کہاں وہ...کہاں یہ ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ-٢
کہاں وہ...کہاں یہ ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ-٢
تحریر شاہد لطیف
پاکستان بننے کے بعد سے 1958 کے پہلے مارشل لاء تک ،مسلم لیگ کے یہ 5 عدد وزرائے اعظم رہے : لیاقت علی خان ؒ ، خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرا،چوھدری محمد علی اورابراہیم اسماعیل چُندریگر ۔ چوہدری محمد علی اور چُندریگرصاحبان کی درمیانی مدت،عوامی لیگ کے حُسین شہید سُہروردی12ستمبر 1956سے 17 اکتوبر 1957تک پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے۔آئی۔آئی۔چُندریگر صاحب کے بعد ریپبلیکن پارٹی کے ملک فیروز خان نون 7 اکتوبر 1958 مارشل لاء لگنے تک ملک کے آخری وزیرِاعظم رہے۔ مسلم لیگ مسلسل 9 سال اقتدار میں رہی۔ اِس دور میں ملک میں اچھا بُرا جو ہُوا، یہ جماعت براہِ راست اُس کی جواب دہ ہے۔صرف برسرِ اقتدار لیگی قیادت ہی نہیں بلکہ وہ تمام سینیئرمسلم لیگی بھی جو سازشوں اور جمہوریت کش اقدامات کے گٹھ جوڑ پر خاموش رہے۔ شایدہی کوئی ایسی مِثال پیش کی جا سکے کہ قائدؒ کے اُس وقت کے مسلم لیگی ساتھیوں نے اِس خرافات کے خلاف کوئی جدوجہد کی ہو ۔ اگر وہ مستقبل میں ملک کی خراب سیاسی صورتِ حال دیکھ رہے تھے تواعلانیہ مسلم لیگ چھوڑ کیوں نہ دی؟ کیاروزِ اول سے وفاق اور مغربی پاکستان کی صو بائی اسمبلیوں میں جاگیرداروں کا قبضہ نہیں تھا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب طے ہو گیا کہ پارٹی کے عہدے دار حکومتی یا سرکاری عہدہ قبول نہیں کریں گے تو پھر قا ئدِ اعظمؒ کی رحلت کے فوراََ بعد مسلم لیگ کی صدارت وزیرِ اعظم کو کیوں دے دی گئی؟ اور وزیرِ اعظم صاحب نے کیوں کر قبول کر لی؟ اِس اقدام کے خلاف کیا کوئی ایک بھی آواز بُلند ہوئی؟
اب آتے ہیں ایک ایسے نام کی جانب جِس نے اِس ملکِ پاکستان کے بِگاڑ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا اور اِس سب کی ذمّہ دار بھی مسلم لیگ خود ہے۔وہ نام ہے میجر جنرل اسکندر مرزا کا۔یہ فتح علی مرزا ( 1949۔1864) کی پہلی اولاد تھے۔فتح علی کا دادا کوئی اور نہیں بلکہ میر جعفر تھا جو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی علامت بن چکا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور رابرٹ کلایؤ کے آلہء کار بن کر بنگال کے نواب سراج الدولہ سے غداری کی اور اپنا نام رہتی دنیا تک بے وفائی، غداری اور ملک فروشوں میں لکھوالیا۔
قیامِ پاکستان کے وقت اسکندر مرزا فوج میں کرنل کے عہدے پر فائز تھے۔لیاقت علی خان کی انتظامیہ میں یہ پہلے ڈیفنس سیکریٹری متعین ہوئے۔شاید وزیرِ اعظم اُس وقت برطانوی وائسرائے طرز کی انتظامیہ چاہتے تھے جو نوکر شاہی، پولیس اور فوج سے چلائی جائے۔1950 میں اِن کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی منظوری سے بریگیڈئر کے عہدے سے بائی پاس کر کے براہِ راست میجر جنرل بنا دیا گیا( ایسی کوئی اور مثال ہو تو راقِم کو ضرور آگاہ کیا جائے)۔1951 میں وزیرِ اعظم نے برّی،بحری اور فضائی افوج کے پاکستانی سربراہان مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جو پہلے غیر ملکی ہوا کرتے تھے۔ جنرل ہیڈ کوارٹر نے اس سلسلہ میں 4سینیئر میجر جرنلوں کے نام وزیرِ اعظم
