Posts

Showing posts from August, 2017

اداکار، گلوکار،میوزیشن،ارینجر اور موسیقار خالد نظامی

اداکار، گلوکار،میوزیشن،ارینجر اور موسیقار خالد نظامی تحریر شاہد لطیف پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کا میں ہمیشہ مشکور رہوں گا کہ یہاں شعبہ پروگرام میں کام کرنے کے دوران بہت سے فنکاروں سے ملاقات رہی اور کئی ایک کے ساتھ کام کرنے کے مواقع بھی آئے۔ اِن میں ایک بڑا نام خالد نظامی کا ہے۔ میرا ان سے ۸۰ کی دہائی میں بہت زیادہ ملنا جلنا تھا۔ٹیلی وژن ڈراموں میں ان کا نام منجھے ہوئے کامیڈین میں آتا تھا۔کراچی اسٹیج میں بھی بہت مقبول تھا۔اپنے کردار کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے وہ سب کچھ کر گزرتا تھا۔ ڈرامہ پروڈیوسر قیصر فاروق اورشاہد اقبال پاشا صاحبان کے ساتھ ڈرامہ پروڈیوس کرتے ہوئے اُس کی ذہانت کا میں خود گواہ ہوں ۔ ایک ڈرامے میں پھیری والے کا کامیڈی کردار تھا جس کو ادا کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا ۔ریہرسل کے دوران اُس نے کہا کہ مجھے گھنٹہ بھر کی رخصت دو میں ذرا صدر اور پییر الٰہی بخش کالونی کا چکر لگا آؤں۔ پوچھا خیریت؟ جواب ملا : ’’ ذرا پھیری والوں کی صداؤں اور ان کی جسمانی حرکات کا جائزہ لے آؤں ‘‘ ۔ایسی کئی ایک مثالیں ہیں۔ میں نے اِن کو ہر لحاظ سے مکمل فنکار پایا۔  اِن س

Gulokar, Mosiqar aur Adakar Khalid Nizami

Image

پاکستان کا قومی ترانہ دوبارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟

پاکستان کا قومی ترانہ دوبارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟ تحریر شاہد لطیف وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ، حکومتِ پاکستان کی جانب سے ۲۰ اگست کے قومی اخبارات میں آدھے صفحہ کا اشتہار شائع ہوا۔ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ اب دوبارہ نئے سازوں اور آوازوں کے ساتھ صدا بند کیا جانے والا ہے۔ اِس میں کیا ساز ہوں ؟ ان کی تفصیل بھی درج ہے۔یہ بھی واضح درج ہے کہ اب آوازوں کے ’ کاؤنٹر ‘ کا استعمال کروا کر اس کو مغربی رنگ دیا جانے والا ہے۔ موسیقاروں اور فلمسازوں سے تکنیکی اور مالی بنیاد پر پیشکشیں مانگی گئی ہیں۔ اِس ترانے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تفصیل اس کے علاوہ ہے۔ اس اشتہار سے بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں :  سب سے پہلا سوال جو یہ اشتہار پڑھ کر ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ کہ اِس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اِس سلسلے میں ، میں نے بھی تحقیق کی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق ۷۰ ویں یومِ آزادی شایانِ شان منانے کے سلسلے میں مذکورہ وزارت میں ایک اعلی سطح کی میٹنگ ہوئی ۔ سیکریٹری انفارمیشن کی موجودگی میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی طے ہوا کہ پاکستان کا قومی ترانہ اور اُس کا سازینہ نئے زم

Pakistan Ka Qomi Taranah Dobarah .......... Kiyon?

