Posts

Showing posts from June, 2018

تذکرہ سدا بہار موسیقاروں کا :

فلمی حکایتیں تذکرہ سدا بہار موسیقاروں کا   تحریر  وتحقیق شاہد لطیف کلیا ن جی ویر جی شاہ، آنند جی ویر جی شاہ المعروف کلیان جی آنند جی: کلیان جی آنند جی کے نام کو میں 60 کی دہائی سے جانتا تھا تب ریڈیو پاکستان سے بھارتی فلمی گیت بھی نشر ہوتے تھے جنہیں میں بہت شوق سے سُنا کرتا اوراِن کے اکثر گیت مجھے زبانی یاد تھے۔ پھر جب خاکسار 80کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے وابستہ ہوا تو موسیقی کے کئی ایک پروگرام موسیقار کریم شہاب الدین کے ساتھ کئے۔یہ اکثر مجھ سے کلیان جی آنند جی کا ذکر کیا کرتے تھے کہ مشہور ہونے سے پہلے اِن دونوں بھائیوں اور کریم بھائی کی ایک ہی جگہ بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ کریم بھائی بمبئی میں آغا خان آرکیسٹرا کے ذمہ دار تھے اور کلیان جی بھی موسیقی سے لگاؤ رکھتے اور سنجیدگی سے فِلمی دنیا میں آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ کریم بھائی بتایا کرتے تھے کہ اِن دونوں بھائیوں کو موسیقی کا بہت شوق تھا ۔ کلیان جی نے بمبئی میں الیکٹرانک ساز ’ کلے وائیلن‘ clavioline بجانے میں مہارت حاصل کی جِس کے بارے میں اکثر لوگوں کو آگاہی نہیں تھی۔ پھر کلیان جی نے ’’ کلیان

Tazkarah Sadabahaar Mosiqaroon Ka

Image
 روزنامہ دنیا کے 16 جون سے 24 جون سنڈے میگزین میں شائع ہونے والی تحریر۔

ستارہء امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ موسیقار سہیل رعنا ، ایک خوش قسمت اور خوش بخت موسیقار

ستارہء امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ موسیقار سہیل رعنا   ایک خوش قسمت اور خوش بخت موسیقار                                تحریر شاہد لطیف ریڈیو ، فلم اور ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت سہیل رعنا کو کون نہیں جانتا۔موسیقی وجہ شہرت بنی لیکن قسمت اور بخت کے لحاظ سے ہمارے ملک میں ان جیسا کوئی اور نہیں۔ ابتدائی فلموں کے فوراََ بعد ہی پاکستان اور پاکستان سے باہر ، ان کی فلمی دھنوں کا ڈنکا بجنے لگا ۔ میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرامز سے مُنسلک تھا جب 1980 کے اوائل میں ایک دِن اُس وقت کے پروگرامز منیجر نے حکم سُنایا کہ پی،ٹی وی کے منیجنگ ڈائرکٹر ضیاء نثار جالندھری کے لکھے قومی نغمے کو جلدی ریکارڈ کروا کر نشر کروانا ہے۔ میں نے سُہیل رعنا سے اس نغمہ کی دھن بنانے کی تجویز پیش کی جو فوراََ منظور ہو گئی۔یوں پہلی مرتبہ راقِم کی اُن سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تمام ماجرا سُنا کر نغمہ کے بول بتائے جِس پر اُنہوں نے کسی تبصرے کے بغیر کہا کہ نمایاں گلوکار حبیب ولی محمد کو رکھ لو باقی30 / 40 لڑکے لڑکیاں اور کراچی مرکز پر جو بھی گلوکار/ گلوکارائیں

Mosiqar Sohail Rana

Image
 روزنامہ نوائے وقت کی 26 جون کی اشاعت میں صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر جو لاہور، ملتان اور اسلام آباد سے ایک ساتھ شائع ہوئی۔

