Kahaan Woh..... Kahaan Yeh.....Peoples Party Ki Siyasi Tarikh Ka Jaizah.1
کہاں وہ..... کہاں یہ...... پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ
تحریر شاہد لطیف
یہ بھی عجیب بات ہے پاکستان پیپلز پارٹی کو، کالعدم پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے سابقہ ممبران نے قائم کیا ۔واضح ہو کہ اس سوشلسٹ پارٹی پر خود قائدِ مِلّت نواب زادہ لیاقت علی خان ؒ نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۶۰ میں صدر ایوب کے مغرب اور امریکہ کی جانب جھکاؤ کی پالیسیوں کی مخالفت اور سوشل ازم کی حمایت میں مغربی پاکستان میں شدت آنے لگی ۔ حریف بھارت کے ساتھ معاہدہ ء تاشقند کے فوراََ بعد تو یہ دو چند ہو گئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جب ۳۰ نومبر ۱۹۶۷ کو لاہور میں بائیں بازو کے دانشور وں اور سوشلسٹوں کی ایک مجلس، ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں سابقہ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوئی۔ یوں ایک سیاسی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی عمل میں لائی گئی۔ مورخوں اور اُس مجلس کے شرکاء کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن اور جے۔اے۔رحیم اس پارٹی کے بانیان میں سے ہیں۔ باہمی مشاورت سے ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا پہلا چیرمین بنایا گیا۔ اس کا منشور ’ اِسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ رکھاگیا؛ جو مشرقی پاکستان کے کمیونسٹ ، جے۔اے۔رحیم نے لکھا اور سب سے پہلے ۹ دسمبر ۱۹۶۷ کو شائع ہوا۔
اُدھر بائیں بازو والوں کے لئے ایک دوسرا پر کشش نعرہ بھی دیا گیا: ’ زمین بے زمینوں کی‘۔پارٹی نے نہ صرف جاگیرداری نظام کے خاتمے کا وعدہ کیا بلکہ بے زمین ہاریوں اور کسانوں کو اُن جاگیروں میں سے دینے کی بات بھی کی۔ملازم پیشہ اورمزدور جوق در جوق پیپلز پارٹی کی جانب آنے لگے۔ اکثریت کی سوچ تھی کہ یہی وہ واحد پارٹی ہے جو ملک سے سرمایہ دارانہ نظام نکالنے میں مُخلص ہے ۔ ملک کی کئی اقلیتوں کو بھی پارٹی کا منشور دل کو لگا اور وہ بھی اِس میں شامل ہو گئیں۔ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے ’ روٹی، کپڑا اور مکان ‘ پیپلز پارٹی کا ایک ملک گیر نعرہ بن گیا ۔پارٹی کو اپنے خیالات کے پرچار کے لئے ’’ نصرت‘‘، ’’ فتح‘‘ او ر روزنامہ ’’ مساوات‘‘ میسر تھے۔ بہت جلد مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے پسے ہوئے طبقے ، ہاریوں ، مزدوروں اور طلباء میں اہمیت حاصل کر گئی۔ پارٹی لیڈران اور خود بھٹو صاحب نے صدر ایوب کے خلاف غصہ اور مخالفت کی مہم شروع کر دی جو ترکِ موالات ، نافرمانی اور لاقانونیت میں تبدیل ہو گئی اور صدر ایوب کو پاکستان پیپلز پارٹی سے بات کرنے پر مجبور کر دیا۔اِن مسلسل لڑائی جھگڑوں نے ۱۹۶۹ میں صدر ایوب کو بالآخر صدارت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ اِس پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل یحیےٰ خان نے مارشل لاء کا نفاذ کر کے دو سال میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔اس تمام عرصہ میں پیپلز پارٹی کے خوش کن نعرے اپنا کام کرتے رہے ۔
۱۹۷۰ کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی، مغربی پاکستان میں پورے زور سے میدان میں اُتری۔یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ جب اس پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایسی کوئی منظم انتخابی مہم نہیں چلائی نہ وہ وہاں کبھی فعال ہی ہوئی تو پھر پارٹی لیڈر چِلّا چِلّا کر اپنے آپ کو قومی لیڈر کیسے کہہ سکتے ہیں؟ بہر حال دائیں بازو کی سیاسی و دینی پارٹیوں کو پیپلز پارٹی نے انتخاب میں شکست دے دی ۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے میدان مار لیا۔ اس طرح قومی سطح پرپیپلز پارٹی کو ایک فیصلہ کُن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے فلسفی،کمیونسٹ دانشور جیسے ملک معراج، جے۔اے۔رحیم، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن اور خود بھٹو صاحب نے مختلف سیاسی مسائل پر برہمی، خفگی اور غضب کے انداز میں خطابات کئے۔