یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔
یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔ تحریر شاہد لطیف ایک کہاوت ہے ’ گدھے پر کتابیں لادنا ‘۔ یہ طنزاََاستعمال ہوتی ہے ۔گدھا بوجھ اُٹھانے کے لئے ہی ہوتا ہے البتہ اُس کی عقل گدھے کی ہی رہتی ہے خواہ آپ اُس پر علمی کتابیں رکھ دیں۔افسوس کا مقام ہے ، معذرت کے ساتھ آج کل کے اسکولوں نے کمسن بچوں کو بوجھ اُٹھانے والا گدھا سمجھ رکھا ہے۔اپنے اطراف ایک نظر ڈالئے صبح اور دوپہر کو چھوٹے بچے بھاری بھرکم بستے اور بیگ اپنے کاندھوں پہ ڈالے دکھائی دیں گے۔یہ بھاری بستے یا بیگ بچوں کی بیماریوں کا سبب بننے لگے ہیں۔بچوں میں گردن، کمر میں درد کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔پچھلے دِنوں کراچی کے عباسی شہید اسپتال کے ڈپٹی سپر نٹنڈنٹ کلینکل، ڈا کٹر نعمان نے اسکولوں کے کمسن طلباء اور طالبات کے لئے بھاری بستوں /بیگوں کوخطرناک قرار دیتے ہوئے شہر کے تمام اسکول ہیڈ ماسٹروں اور پرنسپلوں کو ایک خط بھیجا ہے ۔ اُنہوں نے زور دیا ہے کہ کوئی ایسا نظام بنایا جائے کہ بچے روز صرف وہی کتابیں اسکول لائیں جِن کی ضرورت ہو۔ ڈاکٹر نعمان کے اِس خط میں اسکولوں کے ہیڈماسٹروں اور پرنسپلوں کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی گئی