نگار ایوارڈ یافتہ اور فنکاروں کو تراشنے والے فیاضؔ ہاشمی

نگار ایوارڈ یافتہ اور فنکاروں کو تراشنے والے فیاضؔ ہاشمی  (18اگست 1920سے 29نومبر 2011) تحقیق و تحریر شاہد لطیف فیاضؔ ہاشمی 18 اگت 1920 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کلکتہ گرامر اسکول سے حاصل کی۔آگے چل کر،بھارتی نامور موسیقار او پی نیر کی طرح باقاعدہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بنے لیکن مطب نہیں کیا کیوں کہ میلان شاعری کی جانب تھا جب کہ او پی نیر کی پریکٹس بہت ٹھیک ٹھاک تھی۔ فیاضؔ ہاشمی کے والد سید محمد حسین ہاشمی المتخلص دلگیرؔ ،اچھے شاعر اور بہت مشہور تھیٹر، مدن تھیٹر لمیٹڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ یہ لوگ کلکتہ میں حیات خان لین میں مشہورِ زمانہ ہندستانی ولیم شیکسپئر آغا حشر کاشمیری کے پڑوسی تھے۔ ننھے فیاضؔ نے اپنے والد اور آغا حشر کی ادبی بیٹھکوں سے بہت خوشگوار اثر لیا اور ساتویں جماعت میں ہی13 سال کی عمر میں غزل کہی: چمن میں غنچہ و گل کا تبسّم دیکھنے والو کبھی تم نے حسیں کلیوں کا مُرجھانا بھی دیکھا ہے اُسی زمانے میں مانے ہوئے گائک ماسٹر فدا حسین نے اِن کی لکھی ہوئی غزل ریکارڈ کرائی: ’’ قدر کسی کی ہم نے نہ جانی، ہائے محبت ہائے جوانی۔۔۔‘‘، اس غزل نے برِ صغیر کے ایک کونے سے

ٖFunkaron Ko Tarashnay Wala, Kahani Navis Aur Shayar Fayyaz Hashmi

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 26 کی اشاعت کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر

بنی گالہ پر دھرنا۔۔۔ اور بی بی سی پر عمران خان کا انٹرویو

بنی گالہ پر دھرنا۔۔۔ اور بی بی سی پر عمران خان کا انٹرویو تحریر شاہد لطیف 25جولائی2018بروز بدھ، پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات میں کئی نعرے سننے میں آ تے تھے جیسے ’ روٹی کپڑا اور مکان‘، ’ اسلامی نظام کا نفاذ‘، ’ قومیت‘، ’ سب سے پہلے پاکستان‘، ’ تبدیلی‘ اور اب ’ ووٹ کوعزت دو‘،’ نیا بنے گا پاکستان‘، ’ احتساب سب کا‘وغیرہ۔کڑوا سچ تو یہ ہے کہ عام آدمی تو انتخابات میں کھڑا ہو ہی نہیں سکتا جیتنا تو دور کی بات ہے۔ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا کہ انتخابات میں ایک بہت بڑی تعداد اُن امیدواروں کی ہوتی ہے جن کے پیشِ نظر ( نا جائز ذرائع سے) دولت کا حصول، اختیارات کی طاقت،کسی کمیٹی یا کمیشن کی ممبر شپ، ظاہر ہے وزارت کے مزے کسے عزیز نہیں اور سب سے بڑھ کر ’ہٹو بچو‘ کا پروٹوکال۔ ایسے نئے پرانے امیدوار وں کی منافقت کی حد ہے جب وہ ’’ غریب عوام‘‘ کی فلاح و بہبود کی خاطر ووٹ مانگتے ہیں۔۔۔ بہرحال اصل موضوع کی جانب آتے ہیں وہ ہے مشہورِ زمانہ 126 دن کے پارلیمان کے گھیراؤ والے علامہ طاہر القادری کے ساتھی

