’’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا ‘‘ اور ’’ گائے گی دنیا گیت میرے ‘‘ موسیقار رشید عطرے (15 فروری 1919سے 18 دسمبر 1967 ) تحریر شاہد لطیف امرتسر میں واقع خوشی محمد کے گھرانے میں 15 فروری 1919 کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ بچے کا نام عبد الرشید رکھا گیا۔ یہ موسیقی کا گھرانہ تھا۔ کس کو پتہ تھا کہ عنقریب یہ بچہ موسیقی کی دنیا میں اپنی پہچان بنائے گا۔ویسے بھی خواہ وہ موسیقی کا گھرانہ ہی کیوں نہ ہو، گھر کے تمام افراد مشہور نہیں ہوتے۔اس بچے کے والد خوشی محمد بہت اچھے گلوکار اور ہارمونیم نواز تھے۔عبد الرشید نے ابتدا میں اپنے والد سے اسرار و رموز سیکھے پھر خاں صاحب عاشق حسین سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔کئی ایک سازوں میں مہارت حاصل کر لی خاص طور پر طبلہ جو ردھم اور تال کی اکائی ہے۔موسیقی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایف اے بھی کیا ۔اِن کے تذکروں میں اُس وقت کے ایک عظیم گائیک اُستاد فیاض علی خان، بڑودا والے کے شاگرد ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔غالباََ انہی دو اساتذہ کے ہاں تعلیم کے دوران عبد الرشید کو دھنیں کمپوز کرنے کا شوق ہوا۔ پھر وہ پنجاب سے کلکتہ منتقل ہو گئے اور