کہاں وہ ..... کہاں یہ .... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳



کہاں وہ ..... کہاں یہ .... مسلم لیگ کی  سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳

تحریر شاہد لطیف



قائدِ اعظمؒ کی خواہش کے مطابق غلام محمد صاحب کو پاکستان کا پہلا وزیرِ خزانہ بنایا گیاتھاجو ایک آزمودہ اور پرانے افسر شاہی کے فرد تھے۔یہ کِسی بھی لحاظ سے گورنر جنرل جیسے اعلی مرتبہ کے لئے جِس پر قائدِ اعظمؒ فائز رہ چکے تھے، موزوں نہیں تھے۔قائدِ مِلّت لیاقت علی خان ؒ کی شہادت کے بعد مسلم لیگیوں کا فرض اب کہیں زیادہ بڑھ جانا چاہیے تھا کہ وہ چوکنے رہتے کہ اِس نئے ملک میں سب ٹھیک تو ہے نا؟اب پہلا بگاڑ یہی غلام محمد کا بہ حیثیت گورنر جنرل کے تقرر ہونا پھر اِسی عہدے پر اسکندر مرزا کا فائز ہوناتھا۔ اب نوکر یا افسر شاہی عوام کا خادم بننے کو قطعاََ تیار نہیں تھی بلکہ وائسرائے کی طرح کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اختیارات حاصل کرنے کے لئے یہ بھی عوام کی گردن پر پیر رکھنے کو تیار ...... اور ملک کی قِسمت میں پہلے کے جاگیردار سیاستدان ..... اب اِن ہی لوگوں نے پاکستان کو کنٹرول کرنا تھا۔ 


۱۹۵۵ میں تو حد ہی ہوگئی جب افسر شاہی نے ڈری سہمی،مسلم لیگ کا کنٹرول سنبھال لیااور مغربی پاکستان کے چار صوبوں کا ایک انتظامی یونٹ بنا لیا تا کہ آیندہ انتخابات میں مشرقی اور مغربی پاکستان برابری کر سکیں۔۱۹۵۶ میں آئین سازی بھی کی گئی اور تقریباََ سب کام ہو بھی گیا۔دونوں صوبوں کو حکومت سازی میں برابری کا حصہ مِلا۔قومی پارلیمان ۳۰۰ ممبران پر مشتمل ہونا تھی، جِس میں آدھے مشرقی اور آدھے مغربی پاکستان کے ہوتے۔وزیرِ اعظم اور کابینہ پار لیمان کی مرضی سے کام کرتے اور صدر کے محدود اختیارات ہوتے۔یہ تمہید اَس لئے لکھنا ضروری ہے کیوں کہ مسلم لیگی وزیرِ اعظم کے ز یرِ نگرانی یہ آئین بنایا گیا۔وہی مسلم لیگ ،جو خود بھی اسکندر مرزا کے زخم کھائے ہوئی تھی، اُن کی ماورائے آئین مداخلتوں اور سازشوں کے نتیجہ میں حکومتوں کا انجام دیکھ چکی تھی اِس کے باوجود اِن ہی کو اس آئین کے تحت پہلا صدر مقرر کر دیا گیا ؟ کیادودھ کی رکھوالی پر کبھی بلّے کو بھی رکھا جاتا؟ جانتے بوجھتے ایک ایسے شخص کو صدارت کی کرسی پر بٹھانا اور اُس سے کِسی خیر کی توقع رکھنا ....پرلے درجے کی حماقت تھی...... لیکن ایسا ہوا ..... اور ایسا کرنے میں سارا الزام خود مسلم لیگ کو جاتا ہے۔صدر بننے کے دو سال کے اندر سازشوں اور لڑاؤ اور تقسیم کرو کی پالیسی پر ’کرسیء صدارت ‘ سے عمل جاری رہا اور وہ دِن آ گیا کہ جِس کو آخر آنا ہی تھا ۔


۷ اکتوبر ۱۹۵۸ کو اسکندر مرزا نے مسلم لیگی وزیرِ اعظم کے دور کا بنایا گیا ۱۹۵۶ کا آئین منسوخ کر دیا۔قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر کے ملک میں مارشل لاء کا اعلان کردیا۔ جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔یہاں بھی ایک شدید غلط فہمی پیدا کی گئی ہے ،گویا یہ مارشل لاء ایوب خان نے لگایا........ نہیں!  مسلم لیگ ہی اِس کی بھی ذمّہ دار ہے کیوں کہ صدرِ پاکستان نے مارشل لاء لگایا جِس کو اُس نے مقرر کیا تھا۔جہاں دیگر سیاسی پارٹیاں ختم ہوئیں وہیں ’پرانی‘ مسلم لیگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔


مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ نئے آئین کے بنتے ہی مارشل لاء اُٹھا لیا جائے گا۔( اِس آئین میں کیا برائی تھی؟)۔۲۷ اکتوبر کو نئی کابینہ نے حلف اُٹھایا جِس میں ایوب خان وزیرِ اعظم، جبکہ تین لیفٹینٹ   جرنیلوں کو وزارتیں دی گئیں۔ آٹھ ممبران غیر فوجی لئے گئے جِن میں تاجراور وکلاء بھی تھے۔اور ہاں! .... صوبہ سند ھ کے نوجوا ن جاگیردار، ذوالفقار علی بھٹو بھی کابینہ میں شامِل تھے۔جمہوریت کش اقدام کرنے والوں کی کابینہ میں .........البتہ، ایوب خان نے فوراََ اندازہ لگا لیا کہ اُن کو وزیرِ اعظم لگانے میں اسکندر مرزا کی چال ہے کہ اِس طرح سے اُن کا فوجی کیریر ختم ہو اور وہ گمنامی میں چلے جائیں۔ ظاہر ہے کہ ملک میں دو فرمان رواں ایک وقت میں نہیں رہ سکتے ۔ ایوب خان نے سوچ لیا کہ جب کبھی اِن دو میں سے کسی ایک کے جانے کا وقت ہوا تو وہ اسکندر مرزا ہوں گے۔ 


۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸ کی شام ،ایوب خان کے سینیئر جرنیلوں نے مرزا صاحب سے دو ٹوک بات کی کہ وہ اِن دو میں سے کِسی ایک کا انتخاب کر لیں: فوری اور مستقل جِلاوطنی یا فوجی مقدمات ۔مرزا صاحب نے پہلی پیشکش مان لی اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے فور ی لندن چلے گئے ۔ اس کام کے فوراََ بعد ایوب خان فیلڈ مارشل کے درجے پر فائز ہو گئے اور صدرِ پاکستان بھی ۔


اب پاکستان مسلم لیگ کا آغاز ہوتا ہے جِس کا منبع ایوب خانی بنیادی جمہوریت کا نظام ہے۔عوام کو جلد ہی پتا چل گیا کہ اِس نظام میں بھی اصل طاقت افسر شاہی کو ہی حاصل ہے۔صدر ایوب کا خیال تھا کہ نیا سیاسی نظام ،سیاسی پارٹیوں کے بغیر چل سکے گا،لیکن ایسا نہ ہو سکا۔جب قومی اسمبلی کا اجلاس بلوایا گیا اور مارشل لاء کا خاتمہ ہوا تو سیاسی پارٹیوں سے پابندی خود بخود ختم ہو گئی۔ اُس وقت صدرایوب نے ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی لیکن جلد ہی اس کے دو حصے ہو گئے ۔ صدر ایوب خان والی کنونشن مسلم لیگ کہلائی اور دوسری کونسل مسلم لیگ۔آخر الذکر مسلم لیگ ۱۹۶۷ میں حکومت مخالف متحدہ اپوز یشن میں شامل رہی۔ اِن مسلم لیگ گروپوں کا بھرم اور وقار بھی یحیےٰ دور میں ملک کے پہلے (حقیقی) انتخابات کے نتائج نے بھک سے اُڑا دیا اور لیگ کے دونوں دھڑوں کا صفایا ہو گیا۔مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے واضح برتری حاصل کی۔


۱۹۸۸ میں صدر ضیا الحق کے طیارے کے حادثہ میں ہلاک ہونے کے بعد میاں نواز شریف کی زیرِ قیادت ایک نئی مسلم لیگ بنائی گئی اور اس کا نام پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا۔یہ ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۳ تک وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہے۔پھر دوبارہ قسمت نے یاوری کی اور وہ ۱۹۹۷ سے ۱۹۹۹ تک وزیرِ اعظم رہے یہاں تک کہ ملک میں جنرل پرویز مشرف نے تیسرا مارشل لاء لگا کر حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔اب ۲۰۰۲ میں پاکستان مسلم لیگ بھی دو گروپوں میں بٹ گئی ...... پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ ( ق) ......
مشرف دور میں ۲۰۰۸ کے متنازعہ انتخابات میں پانچ مختلف سیاسی پارٹیوں نے مسلم لیگ کے نام کو استعمال کرتے ہوئے حصہ لیا۔سب سے زیادہ سیٹیں مسلم لیگ (قائدِ اعظم) نے حاصل کیں اُس کے بعدمسلم لیگ (ن)۔اِس الیکشن میں قائدِ اعظم لیگ نے حکومت بنائی اور (ن) لیگ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھی۔حالیہ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سیٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی پارٹی ابھری۔مرکز میں اس کی حکومت بنی اور نواز شریف تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
اِس وقت ہمارے ملک میں مندرجہ ذیل مسلم لیگیں ہیں:
؂ ۱۔ پاکستان مسلم لیگ۔ (ن)۔نواز گروپ
۲۔ پاکستان مسلم لیگ۔( ق)۔قائدِ اعظم گروپ
۳۔ پاکستان مسلم لیگ۔( ف)۔فنکشنل مسلم لیگ
۴۔ پاکستان مسلم لیگ۔ ( ضیاء)۔
۵۔ عوامی مسلم لیگ۔ شیخ رشید احمد
۶۔آل پاکستان مسلم لیگ۔پرویز مشرف

(جاری ہے)

.......................................

اختتام
(٢٠  مئی  ٢٠١٧ کے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں کالم ' الٹ پھیر   '  میں شایع ہونے والا  مضمون  " کہاں وہ ... کہاں یہ .... مسلم لیگ کی سیاسی  تاریخ -٣)

Comments

Popular posts from this blog