Posts

Showing posts from February, 2019

PDF فارمیٹ میں پلے بیک سنگر مجیب عالم

’’ وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں‘‘  اور ’’ میں تیرے اجنبی شہر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے‘‘ جیسے گیتوں کے گلوکار قدرتی فلمی پلے بیک گلوکار مجیب عالم ( 4 ستمبر 1948 سے 2جون 2004 ) تحریر شاہد لطیف 4 ستمبر 1948 کو کانپور، اُتر پردیش، بھارت میں پیدا ہونے والے مجیب عالم کے پاکستان ہجرت اور ابتدائی دور کے بارے میں تذکرے خاموش ہیں۔گو کہ میری ان سے خاصی اچھی دعا سلام تھی لیکن انہوں نے بھی کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔بہرحال 60 کی دہائی کے اوائل سے یہ فلمی پلے بیک گلوکاری میں بتدریج شہرت پانے لگے۔ 1968 وہ سال ہے جب مجیب بھائی کی آواز نکھر کر خوب سے خوب تر ہو گئی۔اور وہ واقعی اُس دَور کے سرکردہ پلے بیک گلوکار ہو گئے۔اس بات کی ایک ہی مثال کافی ہے: فلم ’’ جانِ آرزو‘‘ کا ایک گیت ’ اے جانِ آرزو تجھے کیسے بھلائیں ہم، آ جا کے دے رہے ہیں ابھی تک صدائیں ہم ‘ توجہ سے سنیں تو موسیقی کی معمولی شُدھ بدھ رکھنے والے بھی بہت خوش گوار اثر لیں گے۔اخترؔ شیرانی کا کلام، ماسٹر عنایت حسین کی دل فریب موسیقی اور مجیب بھائی کی پُر تاثیر آواز۔ تمام سُر رچے ہوئے اور مکمل گرفت میں محسوس ہوتے ہی

پلے بیک گلوکار مجیب عالم

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 26 فروری کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر پلے بیک گلوکار مجیب عالم

PDF فُٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے بنتے ہیں ۔۔۔ کیا واقعی !!

فُٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے بنتے ہیں ۔۔۔ کیا واقعی !! تحریر شاہد لطیف   ٹریفک پولیس نے سڑک پر پیدل چلنے والے افراد کے لئے ایڈوائزری جاری  کی ہے کہ سڑک پر پیدل چلنے والے افراد ہمیشہ فٹ پاتھ کا استعمال کریں۔اوور ہیڈ بریج یا انڈر پاس کا استعمال کریں۔چلتی ٹریفک کے درمیان کبھی سڑک عبور کرنے کی کوشش نہ کریں۔شاہراؤں پر کسی بھی گاڑی / موٹر سائیکل چلانے سے پہلے ڈرائیونگ کے اصولوں سے واقفیت اور سیفٹی قوانین کی  آ گاہی مہم شروع کی گئی۔گزشتہ سال بھی 16 نومبر کو مئیر کراچی وسیم اختر نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے تمام فٹ پاتھ پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کریں گے: ’’ میں اکیلا نہیں ہوں سپریم کورٹ، رینجرز اور پولیس سمیت ادارے ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔دونوں باتوں کا بھلا کوئی کیا جواب دے۔کیا سٹی ٹریفک پولیس کو علم نہیں کہ کراچی کی مصروف سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر چلنا پُلِ صراط پر چلنے کی مشق ہے؟اوور ہیڈ برجوں پر بھکاریوں اور نشئیوں کا قبضہ ہے۔ لڑکیاں اور خواتین بے چاری ان کو استعمال کرنے سے رہیں۔ مئیر صاحب!! کیا فٹ پاتھ اب بھی نیلام نہیں ہو رہے؟جب فٹ پاتھ بکتے اور نیلام ہونے لگتے ہیں

فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے بنتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی !!

