Posts

Showing posts from May, 2018

اتنا نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت

اتنا نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت تحریر شاہد لطیف محاورے اور ضرب الامثال ایسے ہی نہیں بن جا تے، اِن کے پیچھے کوئی کہانی یا واقعہ ہوا کرتا ہے۔ ایک کہاوت سنتے آئے تھے کہ’ آپ ہی سوال کریں آپ ہی دیں جواب‘ وہ سابقہ وزیرِ اعظم نواز شریف پر صادر آتی ہے۔اُن کی مسلسل چیخ و پکار کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جواب انہوں نے خود ہی دے دیا۔ شاید انہیں انتظار تھا کہ عدالتِ عالیہ سے تا حیات نا اہلی کے فیصلے کے بعد اپنے سوال’ مجھے کیوں نکالا‘ کا ’ کہیں ‘ سے جواب آ جائے ۔ اب 10ماہ ہونے کو آئے لیکن ’ جِس ‘ موثر جواب کا انتظار تھا وہ نہیں آیا لہٰذا اب سابقہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے اگلے روز خود ہی جواب دے دیا کہ ’ مجھے یوں نکالا‘۔۔۔ اُنہوں نے ایوان فیلڈ ریفرنس میں اپنے بیان کے آخری حصہ میں اِس راز سے پردہ اُٹھایا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ سے کیوں نکالا۔اُنہوں نے کہا کہ مجھے مشرف غداری کیس چلانے پر نکالا ۔اب حقائق کیا ہیں؟ سابقہ وزیرِ اعظم کے نیب عدالت میں دیے گئے الزامی وعوےٰ کا جواب کون دے گا؟ دوسرے الفاظ میں اب انہوں نے فوج اور سول حکومت کے ما بین ایک نیا جھگڑا کھڑا کر دیا۔اس طرح وہ ملک کی طاق

Itna Na Barha Pakiyay Daman Ki Hikayat

Image
مئی 26، 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے بیک وقت شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر"۔

بجلی کی ترسیل میں آئے دن کے طویل بریک ڈاؤن۔۔۔کیوں؟

بجلی کی ترسیل میں آئے دن کے طویل بریک ڈاؤن۔۔۔کیوں؟ تحریر شاہد لطیف بدھ کے روز ملک کے ایک بڑے حصہ میں کئی گھنٹے بجلی کی فراہمی بند رہی جس کے نتیجہ میں تمام نظامِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔اس کی وجہ ترسیلی نظام میں فنی خرابی تھی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، خطرہ کی گھنٹی ہے کہ ایک مہینے میں دو مرتبہ ملک گیر بجلی کی ترسیل کا بریک ڈاؤن ہو گیا ۔ معلومات کیں تو ذرائع نے بتایا کہ مختلف گرڈ اسٹیشنوں پر اچانک نظام میں ہو جانے والی کسی بھی بے قاعدگی یاتکنیکی خرابی کو وہیں کے وہیں روکنے والا وہ خود کار حفاظتی دفاعی طریقہ سرے سے موجود ہی نہیں جس سے ’ قومی گرِڈ ‘ پر پڑنے والے بوجھ کے خاتمے کی کوئی تدبیر کی جاتی۔اِس سے اس دعوےٰ کی بھی قلعی کھل گئی کہ ’ نظام کی اَپ گریڈیشن‘ اور اصلاحات کر دی گئی ہیں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاور سیکٹر میں مانیٹرینگ سمیت تکنیکی عملہ کی اہلیت اور فعالیت کے معاملات شرمناک حد تک کمزور ہیں لہٰذا یہ بھرتیاں سنگین اور مجرمانہ ہیں۔ بجلی کا پورا نظام اب تک نا قابلِ بیان پیچیدگی کا شکار ہے ، لہٰذا خاکسار کے نزدیک’’ بریک ڈاؤن ‘‘ کی حقیقتت ،تحقیق طلب ہے۔ بجلی

Bijli Kay Taveel Break Down .......... Kiyoon?

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 19 مئی کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر " 

’ اعتراف ۔۔۔ ‘

ایڈورڈ فریڈرِک بینسَن: ایڈورڈ فریڈرِک بینسَن Benson Edward Frederic (1867-1940)برطانیہ کے ایک نامور ناول نگارگزرے ہیں۔اِن کی وجہ شہرت روحوں کے بارے میں لکھی گئی مختصر کہانیاں اورمختلف جگ بیتیاں بھی ہیں۔ درجِ ذیل تحریر ’ اعتراف‘ اُن کی مشہور کہانی The Confession of Charles Linkworth سے ماخوذ ہے: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’ اعتراف ۔۔۔ ‘ تحریر شاہد لطیف ڈاکٹر طلعت معمول کے مطابق پھانسی پانے سے قبل مجرم کا صبح سے دو مرتبہ چیک اپ کر چکے تھے۔ جب زندگی کی آخری اُمید بھی دم توڑ جائے تو عام طور پر مجرم خاموش ہو کر قسمت پر قانع ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ اِس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ہر گھڑی وہ مقررہ موت سے نزدیک تر ہوتے جا رہے ہیں۔مجرم لقمان کے چہرے پر موت کی زردی اُسی وقت چھا گئی تھی جب اُسے بتایا گیا کہ اُس کی رحم کی اپیل مستر د ہو گئی ہے جب کہ پہلے ، خواہ جھوٹی سہی، اُس کے چہرے پر اُمید چھلکتی نظر آتی تھی۔ اب اِس کی جگہ موت کی اذیت نے لے لی تھی ۔ اورپھر جب سرکاری طور پر اُس کو یہ خبر سُنائی گئی تو لقمان کی برداشت جواب دے گئی اور داکٹر طلعت کو بلوانا پڑا لیکن اُس کی یہ بے ہوشی عارضی تھی

