Posts

Showing posts from November, 2017

ٰIn Hi Pathroon Pay Chal Kar Agar Aa Sako To Aawo

Image

اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ۔۔۔

اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ۔۔۔ تحریر شاہد لطیف   ؂     اِن ہی پتھروں     پہ    چل کر    اگر آ سکو    تو    آؤ       میرے گھر کے راستہ میں کوئی کہکشاں نہیں ہے لگتا تو ایسا ہے کہ یہ نقشہ کراچی کے راستوں کا کھینچا گیا ہے۔۔۔ جو کبھی سڑکیں ہوا کرتی تھیں اور پچھلے ایک طویل عرصہ سے جا بجا اِن کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیے گئے ہیں۔بات سپریم کورٹ تک جا پہنچی ہے۔عدالت عالیہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سمیت کراچی کے کئی علاقوں میں بے ہنگم کھدائی پر برہم ہو گئی۔جسٹس گلزار نے استفسار کیا : ’’ سارا شہر گندگی اور ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے ، کراچی کا کیا بنے گا، کیا تمام وقت کھدائی ہوتی رہے گی؟‘‘۔ جسٹس گلزار احمد نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور حکومتِ سندھ کے وکلاء سے سوال کیا : ’’ کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ کراچی کے لوگ آسانی سے سفر کر سکیں؟ ڈی ایچ اے کا نام بڑا اور کام چھوٹے ہیں‘‘۔ جسٹس گلزار احمد نے یہ بھی کہا : ’’ کبھی کسی کرنل، بریگیڈئر کو خواب آئے گا تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔جسٹس سجاد علی نے استفسار کیا: ’’ گذری فلائی اوور کا کیا فائدہ ہوا؟‘‘۔اُنہوں نے یہ بھی کہا : ’’ آبدوز چ

Karachi Kay Thaanay Aur Rairhi Waalay

Image
 کراچی کے تھانے اور ریڑھی والے

کراچی کے تھانے اور ریڑھی والے

کراچی کے تھانے اور ریڑھی والے تحریر شاہد لطیف ’’ کرچی کے تھانے ریڑھی والوں پر چلتے ہیں‘‘۔سُپریم کورٹ۔یہ بات سُپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے کہا ہے : ’’ صدر اور اطراف ہزاروں کی تعداد میں ریڑھی والے کھڑے ہیں جنہیں کے ایم سی والے ہٹا نہیں سکتے ، مختلف تھانے اور ایس ایچ او ریڑھی والوں کے چندے اور پیسے پر چلتے ہیں، تھانوں کے معاملات حل ہوتے ہیں ، کے ایم سی کی ملی بھگت سے پارکس، فٹ پاتھ اور سڑکیں کرائے پر دے دی گئیں، پورے شہر کا حال بُرا کر دیا، کے اہم سی والے بہتری کی طرف نہیں جائیں گے کیوں کہ اُن کے پیسے بند ہو جائیں گے لہٰذا شہر کی بہتری کے لئے کے ایم سی افسران کچھ نہیں کر سکتے تو چلے جائیں۔نئے لوگوں کو آگے آنے دیں‘‘۔ یہ بات جسٹس صاحبان نے چائے کا کیبن لگانے سے متعلق شکر خان کی درخوست پر پوچھے گئے سوال جواب میں کی ۔دورانِ سماعت درخواست گزار نے عدالت کو بتایا : ’’ میرا دودھ مارکٹ کے پاس خالی جگہ پر چائے کا کیبن تھاجسے کے اہم سی حکام نے ہٹا دیااور پھر ایک دوسرے شخص کو جگہ دے دی گئی جب کہ میں باقاعدگی سے پیسے دیتا تھا‘‘۔ دیکھئے تو کِس

