Posts

Showing posts from April, 2018

یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔

یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔ تحریر شاہد لطیف ایک کہاوت ہے ’ گدھے پر کتابیں لادنا ‘۔ یہ طنزاََاستعمال ہوتی ہے ۔گدھا بوجھ اُٹھانے کے لئے ہی ہوتا ہے البتہ اُس کی عقل گدھے کی ہی رہتی ہے خواہ آپ اُس پر علمی کتابیں رکھ دیں۔افسوس کا مقام ہے ، معذرت کے ساتھ آج کل کے اسکولوں نے کمسن بچوں کو بوجھ اُٹھانے والا گدھا سمجھ رکھا ہے۔اپنے اطراف ایک نظر ڈالئے صبح اور دوپہر کو چھوٹے بچے بھاری بھرکم بستے اور بیگ اپنے کاندھوں پہ ڈالے دکھائی دیں گے۔یہ بھاری بستے یا بیگ بچوں کی بیماریوں کا سبب بننے لگے ہیں۔بچوں میں گردن، کمر میں درد کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔پچھلے دِنوں کراچی کے عباسی شہید اسپتال کے ڈپٹی سپر نٹنڈنٹ کلینکل، ڈا کٹر نعمان نے اسکولوں کے کمسن طلباء اور طالبات کے لئے بھاری بستوں /بیگوں کوخطرناک قرار دیتے ہوئے شہر کے تمام اسکول ہیڈ ماسٹروں اور پرنسپلوں کو ایک خط بھیجا ہے ۔ اُنہوں نے زور دیا ہے کہ کوئی ایسا نظام بنایا جائے کہ بچے روز صرف وہی کتابیں اسکول لائیں جِن کی ضرورت ہو۔ ڈاکٹر نعمان کے اِس خط میں اسکولوں کے ہیڈماسٹروں اور پرنسپلوں کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی گئی

Yay School Kay Bhari Bastay

Image

معیارِ اہلیت /میرٹ کے بر خلاف بھرتیاں

معیارِ اہلیت /میرٹ کے بر خلاف بھرتیاں تحریر شاہد لطیف ایک نہایت ہی اہم موضوع :اہلیت یا میرٹ کے بر خلاف بھرتیاں۔ہمارے ملک میں کیا سرکاری ، کیا نیم سرکاری، کیا کارپوریشن، کیا ا تھارٹیاں، کیا خود مختار اور کیا نیم خود مختار ادار ے، اِن سب کا اہلیت کے بر خلاف بھرتیوں، ملازمتوں اور کنٹریکٹوں نے حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سیاسی اور مذہبی قیادتوں کو جِس طرح اِس مسئلہ کے خلاف آواز اُٹھانا اور جد و جہد کرنا چاہیے تھی اُس کا عشر عشیر بھی نہ کر سکے۔گویا مان لیا گیا کہ ’ سب چلتا ہے‘۔پچھلے دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کی 4 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر وں سے استعفےٰ طلب کر لئے اور ایک کو معطل کر دیا۔راقم نے اِس موضوع کا انتخاب اِس لئے کیا کہ جامعہ کراچی اور وفاقی اُردو یونیورسٹی کے بھی نا خوشگوارمعاملات سامنے آ رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ڈھائی سال سے کوئی وائس چانسلر اور سات سال سے کوئی پرو وائس چانسلر نہیں۔لاہور کی 4دوسری یونیورسٹیاں بھی طویل عرصہ سے پرو وائس چانسلر سے خالی ہیں۔سُپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں بتایا گیا کہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور کی فاطمہ جناح ، فیصل آباد اور

