں میں عام ہے کہ صدر ایوب نے بھٹو صاحب کو وزارت دے کر سیاست میں آنے کا موقع دیا۔حقیقت یہ ہے کہ اِس سے کہیں پہلے صدر اسکندر مرزا کی کابینہ کے ممبر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں داخل ہو چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد ریاست جوناگڑھ میں دیوان کے عہدے پر فائزتھے۔ذوالفقار علی بھٹو اس وقت نوجوان تھے۔اُنہوں نے ریاستی درباروں کی سیاسی اونچ نیچ ، جوڑ توڑ، اِس کو دباؤ اُس کو گراؤ کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔و ہاں انگریز کو اپنا اُلّو سیدھا کرتے اور اُن کی سیاسی چال بازیوں کو بھی دیکھا ۔اُس وقت کے خوّاص کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سمندر پار سے اعلیٰ تعلیم لے کر بھٹو صاحب نے ۱۹۵۱ میں صدر اسکندر مرزا کی دوسری ایرانی النسل بیوی کی سہیلی، نصرت اصفہانی س

Kahaan Woh..... Kahaan Yeh.....Peoples Party Ki Siyasi Tarikh Ka Jaizah.1

کہاں وہ..... کہاں یہ...... پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ تحریر شاہد لطیف یہ بھی عجیب بات ہے پاکستان پیپلز پارٹی کو، کالعدم پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے سابقہ ممبران نے قائم کیا ۔واضح ہو کہ اس سوشلسٹ پارٹی پر خود قائدِ مِلّت نواب زادہ لیاقت علی خان ؒ نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۶۰ میں صدر ایوب کے مغرب اور امریکہ کی جانب جھکاؤ کی پالیسیوں کی مخالفت اور سوشل ازم کی حمایت میں مغربی پاکستان میں شدت آنے لگی ۔ حریف بھارت کے ساتھ معاہدہ ء تاشقند کے فوراََ بعد تو یہ دو چند ہو گئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جب ۳۰ نومبر ۱۹۶۷ کو لاہور میں بائیں بازو کے دانشور وں اور سوشلسٹوں کی ایک مجلس، ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں سابقہ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوئی۔ یوں ایک سیاسی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی عمل میں لائی گئی۔ مورخوں اور اُس مجلس کے شرکاء کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن اور جے۔اے۔رحیم اس پارٹی کے بانیان میں سے ہیں۔ باہمی مشاورت سے ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا پہلا چیرمین بنایا گیا۔ اس کا منشور ’ اِسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم

کہاں وہ... کہاں یہ...مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔آخری قسط

کہاں وہ... کہاں یہ...مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔آخری قسط تحریر شاہد لطیف میاں نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز دسٹرکٹ کونسل سے کیااور عملی طور پر ۱۹۷۰ میں اصغر خان صاحب کی تحریکِ استقلال میں شامل ہو کر باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا۔پنجاب کے گورنر جیلانی صاحب نے ان کو ۱۹۸۱ میں پنجاب کی وزارتِ تجارت کے ساتھ ساتھ کھیل کا قلمدان بھی سونپ دیا۔  ۱۹۸۸ کے انتخابات میں بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ ملک کی وزیرِ اعظم بنیں جبکہ نواز شریف پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ۔ ایک دفعہ اور...... اسکندر مرزا اور غلام محمد والے پرانے کھیل کی بساط سج گئی ۔ صرف ۲۰ ماہ میں کرپشن اور بد انتظامی کے الزام لگا کر غلام محمد کی طرح نوکر شاہی سے صدارت پر فائز ہونے والے غلام اسحٰق خان نے وزیرِ اعظم بینظیرکی حکومت اور قومی اسمبلی ۱۹۹۰ میں تحلیل کر دی۔  ۱۹۹۰ کے عام انتخابات میں نواز شریف یکم نومبر کو وزیرِ اعظم بن گئے ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ قومی حکومت بنائی گئی ۔ طاقت اور اختیارات روایتی جاگیرداروں سے نکل کر ترقی پذیر صنعت کار اور تجارت پیشہ افراد کے پاس آنے لگے (عوام کا پھر بھی ایوانوں میں گزر ممن

