Posts

Showing posts from March, 2018

فٹ پاتھ پر اسکول۔۔۔محکمہء تعلیم سندھ پر آفرین

فٹ پاتھ پر اسکول۔۔۔محکمہء تعلیم سندھ پر آفرین  تحریر شاہد لطیف جھگی اسکول توایک عرصہ سے پاکستان کے مختلف شہروں میں فعال ہیں۔لاہور میں دریائے راوی کے کنارے خاکسار نے بھی ایک جھگی اسکول کا دورہ کیا تھا،جہاں پر تعلیم کا معیار مناسب تھا۔ جھگی اسکول تو سمجھ میں آتے ہیں کہ جھگیوں میں کسی فلاحی تنظیم نے علاقے کے بچوں کے لئے جھگی ہی میں ایک اسکول بنایا اور محنتی اور عوام دوست اساتذہ بھی دستیاب ہو گئے لیکن کلفٹن میں فٹ پاتھ ہی پر ایک فلاحی تنظیم اوشن ویلفئر ایسو سی ایشن ،کچرا اٹھانے والے بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہی ہے۔ اِس ’ فٹ پاتھ اسکول‘ سے متعلق بات اعلی عدالت تک جا پہنچی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو کلفٹن فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کو فٹ پاتھ پر پڑھانے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ شنوائی میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سُنا ہے سیکریٹری تعلیم نے کچھ نہیں کیا ۔ اُن سے کہیں کہ اب وہ عدالت احتیاط سے آئیں۔ہم نے سیکریٹری تعلیم کو کہا تھا کہ وہ خود دورہ کریں اور پیشی پر ذاتی حیثیت سے آئیں۔عدالتِ عالی

Foot Path School ...... Mahekmah Taleem Sindh Par Aafreen !

Image
سنیچر 31 مارچ، 2018 کے نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم 

دنیائے گائیکی کا ایک بڑا نام، احمد رشدی

احمد رُشدی ( 1938سے 11 اپریل 1983) تحریر شاہد لطیف 80 کی دہائی میں، پاکستان ٹیلیوژن کراچی مرکزکے شعبہ پروگرام میں خاکسار کو ملک کی نامور شخصیات کوقریب سے دیکھنے ، اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ۔ ان کے ساتھ کام کرنے کا تجر بہ اور ان کی فنکارانہ زندگی کی باتیں شاید پڑھنے والوں کو دلچسپ لگیں ۔جیسے احمد رشدی جو پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ فلمی دنیا میں ان کی آمد ریڈیو پاکستان کراچی مرکز کے ذریعہ ہوئی۔ جہاں 50 کی دہائی کے اوائل میں ریڈیو سے ان کی آواز میں بچوں کے پروگرام کا یہ گیت نشر ہوا :’’ بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی۔۔۔‘‘ یہ آج بھی دلچسپی سے سنا جاتا ہے ۔احمد رشدی کی اس کامیابی کا سہرا مہدی ظہیر صاحب کے سر ہے جو اس گیت کے شاعر اور موسیقار تھے ۔ کُچھ ہی عرصہ بعد احمدرُشدی ملکی فلمی صنعت کے سنہری دور کا ایسا ستارہ ثابت ہوا جس کی تابندگی کم و بیش30 سال جاری رہی۔ رُشدی صاحب کے مشہور فلمی گیتوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اداکار وحید مراد کی فلموں کی اوپر تلے کامیابی کا ایک اہم سبب احمدرُرشدی کے پلے بیک گانے بھی تھے۔ 80 کی دہائی، صحت کے حوالے

Duniya-e-Gayaiki Ka Aik Bara Naam, Ahmad Rushdi

Image
روزنامہ نوائے وقت کی مورخہ 27 مارچ کی اشاعت

بھارتی اور پاکستانی فلمی صنعت کے نامو ر گیت نگار تنویر نقوی

بھارتی اور پاکستانی فلمی صنعت کے نامو ر گیت نگار تنویر نقوی تحریر شاہد لطیف سید خورشید علی المعروف تنویر ؔ نقوی ( 6 فروری 1919 سے یکم نومبر 1972): تنویر ؔ نقوی برِ صغیر پاک و ہند کے ایک نامور گیت نگار ہیں۔19سال کی عمرہی میں اُنہوں نے فلم ’’ شاعر‘‘ ( 1938) کے لئے گیت لکھے۔اِن کے فلمی گیت پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہی عوام میں بے حد مقبول ہو گئے تھے۔ نومبر 1946میں بننے والی ہدایت کار محبوب کی فلم ’’ انمول گھڑی‘‘نے اُن کی شہرت میں اضافہ کیا ۔اِس فلم کے گیت: ’’ آواز دے کہاں ہے۔۔۔‘‘، ’’ آ جا میری برباد محبت کے سہارے۔۔۔‘‘، ’’جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ۔۔۔‘‘ بے انتہا مقبول ہوئے ۔نوشاد علی مذکورہ فلم کے موسیقار تھے۔ اِس کے بعد 23 مئی 1947 کو نمائش کے لئے پیش ہونے والی ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’ جگنو‘‘ کے گیت مقبول ہوئے ۔مثلاََ فیروز نظامی کی موسیقی میں نورجہاں اور محمد رفیع کی آواز میں : ’ ’ یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے۔۔۔‘‘ ۔ آزادی کے بعد یہ پاکستان آ گئے اور یہاں اُردو اور پنجابی فلموں کے گیت تخلیق کئے۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ’’ تیری یاد‘‘ کی