کو بھیج دیئے۔ اِن میں سے میجر جنرل افتخار خان منتخب ہوئے لیکن کمان سنبھالنے سے قبل ’ نا معلوم ‘ وجوہات کی بِنا پر ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اب اس فہرست میں سینیئر ترین میجر جنرل اکبر خان کا نمبر تھا لیکن اسکندر مرزا کی سیاست شروع ہو گئی۔جِس میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خانؒ کو ( نہ جانے کون سے) دلائل سے باور کرایا گیا کہ آرمی چیف کے عہدے کے لئے موزوں ترین شخص کا تو نام ہی اِس فہرست میں نہیں، جو باقی لسٹ والے حضرات میں سب سے جونیئر بھی تھا۔یہ تھے میجر جنرل ایوب خان۔حیرت انگیز بات یہ کہ لیاقت علی خانؒ نے یہ منطق مان بھی لی اور اپنے سے کہیں سینیئر افسران کو بائی پاس کراتے ہوئے اسکندر مرزا نے سیاسی چال کامیابی سے چلی اور ایوب خان کو لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے 17 جنوری 1951 کو لیاقت علی خانؒ نے ملک کا پہلا پاکستانی کمانڈر ان چیف مقرر کر دیا۔
گورنر جنر ل غلام محمد نے 29 مئی 1954 کو اسکندر مرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر بھیج دیا ۔ یہاں اُنہوں نے کیا کیا نہیں کیا یہ کالم اُس کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اپنے ناعاقبت انگیز رویہ سے اسکندر مرزا نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دِلوں میں پاکستانی حکومت کے خلاف نفرت کے بیج بو دیئے۔ جون 1955 میں اُن سے گورنری واپس لے لی گئی لیکن جو بگاڑ ہو نا تھا وہ ہو چکا۔
24 اکتوبر 1954 کو اِنہیں مسلم لیگی وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا نے وزیرِ داخلہ بھی مُقرر کر دیا ۔یہ اِس عہدے پر 7 اگست 1955 تک رہے۔اِس دوران اُنہوں نے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنانے کے کام کا آغاز کرایا ؛ جِس کی یہاں کے سیاست دانوں اور عوام نے بہت مخالفت کی۔اِسی دور میں اِن کو دولتِ مشترکہ اور کشمیر کے معاملات بھی سونپ دئیے گئے۔گویا انتظامیہ میں ایک اکیلے شخص کا کتنا زیادہ سیاسی اثر و رسوخ ہو گیا جو کسی بھی صاحبِ عقل کے لئے صاف صاف خطرہ کی گھنٹی ہے۔یہی زمانہ تھا جب (برائے نام) گورنر جنرل غلام محمد پر فالج کا ایک اور حملہ ہوا اور وہ دو ماہ کی رُخصت پر علا ج کی غرض سے برطانیہ چلے گئے۔جاتے جاتے 7 اگست 1955 کو اسکندر مرزا کو عارضی گورنر جنرل بنا گئے(واقعی بہت ہی خوب .... ہر ایک عہدے کے لئے پورے ملک میں یہی واحد شخص ...... ) ۔اَس مہربانی پر مرزا موصوف نے غلام محمد کو گورنر جنرلی سے ہی باہر کر دیا اور خود 6 اکتوبر 1955 کو یہ عہدہ سنبھال لیا۔ ( مسلم لیگی قیادت خاموش تماشائی بنی رہی)اُس وقت کے مسلم لیگی وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا سے اسکندر مرزا نے زبردستی استعفیٰ لے کر امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیج دیا (حیرت ہے کہ یہ سب مان بھی لیا گیا)۔ ایک شخص جو وزارتِ عظمیٰ سے زبردستی کے استعفیٰ دینے سے اذیت کا شکار تھا اُس نے اب امریکہ میں پاکستان کا سفیر بن کر اپنے ملک کی بھلا کیا خاک خدمت کر نا تھی؟
