Posts

Showing posts from August, 2018

نئے کراچی کا آغاز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Image
"روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوءٹہ کی یکم ستمبر کی اشاعت میں خاکسار کا کالم " اُلٹ پھیر"

انہونی

شَاذ و نا دِر انہونی تحریر شاہد لطیف بعض باتیں یا واقعات بَس شاذ و نا دِر ہی ہوا کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں کبھی کبھی انہونی بھی ہو جاتی ہے۔ایسا ہی ایک بالکل سچا واقعہ رقم کرتا ہوں ۔اِس طرح کا کوئی واقعہ آپ نے کم ہی سُنا ہو گا۔ میرے والد صاحب محکمہء صحت میں تھے اور ہم لوگ کراچی ائرپورٹ کے سرکاری مکانوں میں رہتے تھے۔ہمارے پڑوس میں ائرپورٹ ڈسپنسری کے ڈاکٹر منصور اپنی والدہ بہن اور بھائیوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ہم لوگ 1964 سے لے کر ایک عرصہ ساتھ رہے ۔ڈاکٹر منصور سے چھوٹے محفوظ بھائی تھے جو بعد میں پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن PTDC سے طویل عرصہ وابستہ رہے۔ اِس واقعے کے محور محفوظ بھائی ہی ہیں۔ یہ 1992 کا موسمِ سرما تھا، میرا کسی کام سے میٹروپول ہوٹل کی طرف جانا ہوا تو خیال آیا کہ یہاں پی ٹی ڈی سی کے دفتر میں تو محفوظ بھائی بھی ہوتے ہیں ۔پس یہ سوچ لئے میں وہاں جا پہنچا۔  ’’ السلام علیکم محفوظ بھائی! اِدھر سے گزر رہا تھا سوچا سلام کرتا چلوں‘‘۔ وہ میری اِس غیر متوقع آمَد پر بے حد خوش ہوئے۔سب گھر والوں کا حال احوال پوچھا۔ ’’ آج ماشاللہ آپ بہت خوش نظر آ

Pakistan Bhi Turkey Aur Japan Ban Sakta Hay .............

پاکستان بھی ترکی اور جاپان بن سکتا ہے ۔۔۔  تحریر شاہد لطیف مئی 2013 وہ یادگار دن تھا جب ترکی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم طیب اردگان کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضے کی آخری قسط ادا کی۔ ترکی اور آئی ایم ایف کی یہ کہانی 1958 سے شروع ہوئی ۔ قرضوں کی بھی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔بس ایک مرتبہ جو ملک اس کی دلدل میں اترا تو ۔۔۔  سوال یہ ہے کہ طیب اردگان کے پاس وہ کون سا چراغ الہ دین تھا جس کو رگڑا اور جن کو حکم دیا کہ تمام قرضے اُتر جائیں؟ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ سمت کا تعین درست تھا اور رہبر مخلص تھا ۔ پھر کامیا بیوں نے قدم چومے۔ قسمت کی دیوی کا مہربان ہونا بھی ایک اہم عنصر ہے لیکن حکومت پر قوم کا اعتماد سب سے زیادہ اہم ہے۔یہی وہ محرک ہے کہ جو عوام کو پیٹ پر پتھر باندھ کر خوشی خوشی کچھ کر گزرنے پر راغب کرتا ہے۔ جب ترکی نے آئی ایم ایف کا $23.5 بلین ڈالر قرضہ اُتار دیا تو پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لئے لکھتا چلوں کہ وہی آئی ایم ایف جو اپنی من مانی شرائط پر مقروض ترکی سے بات کرتا تھا اُس نے الٹا ترکی سے 5 بلین یورو کا قرضہ مانگا۔  اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رُخ پر۔آئی ایم ایف

پاکستان بھی ترکی اور جاپان بن سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Image
  'روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشن  کے صفحہ 11 پر 25  اگست کو شائع ہونے والا خاکسار کا کالم ' اُلٹ پھیر 

ُپی ڈی ایف فائل: آپ کو بھول جائیں ہم ۔۔۔معروف فلمی شاعر تسلیم ؔ فاضلی

آپ کو بھول جائیں ہم ۔۔۔ معروف فلمی شاعر تسلیم ؔ فاضلی (1947سے 17 اگست 1982 ) تحریر شاہد لطیف اظہار انور المعروف تسلیم ؔ فاضلی نے 1947 میں دہلی کے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے تذکروں میں تاریخِ پیدائش 1941 بھی ملتی ہے۔بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی آنکھ کا تارہ اور لاڈلے تھے۔والد سید مرتضیٰ حسین دعاؔ ڈبایؤی اور دو بڑے بھائی صباؔ فاضلی ( یہ جوانی میں ہی انتقال کر گئے) اور نداؔ فاضلی شاعر اور ادیب تھے۔ اس طرح سے گویا لکھنا لکھانا اور شعر گوئی تسلیم ؔ فاضلی کی گھٹی میں تھی۔ابھی یہ کافی چھوٹے تھے جب ان کو اُس وقت کے جید اہلِ قلم کے پاس اُٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا؛ جیسے شکیل ؔ بدایونی، جگر ؔ مرادآبادی اور جانثار ؔ اختر وغیرہ۔ یہ اور دیگر نامور ادبی شخصیات تسلیم ؔ فاضلی کے والد کے پاس آیا کرتی تھیں۔گھر کی بیٹھک کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے والد اور بھائیوں کے ہمراہ چھوٹے بڑے مشاعروں میں بھی جانا شروع کر دیا۔اِس سب کا بہت خوشگوار اثر ہوا اور تسلیم ؔ فاضلی نے کم عمری ہی میں شعر کہنے شروع کر دیے۔وہ میٹرک کا امتحان دینے کے فوراََ بع