Image

گلوکار اور موسیقار شرافت علی خان

گلوکار اور موسیقار شرافت علی خان (۱۶ اگست ۱۹۲۴ سے ۱۷ اپریل ۱۹۹۱) تحریر شاہد لطیف سُپر ہٹ فلم ’ وعدہ‘ ۱۹۵۷ میں نمائش کے لئے پیش ہوئی جس کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکار وحید الدین ضیاء الدین احمد المعروف ڈبلیو۔زیڈ۔ احمد تھے۔اِس فلم کو مقبول بنانے میں ایک گیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔یہ سدا بہار گیت، شاعر سیف الدین سیف کی نظم ہے جسے موسیقار رشید عطرے کی موسیقی میں گلوکارشرافت علی نے صدا بند کرایا ۔آج ۵۹ سال بعدبھی یہ اسی طرح ترو تازہ اورمقبول ہے ۔ اس  سدا بہار نظم/ گیت کے بول ہیں :   ؎            جب   تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔ اسی فلم میں گلوکارہ کوثر پروین اور شرافت علی خان کا دوگانا:    ؎        بار بار برسیں مورے نین۔۔۔ اور کوثر پروین ہی کے ساتھ ایک اور دوگانا:    ؎       لے چل لے چل منجدھار میں اے دل۔۔۔ بہت مقبول ہوئے ۔ شرافت علی رامپور کے ایک بہت معزز ، مذہبی گھرانے میں ۱۶ اگست ۱۹۲۴ کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد الطاف علی خان اپنے وقت کے ایک قابل اور مستند حکیم تھے۔شرافت بھائی نے علی گڑھ سے ایم۔ایس۔سی کیمسٹری کی سند لی۔تحریکِ پاکستان میں علی گڑھ سے بڑھ چڑھ

Gulokar Aur Mousiqar Sharafat Ali

Image
گلوکار  اور  موسیقار  شرافت علی

کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔پانچواں اور آخری حصّہ

کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔پانچواں اور آخری حصّہ تحریر شاہد لطیف قیامِ پاکستان کے بعد مارچ ۱۹۴۸ میں شیخ القرآان ،مولانا عبد الغفور ہزاروی اور علّامہ ابو الحسنات سیّد محمد احمد قادری نے جمیعت علمائے پاکستان ( جے یو پی ) قائم کی۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے یہ آل انڈیا سُنی کانفرنس کے نام سے مشہورتھی ۔ علّامہ شاہ احمد نورانی ( یکم اکتوبر ۱۹۲۶ سے ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ ) نے الہ آباد یونیورسٹی سے عربی زبان میں بی۔اے کیا اور بعد میں دارالعلوم میرٹھ سے اسلامی فقہ میں سند حاصل کی۔ وہ ۱۹۵۰ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔ شروع میں مسلم لیگ کے ساتھ رہے مگر جلد ہی جمیعت علمائے پاکستان سے منسلک ہو گئے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد دینِ اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے سلسلے میں انہوں نے ۱۹۷۲ میں مکہ مکرمہ میں ’ ورلڈ اسلامک مِشن ‘ قائم کیا۔علّامہ صاحب کو عربی کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ یہ ہمارے ملک کے پہلے عالمِ دین ہیں جنہوں نے آئین میں مسلمان کسے کہتے ہیں یا مسلمان کی تعریف کے ہونے کا مطالبہ کیا۔کافی سخت جدوجہد کے بعد علّامہ

Column Ulat Phair." Kahan woh ... Kahan Yeh ... Dini Jamatoon Ki Siyasi Tarikh Ka Jaizah.Last

Image

Kahaan Woh ... Kahaan Yeh ... Dini Jmaton Ki Siyasi Tarikh Ka Jaizah.4

Image

کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔دینی پارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۴

کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔دینی پارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔4 تحریر شاہد لطیف ۱۹۷۲ میں مولانا مودودی نے خرابی ء صحت کی وجہ سے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ جماعت کی مجلسِ شوریٰ نے میاں محمد طفیل کو نیا امیر منتخب کیا، جو ۱۹۷۲ سے لے کر ۱۹۸۷ تک امارت کے درجے پر فائز رہے۔اِن کی امارت کے شروع کے دِنوں میں ، جماعتِ اسلامی کی طلباء تنظیم، اسلامی جمعیتِ طلباء نے بھٹو حکومت کے خلاف لاہور میں مظاہرے شروع کیے۔ ۱۹۷۳ کے اوائل میں میاں صاحب نے فوج سے بھٹو حکومت کو چلتا کرنے کو کہا۔ جلد ہی جماعتِ اسلامی نے ’ نظامِ مصطفےٰ ‘ کے جھنڈے تلے ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی حکومت کے خلاف ایک جاندار تحریک شروع کی۔ جواب میں حکومت نے تحریک کو جبر سے دبایا۔بڑی تعداد میں جماعت اور جمعیت کے ممبران گرفتار کر لئے ۔اسی دوران ۱۹۷۵ کے انتخابات کے انعقاد کے موقع پر جماعتِ اسلامی کے ممبران کو جبراََ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے سے روکا گیا۔لیکن ۱۹۷۷ کے انتخابات میں متحدہ اپوزیشن، قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے جماعت نے ۳۶ نشستیں حاصل کیں۔پیپلز پارٹی نے ۲۰۰ نشستوں میں سے ۱۵۵ نشستیں حاصل کیں جو اُس پس منظر