کہاں وہ .... کہاں یہ ..... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۴

کہاں وہ .... کہاں یہ .....  مسلم  لیگ  کی   سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۴  تحریر شاہد لطیف ۱۹۶۵ کے بالواسطہ انتخابات بنیادی جمہوریت کے تحت کروائے گئے ۔اِس نظام میں ا نتظامیہ بہت با اختیار تھی لہٰذا آسمان سے فرشتے بھی اُتر آتے تب بھی جیت انتظامیہ کی ہی ہونا تھی۔ ایوب خان کی زیرِ سایہ کنونشن مسلم لیگ کے مقابلے میں خاتونِ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو اصلی مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا اور ایوب خان کے خلاف صدارتی ا نتخاب کا اعلان کر دیا۔پورے ملک کی اپوزیشن نے اُن کی حمایت کی۔ یہاں سے پاکستان مسلم لیگ کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ خاتونِ پاکستانؒ کے انتقال کے بعد پاکستان مسلم لیگ کی صدارت پر نور الامین فائز ہوئے۔ ۱۹۷۱ کی پاک بھارت جنگ اور نور الامین صاحب کے انتقال کے بعد پارٹی کی مقبولیت کا گراف نچلی ترین سطح پرآ گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ۷۰ کی دہائی میں قومیانے کی پالیسی کے خلاف شدید رد عمل کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ کو دوبارہ واپسی کا موقع مِل گیا۔کئی نوجوان، جیسے نواز شریف،جاوید ہاشمی،ظفر الحق اورشجاعت حسین مسلم لیگ کے فعال سیاسی لیڈر بن کر اُبھرے۔پارٹی کے اہم معاملات میں اندرونی اختلافات،

کہاں وہ ..... کہاں یہ .... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳

کہاں وہ ..... کہاں یہ .... مسلم لیگ کی  سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳ تحریر شاہد لطیف قائدِ اعظمؒ کی خواہش کے مطابق غلام محمد صاحب کو پاکستان کا پہلا وزیرِ خزانہ بنایا گیاتھاجو ایک آزمودہ اور پرانے افسر شاہی کے فرد تھے۔یہ کِسی بھی لحاظ سے گورنر جنرل جیسے اعلی مرتبہ کے لئے جِس پر قائدِ اعظمؒ فائز رہ چکے تھے، موزوں نہیں تھے۔قائدِ مِلّت لیاقت علی خان ؒ کی شہادت کے بعد مسلم لیگیوں کا فرض اب کہیں زیادہ بڑھ جانا چاہیے تھا کہ وہ چوکنے رہتے کہ اِس نئے ملک میں سب ٹھیک تو ہے نا؟اب پہلا بگاڑ یہی غلام محمد کا بہ حیثیت گورنر جنرل کے تقرر ہونا پھر اِسی عہدے پر اسکندر مرزا کا فائز ہوناتھا۔ اب نوکر یا افسر شاہی عوام کا خادم بننے کو قطعاََ تیار نہیں تھی بلکہ وائسرائے کی طرح کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اختیارات حاصل کرنے کے لئے یہ بھی عوام کی گردن پر پیر رکھنے کو تیار ...... اور ملک کی قِسمت میں پہلے کے جاگیردار سیاستدان ..... اب اِن ہی لوگوں نے پاکستان کو کنٹرول کرنا تھا۔  ۱۹۵۵ میں تو حد ہی ہوگئی جب افسر شاہی نے ڈری سہمی،مسلم لیگ کا کنٹرول سنبھال لیااور مغربی پاکستان کے چار صوبوں کا ایک

کہاں وہ...کہاں یہ ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ-٢

کہاں وہ...کہاں یہ ......  مسلم لیگ کی  سیاسی تاریخ کا جائزہ-٢ تحریر شاہد لطیف پاکستان بننے کے بعد سے 1958 کے پہلے مارشل لاء تک ،مسلم لیگ کے یہ 5 عدد وزرائے اعظم رہے : لیاقت علی خان ؒ ، خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرا،چوھدری محمد علی اورابراہیم اسماعیل چُندریگر ۔ چوہدری محمد علی اور چُندریگرصاحبان کی درمیانی مدت،عوامی لیگ کے حُسین شہید سُہروردی12ستمبر 1956سے 17 اکتوبر 1957تک پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے۔آئی۔آئی۔چُندریگر صاحب کے بعد ریپبلیکن پارٹی کے ملک فیروز خان نون 7 اکتوبر 1958 مارشل لاء لگنے تک ملک کے آخری وزیرِاعظم رہے۔ مسلم لیگ مسلسل 9 سال اقتدار میں رہی۔ اِس دور میں ملک میں اچھا بُرا جو ہُوا، یہ جماعت براہِ راست اُس کی جواب دہ ہے۔صرف برسرِ اقتدار لیگی قیادت ہی نہیں بلکہ وہ تمام سینیئرمسلم لیگی بھی جو سازشوں اور جمہوریت کش اقدامات کے گٹھ جوڑ پر خاموش رہے۔ شایدہی کوئی ایسی مِثال پیش کی جا سکے کہ قائدؒ کے اُس وقت کے مسلم لیگی ساتھیوں نے اِس خرافات کے خلاف کوئی جدوجہد کی ہو ۔ اگر وہ مستقبل میں ملک کی خراب سیاسی صورتِ حال دیکھ رہے تھے تواعلانیہ مسلم لیگ چھوڑ کیوں نہ دی؟ کیاروزِ

