Kahaan Woh....Kahaan Yeh.... Peoples Party Ki Siasi Taarikh Ka Jaizah.2
کہاں وہ.... کہاں یہ.... پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ۔2
تحریر شاہد لطیف
اِ سٹیبلِشمنٹ ( ملک کی مقتدرہ بادشاہ ساز) نے صدر یحیےٰ کوصدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور نہایت جلد بازی میں بھٹو صاحب کو کُرسیِ صدارت پر بٹھا دیا ۔یوں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلسٹ اقتدار میں آئے۔ ایک غلط فہمی لوگوں میں عام ہے کہ صدر ایوب نے بھٹو صاحب کو وزارت دے کر سیاست میں آنے کا موقع دیا۔حقیقت یہ ہے کہ اِس سے کہیں پہلے صدر اسکندر مرزا کی کابینہ کے ممبر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں داخل ہو چکے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے والد ریاست جوناگڑھ میں دیوان کے عہدے پر فائزتھے۔ذوالفقار علی بھٹو اس وقت نوجوان تھے۔اُنہوں نے ریاستی درباروں کی سیاسی اونچ نیچ ، جوڑ توڑ، اِس کو دباؤ اُس کو گراؤ کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔و ہاں انگریز کو اپنا اُلّو سیدھا کرتے اور اُن کی سیاسی چال بازیوں کو بھی دیکھا ۔اُس وقت کے خوّاص کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سمندر پار سے اعلیٰ تعلیم لے کر بھٹو صاحب نے ۱۹۵۱ میں صدر اسکندر مرزا کی دوسری ایرانی النسل بیوی کی سہیلی، نصرت اصفہانی سے شادی کر لی۔یہ اُن کی دوسری شادی تھی۔ بیگم اسکندر مرزا کے کہنے سے۱۹۵۸ میں صدر اسکندر مرزا نے بھٹو صاحب کو وزیرِ تجارت بنا دیا۔ بعد میں آنے والے صدر ایوب نے نہ صرف اِ ن کو برقرار رکھا بلکہ ۱۹۶۰ میں ترقی دے کر پانی اورتوانائی،مواصلات اور صنعت کا وزیر بنا دیا۔کم عمری اور اضافی تجربے کے نہ ہونے پر بھی جلد ہی بھٹو صاحب نے صدر ایوب کا اعتماد حاصل کیا، اِس طرح کہیں کم وقت میں اثر و رسوخ اور طاقت حاصل کر لی۔بھارت کے ساتھ دریائے سندھ کے پانی کے ۱۹۶۰ کے معاہدے میں صدر ایوب کی معاونت کی۔ قَسمت نے یاوری کی اور مختلف وزارتوں سے ہوتے ہوئے۱۹۶۳ میں اِن کو خارجہ امور کا وزیرِ بنایا گیا۔یہاں سے بھٹو صاحب کے اندر کا سوشلسٹ واضح ہوا۔اُس وقت عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان کاجھگڑا کہ اصل چین کون ہے جب کہ دنیا کے تقریباََ سبھی ممالک نے اصل چین تائیوان کو تسلیم کر لیا تھا،اُس وقت بھٹو صاحب نے کھُل کر عوامی جمہوریہ چین کی حمایت کی اورصدر ایوب کو بھی قائل کر لیاحالاں کہ سوویت روس اور اس کے طفیلئے، نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر عوامی جمہوریہ چین سے ناطہ توڑ چکے تھے صرف البانیہ اور پاکستان تھے جو عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کھڑے تھے۔
اِسی طرح ذوالفقار علی بھٹو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے آپریشن جبرالٹر کے مُحرّک تھے جِن کے مشورے سے یہ شروع کیا گیا اور اُس کا اختتام ناکامی کی صورت میں ہوا۔ طرفہ تماشہ یہ کہ پھر اِس ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا۔اِس سلسلے میں مارچ اور اگست ۱۹۶۵ میں رن کچھ سے شروع ہونے والی جھڑپوں کا ، صدر ایوب اور بھٹو صاحب کی توقع کے برعکس ردِ عمل آ گیاجوبھارت نے لاہور ، سیالکوٹ کی سرحد پر جوابی حملہ کی صورت میں دیا۔