S B John گلوکار اور موسیقار ایس۔ بی۔جون

Image

گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون S. B. John, Sunny Benjamin John

’’ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی سرے کا پتھر ہو گیا۔۔۔ ‘‘ گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون  S. B. John Sunny Benjamin John تحریر شاہد لطیف خدائے بزرگ و برتر کی عنایات کو جب نزول ہو تو وہ راتوں رات اپنے بندے کو شہرت کے آسمان کا تارہ بنا دیتا ہے۔فلمی دنیا کے کئی ایک فنکاروں کے ساتھ ایسا ہوا لیکن ان میں سے کئی فنکار فلموں کے حوالے سے غیر فعال ہو گئے ۔ایسی ہی عنایات ایس۔بی۔ جَون پر بھی ہوئیں جب فلم ’ سویرا ‘ کا گیت مقبول زدِعام ہو کر اُن کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔آج یہ گیت کلاسیِک کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ ۱۹۵۹ میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’ سویرا ‘ کاماسٹر منظور کی موسیقی میں فیاض ہاشمی صاحب کا لکھا لا زوال گیت یہ ہے: ؂               تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے              یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے آج ۵۸ سال بعد بھی جَون بھائی کی آواز میں یہ گیت روزِ اول کی طرح مقبول ہے۔آج بھی نوجوان یہ گیت شوق سے سُنتے ہیں۔اِس گیت کو بعد کے آنے والے فنکاروں نے بھی ٹیلی وژن چینلوں پر پیش کیا۔لیکن جَون بھائی کا گایا ہوا اصل گیت آج بھی آب وتاب کے ساتھ روشن

کہاں وہ ۔۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ۔ 3 ۔ روزنامہ نوائے وقت کے 5 اگست، 2017 کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والی تحریر۔

Image

کہاں وہ۔۔۔ کہاں یہ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳

کہاں وہ۔۔۔ کہاں یہ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳ تحریر شاہد لطیف جماعتِ اسلامی، پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتوں میں ایک اہم جماعت ہے۔آج کل اس کے امیر سراج الحق اورجنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ صاحبان ہیں۔ یہ ۲۶ اگست ۱۹۴۱ کو، ۳ شبلی اسٹریٹ، اسلامیہ پارک لاہور میں اسلامی، سماجی اور سیاسی تحریک کے طور پر قائم ہوئی۔غالباََ اس کا محرک مدینے میں بننے والی مسلمانوں کی پہلی اسلامی ریاست تھی۔ مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا نعیم صدیقی، مولانا محمد منظور نعمانی ، مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا ابو الا علیٰ مودودی بانی ممبران میں سے ہیں۔  ۱۱ برس کی عمر میں مولانامودودی نے مولانا شبلی نعمانی کے قائم کردہ ، اورنگ آباد اورینٹل ہائی اسکول کی آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا ۔ یہاں روایتی دینی علوم کو جدید علوم کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مولانا کے والد کا بھوپال تبادلہ ہو گیا۔یہاں اُن کا ساتھ نیاز فتح پوری صاحب کے ساتھ رہا جو جدید علوم کے حامی تھے۔ ۱۹۱۹ میں مولانا دہلی چلے گئے اور دور کے عزیز اور مصلح، سر سید احمد خان کی لکھیکتابیں پڑھیں۔ یہیں پانچ سال مغربی فلس