Posts

Showing posts from September, 2018

تمغہ حسنِ کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ گیت نگار مسرور ؔ انور 5جنوری1941 سے یکم اپریل 1996

تمغہ حسنِ کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ گیت نگار مسرور ؔ انور 5جنوری1941 سے یکم اپریل 1996 تحریر شاہد لطیف سوہنی دھرتی کے حوالے سے ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے جو مسرور ؔ انور کاہے۔ اُن کے ساتھ راقم نے خاصا وقت گزارا ۔یہ روز مرہ معاملات میں کیسے تھے؟ گھر میں بحیثیت باپ اور دیگر افراد سے تعلقات میں کیسے تھے؟ ایک اِنسان کے ناطے  راقِم نے اُن کو کیسا پایا ؟ مختصر عرض کرتا ہوں ۔ خاکسار، پاکستان ٹیلی وژن کا مشکور ہے کہ اُس کے طفیل، فِلم ، ٹی وی، ریڈیو او ر اسٹیج کی کئی شخصیات کے ساتھ کام کرنے ، اور اُن کے پاس بیٹھنے کا موقع مِلا۔ 1981 کا پورا سال میرے لئے بہار ہی بہار رہا۔وہ ایسے کہ پہلے ہمارے ملک کے نامور موسیقار نثار بزمی سے میری شناسائی ہوئی پھر اُن کی معرفت ایک ایسی ہنس مُکھ شخصیت کا ساتھ مِلا، جِس کو زمانہ مسرور ؔ انور کے نام سے یاد کرتا ہے۔ انہوں نے بزمی صاحب کی کئی ایک یادگار فلموں کے گیت لکھے تھے۔ میں ایک مرتبہ لاہور گیا، وہاں حضرت کو فون کیا، موصوف بہت خوش ہوئے اور اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ وہ اتنی گرم جوشی سے ملے کہ مجھ کو شرمندگی ہونے لگی۔بقول صوفی غلام مصطفےٰ ت

Pakistan Main Paida Hounay Walay Bachay ............. Pakistani Shehriyat Kiwoon Naheen?

پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے ۔۔۔ پاکستانی شہریت کیوں نہیں؟ تحریر شاہد لطیف وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالی اور افغان باشندوں کے بچوں کو پاکستانی شہریت دینے کے اعلان کے ساتھ ہی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران بھی اِس میدان میں کود پڑے ۔پیپلز پارٹی اور بی این پی مینگل نے قومی اسمبلی میں ایک مشترکہ توجہ دلاؤ نوٹس پیش کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کس ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں ؟جبکہ خود سعودی عرب کی بادشاہت میں کئی دہائیوں سے رہنے والے اور وہاں پیدا ہونے والے پاکستانیوں یا کسی اور ملک کے باشندوں کو سعودی شہریت کبھی نہیں ملتی۔واقعی کمال کی بات کہی ہے نفیسہ شاہ صاحبہ آپ نے!! پی ٹی آئی کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے بقول نفیسہ شاہ کو چاہیے کہ وہ تاریخ پڑھیں کیوں کہ وزیرِ اعظم آپ ﷺ کی ریاستِ مدینہ کی بات کر رہے تھے نہ کہ سعودی عرب کی موجودہ بادشاہت کی ! ممبر قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کے سوال میں ہی اُن کا جواب بھی ہے۔آپ خود کہہ رہی ہیں کہ برسوں سے رہنے والے اور وہاں پر پیدا ہو

پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی شہریت کیوں نہیں؟

Image
" روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹی کی 29 ستمبر بروز سنیچر کی اشاعت میں صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر  

Khabardar Bacho ! Khwaab Bhi Angraizi Main Daikho ......................

خبردار بچو ! خواب بھی انگریزی میں دیکھو۔۔۔ تحریر شاہد لطیف ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک ماں اپنی ننھی بچی کے اسکول کے ٹیسٹ اور ٹیچر کی تصریحات دیکھ رہی ہے۔ریاضی اور دیگر مضامیں میں اچھے نمبروں پر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ انگریزی کے ٹیسٹ میں مضمون ’ میرا خواب‘ نہ لکھنے پر ٹیچر کے لال قلم سے سوالیہ نشان پر بچی سے پوچھتی ہے کہ کیوں نہیں لکھا؟بیٹی معصومانہ جواب دیتی ہے ’’ خواب میں نانا نانی اور سب لوگ اپنی زبان ہی میں بات کر رہے تھے۔انگریزی میں نہیں، میں کیسے لکھتی۔۔۔‘‘  پڑھنے والے گاہے بگاہے اِن صفحات پر اُردو زبان کی حق تلفی پر احتجاج پڑھتے رہتے ہیں لیکن بھلا مقتدر طبقوں میں اُردو کی آواز!!!! لیکن ہم اُردو زبان کو اُس کا حق دِلوانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں بیٹھنے والے افراد نے کبھی اِس کو نافذ نہیں ہونے دیا۔ ہر ایک حکومت اُردو ذر یعہء تعلیم میں سب سے بری رُکاوٹ بنتی رہی ہے اور اب بھی ہے۔  پچھلے دِنوں ہمارے ملک کی سُپریم کورٹ نے بڑے کروفر سے حکومت کو کہا تھا کہ جلد از جلد تمام

خبردار بچو ! خواب بھی انگریزی میں دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Image
یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشنوں میں مورخہ 15 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی

