کہاں وہ... کہاں یہ...مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔آخری قسط

کہاں وہ... کہاں یہ...مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔آخری قسط

تحریر شاہد لطیف


میاں نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز دسٹرکٹ کونسل سے کیااور عملی طور پر ۱۹۷۰ میں اصغر خان صاحب کی تحریکِ استقلال میں شامل ہو کر باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا۔پنجاب کے گورنر جیلانی صاحب نے ان کو ۱۹۸۱ میں پنجاب کی وزارتِ تجارت کے ساتھ ساتھ کھیل کا قلمدان بھی سونپ دیا۔ 

۱۹۸۸ کے انتخابات میں بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ ملک کی وزیرِ اعظم بنیں جبکہ نواز شریف پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ۔ ایک دفعہ اور...... اسکندر مرزا اور غلام محمد والے پرانے کھیل کی بساط سج گئی ۔ صرف ۲۰ ماہ میں کرپشن اور بد انتظامی کے الزام لگا کر غلام محمد کی طرح نوکر شاہی سے صدارت پر فائز ہونے والے غلام اسحٰق خان نے وزیرِ اعظم بینظیرکی حکومت اور قومی اسمبلی ۱۹۹۰ میں تحلیل کر دی۔

 ۱۹۹۰ کے عام انتخابات میں نواز شریف یکم نومبر کو وزیرِ اعظم بن گئے ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ قومی حکومت بنائی گئی ۔ طاقت اور اختیارات روایتی جاگیرداروں سے نکل کر ترقی پذیر صنعت کار اور تجارت پیشہ افراد کے پاس آنے لگے (عوام کا پھر بھی ایوانوں میں گزر ممنوع ہی رہا)۔ لگتا ہے کہ جیسی روح ویسے ہی فرشتے بھی تھے۔ صدر غلام اسحاق خان نے اس حکومت کو بھی ۱۸ اپریل ۱۹۹۳ میں چلتا کر دیا ۔ 


مولوی تمیز الدین خان کی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی جِس نے اب کی دفعہ نظریہ ضرورت کا استعمال نہیں کیا بلکہ یہ حکومت بحال کر دی، یوں نواز شریف ۲۶ مئی کووزارتِ عظمیٰ پر دوبارہ فائز ہو گئے جس سے صدر اور وزیرِ اعظم کی چپقلش مزید بڑھ گئی ۔صدر کے ساتھ ساتھ لیگی سوچ میں بھی کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور تھی ۔فوج کے دباؤ کی وجہ سے دونوں حضرات کو اپنے اپنے عہدے چھوڑ کر ۱۸ جولائی ۱۹۹۳ کو مستعفی ہونا پڑا اور معین قریشی صاحب کو باہر سے بلوا کر نگراں وزیرِ اعظم بنایا گیا ۔اب ان کو کس نے بُلوایا؟ اور ان ہی کو کیوں بلوایا ؟ یہ صیغہء راز ہی رہا۔


 بہرحال بینظیر منتخب ہو کر ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۳ کو دوبار ہ اقتدار  میں آ  گئیں ۔ اگلے انتخاب ،فروری ۱۹۹۷ میں نواز شریف بھاری اکثریت سے جیتے ۔ صدر کے حکومتوں کو گھر بھیجنے سے روکنے کے لئے تیرھویں ترمیم لائی گئی۔ چودھویں ترمیم بھی ایک انوکھی جمہوریت شکن اختراع ہے جو پارٹی کے نظم و ضبط کے نام پر منظور کرائی گئی۔پارٹی لیڈر (خود وزیرِ اعظم یا صدر) کو غیر محدود اختیارات حاصل ہو گئے کہ اسمبلی میں اگر پارٹی کے کسی ممبر یا ممبران نے پارٹی لیڈر کے کہنے کے مطابق ووٹ نہیں ڈالا تو اُس یا اُن کی ر کنیت ختم ہو سکتی ہے۔گویا آپ کے ممبران ایک ربڑ اسٹمپ ہو گئے ۔ اب وزیرِ اعظم کو عدم اعتماد پر ہٹایا نہیں جا سکتا۔ یہی زمانہ تھا جب وزیرِ اعظم نے انتظامیہ سے عدلیہ کی آزادی کی بھی مخالفت کی اورچیف جسٹس سے سرد جنگ شروع کر دی ۔

وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں میاں صاحب کی یکے بعد دیگرے تین عدد آرمی چیف سے نہیں بنی۔جنرل مرزا اسلم بیگ سے ۱۹۹۱ کی جنگِ خلیج کے مسئلہ پر، جنرل آصف نواز سے سندھ کے آپریشن کلین اپ پر اور جنرل وحید کاکڑ سے اپنی پچھلی حکومت میں صدر اور وزیرِ اعظم دونوں سے استعفے لینے کی وجہ سے۔جنوری ۱۹۹۶ میں جنرل جہانگیر کرامت کو آرمی چیف بنایا گیا جن کی مدت ۹ جنوری ۱۹۹۹ کو ختم ہونا تھی لیکن اکتوبر ۱۹۹۸ کو جنرل صاحب سے استعفیٰ لیا گیا کیوں کہ انہوں نے ملک میں نیشنل سیکیوریٹی کونسل فعال کرنے کی بات کی تھی۔یہ کونسل صدر یحیےٰ نے ۱۹۶۹ میں بنائی تھی جسکو بینظیرصاحبہ نے ۱۹۹۳ میں تحلیل کر دیا تھا۔لیگی مشیروں کی عقل دیکھئے کہ جِس بات پر جنرل جہانگیر کرامت صاحب کو اپنی مدت پوری کرنے سے قبل مستعفی ہونے کو کہا گیا وہ اگر اتنی ہی بُری تھی تو پھر بعد میں ا ن ہی نواز شریف صاحب نے ۱۹۹۸ اور ۱۹۹۹ میں نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے دو اجلاس میں چیرمین کی حیثیت سے کیوں شرکت کی؟بلکہ اسی کونسل کے پہلے اجلاس، منعقدہ ۱۹۹۸میں نواز شریف نے بھارت کے ایٹمی تجربوں کے جواب میں پاکستان کو بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کیوں اجازت دی؟