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 23 فروری 2019 کی اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

پاکستان کی کامیاب گلوکارہ مالا بیگم

Image
 روزنامہ نوائے وقت لاہور کی 9  اکتوبر 2018 کی اشاعت میں صفحہ فن و ثقافت پر شائع ہونے والی تحریر

عشرہ 60 اور 70 کی ایک نامور فلمی گلوکارہ مالا بیگم PDF

عشرہ 60 اور 70 کی ایک نامور فلمی گلوکارہ    مالا بیگم ( 9 نومبر 1939 سے 6 مارچ 1990) تحریر شاہد لطیف نسیم نازلی المعروف مالا ہمارے ملک کی ایک بڑی اور اپنے وقت کی کامیاب گلوکارہ رہی ہیں ۔ پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ ان کے گائے ہوئے بعض گیت و غزل اب بھی بہت مقبول ہیں اور ری مِکس کرنے والے نئے فنکاروں کے نغمے نجی ٹیلی وژن چینلوں اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی فنکارانہ شروعات کے سلسلے میں مالا بہت خوش قسمت ثابت ہوئیں۔تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ مالا کی گلوکاری کی ابتدا 1950 سے شروع ہوئی لیکن اُن کا کوئی قابلِ ذکر فلمی یا غیر فلمی گیت نہیں ملا۔اتنا معلوم ہوا کہ مالا کے ایک قریبی عزیز مرزا سلطان بیگ عر ف نظام دین ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک طویل عرصہ شام کا پروگرام ’ جمہور کی آواز‘ کرتے رہے۔ قیاس ہے کہ مالا اور اُن کی بڑی بہن شمیم نازلی جو پاکستان کی پہلی  خاتون فلمی موسیقار ہیں، دونوں ان کے ساتھ ریڈیو پاکستان گئیں اور وہیں سے موسیقی کے شوق نے تیزی پکڑی ۔مالا کو گانے اور شمیم کو موسیقی کا شوق تھا۔ پھر ریڈیو پاکستان لاہور

تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون

’’ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی سرے کا پتھر ہو گیا۔۔۔ ‘‘ تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون    Sunny Benjamin John تحریر    شاہد لطیف خدائے بزرگ و برتر کی عنایات کا جب نزول ہو تو وہ راتوں رات اپنے بندے کو شہرت کے آسمان کا تارہ بنا دیتا ہے۔فلمی دنیا کے کئی ایک فنکاروں کے ساتھ ایسا ہوا لیکن ان میں سے کئی فنکار فلموں کے حوالے سے غیر فعال ہو گئے ۔ایسی ہی عنایات ایس۔بی۔ جَون پر بھی ہوئیں جب فلم ’ سویرا ‘ کا گیت مقبول زدِعام ہو کر اُن کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔آج یہ گیت کلاسیِک کا درجہ حاصل کر چکا ہے ۔ 1959 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’ سویرا ‘ کاماسٹر منظور حسین شاہ عالمی والے کی موسیقی میں فیاضؔ ہاشمی صاحب کا لکھا ہوا زوال گیت یہ ہے: تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے آج 60 سال بعد بھی جَون بھائی کی آواز میں یہ گیت روزِ اول کی طرح مقبول ہے۔آج بھی نوجوان یہ گیت شوق سے سُنتے ہیں۔ اِس گیت کو بعد کے آنے والے فنکاروں نے بھی ٹیلی وژن چینلوں پر پیش کیا۔لیکن جَون بھائی کا گایا ہوا اصل گیت آج بھی آب وتاب کے ساتھ

PDF فارمیٹ میں ابوظہبی کے عدالتی نظام میں ہندی تیسری سرکاری زبان ہو گئی ۔۔۔ اور اُردو پاکستان میں سرکاری زبان نہ بن سکی

ابوظہبی کے عدالتی نظام میں ہندی تیسری سرکاری زبان ہو گئی ۔۔۔ اور اُردو  پاکستان میں سرکاری زبان نہ بن سکی تحریر شاہد لطیف  ابو ظہبی کے عدالتی نظام میں ہندی کو تیسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو گیا۔اس اقدام کا مقصد ہندی داں افراد کو قانونی کاروائی اور ان کے حقوق و فرائض سمجھنے میں مدد دینا اور انصاف تک رسائی بہتر بنانا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بھارتی باشندوں کی تعداد 26 لاکھ ہے۔ یہ سب سے بڑی تارکینِ وطن برادری ہیں۔ بھارتی وزیرِ خارجہ سُشما سُوارَج نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس طرح بھارتی تارکینِ وطن کو انصاف کے حصول میں بہت آسانی حاصل ہو جائے گی۔اور پاکستان میں۔۔۔۔۔۔ ہماری ہی اُردو کو کبھی سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا !! نقار خانے میں طوطی کی اور مقتدر طبقوں میں اُردو کی آواز کون سُنتا ہے، لیکن ہم اُردو زبان کو اُس کا حق دِلوانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے ۔ اُردو زبان کا ہم سب پر یہ حق ہے کہ ہم اُ سے اُس کا جائز مقام دِلائیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں بیٹھنے والے افراد اِس کو نافذ نہیں ہونے دیتے ۔ ہر ایک ح