برفانی انسان

برفانی انسان تحریر شاہد لطیف ایڈورڈ فریڈرک بینسنBenson Edward Frederic ( 24 جولائی 1867 سے 29فروری 1940) مشہور برطانوی ناول نگار، ماہرِ آثارِ قدیمہ اور مختصر کہانی نویس کی حیثیت سے ممتاز ہیں۔ ان کی ایک کہانی پر1961میں امریکہ میں The Twilight Zone سیریز میں ایک فلم پیش کی گئی اور تین ناولوں پر لندن کے چینل 4 نے 1985-86میں ٹیلی وژن سیریل پیش کیے۔مذکورہ سنسنی خیز کہانی The Horror-Horn، 1923 میں شائع ہوئی۔ ہر دور میں برف پوش پہاڑوں پر، پراسرار انسان کے رہنے کی داستانیں اور روایات ایک زمانے سے چلی آ رہی ہیں ۔ اِس کہانی کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوئزرلینڈ کے 6,000فٹ کی بلندی پر واقع ’’ الفیوبل‘‘Alphubel پہاڑوں کے سلسلے پر پچھلے دس روز سے موسم بہت خوش گوار تھا۔ اس موسم میں لوگ زیادہ سے زیادہ دھوپ کھانے کے لئے ہفتوں منتظر رہا کرتے تھے۔میری طرح کئی سیاح لندن کی مستقل دھند کو چھوڑ کر کھلی فضاؤں میں آئے ہوئے تھے ۔ پہاڑوں پر رات کے ستارے واقعی ہیروں کی طرح سے چمکتے دمکتے تھے۔ دسمبر سے پہلے ہی خاصی برف پڑ چکی تھی اور برف پر پھسلنے والے خوب تفریح

Jub Tairay Shahar Say Guzarta Hoon. Gulukar Sharafat Ali

Image
 روزنامہ نوائے وقت لاہور اور اسلام آباد کی 15 مئی کی اشاعت میں صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر۔ اس کی  شہ سر خی میں ایک فاش غلطی ہے، شرافت علی کو شفقت علی لکھ دیا گیا ہے۔

جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔ گلوکار شرافت علی خان

جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔ گلوکار شرافت علی خان (16 اگست 1924 سے 17 اپریل 1991) تحریر شاہد لطیف سُپر ہٹ فلم ’ وعدہ‘ 1957میں نمائش کے لئے پیش ہوئی جس کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکار وحید الدین ضیاء الدین احمد المعروف ڈبلیو۔زیڈ۔ احمد تھے۔اِس فلم کو مقبول بنانے میں ایک گیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔یہ سدا بہار گیت، سیف الدین سیفؔ کی نظم ہے جسے موسیقار رشید عطرے کی موسیقی میں گلوکار شرافت علی نے صدا بند کرایا ۔آج 59 سال بعد بھی یہ اسی طرح ترو تازہ ہے ۔ نظم/ گیت کے بول ہیں : ’’ جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔‘‘اسی فلم میں گلوکارہ کوثر پروین اور شرافت علی خان کا دوگانا:’’ بار بار برسیں مورے نین۔۔۔‘‘ بھی بہت مقبول ہو ا ۔ شرافت بھائی سے خاکسار کی بھی ملاقات رہی۔وہ ایسے کہ جامعہ کراچی میں میرے ساتھ اُن کے ایک صاحبزادے لیاقت علی خان پڑھا کرتے تھے لہٰذا لیاقت کے ہاں کبھی کبھار اِن سے ملاقاتیں ہو جایا کرتی تھیں۔ اُن کا قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا تھا۔مضبوط ڈیل ڈول ، خوش مزاج اور محبت بھرے انسان تھے۔ مجھے موسیقی کا شوق تھا ،نئے پرانے گانے ازبر تھے، جب کبھی لیاقت کے گھر جاتا اور ان کے وال

پاکستان ٹیلی وژن ، فلم اور اسٹیج گلوکار تمغہ حسنِ کارکردگی یافتہ عالمگیر

پاکستان ٹیلی وژن ، فلم اور اسٹیج گلوکار تمغہ حسنِ کارکردگی یافتہ عالمگیر تحریر شاہد لطیف پاکستان میں پاپ Pop موسیقی روشناس کرانے والوں میں عالمگیر کا نام سرِ فہرست ہے۔راقم جب پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے 1980 میں منسلک ہوا تو اُس وقت عالمگیر کا نام بن چکا تھا۔فلم ’’ آئینہ‘‘ میں موسیقار روبن گھوش کے ’’ مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ اور مہناز کے ساتھ دوگانا ’ ’ وعدہ کرو ساجنا‘‘ اور علی سفیان آفاقی کی فلم ’’ جاگیر ‘‘ میں بزمی صاحب کی موسیقی میں ’ ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے‘ سُپر ہٹ ہو چکے تھے۔ پھر پی ٹی وی سے بھی اُس کے کئی ایک گیت مشہور ہو چکے تھے۔ سینئیر خاتون پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ میں موسیقی کے پروگرام کیا کرتا تھا۔ایسے ہی ایک پروگرام ’’ اُمنگ ‘‘ میں پہلی مرتبہ عالمگیر نے بحیثیت موسیقار ،شاعر محمد ناصرؔ سے 4 گیت لکھوائے۔دو عالمگیر کی آواز، ایک افشاں احمد کا گیت اور ایک افشاں کے ساتھ دوگانا۔شاید یہ عالمگیر کو بھی اُس وقت پتا نہ ہو گا کہ آگے چل کر اس کے یہ دو گیت بہت زیادہ مقبول ہوں گے: ’’ شام سے پہلے آنا دھوپ ساری ڈھل چکی ہو، پھول سارے