Posts

Showing posts from February, 2018

وہ لوگ بھی کیا لوگ تھے

بھارتی فلمی صنعت کے سنہری دور کی کچھ نامور شخصیات تحریر شاہد لطیف لکشمی کانت شانترام کُدالکر اور پیارے لال را م پراساد شرما المعروف لکشمی کانت پیارے لال : خاکسارکو کراچی میں پاکستان کے عظیم موسیقار، نثار بزمی کی جوتیاں سیدھی کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔اُن کے پاس اکثر بمبئی سے مشہور موسیقار جوڑی لکشمی کانت اورپیارے لال اور نامور فلمی شاعر آنند بخشی کے فون آیا کرتے تھے ۔وہ 1989کا زمانہ ہو گا جب میرے ذہن میں نثار بزمی صاحب کے لئے ایک شایانِ شان پروگرام کرنے کا خیال آیا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ:’’ اس مجوزہ پروگرام میں لکشمی کانت پیارے لال اور آنند بخشی کو بلوایا جائے تو کیا وہ پاکستان آئیں گے؟‘‘۔اُنہوں نے جواباََ کہا: ’’ لکشمی کانت کو فون کر کے خود پوچھ لوں۔۔۔‘‘۔اِس پر خاکسار نے بزمی صاحب کے ہاں سے لکشمی کانت کو بمبئی فون کیا۔اُن سے جو گفتگو ہوئی اُس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ وہ اورپیارے لال 1960تک بمبئی میں بزمی صاحب کے میوزیشن ہوا کرتے تھے۔ خود اُس وقت بزمی صاحب ہلکے بجٹ کی دھارمِک فلمیں کیا کرتے تھے ۔ پھربزمی صاحب کے زیرِ تربیت یہ دونوں میوزیشن ترقی کرتے کرتے ’’بی‘‘، ’’ اے

کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا۔۔۔ذمہ دار کون؟؟؟

کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا۔۔۔ذمہ دار کون؟؟؟ تحریر شاہد لطیف اللہ کا شکر ہے کہ ہم عوام میں سے ہیں۔ ضرورت کی ہر ایک چیز گھر کے قریب دستیاب ہے۔کہیں دور جانے کا موقع کبھی کبھار ہی آتا ہے۔جب بھی دور جانا ہو تو عوامی طریقہ ہی اختیار کرتا ہوں۔اب جو مجھے سفر کرنے کا موقع ملا تو کرایہ سُن کر حیران رہ گیا۔تحقیق کی تو علم ہوا کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہرِ کراچی میں منی بس اور کوچوں نے اپنے کرایہ میں من مانا اضافہ کر لیا ہے۔وزارتِ ٹرانسپورٹ نے اس معاملہ پر چپ سادھ لی ہے۔حکومتِ سندھ نے پچھلے دس برسوں میں محض زبانی دعوے کیے جن پر کبھی رتّی بھر بھی عمل نہیں ہوا۔وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اعلان کیا تھا کہ 15 فروری سے بڑی پبلک بسیں سڑکوں پر آ جائیں گی لیکن۔۔۔؟کراچی کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔جو تھوڑی بہت بڑی بسیں چل رہی ہیں وہ بھی خستہ حال ہیں ۔مجبوری کا نام شکریہ ۔۔۔اس وقت بیشتر عوام چنگ چی میں سفر کرتی نظر آتی ہے۔ چنگ چی شاہراؤں پر سفر کرنے کے واسطے بنائے ہی نہیں گئے نہ جانے یہ کس حساب سے عوامی سواری کے نام سے سرکاری طور پر چل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’ نا معلوم‘‘ وجوہات کی بنا پ

Karachi Main Transport Mafia ........ Zimah Daar Koun?