Bharti Aur Pakistani Filmi Sanat Kay Namqar Geet Nigar, Tanveer Naqvi

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت ، مورخہ 27 مارچ کو شائع ہونے والی تحریر

Ba- Asar Niji Schoolon Ki Fisoon Main Loot Maar ............

Image
۔مارچ 17 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم ' اُلٹ پھیر' 

’’بااثر‘‘ نجی اسکولوں کی فیسوں میں لوٹ مار۔۔۔

’’بااثر‘‘ نجی اسکولوں کی فیسوں میں لوٹ مار۔۔۔ تحریر شاہد لطیف لفظ’ با اثر ‘ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جب ’’ با اثر نجی اسکول‘‘ کہا جا ئے تو ہر خاص و عام بخوبی جان جاتا ہے کہ یہاں ’’ با اثر ‘‘سے مراد اِ ن نجی اسکولوں کی پُشت پر ایک با اثر طاقت ہے جِس کے سامنے قانون اور قاعدے کی کوئی حیثیت نہیں۔کیا محکمہء تعلیم اور کیا کوئی اور ادارہ۔۔۔یہ ہی سب سے مقتدر ہیں۔ یہاں گلی محلے کے ’ انگریزی ناموں ‘ والے اسکول مراد نہیں بلکہ صرف وہ دو چار اسکول ہیں جو آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی ۔اِس کی ایک مِثال پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے حکم دیا کہ اسلام آباد کے گھروں میں قائم کردہ تمام کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں کہیں اور منتقل کر دی جائیں۔اِس پر تیز رفتاری سے عمل ہوتا نظر بھی آیا ۔بیوٹی پارلر، ٹیوشن سنیٹر،بوتیک، پراپرٹی والے اور ایسے بہت سے دوسرے لوگ وہاں سے چلے گئے۔ لیکن رہائشی علاقوں میں مکانوں کے بیچ، یہ نام نہاد’ خواص ‘‘ اسکول ’’ ڈنکے کی چوٹ‘‘ پر بدستور قائم رہے۔ چوہدری نثار اپنے دور کے دبنگ وزیر کہلائے جاتے ہیں لیکن ان اسکولوں کو رہائشی علاقے سے ن

دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو !

دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو !  راوی سیّد سلیم حیدر کاظمی    تحریر شاہد لطیف 1982-1983 کی بات ہے 22نمبر چنگی، ٹینچ بھاٹا، راولپنڈی کے رہنے والے (فرضی نام) شاہد کاظم صاحب جی ایچ کیو برانچ میں واقع ایک معروف بینک کے منیجر تھے پھر ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ اور اُس کے بعد سرکل ایگزیکیٹیو ہو گئے۔ مجھے ایف آئی اے کی تربیت مکمل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک معاملے کی تحقیق کے لئے مجھے راولپنڈی کینٹ میں واقع ایک معروف بینک میں تعینات کیا گیا۔و ہیں پر یہ کاظم صاحب تھے جو ایک چلتا پرزہ شخصیت تھے۔اُن کے بیگم شفیقہ ضیاء الحق سے قریبی مراسم تھے اورانہیں بہن کہتے تھے۔ ہماری اطلاع کے مطابق شاہد کاظم صاحب کی بینک ملازمت اور ترقیوں میں یہ تعلقات اہمیت کے حامِل تھے۔ اسی طرح صدر ضیاء الحق کی صاحبزادی زین بھی اُن سے بہت مانوس تھی۔ میرے ذمہ ایک تفتیش لگائی گئی جِس کا تعلق مطلوبہ برانچ سے تھا ۔ معلومات کے مطابق اعلیٰ درجہ کی منشّیات /نارکوٹکس یہاں سے مستقل بنیادوں پر ناروے بھیجی جا تی تھیں اور اس کا تعلق انہی کاظم صاحب سے جوڑا جا رہا تھا۔ یہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے مجھے ا