Mayyar-e Ahliyat/Merit Kay Barkhilaaf Bhartiyaan

Image

ٹیلی وژن اداکارہ خالدہ ریاست 70 اور80 کی دہائی کا ایک چمکتا ہوا تارا

ٹیلی وژن اداکارہ خالدہ ریاست 70 اور80 کی دہائی کا ایک چمکتا ہوا تارا   یکم جنوری 1953 سے 26 اگست 1996  تحریر شاہد لطیف خالدہ ریاست ۔۔۔70 اور80 کی دہائی کا ایک چمکتا ہوا تارہ جو اپنی ہم عصرخاتون فنکاروں، روحی بانو اور عظمیٰ گیلانی سے کسی طور بھی کم نہیں۔پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی نامور اداکارہ عائشہ خان، خالدہ کی بڑی بہن ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی ہم عصر ساتھی فنکاراؤں کے مقابلے میں خالدہ نے کم کام کیا لیکن جو کردار ادا کیا، ایسا کیا گویا کہ یہ خالدہ ریاست نہیں بلکہ وہ کردار خود چیخ چیخ کر اپنی موجودگی ثابت کر رہا ہو۔ جید اور تجربہ کار فنکاروں کا اپنا ایک معیار ہوا کرتا ہے لیکن خالدہ کے ہاں معیار کا بھی ایک اپنا ہی معیار ہے۔وہ ایسے کہ انہوں نے اپنی اداکاری کا کوئی ایک معیار مقرر ہی نہیں کیا ۔ اُن کے ہاں تو ہر ایک ڈرامے اور ہر ایک کردار کا اپنا ہی علیحدہ معیار ہوا کرتا تھا۔ اداکاری میں کردار کواپنے اوپر حاوی کر کے سامنے لے آنا کوئی مذاق نہیں۔ دیوانگی کی حد تک کردار میں ڈوب کر اپنی روح کے کرب کو سامنے لانے کی شدید ترین تکلیف اور کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ خالدہ

Khalidah Riyasat

Image
 اپریل 24 کے روزنامہ نوائے وقت لاہور اور اسلامآبد کے صفحہ فن و ثقافت پر شائع ہونے والی تحریر

پاکستانی فلمی گیت نگار۔۔۔تجھے قرار نہ آئے ، قرار کو ترسے گیت، مکالمہ وکہانی نگار، ہدایتکار اور فلمساز سیف الدین سیفؔ

پاکستانی فلمی گیت نگار۔۔۔تجھے قرار نہ آئے ، قرار کو ترسے گیت، مکالمہ وکہانی نگار، ہدایتکار اور فلمساز سیف الدین سیفؔ  20   مارچ1922 ۔ 12 جولائی 1993 تحریر شاہد لطیف نام سیف الدین اور تخلص سیف ،20 مارچ1922 کو امرتسرکے ایک معزز ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار دیا اور اچھے نمبروں سے پاس کیا۔پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیاجہاں محمد دین تاثیر کالج پرنسپل تھے اور انگریزی کے اُستاد فیض احمد فیض تھے۔اِن دونوں کی قربتوں نے سیفؔ میں علمی اور ادبی ذوق بیدار کیا لیکن بعض سیاسی اور مذہبی مسائل میں الجھنے کی بنا پر انہیں امتحان دینے سے روک دیا گیا ۔ اِس وجہ سے سیفؔ نے تعلیم سے مونہہ موڑ لیااور تلاشِ معاش میں سرگرداں ہو گئے ۔اِس پس منظر میں 1946 میں فلمی لائن اختیار کی اور فلمی کہانیاں لکھنے لگے۔ افسوس کہ بر صغیر کی تقسیم کی وجہ سے اُن کی لکھی ہوئی فلمیں نمائش کے لئے پیش نہ ہو سکیں۔پاکستان بننے کے بعد یہ ہجرت کر کے لاہور آ گئے اور پھر یہیں سے اپنی ادھوری تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکست

Saif Uddin Saif

Image
Image

گلوکار بننے نکلا اور اداکار بن گیا ۔۔۔۔۔۔ ٹیلی وژن اور فلم ا داکار اظہار قاضی

گلوکار بننے نکلا اور اداکار بن گیا   ٹیلی وژن اور فلم ا داکار اظہار قاضی (1955 سے 23 دسمبر 2007 ) تحریر شا ہد لطیف میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے نیا منسلک ہوا تھا۔ایک روزاپنے دوست ڈاکٹر شاہد بشیر کے ہاں اُس کے ہم جماعت، کھلاڑی اور ایتھلیٹ اسرار قاضی سے ملاقات ہوئی ۔باتوں باتوں میں وہ کہنے لگا کہ میرے بڑے بھائی کو گانے کا شوق ہے آپ ان کو سُن لیں ۔ ایک روز میں شاہد بشیر کے ہاں گیا تو وہاں اسرار کے ہمراہ ایک لڑکے کو بیٹھا دیکھا جو ایک نظر میں بھارتی اداکار امیتابھ بچن سے مشابہہ لگا۔ ’’ یہ میرے بڑے بھائی ا ظہار ہیں‘‘۔اسرار نے خوش ہوتے ہوئے تعارف کروایا۔اُس نے ایک مشہور گیت سنایا۔ آواز سے زیادہ اُس کی شکل و صورت اور قد و قامت متاثر کُن تھے۔میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا : ’’ ماڈلنگ، گلوکاری سے زیادہ آسان ہے، اِس میں آ جاؤ اور پھر اگر قسمت نے یاوری کی تو اداکاری بھی ۔۔۔ ‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ اداکاری؟‘‘ ۔اظہار نے مسکرا کے کہا۔ ’’ ہاں ہاں کیوں نہیں ! آج کل فاطمہ ثریا بجیا اپنے ٹی۔وی۔سیریل ’ انا ‘ میں نئے چہروں کی تلاش میں ہیں ۔کہو تو اُن سے مِلواؤں