رات مُجرم اور ریل

وِکٹر لَو رَینزو وہائٹ چرچ : Victor Lorenzo Whitechurch (12 March 1868 150 25 May 1933) یہ صاحب مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کے پادری بھی تھے۔انہوں نے مختلف موضوعات پر کئی ایک ناول لکھے۔وجہ شہرت ان کی مختصر کہانیاں ہیں۔ بی بی سی نے اِن کے مجموعے Thrilling Stories of the Railway پر ایک سیریز بھی بنائی تھی۔ یہ کہانی ’ رات مُجرم اور ریل ‘ وہائٹ چرچ کی سنسنی خیز کتاب Thrilling Stories of the Railway کی دوسری کہانی The Convict's Revenge سے ماخوذہے۔واضح ہو کہ اِن کی یہ کتاب 1912میں شائع ہوئی تھی۔ کہانی کا مرکزی خیال ایک خطرناک مجرم کا جیل سے فرار اور پھر ۔۔۔بظاہر مجرم نے موت کا پورا سامان کر رکھا تھا لیکن یہاں یہ مقولہ صادر آتا ہے کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات مُجرم اور ریل تحریر شاہد لطیف ’’ اوہ !! ‘‘ میرے دائیں بازو کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اُس کے مونہہ سے بیساختہ نکلا۔’’ اِسی چیز سے میں بہت گھبراتا ہوں !‘‘۔ میں اور میرا ساتھی ریل کی پٹریوں پر بنے ایک لیول کراسنگ کے قریب کھڑے ہوئے تھے۔ ابھی ہم وہاں

Kitabcha Ya " Kutta Bacha " .... Hairaan Hoon Dil Ko Rowoon Keh Pitoon Jigar Ko Main

کتابچہ یا ’’ کُتّا بچہ ‘‘ ۔۔۔ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں تحریر شاہد لطیف 5 ستمبر کی سہ پہر خاکسار کے اسکول کے زمانے کے ہم جماعت طارق سعود قدوسی نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا ۔اس میں جیو نیوز کے ایک نیوز کاسٹر اسکر ین پر کہہ رہے ہیں : ’ برطانوی فوجیوں کی خودکشی کی روک تھام کے لئے راہنما ’’ کُتّا بچہ ‘‘ فراہم کر دیا گیا ‘۔ اسکرین میں نیچے اسی خبر کی پٹی چل رہی ہے کہ برطانوی فوجیوں کی خودکشی کی روک تھام کے لئے راہنما کتابچہ فراہم کر دیا گیا ۔خبر کے دوران اُن فوجیوں کی ایک مختصر ویڈیو بھی دکھلائی گئی۔ طارق سعود قدوسی نے اس ویڈیو کلپ کے ساتھ یہ جملہ لکھا تھا : ’’ بھائی ! اِن کی اصلاح کا سوچیں ورنہ اُردو زبان کا اللہ ہی حافظ ! ‘‘ یہ قطعاََ ہنسی مذاق میں اُڑا دینے والی بات نہیں! اِس سے ملتی جلتی حواس باختہ اور ناقابلِ معافی غلطیاں مختلف چینلوں میں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اِن میں’’ تلفظ ‘‘ کی ٹانگ توڑنا سرِ فہرست ہے۔ بھارتی فلموں ، ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں میں جس طرح کی زبان بولی جاتی ہے اُسی طرح کی زبان ہمارے ہاں کے یہ نیوز کاسٹر پاکستانی چینلوں پر بولتے نظر آتے ہ

کتابچہ یا " کُتا بچہ " ۔۔۔۔۔۔ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں

Image
روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشن مورخہ 8  ستمبر صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم  اُلٹ پھیر

Filmi Shakhsiyaat Aur Radio ............. Jang-e-September 1965 Ki Jangi Mosiqi

فلمی شخصیات اور ریڈیو ۔۔۔ جنگِ ستمبر 1965 کی جنگی موسیقی  تحریر شاہد لطیف بھارتی فوج نے لاہور شہر پر قبضہ کی خاطر اچانک 5 اور 6 ستمبر 1965کی درمیانی شب بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہوئے زور دار حملہ کیا۔ بمباں والی راوی بیدیاں کنال المعروف بی آر بی پر تعینات ہمارے سپاہیوں نے نا ممکن کو ممکن بنانے کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ دشمن کو وہیں روک کر اُس کے دانت کھٹے کر دیے۔ مٹھی بھر سپاہیوں کا یہ یہ ملکی دفاع ہماری سنہری تاریخ ہے۔ دنیا نے اِس جنگ میں ایک بالکل ہی نیا ہتھیار دیکھا۔ وہ تھا قومی ولولہ ! یہ ہتھیار جب جب داغا گیا کامیابی کے 100 فی صد نتائج حاصل ہوئے۔پہلی مرتبہ اس ہتھیار کا استعمال کچھ یوں ہے: صبح ریڈیو پاکستان لاہور سے بھارتی حملہ کی خبر نشر ہوئی تو اُس کے فوراََ بعد فلم ’’ چنگیز خان‘‘ ( 1958 ) کا رزمیہ گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ زرا اب وقتِ شہادت ہے آیا ‘ کا گراموفون ریکارڈ نشرہوا۔  طفیل ؔ ہوشیارپوری کے اس گیت کو رشید عطرے کی موسیقی میں عنایت حسین بھٹی ا ور ساتھیوں نے بہت ولولے سے صدا بند کروایا تھا۔ اِس کے بعد تو پھر پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے اسی