Posts

Showing posts from July, 2017

Sheereen Nawa Mehnaaz .second and last part

شیریں نوا مہناز   دوسرا اور آخری حصّہ تحریر شاہد لطیف پچھلے ہفتہ مہناز کے ذکرمیں تشنگی رہ گئی ،و ہ ایسی فنکارہ ہے جِس کا تذکرہ کسی بھی لحاظ سے ایک کالم میں نہیں سما سکتا تھا لہٰذا جو باتیں رہ گئیں وہ آپ تک پہنچاتا ہوں۔مہناز عام زندگی میں بے حد ملنسار سادہ پُر خلوص تھی۔ مارچ ۱۹۹۹ میں جب وہ صدر فاروق خان لغاری سے اپنا تمغہء حسنِ کارکردگی لینے اِسلام آباد آئی تو میں نے اُسے اپنے غریب خانے میں قیام کی دعوت دی ۔ایک گیسٹ ہاؤس میں سرکاری انتظام ہونے کے باوجود اُس نے میری دعوت قبول کر لی ۔ اِسی تقریب میں مسرور انور صاحب کو بعد از مرگ یہی ایوارڈ دیا گیا جو اُن کی بیگم نے وصول کیا۔دیر آید درست آید، حکومتِ پاکستان کو۱۹۷۱ میں لکھے گئے قومی گیت: ؂         سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد پر ایوارڈ دینا مسرور بھائی کے دنیا سے گزر جانے پر یاد آیا۔بہرحال تقریب کے بعد میں خود اُسے اپنے گھر واقع لال کڑتی، راولپنڈی لے آیا ۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے ۔ ہم لوگ کچھ عرصہ پہلے ہی کراچی سے پنڈی منتقل ہوئے تھے۔ ہم خود بھی بوری نشین قسم کے لوگ ہیں ۔مارچ کا مہینہ اور سردی کا زمانہ، ہم خ

شیریں نوا مہناز ۔ دوسرا اور آخری حصہ

Image

29 جولائی 2017 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں شائع ہونے والی تحریر

Image

سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا تحریرشاہد لطیف پاناما کیس کا اونٹ بالآخر بیٹھ ہی گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف تا حیات نا اہل قرار دے دیے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا فیصلہ آیا ہے کہ کوئی سیاستدان تا حیات نا اہل قرار دے دیا جائے۔سیاسی اعتبار سے شاید میاں صاحب کو اتنا نقصان نہ پہنچے کہ اب وہ وزیرِ اعظم بننے کی تینوں مدتیں پوری کر چکے ہیں لیکن ۔۔۔  بات آگے بڑھانے سے پہلے غیر ملکی میڈیا پر گردش کرنے والے اعتراضات پر ہلکا سا تبصرہ ہو جائے۔اُن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باعث اگلا وزیرِ اعظم یقیناََ اسی پارٹی کا ہوگا۔اُن کے خدشات کے مطابق یہ وزیرِ اعظم ربڑ ا سٹیمپ ہو گا۔۔۔ ہماری حکومتوں کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ طاقت کا مرکز ہمیشہ ایک عہدہ رہا۔صدر زرداری کے عہد میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے توہینِ عدالت کا مرتکب ہونے کے باعث چند سالوں کے لئے نا اہل قرار دے دیا۔ وجہ ۔۔۔ کہ وزیرِ اعظم نے عدالت کے حکم کے مطابق صدر زرداری کے خلاف کرپشن کے پرانے کیس کو دوبارہ کھولنے سے انکار کر دیا تھا