Image
فروری 24   کے  روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر" 

Gaiki Ki Duniya Ka Aik Bara Naam, S B John

Image
 روزنامہ نوائے وقت کی 20 فروری،2018 کی اسلام آباد اور لاہور اشاعتوں میں شائع ہونے ولی تحریر جو صفحہ فم و ثقافت میں چھپی۔ 

’’ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی سرے کا پتھر ہو گیا۔۔۔ ‘‘ تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون

’’ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی سرے کا پتھر ہو گیا۔۔۔ ‘‘ تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون   Sunny Benjamin John  ,S. B. John تحریر شاہد لطیف خدائے بزرگ و برتر کی عنایات کا جب نزول ہو تو وہ راتوں رات اپنے بندے کو شہرت کے آسمان کا تارہ بنا دیتا ہے۔فلمی دنیا کے کئی ایک فنکاروں کے ساتھ ایسا ہوا لیکن ان میں سے کئی فنکار فلموں کے حوالے سے غیر فعال ہو گئے ۔ایسی ہی عنایات ایس۔بی۔ جَون پر بھی ہوئیں جب فلم ’ سویرا ‘ کا گیت مقبول زدِعام ہو کر اُن کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔آج یہ گیت کلاسیِک کا درجہ حاصل کر چکا ہے ۔ 1959 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’ سویرا ‘ کاماسٹر منظور کی موسیقی میں فیاض ہاشمی صاحب کا لکھا لا زوال گیت یہ ہے: ؂ تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے آج 58سال بعد بھی جَون بھائی کی آواز میں یہ گیت روزِ اول کی طرح مقبول ہے۔آج بھی نوجوان یہ گیت شوق سے سُنتے ہیں۔ اِس گیت کو بعد کے آنے والے فنکاروں نے بھی ٹیلی وژن چینلوں پر پیش کیا۔لیکن جَون بھائی کا گایا ہوا اصل گیت آج بھی آب وتاب کے س

Murdah Janwaron Ki Charbi Say Tayyar Hounay Waala Tail

Image
 خاکسار کا یہ مضمون روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 17 فروری ، 2018 کی اشاعت میں صفحہ نمبر 11 پر کالم ّ اُلٹ پھیرٗ  میں شامل ہوا۔

مُردہ جانوروں کی چربی سے تیار ہونے والا تیل

مُردہ جانوروں کی چربی سے تیار ہونے والا تیل تحریر شاہد لطیف خبر ہے کہ مُردہ جانوروں کی چربی سے تیار ہونے والا تیل چھوٹے عوامی ہوٹلوں میں فروخت ہو رہا ہے۔خبر کے مطابق بھینس کالونی میں بڑی بڑی بھٹیوں میں چربی پگھلا کر تیل نکالا جا رہا ہے جس سے شہریوں کی ز ندگی اور صحت متاثر ہو رہی ہے ۔اِس مکروہ کاروبار میں ملوث افراد مردہ جانور علاقے میں لانے اور چربی نکالنے کا دھندہ کرتے ہیں۔ متعلقہ اداروں نے اپنی آنکھیں، کان اور ناک بند کر رکھے ہیں۔ کراچی کی تین کروڑ آبادی کی زندگی اور صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ امراضِ قلب کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی ا ضافے کایہ بھی ایک سبب ہو سکتا ہے۔متعلقہ محکموں کے ذمہ دار افسران کی آنکھیں مستقل بند ہیں۔  تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں انسانی صحت سے کھیلنے کا دھندہ عروج پر ہے۔یہ بھوسہ منڈی کے عقب میں واقع آبادی میں قائم ہے ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ کچھ طاقت ور اور با اثر گروپوں نے کم وقت میں کروڑ پتی بننے کے ارمان کو پورا کرنے کے لئے ڈنکے کی چوٹ شہریوں کی زندگی سے کھیلواڑ شروع کر دیا ہے۔ وہ بھینس کالونی میں مردہ جانور لاتے

کیسے سچے لوگ ۔۔۔

کیسے سچے لوگ ۔۔۔ بھارتی فلمی صنعت کے موسیقار تحریر شاہد لطیف بھارتی فلمی موسیقی کا جب بھی ذکر ہو گا تو لازماََ 1950 اور 1960 کے سنہری دور کی بات ضرور ہو گی۔یہ دور سُریلے نغمات کا خزانہ ہے جو 50سال گزرنے کے بعد اب تک سدا بہار ہیں۔اس دور کی کئی ایک فلمیں ماضی کا حصہ ہو گئیں لیکن اُن فلموں کے گیت بار بار سنے جاتے ہیں اور آج کی نسل بھی ان سے محضوظ ہوتی ہے۔ اس دور کو سنہری بنانے میں ہر ایک موسیقار کا اپنا اپنا حصہ ہے جیسے: شنکر اور جے کشن المعروف شنکر جے کشن: اس موسیقار جوڑی نے انمول کام کیا۔اِن کے زیادہ تر گیتوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔اِن ہی سے فلمی گیتوں کی صدا بندی میں 200میوزیشن استعمال کئے جانے کی ریت پڑی ۔اس سے پہلے محض چار پانچ میوزیش ہی صدابندی کے لئے ضروری سمجھے جاتے تھے ۔ اِن ہی کی وجہ سے یہ بعد میں آنے والوں کے لئے نقشِ قدم ثابت ہوا۔ یہ کس قدر پر خلوص لوگ تھے اس کی مثال یہ ہے کہ ’ دتّہ رام ‘ ان کے اسسٹنٹ میوزک ڈائرکٹر تھے جو بہترین ڈھولک بجاتے تھے ۔1958 میں ان کو فلم ’’ پرورش‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کی پیشکش ہوئی جس پر شنکر اور جے کشن بہت خوش ہوئے اور ہر

بولتی دھنیں بنانے والا۔۔۔اُستاد نذر حسین

بولتی دھنیں بنانے والا۔۔۔اُستاد نذر حسین (1933-2018) تحریر شاہد لطیف یہ 1990کے اوئل کی بات ہو گی جب میں اپنے ٹیلی وژن کے ساتھی پروڈیوسروں ،افتخار مجاز، آغا ذوالفقار، حفیظ طاہر اور منشاء نت سے ملنے لاہور مرکز آیا۔ابھی ٹھیک سے بیٹھا بھی نہ ہوں گا کہ اِن اصحاب نے کہا کہ آؤ تمہارے مطلب کے ایک شخص سے ملاقات کرائیں۔وہ میرے لئے یادگار دِن ثابت ہوا کیوں کہ وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ نذر حسین خود تھے۔گو کہ وہ مصروف تھے لیکن میرے شوق اور یہ کہ کراچی سے آیا ہوں،بہت پُر جوش ملے۔ ہم نے 1960 کی آخری دہائی میں کراچی ریڈیو کی باتیں کیں اور یوں دس منٹ بیت گئے، وہ مصروف تھے اور مجھے جانا تھا ۔اِس بات پر نذر صاحب بہت خوش ہوئے کہ ’’کوئی ‘‘ اب بھی چاہتا ہے کہ وہ دلوں کو چھیڑتا ساز’’ سرود ‘‘بجا تے رہیں۔ اُن سے دوسری مرتبہ بھی یہیں پی ٹی وی لاہورمرکز میں مسرور بھائی المعروف مسرور انور کے ہمراہ ملاقات ہوئی ۔ اُن کے ہمراہ موسیقار مُحسن رضا خان بھی تھے ۔ وہاں مسرور بھائی کے کسی گیت کی دھن بنائی جانے والی تھی۔اب ا توار 21 جنوری کو اطلاع ملی کہ بولتی دھنیں بنانے والا85 سالہ بھر پور زندگی گزار

Boulti Dhunain Banany Walay Nazar Husain

Image
بولتی دھنیں بنانے والے نذر حسین