Posts

Showing posts from November, 2018

اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔۔۔۔۔۔

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی/کوئٹہ کی یکم دسمبر کیاشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

Gayay Gi Duniya Geet Mairay. Mosiqar Rasheed Attre

’’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا ‘‘  اور ’’ گائے گی دنیا گیت میرے ‘‘ موسیقار رشید عطرے (15 فروری 1919سے 18 دسمبر 1967 )  تحریر  شاہد لطیف امرتسر میں واقع خوشی محمد کے گھرانے میں 15 فروری 1919 کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ بچے کا نام عبد الرشید رکھا گیا۔ یہ موسیقی کا گھرانہ تھا۔ کس کو پتہ تھا کہ عنقریب یہ بچہ موسیقی کی دنیا میں اپنی پہچان بنائے گا۔ویسے بھی خواہ وہ موسیقی کا گھرانہ ہی کیوں نہ ہو، گھر کے تمام افراد مشہور نہیں ہوتے۔اس بچے کے والد خوشی محمد بہت اچھے گلوکار اور ہارمونیم نواز تھے۔عبد الرشید نے ابتدا میں اپنے والد سے اسرار و رموز سیکھے پھر خاں صاحب عاشق حسین سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔کئی ایک سازوں میں مہارت حاصل کر لی خاص طور پر طبلہ جو ردھم اور تال کی اکائی ہے۔موسیقی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایف اے بھی کیا ۔اِن کے تذکروں میں اُس وقت کے ایک عظیم گائیک اُستاد فیاض علی خان، بڑودا والے کے شاگرد ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔غالباََ انہی دو اساتذہ کے ہاں تعلیم کے دوران عبد الرشید کو دھنیں کمپوز کرنے کا شوق ہوا۔ پھر وہ پنجاب سے کلکتہ منتقل ہو گئے اور

گائے کی دنیا گیت میرے،موسیقار رشید عطرے

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 27 نومبر کی اشاعت میں صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر

TV Channels Kay Morning Show Aur Urdu Angraizi Ka Malghooba

ٹی وی چینلوں کے مارننگ شو اور اُردو انگریزی کا ملغوبہ تحریر شاہد لطیف پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات شروع شروع میں شام ساڑھے چار بجے سے رات دس گیارہ بجے تک ہوا کرتی تھیں۔پھر صبح کی نشریات شروع ہوئیں۔اُس زمانے میں ریڈیو کی طرح پروگرام سے پہلے اسکرین پر اناؤنسر آ کر آنے والے پروگرام کے بارے میں بتایا کرتی تھی۔ بہرحال نہ اناؤنسر نے کبھی صبح کی نشریات کو انگریزی میں مارنگ شو کہا نہ ہی کبھی پاکستان ٹیلی وژن کی انتظامیہ نے یہ کہلوایا۔ پی ٹی وی کے تما مراکز میں باقاعدہ ایک شعبہ ہوتا تھا جو اناؤنسر کے تلفظ اور اُس کی اُردوسمیت تمام پروگراموں میں ہونے والی گفتگو، مکالموں وغیرہ کی بہت سخت دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔کرنا بھی چاہیے تھا۔اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام خالص پاکستانی بن گئے ۔ پھر جب 1990 میں شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈکاسٹنگ کمپنی کے ساتھ تین سالہ معاہدے کے تحت ا ین ٹی ایم (نیٹ ورک ٹیلی وژن مارکٹنگ) کی نشریات شروع ہوئیں تو آہستہ آہستہ فرق سامنے آنے لگا۔ اسکرپٹ میں ایک ایک لفظ کو دیکھنا اور ریہرسلوں میں تلفظ اور صحیح اُردو پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔آرٹسٹوں کو

آزمائش شرط ہے

Image
 روزنامہ نوائے وقت کی 24 نومبر کی اشاعت میں شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر

کہاں ہو تم چلے آؤ۔۔۔ بولتی دھنیں بنانے والے فرحت انگیز موسیقار کریم شہاب الدین

کہاں ہو تم چلے آؤ۔۔۔ بولتی دھنیں بنانے والے فرحت انگیز موسیقار  کریم شہاب الدین  تحریر شاہد لطیف دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں  ایسا نشہ تیرے پیار نے دیا  کھو گئے سپنوں میں ہم اور تیری یاد آ گئی غم خو شی میں ڈھل گئے اِک چراغ کیا جلا سو چراغ جَل گئے ماضی کے یہ گیت کل بھی مقبول تھے اور آج بھی مقبول ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اِن گیتوں کے گلوکاروں کے نام تو عوام جانتی ہے لیکن اکثریت کو اِن مقبول ترین نغمات کے خالق ، یعنی موسیقار اور شا عر کا نام نہیں معلوم ! اِن کی وجوہات کیا ہیں؟ اِس موضوع پر گفتگو پھر سہی!! لیکن آج اُس سدابہار موسیقار کا تذکرہ کر تاہوں جو اپنی طرزوں کی نغمگی کی طرح میٹھی اور فرحت انگیز شخصیت کا مالک تھا ۔۔۔کریم شہاب الدین۔  70 کے اواخر میں راقم نے کریم شہاب الدین کو ابراہیم علی بھائی آڈیٹوریم کراچی میں ٹیلی وژن پروڈیو سرمُحسن شیرازی کے لا ئیو اسٹیج شو ’ فروزاں ‘ میں دیکھا۔ پھر اس کے چند سال بعد قسمت مجھے خود پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز میں لے آئی۔ یہاں اُن دِنوں سہیل رعنا، کریم شہاب الدین، غلام نبی ( غلام نبی کے ساتھ عب

