Posts

Showing posts from January, 2018

ابھی نہیں تو کبھی نہیں؟ ۔۔۔

ابھی نہیں تو کبھی نہیں؟ ۔۔۔ تحریر شاہد لطیف فلائی اوورز کے نیچے چارجڈ پارکنگ ختم نہ کرائی جا سکی ۔یہ ہوتی ہے رحمت کے نیچے زحمت ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی، فلائی اوورز کے نیچے غیر قانونی چارجڈ پارکنگ اور قبضہ کو ختم نہیں کروا سکی۔عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے باوجود حکام پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ذرائع کے مطابق محکمہ انسدادِ تجاوزات کے افسران نے بھی مذکورہ قائم کردہ پارکنگ سے ماہانہ رقم کی وصولی کے معاملات طے کر لئے۔ عدالتِ عالیہ کے احکامات کو ہوا میں اُڑا دیا گیا ہے۔ یہ عدالتِ عالیہ کا مذاق اور میئر کراچی کی رِٹ پر سوالیہ نشان ہے ۔تفصیلات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی چارجڈ پارکنگ کے افسران کی مبینہ سرپرستی کے باعث پُل اور فلائی اوورز کے نیچے قائم غیر قانونی چارجڈ پارکنگ کا تاحال خاتمہ نہ ہو سکا۔ذرائع کے مطابق ضلع وسطی میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ نے لیاقت آباد 10نمبر، ڈاک خانہ، کریم آباد سمیت دیگر پُلوں کے نیچے قائم شدہ قبضوں کو خالی کرانے کے بجائے محکمہ انسدادِ تجاوزات کے افسران سے بھی مُک مُکا کرا دیا۔اِس طرح کسی غیر قانونی قبضے اور چارجڈ پارکنگ کے خلاف کوئی کاروائ

Abhi Naheen To Kabhi Naheen ......

Image
" روزنامہ نوائے وقت کراچی کے 27 جنوری 2018 کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر

سِتار نواز، اراینجر اور موسیقار جاوید اللہ دتّہ

سِتار نواز، اراینجر اور موسیقار جاوید اللہ دتّہ تحریر شاہد لطیف نہ جانے جاوید بھائی میں ایسی کیا بات تھی کہ علاوہ سلام دعا کے اُن سے بات کرنے کا کبھی حوصلہ نہیں ہوا۔حالاں کہ اُن کے چھوٹے بھائی اختر اللہ دتہ سے راقم کی دوستی تھی جو ماشاء اللہ آج تک قائم ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں اپنی ملازمت کے دوران اِن سے اکثر ملاقات ہوا کرتی تھی ۔ یہ کم گو کام سے کام رکھنے والے تھے۔اب ایک زمانے بعد جب اُن کے ہاں بیٹھ کر بات چیت کی تو۔۔۔تو علم ہوا کہ میں تو سراسر گھاٹے میں رہا۔اتنے باصلاحیت شخص کو میں خوامخواہ نظر انداز کرتا رہا۔کاش کہ اِن سے اپنے پروگرام کروائے ہوتے ۔بہر حال پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لئے اُن سے بات چیت کی خاص خاص باتیں پیشِ خدمت ہیں: ’’ ستار نواز کی حیثیت سے 1964 میں 16 سال کی عمر میں قتیل شفائی کا لکھا، نثار بزمی کی موسیقی اور میڈم نورجہاں کی آواز میں فلم’’ ہیڈ کانسٹیبل ‘‘ کا یہ میرا پہلا فلمی گیت تھا‘‘ : ؂         اے کا ش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا         دنیا      میں    وفا    پر کوئی    الزام    نہ آتا  ’’ میرے پیس اور میری جانب سے کوئی ای

Sitar Nawaz,Aranger aur Mosiqaar Jawaid Allah Ditta

Image

مہناز کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر

شیریں نوا مہناز پیدائش: 1958 تاریخ، وفات:19 جنوری2013 تحریر شاہد لطیف 1968اور 1969کا زمانہ تھا راقِم ریڈیوپاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگرام ’نئے فنکار ‘ میں تقریباََ ہر ہفتہ حصہ لیا کرتا تھا ؛ اور اِس طرح کئی نامور ہستیوں کی دعائیں لینے کا اعزاز حاصل ہو ا جیسے اختر وصی علی صاحب ۔یہ پاکستان منتقل ہونے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے۔ کراچی آ کر دونوں میاں بیوی،اختر وصی علی صاحب اور کجّن بیگم محض سوز و سلام، مرثیہ اور نوحہ کے لئے مختص ہو کر رہ گئے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ اُسی زمانے میں ریڈیو کے جیّد فنکار،موسیقار اور گلوکار ، کیا خواتین کیا حضرات کہا کرتے تھے کہ اختر صاحب نے صرف سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے کے میدان کو منتخب کر کے ہم پر بہت احسان کیا ورنہ اتنے بڑے فنکار کی موجودگی میں ہم کہاں جاتے؟ گو1969 کے بعدمیرا ریڈیو پاکستان کراچی کم کم جانا رہا تاہم دہلی گھرانے کے اُستاد امراؤ بندو خان صاحب اور اختر وصی علی صاحب کے ہاں آنا جانا لگا رہا۔ کجّن بیگم جب سوز و سلام پڑھا کرتی تھیں تو اُن کے ساتھ اُن کے دو بہنیں اور کچھ لڑکیاں بھی آیا کرتیں تھیں ۔70 کی دہائی کے