نگار ایوارڈ

نگار ایوارڈ تحریر شاہد لطیف 34ویں نگار ایوارڈ کی تقریب کے دوران الیاس رشیدی صاحب نے ایوارڈ کے اس سلسلہ کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ فلمی صنعت کی زبوں حالی کی وجہ سے کرنا پڑا۔ اِس نگار ایوارڈ میں میڈم نورجہاں نے اسٹیج پر آ کر کہا کہ جب تک الیاس صاحب نگار ایوارڈ کے ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتے ہم لوگ ہال سے واپس نہیں جائیں گے۔اِس پر رشیدی صاحب کو کہنا پڑا کہ جب تک وہ زندہ ہیں آپ لوگوں کی خاطر نگار ایوارڈ قائم رہے گا۔ نگار ایوارڈ کو پاکستان کے سب سے بڑے اور مستند ایوارڈ کی حیثیت حاصل ہے۔ملکی فلمی صنعت کی ترقی میں اس ایوارڈ کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔الیاس رشیدی صاحب نے پاکستانی فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لئے اس ایوارڈ کا آغاز کیا تھا۔1997میں الیاس رشیدی صاحب کے انتقال کے بعد بھی باقاعدگی سے 2004 تک یہ ایوارڈ ہوتا رہا۔ لیکن فلمی صنعت کے تلے اوپر بحرانوں کی وجہ سے جب کہ فلمیں نہیں بن رہی تھیں ایک مرتبہ جو نگار ایوارڈ کا سلسلہ منقطع ہوا تو پھر ہوتا ہی چلا گیا۔ایسے میں ایوارڈ کی تقریب کا بھی کوئی جواز نہ تھا۔46سال باقاعدگی سے دیے جانے والا قابلِ ذکر ایوارڈ 20

Nigar Awards

Image
نگار ایوارڈ

Nisar Bazmi

Image
 یہ تحریر 6 مارچ کے روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد اور لاہور سے شائع ہوئی

موسیقار نثار بزمی

موسیقار نثار بزمی تحریر شاہد لطیف میں نے 1981 کے اوائل میں اخبارات میں پڑھا کہ ملک کے نامور موسیقار نثار بزمی لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے ہیں اور ای۔ایم۔آئی۔ پاکستان ، کراچی اسٹودیوز میں گلوکارہ رونا لیلےٰ سے ایک تجرباتی دھمال ریکارڈ کروا رہے ہیں۔خاکسار اُ س وقت پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز سے منسلک تھا۔ پروڈیوسر سلطانہ صدیقی صاحبہ سے بات کی کہ کیوں نہ اپنا ہفتہ وار موسیقی کا پروگرام ’’ سُر سنگم ‘‘ نثار بزمی صاحب سے کروایا جائے۔ دوسرے ہی روز دن کے گیارہ بجے EMI کراچی اسٹوڈیوز کے کنٹرول روم میں پہلی دفعہ نثار بزمی صاحب کو دیکھا جو مکسنگ Mixing کروا رہے تھے۔راقم نے اندر داخل ہو کر بہ آوازِ بلند السلام علیکم کہا، انہوں نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا او ر کام میں مصروف ہو گئے۔ وقفہ میں میری طرف رُخ کر کے آنے کا مقصد پوچھا۔ میرے مونہہ سے بیساختہ نکلا : ’’ آپ کے بارے میں جیسے سنا تھا ویسے ہی پایا‘‘۔ اس پر مسکر ا کر پوچھا : ’’ کیا سنا تھا؟‘‘ ۔میں نے جواباََ کہا ’’ یہ کہ بزمی صاحب بہت سخت اور غصہ والے ہیں‘‘۔اس بات پر دوبارہ مسکرا کر بولے ’’ دیکھو میاں !کسی نے پیس

شاباش چیئرمین نادرا۔۔۔

شاباش چیئرمین نادرا۔۔۔ تحریر شاہد لطیف ایک عرصہ سے قومی اخبارات میں عوام کے ساتھ نادرا کے عملے کے ناروا سلوک کے بارے میں عوامی شکایات شائع ہو رہی تھیں۔ سیاسی پارٹیوں میں سے جماعتِ اسلامی پاکستان واحد سیاسی پارٹی ہے جِس نے ہر میسر پلیٹ فارم پر اِن کے خلاف آواز اُٹھائی۔بہر حا ل جمعہ23 فروری اِس سلسلہ میں عوام کے لئے ایک یادگار دِن ثابت رہا۔کیسے؟ ؟۔۔۔ شکر ہے کہ اِن شکایات کی چھان بین کے واسطے نادرا کے چیئرمین عثمان مبین صاحب خود کراچی گئے اور نادرا کے مختلف مراکز میں عام سائل کی حیثیت سے دورے کئے جِن کے نتیجے میں بعض اہلکار برطرف اور کچھ معطل ہو گئے۔ چیئرمین صاحب نے سائٹ ایریا کے میگا سینٹر میں ایک عام شہری کی حیثیت سے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ اَس طرح انہیں لوگوں کی باتوں سے ان کے مسائل کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا۔چیئرمین صاحب کو یہاں کے عملے میں کوئی پہچان نہ سکا۔وہاں ویٹنگ روم میں جب تک چیئرمیں صاحب بیٹھے رہے اُس وقت تک دو کاؤنٹروں پر اہلکار مسلسل غیر حاضر رہے۔جب عثمان صاحب کی باری آئی تو ایک کاؤنٹر سے نادرا کے اہلکار نے اُن کی درخواست بغیر کوئی وجہ

Shabash Chairman NADRA .........

Image
  تین "مارچ کے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر   3