Bani Galah Par Dharna

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 23 جون کی اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم "اُلٹ پھیر" 

Filmoon Aur Geetoon Main Eid Ka Din

Image
روزنامہ نوائے وقت،کراچی،لاہور،اسلامآباد اور کوئٹہ سے 19 جون بروز منگل کو بیک وقت شائع ہونے والی تحریر جو صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔

فلموں اور گیتوں میں عید کا دِن

فلموں اور گیتوں میں عید کا دِن تحریر شاہد لطیف ایک زمانہ تھا جب ملک میں فلمساز ،اسٹوڈیو مالکان اور تقسیم کار ، نمائش کنندگان/ سنیما مالکان سے پیشگی معاملات طے کر کے اپنی فلموں کو عید کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ عید پر لگنے والی بیشتر فلمیں بہت عمدہ بزنس کرتی تھیں لیکن میں نے عید پر فلمیں ناکام ہوتے ہوئے بھی دیکھیں جو ایک ھفتہ بھی مکمل نہ کر سکیں۔ شاید نیک شگون کے لئے نئی فلمیں جمعہ کے روز سنیماؤں کی زینت بنا کرتی تھیں۔70 کی دہائی کا ذکر ہے ، راقم کے گھر کے بالکل قریب دو عدد سنیما گھر تھے جہاں میں نے عید پر لگنے والی فلموں کے علاوہ بہت سی فلموں کے پہلے دن کا پہلا شو بھی دیکھا ۔ ایک اسرار اور سنسنی ہوا کرتی تھی کیوں کہ اُس فلم کا ٹریلر دیکھ رکھا ہوتا تھا۔ عید پر لگنے والی فلموں کی تو بڑی بات ہوا کرتی تھی ۔ اُن فلموں کو کامیاب کروانے میں مجھ جیسے لاکھوں افراد کا حصہ ہے۔ اسٹوڈیو مالکان، تقسیم کاروں، سینیما مالکان اور اداکاروں کوسنیما بینوں کا ہمیشہ شکر گزار رہناچاہیے۔ ذکر عید سے شروع ہوا۔اب ہم بات کرتے ہیں عید کے موضوع پر بننے والی فلموں اور گیتو

خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو۔۔۔

خوا ب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو۔۔۔ تحریر شاہد لطیف ملائشیا کے وزیرِ اعظم نے اِس سال 23 مئی کو اپنی اور اپنی کابینہ کے ارکان کی تنخواہوں میں 10 فی صد کٹوتی کا اعلان کر دیاجس کا فوری نفاذ بھی ہو گیا۔جو یہ ثابت کرتا ہے کہ وزیرِ اعظم مہاتیر محمد اپنے ملک کے مالی مسائل کے حل کے لئے بہت سنجیدہ ہیں۔ ملائشیا کی نئی حکومت کا ملک پر US$250 billion کا قرض اتارنے کا یہ قابلِ تعریف اور قابلِ تقلیداقدام ہے ۔تحقیق کے مطابق اِس کٹوتی سے پہلے ملائشیا کی پارلیمان کی ماہانہ تنخواہیں کچھ اس طرح سے تھیں: وزیرِاعظم: رنگٹ ملائشین 22,827 RM US$5,700)، نائب وزیرِ اعظم: RM18,168 ، وزیر: RM14,907 اور نائب وزیر: RM10,848ْ۔آج کل ایک رنگٹ برابر 29.15روپے ہے۔ جب وزیرِ اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا سول سروس کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں بھی کٹوتی ہو گی تو مہاتیر محمد نے کہا : ’’ جب میں 1981 میں وزیرِ اعظم بنا تو میں نے پہلا کام وزیروں اور سول سروس کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں کمی کا کیا تھا۔سول سروس کے اعلیٰ افسران، وزرا سے کہیں زیادہ تنخواہیں پاتے ہیں۔اب یہ اُن پر ہے کہ وہ ملک پر قرضہ کا بوج