اوندھی بستی

اوندھی بستی تحریر شاہد لطیف 90کی دہائی میں میرے ایک دوست، جن کا تعلق پاکستان کسٹمز ( مصلحتاََ نام نہیں لکھا ) سے ہے ، جنہیں تاریخی چیزیں اور کھنڈرات دیکھنے کا بہت شوق تھا ، کہنے لگے کہ ’’ لہائی بندر ‘‘ چلنے کا پروگرام بنا لو ۔پوچھا کہ یہاں کیا ہے؟ تو جواب دیا کہ یہاں کہیں قریب ایک بستی کے آثار بہت اچھی حالت میں ہیں ۔اور سُنا ہے کہ کچھ مکان اوندھے بھی ہیں؛ جِن کا ذکر ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ پروگرام تو بنا نہیں لیکن تاریخ کا طالبِ علم ہونے کے ناطے میرے اندر شوق اور تجسس نے سر اُٹھایا ، ابنِ بطوطہ کی کتاب کی تلاش شروع ہوئی اور بالآخر کراچی کے اُردو بازار میں رئیس احمد جعفری صاحب کا اُردو ترجمہ مِل گیا۔ تقریباَ 683 سال پہلے ابنِ بطوطہ بر صغیر پاک و ہند سیاحت کے لئے آیاتھا ۔ اُس کی آمد 12 ستمبر 1333عیسوی بنتی ہے۔ سفر کے دوران وہ یادداشتیں مرتب کرتا رہا۔جب 25 سال بعد وطن واپس پہنچا تو گوشہ ء عافیت میں بیٹھ کر اِن کی مدد سے اپناسفرنامہ لکھا ۔ اس دلچسپ سیاحت کے عربی زبان سے فارسی اور پھر اردو میں کئی تراجم ہوئے ۔جناب رئیس احمد جعفری صاحب کے سفر نامہ ابنِ ب

خوش نصیب موسیقار اختر اللہ دتہ

Image

شیریں نوا مہناز۔روزنامہ نوائے وقت کراچی۔منگل 18 جولائی، 2017

Image

Kahan Woh Kahan Yeh, Deeni Jamaaton Ki Siyasi Taarikh Ka Jaizah.2

کہاں وہ۔۔۔کہاں یہ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۲ تحریر شاہد لطیف مولانا مُفتی محمود ( ۱۹۸۰۔۱۹۱۹)انڈین نیشنل کانگریس کے ممبر رہے اور جمعیت علمائے اِسلام کے بانی ممبران میں سے ایک ہیں۔۱۹۴۰ کی دہائی میں اُنہوں نے مسلم لیگ کی مخالفت بھی کی۔قیامِ پاکستان کے بعد، ۱۹۵۰ میں اُنہوں نے مدرسہ قاسم العلوم ، ملتان میں مدرس کے فرائض انجام دئیے۔بعد میں صدر مدرس، مفتی اعلیٰ، شیخ الحدیث اور مہتمم کے عہدوں پر بھی کام کیا۔ اپنی زندگی میں تقریباََ ۰۰۰،۲۵ فتوے جاری کیے۔صدر ایوب کے ون یونٹ کی بھرپور مخالفت کی اور ۱۹۶۲ میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابا ت میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیااوراپنے تمام مخالفین کو شکست دی۔۸ جنوری، ۱۹۶۸ میں ڈھاکہ، مشرقی پاکستان میں مولانا مفتی محمود ایوب حکومت کی مخالف جمہوری مجلسِ عمل کے اہم لیڈر تھے۔ ۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں تو مولانا نے کمال کر دیا جب ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ سے وہ ذوالفقار علی بھٹو کو بری طرح شکست دے کر کامیاب ہوئے۔اِن انتخابات کے فوراََ بعد اُن کو علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب کی قائم کردہ جمعیتِ علمائے اِسلام کا صدر نامزد کر د

کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔ دینی ہارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ۔ 2