Duna-e Gayiki Ka Aik Bara Naam, Shireen Nawa Mahnaaz

Image

چیئرمین ضلع کونسل خیر پور کے اور دفتر کراچی میں۔۔۔

چیئرمین ضلع کونسل خیر پور کے اور دفتر کراچی میں۔۔۔ تحریر  شاہد لطیف ایک خبر کے مطابق چیئرمین ضلع کونسل خیر پور ،جناب شہریار وسان نے کراچی میں اپناغیر اعلانیہ اور غیر سرکاری ضلعی دفتر قائم کر لیاہے۔ پیر سے جمعہ تک ہفتہ کے 5 روز کراچی میں اور 2دن خیرپور میں گزارتے ہیں۔خیرپور میں پہلے ہی مسائل کیا کم تھے جو اب یہاں کی ضلع کونسل کا عملہ کراچی میں جا کر چیئرمین سے اہم نوعیت کے کاغذات دستخط کروانے پر مجبور ہو گیا۔خود ان کے دفتر واقع خیر پور میں مسائل کی بے شمار فائلیں جمع ہو چکی ہیں مگر کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی ۔ضلع خیر پور کے عوام نے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے چیئرمین ضلع کونسل خیر پور کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ۔  تفصیلات کے مطابق بلدیاتی نمائندے شہریوں کے چھوٹے بڑے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں میں بد دلی اور مایوسی پھیل گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع کونسل کے چیئر مین شہریار وسان،سندھ کے صوبائی وزیر ،منظور وسان کے قریبی عزیز ہیں۔ہفتہ کے پانچ دِن کراچی میں ہونے کی وجہ سے ضلع خیرپور میں مسائل کا ڈھیر لگ چکا ہے۔عوام

Chairman Zila' Council khairpur Aur Daftar Karachi Main .....

Image
بیس جنوری کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا خاکسار کا کالم " اُلٹ پھیر  

جیل اصلاحات.... اعلانات تک محدود

جیل اصلاحات.... اعلانات تک محدود تحریر شاہد لطیف معاشرے میں زندگی کے تمام شعبوں میں وقت اور زمانے لے لحاظ سے اصلاحات کی ضرورت رہا کرتی ہے جیسے صحت، تعلیم،ذرائع آمدورفت وغیرہ ۔ایک بد نصیب محکمہ ایسا بھی ہے جِس کا حال خاصا برا ہے۔یہ شعبہ’’ محکمہ جیل خانہ جات‘‘ ہے۔ شازونادِر ہی کوئی جیل اصلاحات کی بات کر تا ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے فوراََ بعد جناب مراد علی شاہ نے پولیس اور جیل خانوں کی اصلاحات متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ دیگر مسائل کا ہونا یا پھر بدلتی ترجیحات۔۔۔ مختلف وجوہ کی بنا پر اِن پر عمل درآمد ابھی تک نہیں ہو سکا۔ سینٹرل جیل کراچی تاریخی نوعیت کی حامل ہے ۔ 1921میں برطانوی نوآبادیاتی زمانے میں خالق دینا ہال میں عدالت لگا کر مولانا محمد علی جوہرؒ کو ڈھائی سال جیل کی سزا سُنائی گئی اوراِسی سینٹرل جیل میں رکھا گیا۔ماضی بعید اور ماضی قریب کے کئی ایک معروف سیاستدان یہاں مختلف زمانوں میں آتے رہے ہیں جیسے شورش کاشمیری۔ ایک اطلاع کے مطابق یہاں سیاسی قیدیوں، ’ نیب زدہ‘ قیدی، جہادی تنظیموں والے، معمولی مقدمات میں ملوث، جعلی چیک، جعلسازی اور سنگین جرائم

Jail Main Islahaat...... Ailaanaat Tak Mahdood

Image
'جنوری 13 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا کالم ' اُلٹ پھیر  

بھارت کا بوفورس اسکینڈل ہمارے سیاستدانوں کے لئے لمحہ ء فکریہ

بھارت کا بوفورس اسکینڈل ہمارے سیاستدانوں کے لئے لمحہ ء فکریہ تحریر شاہد لطیف غلط اعمال مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ جائز ونا جائز ، حلال و حرام صرف دینِ اِسلام ہی کی بنیاد نہیں بلکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے اور دنیا کے ہر اک مذہب میں اِن اخلاقیات کی اہمیت ہے۔اکثر اوقات اِنسان کے غلط اعمال ، مرنے کے بعد بھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔اور اگر وہ انسان کوئی مشہور ہستی، طاقتور، عہدیدار یا مقبول عوامی راہنما ہو تو اُس کے نا جائز اعمال کی رُسوائیاں آ سیب کی طرح اُس کے پورے خاندان کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں ۔ایسا ہی بھارت کے راجیو گاندھی کے ساتھ ہوا اور اُس کا خمیازہ رُسوائی کی شکل میں اُن کا خاندان بھُگت رہا ہے۔ اِس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 80 کی دہائی میں راجیو گاندھی کی حکومت نے فوج کے لئے 155mm والی 30 کلو میٹر مار کی410 توپوں کے ٹینڈر جاری کیے۔زیادہ بولی اور فوج کے سالار کی مُخالفت کے باوجود اِن توپوں کے ٹینڈر سوئیڈن کی ایک اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے نام منظور ہو گئے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اِس کمپنی کو ٹینڈر کی دوڑ میں غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا تھا۔اصولاََ بھارتی