12 اگست 1955 کو اُس وقت کے مسلم لیگی وزیرِ خزانہ چوہدری محمد علی کو وزیرِ اعظم بننے کی دعوت دی ( جو قبول کر لی گئی)۔اِس افراتفری کے زمانے میں ایک واحد اچھا کام 1956 کا آئین بننا ہے۔اِس کا سہرا چوہدری محمد علی کے سر ہے۔
23 مارچ 1956 کو نئے آئین کے تحت اسکندر مرزا کو متفقہ طور پر ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا ( اِ نا للہ وا نا الیہٖ راجعون)۔اب اِس کو کوئی کیا کہے کہ اتنا سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کیا صدارت کے لئے یہی صاحب رہ گئے تھے؟۔مانا کہ صدر اُس آئین کے نزدیک محض ملک کے سربراہ کی علامت ہوا کرتا ہے مگر وقار بھی کوئی چیز ہوتی ہے.....۔مشرقی پاکستان میں گورنر کی حیثیت سے اُن کے مظالم تازہ تھے۔ بلوچستان میں قلات والے اِن سے سخت نالاں تھے ( کیوں؟.... یہ کسی اور وقت ....)۔12 ستمبر 1956کو انہوں نے خود ایک سیاسی پارٹی ، ریپبلیکن پارٹی کے نام سے بنائی اور خود ہی اُس کے چئیر مین بھی ہو گئے۔ اِس پر مسلم لیگی وزیرِ اعظم پر دباؤ پڑا اور وہ 12 ستمبر 1956 کو مستعفی ہو گئے۔اِس پس منظر میں صدر اسکندر مرزا نے حسین شہید سُہروردی صاحب کو دعوت دی کہ ریپبلیکن پارٹی کے ساتھ مِل کر حکومت بنائیں۔اُن کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی صدر اسکندر مرزا کے مستقل غیر آئینی دخل اندازی کی وجہ سے سہروردی تو کیا کوئی بھی نہیں چل سکتا تھا۔صدر نے عوامی لیگ کے سہروردی صاحب سے استعفیٰ مانگ لیا۔جِس پرسہروردی صاحب نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔حالات اِس نہج پر آ گئے کہ سہروردی صاحب کو اسمبلی توڑ دینے کی دھمکی سے بلیک میل کر کے 17 اکتوبر 1957 میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔مسلم لیگی ابراہیم اسماعیل چندریگر اسی تاریخ کو نئے وزیرِ اعظم مقرر ہوئے جو بہ مشکل 2 ماہ ہی نکال سکے اور گھر گئے۔
جمہوریت کی کیا تعریف ہے؟پارلیمانی حکومتیں کیسے چلا کرتی ہیں اِس سے اسکندر مرزاکو بھلا کیا لینا دینا تھا۔سیاست دانوں اور عام آدمی کو بھروسہ کے لائق ہی نہیں سمجھا کرتے تھے۔دوسروں کے کام میں مستقل غیر آئینی مداخلت حکومتوں کو چلنے ہی نہیں دیتی تھی۔اب اور کیا کہا جائے کہ 4 منتخب وزرائے اعظم 2 سال میں برطرف کر دیئے گئے۔
(جاری ہے)
.........................................
اختتام
(١٥ مئی ٢٠١٧ کے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں شایع ہونے والے کالم ' الٹ پھیر ' میں مضمون " کہاں وہ... کہاں یہ... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ -٢)
Comments