Zulfiqar Ali Bhutto Say Bilawal Zardari Tak.....Pakistan Peoples Party Ki Siasi Taarikh-3

ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک......پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ۔۳
تحریر شاہد لطیف


  قریب تھا کہ  حکومت اور اپوزیشن کسی سمجھوتے پر پہنچ جا تے لیکن وہی ہوا جو ۱۹۵۸ میں اُس وقت کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہوا جب اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دھر ایا اور ۵ جولا ئی۱۹۷۷ کو چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ بعد کے اہم واقعات میں ۱۹۷۴ میں ہونے والے نواب محمد احمد خان کے قتل کی پولیس رپورٹ پر کاروائی کا ہونا ہے جِس میں مبیّنہ طور پر بھٹو صاحب کے حکم پر اِس قتل کے کرنے کا ذکر ہے ۔یہ کیس تیز رفتاری سے سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ اور آگے چل کر اپنے سیاسی حریف کو قتل کروانے کا جُرم ثابت ہونے کے فیصلہ کے نتیجہ میں ۴ اپریل ، ۱۹۷۹ کو اُن کی پھانسی پر ختم ہوا۔

بھٹو صاحب کی موت کے فوراََ بعد ، بائیں بازو کے ۶۷ دانشوروں کی سرکردگی میں سوشلسٹ جمہوری اجلاس بلوایا گیا (وہی جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا چئرمین نامزد کیا تھا)۔اجلاس میں پارٹی کے معتبر لیڈران نے پارٹی کی چیرمینی اُن کی بیگم نصرت بھٹو کو سونپ دی جو اُن کے پاس ۱۹۸۲تک رہی جب وہ علاج کے لئے ملک سے باہر چلی گئیں۔

 سابقہ سوویت روس کی پوری سیاسی تاریخ ، عوامی جمہوریہ چین اور سوشلسٹ جرمنی وغیرہ میں، اُن کی پارٹیوں کی لیڈر شپ میں خاندانی اجارہ داری یا غلبہ نہیں ہوا کرتا اور اصولاََ کسی بھی کمیونسٹ،سوشلسٹ یا جمہوری سیاسی پارٹی میں پارٹی انتخابات ہونے لازمی ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ میں ہمیں یہاں بھٹو خاندان کا غلبہ اور موروثیت نظر آتی ہے۔یہ ایک ایسی نظیر ہے جِس پر اب مسلم لیگ (ن)، (ق) اور بعض مذہبی پا ر ٹیاں بھی عمل پیرا ہو گئی ہیں۔

 نصرت بھٹو کئی سال علاج کے لئے ملک سے باہر رہیں تب ان کی بیٹی بینظیر بھٹو پارٹی کی عارضی سربراہ بن گئیں جب کہ نصرت بھٹو چیرمین رہیں۔ ۱۹۸۴ میں بینظیر کو پارٹی چیرمین کہا جانے لگااور جلد ہی سینٹرل ایگزیکیوٹیو کمیٹی نے ان کو تا حیات پارٹی کا چیرمین تسلیم کر لیا اور وہ اپنی وفات ،۲۷ دسمبر ۲۰۰۷تک اِس عہدے پر رہیں۔جمہوری روایات، جمہوریت، سوشلزم، اِسلامی سوشلزم....... سب ایک طرف ..... پیپلز پارٹی گویا کسی بادشاہ کی سلطنت ہو گئی کہ بادشاہ کی اولاد ہی تخت کی وارث ہو ۔ کیا یہی جمہوریت ہوتی ہے؟


۱۲ سال کے طویل انتظار کے بعد پیپلز پارٹی ۱۹۸۸ کے انتخابات جیت کر اقتدار میں آ گئی یوں بینظیر اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بن گئیں۔۱۹۹۰ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے ختم کر دیا ۔اسی سال ہونے والے انتخابات کابینظیر اور اُن کی پارٹی نے بائیکاٹ کیا ۔ ۱۹۶۷میں اپنے قیام کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پیپلز پارٹی ا پوزیشن میں نظر آئی ۔بعد میں ۱۹۹۳ کے عام ا نتخابا ت میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے اشتراک سے یہ دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔یوں ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۳ میں بینظیر نے دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا۔ صدر تو اب بھی وہی غلام اسحاق خان ہی تھے جِن کا بینظیر کو خاصا عبرت انگیز تجربہ حاصل ہو چکا تھالہٰذا اب نئے صدر کے انتخاب کا فیصلہ کیا گیا۔مثل مشہور ہے ، دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے لہٰذا اُمیدواروں کے ناموں پربہت غور و خوص کے بعدبینظیر بھٹو نے فاروق احمد لغاری صاحب کومنتخب کیا۔ یوں فاروق لغاری نے ۱۴ نومبر، ۱۹۹۳ کو پاکستان کے آٹھویں صدر کا حلف اُٹھایا ۔

مگر اب خود پارٹی میں نظریاتی طور پر تین دھڑے نظر آنے لگے: بھٹو ازم، پارلیمینٹیرین اور شیرپاؤ ازم۔ بینظیر کے بھائی، مُرتضیٰ بھٹو کو اپنی بہن کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جِس کی وجہ سے دونوں کے باہمی تعلقات میں دراڑ آ گئی۔ بالآخر ۲۰ ستمبر، ۱۹۹۶ کو مُرتضیٰ بھٹو کراچی میں اپنے گھر کے سامنے مبیّنہ طورپر پولیس کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔ یہ غیر حل شدہ کیس پیپلز پارٹی کے دامن پر ایک بد نما داغ ہے کہ بہن کی وزارتِ عظمیٰ میں بھائی سڑک پر پولیس فائرنگ سے شدید زخمی ہو کر اسپتال میں فوت ہو جائے۔ اِس واقعہ نے پیپلز پارٹی پر بہت سے نا خوش گوار اثرات چھوڑے۔ ابھی بھائی کا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ خلافِ توقع نومبر ۱۹۹۶ میں اُن کی پارٹی کے اپنے صدر، فاروق احمد لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کو استعمال کرتے ہوئے بد عنوانی اور دیگر الزامات کے تحت بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔بینظیر بھٹوکے لئے یقیناًیہ بڑا جھٹکا تھاوہ سپریم کورٹ میں اس امید پر گئیں کہ صدر لغاری کے اِس اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا جائے گا لیکن....... عدالتِ عظمیٰ نے صدر لغاری کے اس جواز کو درست قرار دیا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  یہ مضمون، 24 جون  2017  کے  روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ١١ پر کالم الٹ پھیر میں شایع ہوا .














Comments

Popular posts from this blog