کہاں وہ .......کہاں یہ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ -١

کہاں وہ .......کہاں یہ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ -1 تحریر شاہد لطیف ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی موازنہ کرنا ہو تو شروعات ،کہاں وہ..... اور کہاں یہ...... سے کی جاتی ہے۔ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک بزرگوار اِسی موضوع پر مسلم لیگ کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ کہاں قائدِ اعظم ؒ کی مُسلم لیگ اور کہاں یہ میاں نواز شریف کی مُسلم لیگ۔ آج کی پاکستان مسلم لیگ کے لیڈران سے پاکستانی عوام کو یہ امیدیں ضرور ہوتی ہیں کہ وہ اور نہیں تو قائدِ اعظم ؒ کے نام ہی کا کچھ خیال رکھیں گے۔ عوام کو کوئی دھیلے کی سہولت نہ دیں کم از کم مزید نئی تکالیف تو نہیں دیں گے......اُس محفل میں رونا ہی اِس بات کا تھا کہ اِس سیاسی جماعت نے ملک کا ستیا ناس کرنے میں بڑھ چڑھ کر کام کیا۔اقتدار اور اختیار کے لئے اِس جماعت کے لیڈران نے کیا کیا نہیں کیا۔اور جنہوں نے اِس بہتے گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے تو اُن سے روزِ حشر ضرور پوچھا جائے گا کہ آپ صاحبِ اختیار تھے کِس مصلحت کے لئے آپ نے آنکھیں بند رکھیں اور ملک کا ستیا ناس کرنے والے اپنے پیٹی بھائیوں کو نہیں روکا؟ میثاقِ جمہوریت میں کیا لیا اور کیا دی

سدابہا ر موسیقار کریم شہاب الدین

سدابہا ر موسیقار کریم شہاب الدین  تحریر شاہد لطیف دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں     ایسا   نشہ تیرے پیار نے   دیا         کھو   گئے   سپنوں   میں   ہم  تیری یاد آ گئی غم خو شی میں ڈھل گئے  اِک   چراغ   کیا جلا سو چراغ جَل گئے ماضی کے یہ گیت کل بھی مقبول تھے اور آج بھی مقبول ہیں..... لیکن...... ایک بہت ہی بڑا المیہ یہ ہے کہ اِن گیتوں کے گلوکاروں کے نام تو عوام جانتی ہے لیکن اکثریت اِن مقبول ترین نغمات کے خالق ، یعنی موسیقار اور شا عر کا نام نہیں جانتی۔ اِن کی وجوہات کیا ہیں؟ اِس موضوع پر گفتگو پھر سہی ، لیکن آج اُس سدابہار موسیقار کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اپنی طرزوں کی نغمگی کی طرح میٹھی میٹھی اور فرحت انگیز شخصیت کا مالک تھا یعنی کریم شہاب الدین۔  70 کے اواخر میں راقم نے کریم شہاب الدین کو مُحسن شیرازی صاحب کے   لائیو اسٹیج شو  فروزاں   میں دیکھا۔ پھر قسمت مجھے پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی مرکز میں لے آئی۔ جہاں اُن دِنوں سہیل رعنا، کریم شہاب الدین، غلام نبی ( غلام نبی کے ساتھ مرحوم عبدالطیف کی جوڑی   غلام نبی عبدالطیف کے نام سے م

افریقیات ۔2

افریقیات ۔2 تحریر شاہد لطیف اپنے ہی ہائی کمیشن / سِفارتخانہ میں ذلیل ہونا 1979 کے موسمِ سرما میں کراچی سے کینیا کے دارالحکومت نیرو بی کے لئے قومی ائر لائن کی پرواز ہی راقِم کا اوّلین ہوائی سفر تھا۔ میرا دِل چاہتا تھا کہ یہ سفر لمبا ہوتا جائے۔اور یہ دعا قبول بھی ہوگئی جب جہاز نیروبی کے بجائے ممباسا جا اُترا جو کینیا کا دوسرا بڑا شہر تھا ۔ بتلایا گیا کہ جہاز کے انجن میں خرابی ہے اور ........... بہرکیف یہ 3 دِن وہیں رُکا۔مُسافروں کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔یوں PIA کی بدولت ممباسا کی خوب سیاحت کی؛ اور پہلی دفعہ سواحیلی زُبان سے واقفیت ہوئی۔ممباسا کے ساحل کی ریت بالکل سفید تھی اور وہاں کے کوّوے بھی سفید، جو میرے لئے سخت حیرت کا باعث تھے۔ ممباسا کو الوداع کہتے ہوئے نیروبی پہنچا۔مُجھ کو یہ شہر اُس وقت کے کراچی کے مُقابلہ میں بہت بہتر لگا۔ ایک ریستوراں میں جانے کا اِتفاق ہوا جو 24ویں منزل پر واقع تھا اور آہستہ رفتار سے گھُوم بھی رہا تھا۔بڑی اور کُشادہ سڑکیں، شاندار دُوکانیں۔یہاںپاکستان ہائی کمیشن،یعنی سِفارت خانہ بھی بہت خوبصورت تھا۔حسبِ روایت جو کام ایک گھنٹے میں ہونا