Sureela Saaz Bajany Waala Fankaar, Imdad Hussain Sitar Nawaaz

Image
 ستار نواز امداد حسین

میٹھا ساز بجانے والا مسکراتے چہرے والا امداد حسین ستار نواز

میٹھا ساز بجانے والا مسکراتے چہرے والا  امداد حسین ستار نواز تحریر شاہد لطیف پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے منسلک ہو تے ہی مجھے موسیقی کے پروگرام کرنے کو ملے اِس طرح مجھے کئی میوزیشن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پہلا پروگرام ’’ اُمنگ ‘‘ تھا جِس کی پروڈیوسر ، میری اُستاد سلطانہ صدیقی صاحبہ تھیں۔موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر شبی فاروقی تھے۔بد قسمتی سے گلوکار یا گلوکارہ کا نام یاد نہیں آ رہا۔گیتوں کی صدا بندی شاداب اسٹوڈیو، صدر میں ہونا تھی۔ایک تو پہلے ہی سے موسیقی میرا شوق رہا دوسرے یہ میری پہلی ریکارڈنگ۔۔۔ میں بہت پُر جوش تھا۔ میری موجودگی میں کریم بھائی کی دھنوں پر شبی فاروقی صاحب نے گیت لکھے تھے۔گلوکار کو تو یہ گیت بعد میں یاد ہونا تھے خاکسار کو اُس سے کہیں پہلے از بر ہو گئے ۔پروگرام کی ذمہ داری کے ساتھ اپنے شوق کی وجہ سے میں ہر اک ریہرسل میں موجود ہوتا خواہ وہ میرے اوقاتِ کار کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔مجھے آج تک یاد ہے کہ میرے پہلے پروگرام کی ریکارڈنگ میں کِس کِس نے حصہ لیا۔ میرے سامنے منجھے ہوئے وائلن نواز مظہر بھائی کی قیادت میں پانچ عدد وائلن نواز ر

ڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کار شو روم ۔ وزیرِ اعلیٰ کا سخت نوٹس - مگر -

سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کار شو روم ۔ وزیرِ اعلیٰ کا سخت نوٹس  - مگر - تحریر شاہد لطیف کراچی میں جہاں کار شو روم بکثرت ہیں وہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آس پاس کی سڑکیں اور فٹ پاتھ بھی شو روم کو الاٹ ہو چکے ہیں۔سب جگہوں پر گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آتی ہیں حتیٰ کہ پیدل چلنا مشکل ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اخبارات میں اِس مسئلہ کا ذکر نہ کیا جاتا ہو۔اداریے تک لکھے جا چکے۔ایڈیٹر کے نام بے شمار خطوط میں اِس بات کا اکثر رونا رویا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ’ ہلکا ایکشن‘ لے کر ا یک دو روز کے لئے عوام کو سکون دے دیا جاتا ہے لیکن پھر۔۔۔پھر وہی ہوتا ہے جو صدر کے علاقہ کے پتھارے داروں نے کیا۔جب تک سختی رہی علاقہ چلنے پھرنے کے قابل رہا جہاں چھ ماہ بعد ’ کسی وجہ ‘ سے نرمی برتی گئی ۔۔۔دوبارہ پھر وہی پہلے والی صورتِ حال شروع ہو گئی۔ چند روز پہلے وزیرِ اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ کی جانب سے کار شو روم کے گاڑیاں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کھڑی کرنے کا نوٹس لئے جانے کے بعد نہ صرف آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ بلکہ ڈی آئی جی ٹریفک عمران یعقوب بھی متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے ماتحت افسران کو سڑکوں اور فٹ

Sarkon Aur Fot.pathon Par Car Show Room. Wazir-e-A'la Ka Sakht Notice.magar !

Image
 کالم اُلٹ پھیر۔ روزنامہ نوائے وقت کراچی،  صفحہ نمبر 11

Aik Anokhi Saza aur Schoolon Ki Feeson Main Izafay Ka Noha

Image
 کالم اُلٹ پھیر

ایک انوکھی سزا اور اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کا نوحہ

ایک انوکھی سزا اور اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کا نوحہ تحریر شاہد لطیف اس مرتبہ ’ اُلٹ پھیر ‘ کے لئے دو موضوع منتخب کئے۔پہلے موضوع تو ہلکا پھلکا ایک اہم مسئلہ کا خوشگوار حل ہے البتہ دوسرا موضوع ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ پچھلے دنوں جوڈیشل مجسٹر یٹ شرقی ، کراچی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک دلچسپ، انوکھا اور بہت تعمیری فیصلہ سُنایا۔اِس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک نوجوان، قاسم خطرناک حد تک تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلانے او ر ایک پولیس اہلکار کو ٹکر مارنے کے جُرم میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔پولیس کے چالان، موقع کے گواہان کے بیانات اور خود نوجوان کے اعترافی بیان پر اُس کا جُرم ثابت ہو گیا اب عدالت کی جانب سے سزا سُنائے جانا رہ گیا۔ اِس واقعہ کا سب سے زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اُس کو سزا کیا تجویز ہو ئی؟ لیجئے سزا سُنائی جاتی ہے ۔۔۔ مگر یہ کیا؟۔۔۔نوجوان، قاسم کو ایک سال تک ، ہر ایک جمعہ قائدِ اعظم ؒ ہاؤس کے سامنے بینر اُٹھائے دو گھنٹے کھڑا رہنے کا پابند کیا گیا۔عدالتی حکم کے مطابق اس بینر پر یہ تحریر ہو: ’’ احتیاط کیجئے ! تیز رفتاری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے! ‘‘۔واضح رہے کہ