Posts

Showing posts from April, 2019

فیفا ورلڈ کپ میں پاکستانی فٹبال ۔۔۔۔ خواجہ مسعود اختر کا ستارہ امتیاز

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 27  اپریل کی اشاعت کے صفحہ 5 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

فیفا ورلڈ کپ میں پاکستانی فٹبال ۔۔۔۔۔۔ خواجہ مسعود اختر کا ستارہ امتیاز

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 27  اپریل کی اشاعت میں شائع پونے والا کالم اُلٹ پھیر

پی ڈی ایف فارمیٹ میں نگار ویکلی میں شائع ہونے والی تحریر "عنایت حسین بھٹی"۔

حافظِ قُرآن صوفی منش اور ہر دل عزیز ریڈیو پاکستان کے پہلے پنجابی ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے درد مند دل اور ساری زندگی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے والے بھا گاں والیو نام جپو مولا نام، نام مولا نام اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا پاکستان کی پہلی سرائیکی فلم کے فلمساز  واحد پاکستانی مرد جو بیک وقت سُپر اسٹار پلے بیک سنگر اور اداکارتھے فلمساز، گلوکار ، اداکار اور ہدایتکارعنایت حسین بھٹّی  12 جنوری 1923 سے 31 مئی 1999 تحریر شاہد لطیف ’’ میرے والد حافظِ قُرآن تھے۔گلبرگ پولیس چوکی کے برابر ہمارا گھر تھا۔رمضان میں اکثر چوکی والے میرے والد سے کہتے کہ بھٹی صاحب آپ سحری کے وقت جب تلاوت کرتے ہیں تو چوکی کی جانب والی کھڑکی کھول دیا کریں ہم بھی تلاوت سُن لیا کریں گے۔ 40 سال سے مسلسل رمضان میں ریڈیو پاکستان لاہور سے میرے والد صاحب کی آواز میں ریکارڈ کی ہو ئی عربی زبان میں نعت نشر ہو رہی ہے ‘‘۔یہ بات مجھے عنایت حسین بھٹی کے صاحبزادے ندیم عباس نے بتلائی ۔ ایک زمانے سے پاکستانی فلموں کا ایک معتبر نام ، عنایت حسین بھٹی آپ اور ہم سنتے چلے آ رہے ہیں۔

" عنایت سین بھٹی " نگار ویکلی میں شائع ہونے والی تحریر۔

Image
 صفحہ 5۔ نگار ویکلی۔ جلد 70۔ شمارہ 16۔ مورخہ 19  اپریل  2019

پی ڈی ایف فارمیٹ میں تحریر " آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اس ترمیم میں ترمیم کیوں نہیں

آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اس ترمیم میں ترمیم کیوں نہیں ہو سکتی تحریر شاہد لطیف اٹھارویں ترمیم پھر سے منظرِ عام پر آ گئی !! ۔یاد رہے پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو پیپلز پارٹی کی حکومت اور صدرآصف زرداری کے دور میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بغیر بحث کے منظور کی۔حیرت ہے کہ ا تنا بڑا فیصلہ بغیر بحث کے کیسے کر لیا گیا۔کسی ایک رکن نے بھی مخالفت نہیں کی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟پہلے کی بات چھوڑیے!! لگتا تو یوں ہے کہ عوام کو دانستہ اِس ترمیم سے متعلق معلومات نہیں دی گئیں۔کسی طرف سے بھی وہ گرما گرمی نہیں جو ہونا چاہیے۔ اِس میں کیا بڑی پیچیدگیاں ہیں؟ نہیں بتایا جا رہا۔کچھ مسائل کی نشاندہی کی تو گئی لیکن وہ حل کیسے ہوں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ۔یوں تو جب سے یہ ترمیم کی گئی اِس موضوع پر اخبارات میں مختلف زاویوں سے باتیں ہوتی رہی ہیں۔لیکن اِس میں تیزی اُس وقت آ ئی جب سپریم کورٹ میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ٹرسٹ اسپتالوں کی صوبوں کو منتقلی کے کیس میں ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اسپتال کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جناح اسپتال کو وفاق کے تحت کام جار

آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو ترمیم میں ترمیم کیوں نہیں

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 20  اپریل 2019 کی اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں " ہمارے مسیحا اور ہم ۔۔۔۔۔

ہمارے مسیحا اور ہم۔۔۔ تحریر شاہد لطیف ڈاکٹر ،نرسیں، اسپتال اور مریض لازم و ملزوم ہیں۔مسیحا ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔۔۔ مسیحائی تو پیغمبرانہ وصف ہے۔ یہ و ہ رشتہ ہے جو بیمار کو پھر سے پُر اُمید اور پُر اعتماد بناتا ہے۔مگر اُس آئے روز کے لڑائی جھگڑوں کو کیا کیجئے جو مریضوں کے ساتھ آنے والے افراد ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکس اور اسپتال انتظامیہ کے ساتھ کرتے ہیں!! اکثر ڈاکٹر ہی کو صبر کرنا پڑتا ہے۔ ایک عام تاثر ہے کہ پرائیویٹ اسپتال کے ڈاکٹروں کو اپنے کام کے ساتھ مریض کے ساتھ کاروبار پیدا کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی دی جاتی ہے ۔ضرورت ہو نہ ہو دس سے پندرہ ہزار روپے کے تفتیشی ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔جب کہ اسپتال کی امرجنسی میں مریضوں کے ساتھ آنے والے صبر گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔ سرکاری اسپتال کی امر جنسی میں میں کوئی مریض آیا نہیں کہ اُس کے ساتھ آنے والے افراد ڈاکٹر کے سر پر سوار ہوئے نہیں۔ جب اسپتال انتظامیہ انہیں روکتی ہے تو وہ ہنگامہ آرائی پر اُتر آتے ہیں۔کون ڈاکٹر چاہے گا کہ اُس کا مریض خراب ہو؟ کیا ایسا ہونے سے خود اُس ڈاکٹر کا نام خراب نہیں ہو گا؟ سعودیہ اور امریکہ میں امرجنسی میں آئے

ہمارے مسیحا اور ہم ۔۔۔۔۔۔

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 13  اپریل 2019 کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

نگار ویکلی میں شائع ہونے والی تحریر ، پنجابی فلم " کھیڈ مقدراں دی "

نئی پنجابی فلم ’’کھیڈ مقدراں دی‘‘ فلم کے ذریعہ پیسہ کمانا میرے مطمعء نظر نہیں  شیشے اور پلاسٹک کے گِفٹ آئٹمز بنانے سے بڑی اسکرین پر فلم بنانے والے سنسر شو پر ایک اچھی روایت قائم کرنے والے فلمساز، مصنف ، ایڈیٹر اور ہدایتکار نوید رضا سے بات چیت تحریر شاہد لطیف کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کو کسی حکومت نے کبھی بھی سرکاری طور پر ’’ صنعت ‘ ‘ ہی تسلیم نہیں کیا۔ اِس کو اُس کے بانیوں نے اپنی مدد آپ کے اُصول کے تحت اپنے پیروں پر کھڑا کیا ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سیالکوٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے سیالکوٹ ائرپورٹ اور اب نجی ہوائی کمپنی ’’ ایئر سیال ‘‘ کا منصوبہ اپنی مدد آپ کے تحت پایا ء تکمیل تک پہنچایا۔ حتیٰ کہ ہوائی اڈے کو جانے والی سڑک بھی خود ہی تعمیر کروائی۔ پاکستانی فلمی صنعت نے بہت اچھے چڑھاؤ کازمانہ بھی دیکھا اور پھر اُتار بھی ۔لیکن افسوس اِس بات پر ہے کہ ’’ مریض ‘‘ کو ضرورت کے وقت سرکاری علاج اور دوا کی کوئی سہولت بہم نہیں پہنچائی گئی۔ 80 کی دہائی کے درمیان ایک مخصوص حلقے نے ابلاغ اور دیگر ذرائع سے تش

سفیر اور سفارتخانے کی اہمیت

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 6 اپریل کی اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر