Posts

Showing posts from March, 2019

ۤآن لائن ٹرانپورٹ سروس کا کراچی ائر پورٹ پر داخلہ بند

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 24 مارچ 2019 کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر 

گداگری یا کاروبار ۔۔۔۔۔۔

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 16  نارچ کی اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم  " اُلٹ پھیر "

گداگری یا کاروبار۔۔۔ PDF فارمیٹ

گداگری یا کاروبار۔۔۔ تحریر شاہد لطیف وقت کیسے بدلتا ہے۔۔۔ محلے کے ٹیوشن سینٹروں کا نام پہلے کوچنگ سینٹر ہوا پھر اکیڈمی ہو گیا۔ بالکل اسی طرح پہلے راہ چلتے کی چوری چکاری اب اسٹریٹ کرائم ہے۔ کسی کی زمین ،دُکان، پلاٹ یا مکان دھونس دھاندلی سے ہتھیانے والے قبضہ مافیا کہلاتے ہیں۔ لیکن اب بھی ایک فرق ہے: ایک آدھ پلاٹ پر قبضہ کرنے والا اب بھی قابلِ گرفت ہے لیکن منظم اور بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے والا عوام میں تو قبضہ مافیا لیکن خواص اور حکام میں وہ عزت دار ہیں اور رئیل اسٹیٹ والے کہلاتے ہیں۔ یہ بھی زمانے کا اُلٹ پھیر ہے کہ جو چیز کل تک ہمارے معاشرے میں ایک ’ لعنت ‘ سمجھی جاتی تھی وہ آج کل منافع بخش کاروبار بن گیا ۔۔۔ فقراء و مساکین کہلانے والے اب پیشہ ور بھکاری ہیں۔ گداگری بھی منظم اور بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے اور اس کاروبار میں حصہ دار یا مدد دینے والے۔۔۔ گداگر مافیا کہلاتے ہیں۔یہ کوئی مذاق نہیں آخر کراچی کی انتظامیہ، کراچی پولیس، دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ کیا گداگری قانوناََ جُرم نہیں؟اس پر اکثر احباب یہ کہتے پائے گئے کہ اِس سے کہیں بڑے اور سنگی

اداکار محمد علی جِن کا ایک ایسا عالمی ریکارڈ ہے جس کو بین الاقوامی فلمی دنیا کا کوئی اداکار نہیں توڑ سکا

صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور تمغہ ء امتیاز حاصل کرنے والے اداکار محمد علی جِن کا ایک ایسا عالمی ریکارڈ ہے جس کو بین الاقوامی فلمی دنیا کا کوئی اداکار نہیں توڑ سکا ( 10  نومبر 1938 سے 19 مارچ 2006 ) تحریر شاہد لطیف ’’ ہم لوگ جب اپنے والد صاحب کے ساتھ کراچی سے لاہور منتقل ہوئے تو اداکار محمد علی ہمارے ہاں اکثر آتے تھے ‘‘۔یہ بات کیریکٹر ایکٹر آغا کمال ایرانی کے بڑے صاحبزادے آغا جعفر نے کہی۔ ’’ اُنہیں اورآنٹی (اداکارہ زیبا) کو بچوں سے بہت پیار تھا۔محمد علی ہمارے ہاںآنے سے پہلے میری والدہ سے جھینگے بریانی کی فرمائش ضرور کرتے۔۔۔پھر جب ہم واپس کراچی آئے تو وہ ہمارے دونوں گھروں یعنی آغا باغ اور عزیزآباد میں آ تے تھے۔آغا باغ میں تو خیر اتنی آبادی نہیں تھی لیکن عزیز آباد میں محلے والوں کا رش ہو جاتا تھا۔ لیکن مجال ہے جو کبھی محمد علی کی پیشانی پر بَل آیا ہو۔ہر کس و ناکس سے پُر تپاک ملتے تھے۔۔۔ہم بھی اُن کے لاہور والے شاندار گھر جایا کرتے تھے ۔ ماشاء اللہ کیا گھر تھا!! لیکن مکان جتنا شاندار تھا اُس سے زیادہ شاندار محمد علی کا دل تھا۔کئی مرتبہ میری موجودگی میں کراچی

PDF فارمیٹ میں تحریر " قائمہ کمیٹیوں کی وقعت ۔۔۔"

قائمہ کمیٹیوں کی وقعت ۔۔۔ تحریر شاہد لطیف مغربی جمہوریت میں دو ایوان ہوتے ہیں۔ ’ اَپَر ہاؤس ‘ یا ’ ایوانِ بالا ‘ اور ’ لوور ہاؤس ‘ یعنی ’ ایوانِ زیریں ‘۔ ہمارے ہاں ایوانِ بالا کا درجہ سینیٹ کو حاصل ہے۔کسی قومی معاملے کے حقائق جاننے کے لئے سینیٹ میں قائمہ کمیٹی بنائی جاتی ہے۔اسی طرح ہماری قومی اسمبلی پاکستانی جمہوریت میں ایوانِ زیریں ہے۔سینیٹ کی طرح یہاں بھی پارلیمانی کمیٹیاں بنا ئی جاتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں ایسی کمیٹیوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تو طاقت کا سرچشمہ کانگریس ہے جہاں پر امریکی صدر بھی مجبور ہے۔ اور ہمارے ہاں کی سینیٹ اور پارلیمانی کمیٹیوں کی ’ اوقات ‘ سب ہی کو معلوم ہے۔اس کی حالیہ مِثال قومی ائیر لائن پی آئی اے کے ایک طیارے کا جرمنی لے جا کر فروخت کرنے کا معاملہ ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایک جرمن شہری کو پہلے تو پاکستانی عوام کی تحقیر کے لئے پی آئی اے کا سی ای او مقرر کیا گیا۔یہ پاکستانی عوام کے مونہہ پر جوتا نہیں تو پھر اور کیا تھا !! گویا پورے ملک میں سِ

قائمہ کمیٹیوں کی وقعت

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 9 مارچ 2019 کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

موت کے راہی

سر اینڈرو کلڈی کٹ (Sir Andrew Caldecott (1884-1951) انہوں نے 1907 سے ایک لمبے عرصے تک برطانوی نو آبادیاتی ملایا کی سِول سروس میں مختلف عہدوں پر ملازمت کی۔ یہاں کی زبان ، ثقافت اور لوک کہانیوں میں بہت دل چسپی لی۔وہ 1935 سے 1937 تک ہانگ کانگ کے گورنر رہے۔پھر انہیں 1937سے 1944 کے زمانے میں سیلون، موجودہ سری لنکا کا گورنر بنا دیا گیا۔سر اینڈرو کلڈی کٹ کو ساری زندگی مافوق الفطرت سے بہت دلچسپی رہی۔ یہ ان کی لکھی ہوئی دو جلدوں پر مشتمل کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔ روحوں کی کہانی کی پہلی جِلد انہوں نے 1944 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شائع کی۔ مندرجہ ذیل کہانی ان کی کتاب Fires Burn Blue کی تیسری کہانی Grey Brothers سے ماخوذ ہے۔یہ کتاب 1940کی دہائی کے آخر میں شائع ہوئی تھی۔ (نوٹ: اِس کہانی کے نام و مقام فرضی ہیں) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کے راہی تحریر شاہد لطیف خدا خدا کر کے ’ کَرَن پور ‘ کا ارضیاتی سروے مکمل ہوا۔اور 1883میں اِسے ایک جامع رپورٹ کی صورت انگریز گورنر کو پیش کر دیا گیا۔اس میں واضح تھا کہ انگریزی تسلط کی اِس کالونی کے پہاڑی علاقے، ا علی قسم کی کافی اور مصالحوں کے لیے

نگار ایوارڈ یافتہ اور فنکاروں کو تراشنے والے فلمساز، کہانی ،مکالمہ اور گیت نگار فیاضؔ ہاشمی

’ یہ راتیں یہ موسم یہ ہنسنا ہنسانا،مجھے بھول جانا انہیں نہ بھلانا ‘ ’ تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘ ’ چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، اک بھول ہی تھا میرا پیار او ساجنا‘ جیسے گیت لکھنے والے طلعت محمود کو طلعت محمود بنانے والے نگار ایوارڈ یافتہ اور فنکاروں کو تراشنے والے فلمساز، ہدایتکار، کہانی، مکالمہ اور گیت نگار فیاضؔ ہاشمی  (18اگست 1920سے 29نومبر 2011) تحقیق و تحریر شاہد لطیف فیاضؔ ہاشمی 18 اگت 1920 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کلکتہ میں حاصل کی۔آگے چل کر باقاعدہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بنے لیکن مطب نہیں کیا کیوں کہ میلان شاعری کی جانب تھا۔بھارتی نامور موسیقار اُوم کَر پرَا ساد نیّر المعروف ’ او پی نیر بھی مستند ہومیو ڈاکٹر تھے ۔اِن کی پریکٹس بہت ٹھیک ٹھاک تھی۔ فیاضؔ ہاشمی کے والد سید محمد حسین ہاشمی المتخلص دلگیرؔ ،اچھے شاعر اور مشہور تھیٹر، مدن تھیٹر لمیٹڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ یہ لوگ کلکتہ میں حیات خان لین میں مشہورِ زمانہ ’ ہندوستانی شیکسپئر ‘ آغا حشرؔ کاشمیری کے پڑوسی تھے۔ ننھے فیاضؔ نے اپنے والد اور آغا حشرؔ کی ادبی بیٹھکوں سے بہت خوش

شام سے پہلے آنا ۔۔۔۔۔۔ شاعر محمد ناصرؔ

شام سے پہلے آنا۔۔۔ شاعر محمدناصرؔ  تحریر شاہد لطیف یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں تیر ا نام نہیں لوں گا بس تجھ کو شام کہوں گا      گلوکار: عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ شام سے پہلے آنا دھوپ ساری ڈھل چکی ہو پھول سارے کھل چکے ہوں موسم سارے لے آنا     گلوکار: عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ ہوا ہو ا اے ہوا خوشبو لُٹا دے کہاں کھلی ہا ں کھلی زلف بتا دے                 گلوکار:حسن جہانگیر شاعر: محمد ناصرؔ   کہہ دینا آنکھوں سے سمجھ لینا سانسوں سے  کوئی تو رہتا ہے سانسوں میں                           گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ   پاس آ کر کوئی دیکھے تو پتہ لگتا ہے دور سے ذخم تو ہر دل کا بھر ا لگتا ہے            گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ میں نے تمہاری گھاگر سے کبھی پانی پیا تھا        گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ تم میری آنکھیں ہو میں خواب جیسا ہوں کبھی اپنے جیسا ہو ں کبھی تیرے جیسا ہوں        گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ   مُحمد نَاصِرؔ آج تک اِس بھید کا علم نہ ہو سکا کہ ہم پاکستانی ایک بیدار قُوم کی حیثیت سے کسی جیتے ج