Posts

Showing posts from December, 2018

Patang Bazi Ki Ijazat ...... Han Ya Naheen !!

پتنگ بازی کی اجازت۔۔۔ہاں یا نہیں تحریر شاہد لطیف سنسکرت میں بسنت کا مطلب ’’ بہار ‘‘ کا موسم ہے جو ماگھ کی 5 تاریخ کو منایا جاتا ہے ۔ عام طور پر یہ فروری کے مہینے میں آتا ہے۔ہندووں کی مقدس کتاب وید کے مطابق یہ ’ سَر سوَتی ‘ دیوی کا دِن ہے۔خوشی اور پوجا پاٹ کے ان دنوں میں نئے کپڑے پہن کر پتنگیں اُڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اُٹھایا جاتا ہے۔بعد میں ہندوستان کے دیگر مذاہب کے لوگ ثقافت کے طور پر اس میں شریک ہونے لگے۔ پتنگ بازی کیا بسنت اور کیا دیگر مہینے۔۔۔ کب نہیں ہوتی!! پتنگ باز جب دل کرے یہ شوق پورا کرتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے لاہور میں جس کروفر کے ساتھ بسنت منائی جاتی رہی اُس کا اثر پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی نظر آیا۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ لاہور میں باقاعدہ پتنگ بازی کی صنعت بن گئی۔اس کو وہ مشہوری ملی کہ غیر ممالک سے لوگ لاہور میں خاص طور پر بسنت منانے کے لئے آنے لگے۔اندرون لاہور بعض ’ نامور ‘ حویلیاں اس سلسلے میں بہت زیادہ مشہور ہو گئیں۔ پاکستانی کھلاڑی اور فلمی شخصیات نے پتنگ بازی میں بھر پور حصہ لیا۔60 اور 70 کی دہائیوں کے بارے میں علی سفیان آفاق

پتنگ بازی کی اجازت ۔۔۔۔۔۔ ہاں یا نہیں !!

Image
روزنامہ نوائے وقت کراچی / کوئٹہ کی 29 دسمبر کی اشاعت کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا کالم اُلٹ پھیر

Muzr e Sehat Khanay Say Halakatain ..... Laboratory Report Aa Gayee

مُضرِ   صحت کھانے سے ہلاکتیں۔۔۔لیبارٹری رپورٹ آ گئی تحریر شاہد لطیف نومبر کی 10 تاریخ کو زمزمہ کے علاقے کے معروف ریستوراں  ’ اریزونا گرِل ‘  کا مضرِ صحت کھانے سے دو کمسن بھائیوں کی ہلاکت کی بالآخر کراچی کی پولیس انتظامیہ نے تصدیق کر دی۔ بد نصیب خاندان نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ یہ اموات اسی ریستوراں کے مضرِ صحت کھانے سے ہوئی ہیں۔ کراچی پولیس نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 322۔قتل بالسبب اور 272 ۔کھانے پینے میں ملاوٹ کے تحت کیس رجسٹر کیا تھا۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز ابرار شیخ نے ریستوراں سیل کر کے مذکورہ ریستوراں کو حال ہی میں صفائی کے انتظامات بہتر بنانے کا نوٹس دیا تھا۔ جس روز یہ ریستوراں سیل کیا گیا اُس کے دوسرے دن خفیہ اطلاع ملی کہ زمزمہ ہی کے علاقے میں مشتبہ انداز میں ایک گودام سے مال لوڈ ہو رہا ہے۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ ریستوراں کے گودام سے درآمد شدہ گوشت کے ڈبے اور دیگر اشیاء سوزوکی میں لوڈ ہو رہی ہیں۔ جب چھاپہ مارا تو درجنوں ڈبوں میں 2014 کا امریکہ سے درآمد شدہ زائد المد ت گوشت موجود تھا جس کی ا یکسپائری تاریخ 24 فروری 2015 تھی۔ گودام کے نگ

مُضرِ صحت کھانے سے ہلاکتیں ۔۔۔۔ لیبارٹری رپورٹ ۤ گئی

Image
 "روزنامہ نوائے وقت کراچی / کوئٹہ کی 22 دسمبر کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر

" خارِجِ موضوع " مصری ادب سے انتخاب تحریر : اَبو ا لمعا طیٰ ابو ا لنجا ترجمہ : رِمثہ شاہد

خارِجِ موضوع مصری ادب سے انتخاب تحریر : اَبو ا لمعا طیٰ ابو ا لنجا ترجمہ : رِمثہ شاہد ماسٹر حسین نے آخری کاپی کی تصحیح کے بعد جھنجھلاہٹ کے ساتھ اسے کاپیوں کی ایک چھوٹی ڈھیری پر دے مارا۔پھر گہرا سانس لے کر کچھ دیر کے لئے آنکھیں بندکر لیں۔اُن کی آ نکھیں اِن آڑھی تِرچھی لکیروں کو دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھیں جن کے لئے طالبات کا اصرار ہوتا ہے کہ صرف ان کی تصحیح کی جائے، اور وہ غلط کام دوبارہ صحیح لکھنے کی ذحمت نہ کرتیں ۔ اُستاد حسین نے گرم گرم چائے کی پیالی سے ایک گھونٹ لیا جو ابھی ابھی ان کا ملازم لے کر آیا تھا۔ پھر انہوں نے ہاتھ میں تھامی پیالی سے نکلتے دھوئیں پر نظریں جما دیں۔انہیں جب بھی کسی گھمبیر مسئلے کا سامنا ہوتا تو وہ ایسا ہی کرتے تھے۔اُستاد حسین طویل عرصے سے د رس و تدریس سے منسلک تھے۔ طالبات کے تدریسی مسائل کو احسن طریقے سے حل کر دیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ جو مسئلہ  د رپیش تھا اُس نے ماسٹر صاحب کے اعصاب کو شل کر دیا تھا۔طالبات کے اس گروہ میں ساری کی ساری طالبات دیے گئے موضوع سے باہر نکل جاتی تھیں۔آخر کیا چیز انہیں موضوع سے بھٹکاتی ہے، یہ بات وہ

Mosiqar Baba G A Chishti

پاکستانی فلمی موسیقی کی بنیاد رکھنے والے بھارتی فلمی موسیقار خیام اور پاکستانی موسیقار رحمٰن ورما کے اُستاد وہ پہلے موسیقار جنہوں نے 1947کے بعد سب سے پہلے 100فلموں کی موسیقی دی ایک دِن میں 6 عدد فلمی گیت خود لکھنے، دھُن بنا کر صدابند کروانے کا ریکارڈ قائم کرنے والے موسیقاروں کے موسیقار بابا جی اے چشتی، صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی ( 17 اگست 1905سے 25 دسمبر 1994) تحریر شاہد لطیف  بابا جی اے چشتی پر قلم اُٹھانا کوئی مذاق نہیں۔ ایک ایسی شخصیت پر لکھنا جس نے پاکستانی فلمی موسیقی اور فلمی صنعت کو خونِ جگر سے پالا ۔۔۔ بہت جی گُردے کا کام ہے۔ بابا جی کی موسیقی نے ایسا جادو کیا کہ محض دو کامیاب ترین فلموں کی کمائی سے لاہور میں دو نئے فلم اسٹوڈیو بن گئے۔ ایور نیو پکچرز کی فلم ’’ دُلّا بھٹی ‘‘ جمعہ 6 جنوری 1956 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس سُپر ہِٹ فلم کے پیسوں سے ایور نیو اسٹوڈیو قائم کیا گیا۔ پھر جمعہ 22 فروری 1957 کو ملِک ٹاکیز کی فلم ’’ یکے والی‘‘ ریلیز کی گئی۔یہ لاہور کے ’ کیپیٹل‘ سینما میں 50 ہفتے مسلسل چلی۔ اداکارہ مسرت نذیر نے ٹائٹل رول ادا کیا ۔اس فلم کے بے

پاکستانی فلمی موسیقی کی بنیاد رکھنے والے بابا جی اے چشتی

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی/ کوئٹہ کی 18 دسمبر کی اشاعت میں صفحہ نمبر 9 پر شائع ہونے والی تحریر

Pakistani Awaam Mutna'n aur Khush Kioun ....