Image

Sheerin Nawa Mehnaaz

شیریں نوا مہناز تحریر شاہد لطیف ۱۹۶۹۔۱۹۶۸ کا زمانہ تھا راقِم کا ریڈیوپاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگرام ’نئے فنکار ‘ میں حصّہ لینے تقریباََ ہر ہفتہ ریڈیو اسٹیشن جانا رہتا تھا؛ یوں کئی نامور ہستیوں کی دعائیں لینے کا اعزاز حاصل ہو ا۔ آج اختر وصی علی صاحب سے ذکر شروع کرتا ہوں۔یہ پاکستان منتقل ہونے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے۔ریڈیو پاکستان کراچی آ کر دونوں میاں بیوی،اختر وصی علی صاحب اور کجّن بیگم محض سوز و سلام، مرثیہ اور نوحہ کے لئے مختص ہو کر رہ گئے۔اِس سلسلے میں خاکسار کو یاد ہے کہ اُسی زمانے میں ریڈیو کے جیّد فنکار،موسیقار کیا اور گلوکار کیا، خواتین کیا اور حضرات کیا ، یہ برملا کہتے تھے کہ اختر صاحب نے اب صرف سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے کے میدان کو منتخب کر کے ہم پر بہت احسان کیا ورنہ اتنے بڑے فنکار کی موجودگی میں ہم کہاں جاتے؟۔ گو ۱۹۶۹ کے بعدمیرا ریڈیو پاکستان کراچی کم کم جانا رہا تاہم دہلی گھرانے کے اُستاد امراؤ بندو خان صاحب اور اختر وصی علی صاحب کے ہاں آنا جانا لگا رہا۔ کجّن بیگم جب سوز و سلام پڑھا کرتی تھیں تو اُن کے ساتھ اُن کے دو بہنیں اور ک

Kahaan Woh... Kahaan Yeh... Deeni Partiyon Ki Siyasi Taarikh Ka Jaizah

کہاں وہ ...... کہاں یہ...... دینی پارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔1 تحریر شاہد لطیف جمیعتِ علمائے ہند ،۱۹ نومبر ۱۹۱۹ میں قائم ہوئی۔یہ مذہبی اور سیاسی جماعت متحدہ ہندوستان کی حامی تھی، یعنی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن، اور مطالبہ ء پاکستان کے خلاف۔ اُس کے نزدیک اب بھی مُسلمان بلا شبہ ہندوستان کا حصّہ ہیں اور ہندو مسلم اتحاد ہندوستان کی آزادی کے لئے ضروری ہے ۔ اِسی لئے اِس جماعت نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مِل کر کام کیا۔ علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب اور اُن کے ہم خیال ممبران نے اِس نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے قیامِ پاکستان کی حمایت کی او ر جمیعتِ علمائے ہندسے علیحدہ ہو گئے ۔ علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب ۱۹۴۴ میں آل انڈیا مُسلم لیگ کے ممبر بن گئے، اِس طرح دیوبندیوں کی نمایندگی بھی قیامِ پاکستان میں شامِل ہو گئی۔ جمیعتِ علمائے ہند کے منفی پراپاگینڈا اور الزامات سے نبٹنے کے لئے اُنہوں نے ۱۹۴۵ میں جمیعتِ علمائے اِسلام قائم کی۔علّامہ ؒ صاحب ۱۹۴۹ میں اپنے انتقال تک اِس پارٹی کے صدر رہے۔علّامہ شبّیر احمد عثمانی ؒ کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اُنہوں نے ۱۹۴۸

Khush Naseeb Mosiqar Akhtar Allah Ditta

خوش نصیب موسیقار اختر اللہ دتّہ تحریر شاہد لطیف ۱۹۸۰ کے آخری ہفتے چل رہے تھے، راقم کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز میں آئے ابھی دو ہی ماہ ہوئے تھے جب گلوکار محمد علی شہکی کو ٹیلی وژن کی گزر گاہ میں آتے ہوئے دیکھا ۔ زمانہء طالبِ علمی میں وہ این۔ای۔ڈی یونیورسٹی اور میں جامعہ کراچی میں تھا۔ شہکی جامعہ کراچی کے مختلف شعبوں میں ہونے والے فنکشنوں میں گاتے تھے، راقم بھی بینڈ کے ساتھ اسٹیج پر لائیو گا تا تھااِس طرح ہماری اچھی دعا سلام تھی ۔پھرپی۔ٹی۔وی کراچی کے موسیقی کے پروگراموں کی وجہ سے شہکی کی بہت شہرت ہو گئی ۔ اُس دِن ملاقات میں شہکی نے بتایا کہ وہ اب اللہ دتّہ گروپ کے ساتھ اسٹیج پر گانا گا رہا ہے۔نیز یہ کہ نہ صرف اُسے بینڈ کے ساتھ گانے کا مزا آ تا ہے بلکہ یہ عوام میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔مجھے میوزک بینڈ دیکھنے اور سننے کا شوق ہوالہٰذا اُسی شام شہکی نے ایک ہونے والے فنکشن میںآنے کی دعوت دی۔ میں وہاں کچھ دیر سے پہنچا۔ پہنچتے ہی دو چیزوں نے سیکنڈوں میں میری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ایک ساؤنڈ سسٹم دوسرا میوزک۔اسٹیج پر کئی ایک سازوں کے ہمراہ لایؤ گاناکاف