ایک نا اہل ہیرا

ایک نا اہل ہیرا تحریر شاہد لطیف 1987 کے اوائل میں کسی کام سے لاہور آناہوا تو تھانہ قلعہ گوجر سنگھ بھی جانا ضروری خیال کیا۔ یہاں ترین صاحب ایس ایچ او کے فرائض انجام دے رہے تھے اور میری موصوف کے ساتھ کراچی سے سلام دعاء تھی۔حال احوال پوچھنے کے بعد حسبِ معمول ان سے کسی عجیب و غریب کیس کے بارے میں پوچھا تو جواب میں وہ حوالات کی طرف لے چلے۔ ان حوالاتیوں میں سر جھکائے بیٹھے، سکندر نامی نوجوان کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ آؤ اس سے ملو یہ خود عجیب و غریب ہے۔ یقین مانیں اس شخص کی سنائی ہوئی کہانی نے ایک طویل عرصہ میرے اعصاب پر ہتھوڑے برسائے رکھے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ’’ میرا نام سکندر ہے۔حالات مجھے ڈ کیتوں کے گروہ میں لے آئے۔ لیکن اِس میں کچھ میرا ارادہ بھی شامِل تھا ۔ شروع میں صرف مشاہدے کے لئے ڈاکے کی وارداتوں میں ساتھ جاتا رہا ۔ اسکے بعد وارداتوں کی ریکی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔یوں ایک دن ایسا بھی آ گیا جب میں نے خود ایک تجربہ کار ڈاکو کی قیادت میں ’ ڈاکے ڈیوٹی ‘ پر جانا تھا‘‘۔  ’’ وہ لاہو ر کے دو لت مند وں کی بستی ماڈل ٹاؤن تھا، جس کے ایک بنگلے میں ہمیں

Kowi To Ho Jo Awam Ki Dad-rasi Karay .....

کوئی تو ہو جو عوا م کی دادرسی کرے۔۔۔ تحریر شاہد لطیف اسی ہفتے دو کمسن بھائیوں کی پراسرار موت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ایک فیملی نے زمزمہ کے علاقے کے ایک نامور ریستوراں سے سنیچر 10 نومبر کو کھانا کھایا پھر ڈی ایچ اے فیز 4 سے چنکی منکی امیوزمنٹ پارک کے باہر اسٹال سے چاکلیٹ کھائی۔یہ لوگ اپنے گھر 2 بجے شب پہنچے۔ صبح 6 بجے اِن تمام افرادِ خانہ کو اُلٹیاں شروع ہو گئیں۔گھر کے دیگر افراد اِن کو 2:45 سہ پہر اسپتال میں لے گئے۔بچوں کی والدہ نے پولیس کی تفتیش میں یہ بھی بتایا کہ اِن بد نصیب بچوں نے گھر میں دودھ بھی پیا تھا۔دونوں کمسن بچے اسپتال ہی میں انتقال کر گئے۔بد نصیب خاندان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کو شک ہے کہ یہ اموات زمزمہ کے ریستوراں یا چنکی منکی امیوزمنٹ پارک کے باہر اسٹال سے چاکلیٹ کھانے سے ہوئی ہیں۔کراچی پولیس نے بدھ کے روز تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 322۔قتل بالسبب اور 272 ۔کھانے پینے میں ملاوٹ کے تحت کیس رجسٹر کر لیا۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ خاندان کے گھر سے قے کے کچھ نمونے لاہور کی لیبارٹری اور کچھ حسین ابراہیم جمال انسٹیٹیوٹ آف کیمیسٹری، جامعہ کراچی بھیجے ۔ یہ رپورٹیں تق

کوئی تو ہو جو عوام کی دادرسی کرے ۔۔۔۔

Image
 روزنامہ نوائے وقت کی 17 نومبر 2018 کی کراچی اور کوئٹہ اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے   واالا کالم اُلٹ پھیر

ؐMosiqar Nashad

ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت کا وہ خوش نصیب موسیقار  جس کے تقریباََ تمام گیت مقبولِ عام ہوئے شوکت علی دہلوی المعروف ناشاد 11 جولائی 1923 سے 14 جنوری 1981 تحریر  شاہد لطیف 11جولائی 1923 کو دہلی میں پیدا ہونے والے شوکت علی کے تذکروں میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ انہیں بانسری بجانے کا شوق تھا اور وہ 1940 کے اوائل میں بمبئی میں آ گئے تھے۔جب کہ مجھے پاکستانی فلمی صنعت کی ایک معتبر شخصیت جناب علی سفیان آفاقی نے بتایا کہ شوکت علی بہت اچھے سارنگی نواز تھے اور ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ سارنگی بجایا کرتے تھے ۔ سارنگی بجاتے بجاتے انہیں موسیقار بننے کا خیال آیا لیکن کبھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا البتہ ان کے ساتھ کام کرنے والے سازندوں کو ان کی اس دبی خواہش کا علم تھا اور وہ اُن کی موسیقار بننے کی صلاحیتیوں کو بھی جانتے تھے۔انہیں سب سے پہلے موسیقار بنانے کا سہرا فلمساز و اداکار شیخ مختار کے سر جاتا ہے جب انہوں نے بمبئی میں اپنی فلم ’’ ٹوٹے تارے‘‘ ( 1948)بنانے کا سوچا۔ انہوں نے اس کے لئے موسیقار شوکت علی کا انتخاب کیا۔اِن کا پہلا فلمی گیت گلوکارہ راجکماری کی آواز میں بہادر شا