ۤپ کو بھول جائیں پم ۔۔۔۔ معروف فلمی شاعر تسلیم فاضلی

Image
 روزنامہ نوائے وقت کی 21  اگست اشاعت میں کرچی اور کوئٹہ کے  صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر

Turkey Ki Khud Inhisari Aur Khud Dari ........ Hamaray Liyay Aik Sabaq

Image
" روزنامہ نوائے وقت کی 18  اگست کی کراچی اور کوئٹہ اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر

ترکی کی خود انحصاری اور خود داری۔۔۔ ہمارے لئے ایک سبق

ترکی کی خود انحصاری اور خود داری۔۔۔ ہمارے لئے ایک سبق تحریر شاہد لطیف 2017 کے امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے عالمی صورتِ حال بتدریج تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکی ریاستیں اور وہاں کے عوام بھی کسی حد تک صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے مضطرب ہیں۔بعض ریاستوں کی اعلیٰ عدالتوں نے داخلہ اور امیگریشن کے صدارتی احکامات کو نہ صرف ماننے سے انکار کر دیا بلکہ ان کو غیر قانونی بھی قرار دیا۔اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک بھی بدلتی ہوئی کھلی امریکی معاندانہ پا لیسی سے پریشان ہیں ۔ صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی ان کی عجیب و غریب پالیسیوں کی توجیہات پیش کرتے رہتے ہیں لیکن اِن کی کوئی تک بھی تو ہو ۔۔۔صدر ٹرمپ کے کئی سرکاری عہدے دار انہی پالیسیوں کی وجہ سے مستعفی ہو گئے۔پھر اِن پالیسیوں نے کئی ایک دوست ممالک کو دوستی کے دائرے سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین کے ممالک، پاکستان اور ایران نے بھی جواباََ اپنا رویہ بدل لیا ہے۔ ترکی سے اللہ جانے صدر ٹرمپ کو کیا بیر ہے حالانکہ ترکی نیٹو کا ایک اہم ملک ہے۔ ترک صدر طیب اردگان کی اقتصادی، تجارتی ، معاشرتی او

امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی سپریم کورٹ کا مواخذہ۔۔۔اور ہم

امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی سپریم کورٹ کا مواخذہ۔۔۔اور ہم تحریر شاہد لطیف امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی ہاؤس جیوڈیشری کمیٹی نے ریاست کی پوری کی پوری سپریم کورٹ کے مواخذے کا فیصلہ کر لیا۔ان میں چیف جسٹس مارگریٹ ورک مین، جسٹس رابن ڈیوِس، جسٹس بیتھ واکر اور جسٹس ایلن لَوری شامل ہیں۔ پانچویں جسٹس مینیس کیچم تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے۔ان جسٹس خواتین و حضرات پر بد انتظامی، بد عنوانی، نا اہل ہونا، اپنا کام صحیح نہ کرنا اور کچھ بڑے جرائم کے الزامات لگائے گئے۔مذکورہ جیوڈیشری کمیٹی نے بتلایا کہ 4 ملین ڈالر جسٹس خواتین و حضرات نے اپنے دفاتر کی ’’ غیر ضروری شاہانا ‘‘ سجاوٹ، گاڑیوں اور کریڈٹ کارڈوں پر خرچ کیے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھاؤں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک ہی سپریم کورٹ نہیں ہے بلکہ ہر ایک ریاست کی اپنی الگ الگ سپریم کورٹ ہوتی ہے۔ میں نے ریاست ویسٹ ورجینیا میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔وہاں کے قانون سے بھی واسطہ رہا۔خاکسار اپنے کالموں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قانون کا ’’ نفاذ ‘‘ نظر آ

Amriki Riyast West Virgina Ki Supreme Court Ka Muakhizah .... Aur Hum

Image
روزنامہ نوائے وقت کی 11  اگست  کی اشاعت میں کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والا خاکسار کا کالم " اُلٹ پھیر"

Filmi Shakhsiyaat Aur Milli Naghmay

فلمی شخصیات اور ملّی نغمے تحریر شاہد لطیف یہ ایک ایسا موضوع ہے جِس پر نہ جانے اب تک کیوں نہیں لکھا گیا۔ ہر سال کی طرح 14 اگست کی آمد پر گلیاں بازاراور خریداری مراکز سبز پرچموں سے سجنے اور ملّی نغمات ریڈیو ٹی وی سے نشر ہونے لگے ہیں ہر طرف نغمات کا چرچا ہے لیکن کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کے شاعر، موسیقار اور گلوکار کون کون ہیں۔ 70 کی دہائی میں اور اس کے بعد جب ملّی نغمات کا چرچا ہو ا تو موسیقاروں میں سہیل رعنا کا نام ہر ایک کی زبان پر آ نے لگا۔اس کی ایک بنیادی وجہ پاکستان ٹیلی وژن کا قیام ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ مقبول ملّی نغمات کا سہرہ ہمارے نامور موسیقار سہیل رعنا کے سر ہے۔اِنہوں نے اِس میدان میں کافی کام کیا لیکن اِن سے بہت پہلے بھی مقبول ملّی نغمات موجود تھے جو اب بھی گائے جاتے ہیں۔۔۔ میں یہیں سے ابتدا کرتا ہوں۔  پاکستانی ملّی نغموں کی جب بھی بات ہو گی، یا کوئی تاریخ لکھی جائے گی اُس کا آ غاز گلوکارہ منور سلطانہ ( نومبر 1924 سے مئی 1995 ) کے نام سے ہو گا۔ ہمارے ہاں کسی گیت کے مقبول ہونے میں صرف گلوکار/گلوکارہ ہی کو یاد رکھا جاتا ہے حالاں کہ موسیقار اور ن