Izhar Qazi

Image
 روازنامہ نوائے وقت لاہور اور اسلام آباد کی 17  اپریل کی اشاعت میں صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر

پاکستانی فلمی گیت نگار۔۔۔۔۔۔۔۔ گھنگھرو ٹوٹ گئے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔قتیل شفائی

پاکستانی فلمی گیت نگار  گھنگھرو ٹوٹ گئے ۔۔۔ قتیل شفائی(24دسمبر 1919 سے 11جولائی 2001) تحریر شاہد لطیف ایک وقت تھا کہ ا دب کے پروردہ فلمی گیت نگاروں کو ادب میں کوئی مقام دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔پھر قتیلؔ شفائی اور اُن کے چند ہم عصر شعراء نے ثابت کیا کہ فلمی گیت بھی شاعری کا ایک اہم حصہ ہیں۔ گو کہ قتیل ؔ شفائی کونمایاں کرنے میں اُن کے فلمی گیتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اُن کا یہ اصرار رہا کہ ادب ہی اُن کا میدان ہے اور فلمی گیت نگاری تو محض روزگار کا ذریعہ ہے۔ وہ فلموں میں معیاری شاعر ی کو متعارف کروانے کے لئے فلمی گیت نگاری مِشن سمجھ کر کرتے تھے ۔ وہ جب فلموں میں آئے تو اُس وقت وہ صاحبِ دیوان تھے۔اُن کی اب تک 20تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ اورنگ زیب خان المعروف قتیل شفائی ہری پور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئے جہاں اُس وقت علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھر پور تھا لیکن علم و ادب کے لحاظ سے ایک بنجر علاقہ تھا۔ اُن کی شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول کے زمانے سے شروع ہو چکا تھا ۔ اُن کے ابتدائی اساتذہ میں ایک حکیم محمد یحی

Pakistani Filmi Geet-nigaar ..... Ghunghro Toot Gayay ... Qateel Shifayee

Image
Add caption  روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت  میں شائع ہونے والی تحریر۔ یہ 17  اپریل کو شائع ہوئی

Taleem Tijarat Naheen .... Sindh High Court

Image
روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 14  اپریل کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر"

تعلیم تجارت نہیں ۔۔۔سندھ ہائی کورٹ

تعلیم تجارت نہیں   ۔۔۔سندھ ہائی کورٹ تحریر شاہد لطیف سندھ ہائی کورٹ نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواست پر بچوں سے اضافی فیس وصول کرنے کے حکم امتنائی میں 24 اپریل تک توسیع کر دی ہے ۔جمعرات کو جسٹس عقیل احمد کی سربراہی میں دو رُکنی بینچ نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران تبصرے میں کہا ’’ آئین مفت تعلیم کی ضمانت دیتا ہے اور سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت سب کے سامنے ہے۔جبکہ ایسی صورتِ حال میں نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافے کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ معذرت کے ساتھ تعلیم کو تجارت نہیں سمجھنا چاہیے ، اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔یہ وقت تو تعلیمی ایمر جنسی کا ہے ، حکومت اِس میں پالیسی کے طور پر بھی بہت کچھ کر سکتی ہے اور ملک میں ایک نہیں دس سسٹم چل رہے ہیں، ملک کی حالت سمجھیں کہ کیا سے کیا ہو گئی ہے ۔جو آتا ہے تعلیم کو کاروبار بنا دیتا ہے۔لوگوں کی یہ حالت ہے کہ کھانا میسر نہیں، ایسے میں فیسوں میں غیر معمولی اضافے کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں ۔اسکولوں کی برانچوں میں اضافہ ہو رہا