ابو ظبہی کے عدالتی نظام میں ہندی تیسری سرکاری زبان ہو گئی ۔۔۔۔ اور اُردو پاکستان میں سرکاری زبان نہ بن سکی

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی  کی 16 فروری کی اشاعت کے صفھہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

خواب تھایا خیال تھا کیا تھا۔۔۔

سر اینڈرو کلڈی کٹ    (Sir Andrew Caldecott (1884-1951 انہوں نے 1907 سے ایک لمبے عرصے برطانوی نو آبادیاتی ملایا کی سِول سروس میں مختلف عہدوں پر ملازمت کی۔ یہاں کی زبان ، ثقافت اور لوک کہانیوں میں بہت دل چسپی لی۔وہ 1935 سے 1937 تک ہانگ کانگ کے گورنر رہے۔پھر انہیں 1937سے 1944 کے زمانے میں سیلون، موجودہ سری لنکا کا گورنر بنا دیا گیا۔سر اینڈرو کلڈی کٹ کی ساری زندگی مافوق الفطرت سے بہت دلچسپی رہی۔ یہ ان کی لکھی ہوئی دو جلدوں کی کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔ روحوں کی کہانی کی پہلی جِلد انہوں نے 1944 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شائع کی۔دوسری جِلد Not Exactly Ghosts ، 1947میں شائع ہوئی۔اِس میں 12 عدد کہانیاں ہیں۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک۔ مندرجہ ذیل Fits of the Blues اس کی گیارہویں کہانی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواب تھایا خیال تھا کیا تھا۔۔۔ ایک پراسرار کہانی تحریر شاہد لطیف ’’ ایسا پیارا موسم لندن میں قسمت سے ہی ملے گا ! ‘‘۔ ا سسٹنٹ کمشنر ہاؤس سکھر کے لان میں بیٹھے ہوئے د ھر مِندرنے ناظم چشتی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ نگر پارکر کے رہنے والے یہ دونوں دوست ،اسکول و کالج سے ہی

ضمیر کا قیدی

سیبیِن بیرینگ گولڈ Sabine Baring-Gould  (  28      جنوری 1834 سے 2 جنوری 1924)  برطانیہ میں اینگلیکن چرچ کے پادری تھے۔ اس کے ساتھ ناول نگار اورمختصر کہانی نگار کے طور پر بھی برطانیہ کے نامورمصنفوں میں مستند ہیں۔ مندرجہ ذیل پراسرار کہانی ان کی کتاب A Book of Ghosts کی تیرھویں کہانی Mustapha سے ماخوذ ہے۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن Methuen & Co., London نے 1904 میں شائع کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضمیر کا قیدی اِک انہونے انتقام کا ماجرا تحریر شاہد لطیف یہ 1900 کے اوائل کا ذکر ہے۔ میں عموماََسال میں ایک مرتبہ مصر کے شہر ’ لکسر‘ Luxor میں قیام کرتا تھا ۔یہاں ایک ہوٹل ڈی یورپ تھا جس کے باہر گدھا گاڑی والے، قلی، گائیڈ اور قدیم دور کی اشیاء کے ڈیلر اکثر اوقات موجود ہوتے ۔ اِن میں ایک لڑکا مصطفےٰ ، یورپی اور امریکی سیاحوں کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے بہترین تھا۔ میں پانچ سال جاڑوں کے موسم میں مسلسل مصر آیا اور لکسر کے اسی ہوٹل میں قیام کیا ۔ میں چند دن یہاں سکون کے ساتھ گزارنا چاہتاتھا تا کہ تبدیلی آب و ہوا کے ساتھ صحت بہتر ہو۔ پیشے کے لحاظ سے میں مصور ہوں لہٰذا ’لکسر‘ کی