ان کے مستعفی ہونے کے بعد نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔سال بھر بعد ہی نواز شریف صاحب نے استعفیٰ لینے سے ایک قدم اورآگے بڑھ کر اکتوبر ۱۹۹۹ میں اِن کوفارغ ہی کر دیا جس کے نتیجہ میں میاں صاحب خود فارغ ہو گئے۔اب کی دفعہ سپریم کورٹ میں جانے والے لیگی وزیرِ اعظم نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف ہوائی جہاز ہائی جیک کروانا، ان کے قتل کی سازش اور غداری کے الزامات لے کرگئے تھے۔سپریم کورٹ نے ہائی جیکنگ کا الزام برقرار رکھا۔


اب اپنے بنیادی سوال کی جانب آتے ہیں کہ کہاں وہ مسلم لیگی لیڈر اور کہاں یہ......۔

لیگی لیڈران میں اوّل نام قائدِ اعظمؒ کا آتا ہے ۔ اُن سے بھلا کسی کا کیا مقابلہ! لیکن اپنے مسلم لیگی ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے مسلم لیگ کے نام کا ہی کچھ خیال کرتے ہوئے ملک و قوم کے سچے خادم بن کر دکھایا ہوتا؟طاقت اور اختیارات کے حصول کی خاطر شرمناک حد تک کہاں تک جایا جا سکتا ہے، یہ کام خود مسلم لیگی لیڈران نے کیا اور اب تک ہو رہا ہے۔

حسین شہیدسہروردی قائدِ اعظمؒ کے پُر اعتماد ساتھی تھے ۔ ۱۹۴۶ میں پورے ہندوستان میں مسلم لیگ کی اگر کہیں حکومت تھی تو وہ صرف ان کی زیرِ قیادت بنگال میں تھی۔ ۱۹۴۷ میں طاقت کا توازن کانگریس کے حق میں چلا گیا تو اُن کو وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ یہ آزادی کے بعد بھی کلکتہ میں مسلمانوں کی جان و مال کے لئے مہاتما گاندھی کے ساتھ ساتھ رہے۔یہ ہوتا ہے ایثار۔ ۱۹۵۶ کے آئین کی تیاری میں عوام کے مفادکا خیال رکھنے میں اِن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ جیسے شہری آزادی، بالغ رائے دہی اور پارلیمانی جمہوریت۔ٹھیک ہے بعد میں حالات ایسے بنے کہ یہ مسلم لیگ چھوڑ کر عوامی لیگ میں آ گئے اور اِسی پارٹی میں رہتے ہوئے ۱۹۵۶ میں ملک کے وزیرِ اعظم بھی بنے ۔یہ ملک کے پہلے وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے ۱۹۵۶ عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری دورہ کیا ۔ پاکستان ( خاص طور پر مغربی پاکستان) میں توانائی کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ملک کی اولین جوہری پالیسی بنائی۔اِن ہی کی وزارتِ عظمیٰ میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ، ۱۹۵۶میں بنایا گیا۔انہوں نے ہی مستقبل میں توانائی کی پیش بندی کرتے ہوئے کراچی کے ایٹمی بجلی گھر کی بنیاد رکھی ۔


ایک اور لیگی راہنما سردار عبد الرب نشتر ، یہ بھی قائدِ اعظمؒ کے معتمد ساتھیوں میں سے تھے جنہوں نے ۱۹۴۵ میں شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کی نمائندگی کی تھی۔آزادی کے بعد وفاقی وزیرِ مواصلات اورپھر گورنر پنجاب رہے، یہ ملکی تاریخ کے پہلے پاکستانی گورنر ہیں۔ لوگوں نے دیکھا اور واقعات لکھے کہ گورنری میں اُن کے بچے تانگے میں بیٹھ کر اسکول جایا کرتے تھے کیوں کہ موٹر کار وہ صرف سرکاری کام کے لئے ہی استعمال کرتے تھے۔ کیا یہ مثال آج کے مسلم لیگی لیڈران پیش کر سکتے ہیں؟ پھر یہ کہ قائدِ ملتؒ کے بعد سردار عبد الرب نشتر بد عنوان سیاستدانوں سے تھک ہار کر ایک طرف نہیں ہو گئے بلکہ حکومت میں رہتے ہوئے اِن کی مخالفت میں ڈٹ گئے۔ جب گورنر جنرل غلام محمد صاحب نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو غیر آئینی طور پر برطرف کیا تو نشتر صاحب اپوزیشن میں چلے گئے۔

 کہاں وہ حسین شہید اور سردار عبد الرب جیسے عوام دوست، بے لوث اور پر خلوص لیگی لیڈر ......اور کہاں یہ ا قتدار اور مکمل اختیار ات کے حریص ، جو ایوانوں میں لگی قائدِ اعظمؒ کی تصاویر کا پاس بھی نہیں رکھتے، اُن کی نظروں کے سامنے مسلم لیگ کے نام اور ساکھ سے کھیلتے ہیں ۔ کیا ہمیں پھر ویسے لیگی لیڈر نصیب ہوں گے؟
................................
اختتام 
٣ جون  ٢٠١٧ کے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں شایع ہونے والی کالم ' الٹ پھیر '  میں مضمون  " کہاں وہ... کہاں یہ... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ-آخری قسط )

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