پاکستانی عوام مطمئن اور خوش کیوں۔۔۔ تحریر شاہد لطیف میں نے 10دسمبر کو سہہ پہر 3:40 بجے راولپنڈی سے کراچی کے لئے پاکستان ریلوے کی ’’ گرین لائن‘‘ میں اپنی نشست محفوظ کروا رکھی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے بالکل نزدیک ایسا ٹریفک جام ہوا کہ اِدھر میں اسٹیشن میں داخل ہو ا اُدھر ریل گاڑی نکلی۔ بیساختہ مجھے قائمؔ چاند پوری یاد آگئے: ’ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند، دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا ‘ ۔پاکستان ریلوے کے قاعدے کے مطابق اگر میں گاڑی چھوٹنے کے 3گھنٹے کے اندر ریلوے سرٹیفیکیٹ (CM-327) بمعہ Cancellation (AD) سِلپ جو کہ ( ہیڈ کلکٹر اسٹیشن ماسٹر) سے دستیاب ہو تی، حاصل کر لیتا پھر اس کو بذاتِ خود جا کر منظور کراتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مجھے ادا شدہ ٹکٹ کی رقم 50فی صد مل سکتی تھی۔نہ جانے ہمارے ہاں آسان کام کو مشکل کیوں بنا دیا جاتا ہے!! بہرحال ،میں نے معلوم کیا کہ کون سی گاڑ ی کراچی جا رہی ہے۔بتایا گیا 5 بجے ’’ ہزارہ ایکسپریس‘‘ جانے والی ہے۔ مجھے اگلے روز کراچی پہنچنا ضروری تھا ۔ اتنا وقت نہیں تھا کہ مطلوبہ فارم لیتا ، اس کو بھرتا اور ہیڈ کلکٹر اسٹیشن ماسٹر سے منظور کروا کر ’’ گرین لائ

پاکستانی عوام مطمئن اور خوش کیوں۔۔۔۔۔۔۔

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی/ کوئٹہ کی 15 دسمبر کی اشاعت کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا کالم  اُلٹ پھیر

Film-saaz, Hidayat-kaar, Kahani o Manzar Namah Nigar awr Mosiqaar Khwaja Khursheed Anwar ...... Sitarah-e-Imtiaaz

فلمساز، ہدایتکار، کہانی و منظر نامہ نگار اور موسیقار خواجہ خورشید انور ۔۔۔ ستارہ ء امتیاز  تحریر شاہد لطیف خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1912 کو محلہ بلو خیل، میانوالی میں پیدا ہوئے۔شاعرِ مشرق علامہ اقبا ل ؒ کی اہلیہ اِن کی خالہ تھیں۔خواجہ صاحب کے والد خواجہ فیروز الدین لاہور کے کامیاب بیرسٹر تھے۔ بیرسٹر صاحب کو کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سننے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔وہ گراموفون ریکارڈوں کا زمانہ تھا۔یہ اِن کے ہاں ایک کثیر تعداد میں موجود تھے۔گھر میں چھوٹی بڑی موسیقی کی محفلیں ہوتی رہتی تھیں۔خواجہ خورشید انور کی اُستاد توکل حسین، رفیق غزنوی، اُستاد عاشق علی خان، اُستاد عبدالوحید خان، اُستاد غلام علی خان، فیروز نظامی جیسی شخصیات سے ملاقات رہتی تھی۔میرے خیال سے ان ہی محفلوں کی وجہ سے خواجہ صاحب کو کلاسیکی موسیقی سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اور یہ جاننے کی جستجو بھی ہوئی کہ راگ راگنی تو ایک ہی ہوتے ہیں لیکن گھرانوں کی گائیکی الگ الگ کیوں ہے؟ موسیقی کی تعلیم انہوں نے باقاعدہ اُستاد توکل حسین سے 1934 میں حاصل کرنا شروع کی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1