Zulfiqar Ali Bhutto Say Bilawal Zardari Tak-Peoples Parti Ki Siyasi Taarikh Ka Jaizah.Aakhri Hissah

کہاں وہ۔۔۔کہاں یہ۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک  پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ۔آخری حصہ  تحریر شاہد لطیف خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بینظیر، پیپلز پارٹی نے اپنے اِن لیڈروں کی کرشماتی شخصیات کی وجہ سے بہتر کارکردگی دِکھائی۔ آج کی پیپلز پارٹی کے پاس فی الحال ایسی کوئی شخصیت نہیں۔سوال ہے کہ شخصیت پرستی کی ضرورت آخر کیوں؟ اِس کیوں کا جواب بد قسمتی سے خود اِس پارٹی کی مجبوری ہے کہ ر وزِ اوّل ہی سے پارٹی کی اہمیت ثانوی اور پارٹی کے لیڈر اور پارٹی وارثوں کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ بینظیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد پارٹی میں عملاََ طاقت ا ور اختیارات کے تین مراکز ہو گئے: شریک چیرپرسن آصف علی زرداری اُن کی بہن فریال تالپر اور بِلاول زرداری۔پارٹی پر اِس وقت بھی پہلے ذکر کئے گئے دو افراد کا کنٹرول ہے۔پیپلز پارٹی کے پرانے لیڈران اور کارکنان کا موقف ہے کہ اگر پارٹی کو ملک گیر پیمانے پر کامیابی دِلانا مقصود ہے تو بلاول کو اِن دونوں کی سرپرستی سے نکلنا ہو گا۔( گویا وہ بھی اِس بات پر مہر ثبت کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی عوامی نہیں بلکہ بھٹو خاندان کہ ذاتی ملکیت ہے)

Afriqiyaat.Teesra Aur Aakhri Hissah

افریقییات دلچسپ واقعات کا آخری حصّہ تحریر شاہد لطیف برِّ اعظم افریقہ بہت بڑا ہے جِس کا چپہ چپہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ راقِم البتہ مشرقی اور وسطی افریقہ کا کچھ حصہ ہی دیکھ سکا ۔ جنت مکانی میرے والد صاحب کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا اِن ہی کتابوں کو پڑھ کر یہاں کی مہم جوئی، پُراسرار واقعات اور شکاریات سے متعلق میں پہلے ہی سے آگاہ تھا اب اُس کتابی علم کے ساتھ ساتھ مشاہدے کی نعمت مِلنے والی تھی جِس کے لئے میں اللہ تعالیٰ کا مشکور تھا ۔چونکہ یہ میرا اولین کام تھا اور تھا بھی اپنے مطلب کا، پھر کام میں مختصر وقفوں میں گھومنے پھرنے، سیکھنے سکھانے کو وقت بھی میسر تھا لہٰذا وہ سارے واقعات اور مشاہدات ، اب بھی فلم کی مانند تمام وقت نظروں کے سامنے رہتے ہیں گویا یہ کل کا کوئی واقعہ ہو۔ سلطنتِ اومان کے سلطان قابوس کا قابلِ تعریف کام  میرے اِس یونٹ میں ایک منصوبے کے ختم ہونے اور دوسرے کے شروع ہونے کے درمیان اکثر ہفتہ پندرہ دِن کا وقفہ ہوا کرتا تھا جِس سے میں نے فائدہ اُٹھایا ۔ ایسے ہی ایک وقفے کے دوران راقِم نے مملکتِ بورونڈی کے دارالحکومت بُوجُونبُورا سے تنزانیہ کے شہ