صورتِ حال اُس وقت عروج پر پہنچی جب ۱۹۷۰ کے انتخابی نتائج میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی ۳۰۰ نشستوں میں سے ۱۶۰ نشستیں حاصل کر لیں؛ جب کہ پیپلز پارٹی ،مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کی ۱۳۸ نشستوں میں سے صرف ۸۱ نشستیں حاصل کر سکی۔یہاں پر پیپلز پارٹی کی تمام جمہوریت پسندی اورعوام دوستی اور روشن خیالی کی قلعی کھلتی ہے۔ پارٹی کے چیرمین ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے عوامی لیگ کے لیڈر، جن کی جماعت کو پاکستانی آئین کے تحت وفاق میں حکومت بنانے کا پورا پورا حق حاصل تھا اُن کو ملک کے وزیرِ اعظم ماننے سے انکار کر دیا۔ ذرا بھٹو صاحب کی ’ جمہوریت پسندی ‘ دیکھئے کہ کھلے عام کہا کہ اگر قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں پارٹی سے کوئی شریک ہوا تو اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جو ایس۔ایم ۔لاء کالج ، کراچی میں قانون پڑھاتا رہا جہاں اسے اعزای ڈاکٹریٹ کی سند بھی دی گئی۔اسی پر بس نہیں بلکہ بھٹو صاحب نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بیک وقت دو وزرائے اعظم کی نہایت مضحکہ خیز تجویز پیش کی ۔ مشرقی پاکستان میں اِس پر شدید تنقید ہوئی۔ خانہ جنگی کو بھانپتے ہوئے بھٹو صاحب نے اپنے سب سے زیادہ بھروسے کے ساتھی، ڈاکٹر مبشر حسن کو ڈھاکہ بھیجا جِس پر شیخ مجیب الرحمان ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے پر تیار ہو گئے۔ مجیب بھٹوملاقات میں طے ہو گیا کہ مجیب الرحمان وزیرِ اعظم اور بھٹو صاحب صدر ہوں گے۔جب یہ طے ہو گیا تو اِس پر عمل کرنا کون سا مشکل تھا؟ حالات کچھ ایسے اشارے دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں کسی اور کو شریک کرنے کی شروع سے ہی قائل نہیں تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے باہمی تعلقات پہلے ہی کون سے اچھے تھے؟ حسین شہید سہر وردی اور شیرِ بنگال مولوی فضلِ حق کیوں ’ جگتو فرنٹ ‘ بنانے پر مجبور ہوئے تھے؟جب مشرقی پاکستان میں فرنٹ کی حکومت بنی چند ماہ بعد ہی گورنر اسکندر مرزا کے ہاتھوں اُس کو گھر بھیج دیا گیا۔کیا یہ جمہوریت تھی؟ واضح ہو کہ شیخ مجیب الرحمان اول مسلم لیگی تھے۔جب مشرقی پاکستان کی جائز شکایتیں کراچی نے نہیں سُنیں تو حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ کو خدا حافظ کہا اور عوامی لیگ بنائی۔ان کے تمام ہم خیال بھی عوامی لیگ میں شامل ہو گئے۔شیخ مجیب الرحمان بھی سہروردی صاحب کی لیگ میں آ کربہت فعال ہو گئے ۔ حسین شہید سہروردی صاحب عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی ملک کے وزیرِ اعظم بنائے گئے تھے۔
اب حیلے بہانوں سے جب حق دار کا حق اسے نہیں دیا جائے تو وہ کیاخوش ہوتا پھرے گا؟......نہیں! ...... بلکہ جلد اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ ۱۹۵۵ سے مشرقی پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت کو مجیب الرحمان نے نہ صرف خود دیکھا بلکہ وہ اُس کا حصہ رہے۔اُنہوں نے مولوی فضلِ حق کی حکومت کو گورنر راج کی بھینٹ چڑھتے دیکھا، اپنی پارٹی کے لیڈر حسین شہید سہروردی کے بطور وزیرِ اعظم ملک کی بہتری کے بھرپور اقدامات کرتے دیکھا۔ایسے زخم خوردہ شخص کے ساتھ یہ نازیبا سلوک صرف وقت حاصل کرنے کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟ اندر خانہ اسلام آباد میں کوئی کھچڑی پک رہی تھی۔جو کچھ بھی ہو رہا تھا اُس میں ایک طرح یا دوسری طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا ملوث ہونا بعید از قیاس نہیں۔جلد ہی مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن شروع کر دیا گیا۔بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی نے صدر یحیٰ پر تنقید کی کہ اُنہوں نے صورتِ حال سے صحیح طور پر نہیں نپٹا۔ اِس پر بھٹو صاحب، پیپلز پارٹی کے لیڈران اور مجیب الرحمان کو اڈیالہ جیل میں قید کر دیا۔
(جاری ہے)
................................................................................
Comments