اِس طرح ۱۹۶۵ کی جنگ شروع ہو گئی۔ بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شا ستری اور صدر ایوب کے تاشقند میں ہونے والے ا من معاہدے کی کوششوں میں بھٹو صاحب بھی شامِل تھے ۔آنجہانی شاستری اور صدر ایوب میں جنگی قیدیوں کا باہمی تبادلہ اور جنگ سے پہلے والی سرحدوں پر دونوں افواج کے واپس چلے جانے کا فیصلہ ہوا ۔اِس معاہدہ (تاشقند) کی پاکستانی عوام میں بہت مخالفت ہوئی اور ایوبی حکومت کے لئے انتہائی سیاسی مسائل کھڑے ہو گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اِس معاہدے پر تنقید شروع کردی جو اِن کے اور صدر ایوب کے درمیان دراڑ بن گئی۔حالات اور سیاسی فضا دیکھتے ہوئے اُنہوں نے جون ۱۹۶۶ میں وزارتِ خارجہ سے استعفیٰ دے دیا۔اور کمر کس کر صدر ایوب کی بھر پور مخالفت میں سرگرم ہو گئے۔
کتنی عجیب بات ہے ..... آپ کی موجودگی میں ایک معاہدہ طے پا رہا ہو .... ا ور آپ اس معاہدے سے مطمئن نہیں تو اُ سی وقت اس بات کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ حالات اور بعد کے واقعات کچھ اور ہی اشارہ دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمتِ عملی اورنپی تلی چالیں تھیں جو صدر ایوب کی حکومت کو کمزور کرنے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کا منصوبہ تھا۔
صدر اسکندر مرزا پر جب برا وقت آیا اور جبراََ جلاوطن کیا جا رہا تھا ، اُس وقت بھٹو صاحب نے اُن سے کنارہ کر لیا۔یہی کہانی صدر ایوب خان کے ساتھ دہرائی گئی۔وہ ایوب خان....... جِن کو بھٹو صاحب ڈیڈی کہا کرتے تھے...... جنہوں نے بھٹو صاحب کے کسی سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی انتخاب جیتنے اور وابستگی کے نہ ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور اُن کے مشوروں کو خاصی اہمیت دی..... محض اپنی صوابدیدگی پر نہ صرف پچھلے صدر ( اسکندر مرزا) کی کابینہ کے ممبر کی حیثیت کو برقرار رکھا بلکہ مزید اہم وزارتیں دیں اور بالآخر وزیرِ خارجہ بنایا.... اُنہی ’ ڈیڈی ‘ کے لئے پاکستان کی سڑکوں پر ناقابلِ اشاعت نعرے لگوائے گئے۔اپنے وزارتِ عظمیٰ کے دوران صدر ایوب کے انتقال ۱۹ اپریل، ۱۹۷۴ ،کے بعد اُن کے جنازے میں شرکت بھی نہیں کی۔جبکہ ایک دوسری مثال محمد خان جونیجو صاحب کی ہے ۔ صدر ضیاء الحق نے اُن کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیا تھا لیکن ۱۹۸۸ میں طیارہ کے حادثہ میں ہلاک ہو جانے پر صدر ضیاء الحق کی نمازِ جنازہ میں محمد خان جونیجو نے شرکت کی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ رن کچھ اور آپریشن جبرالٹر پر صدر ایوب کو قائل کر کے عمل کرانا بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کی پہلی سیڑھی تھی۔تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کے شاطر کھلاڑیوں کے ایسے کھیل میں نتائج اپنی مرضی کے آئیں تو وارے نیارے اور برعکس آنے پر بھی بازی مات نہیں ہوا کرتی۔
’ اِدھر ہم اُدھر تُم ‘ یہ کسی مقبول یا آنے ولی کسی فلم کا نام نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا مشہورِ زمانہ نعرہ تھا جو مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمان کے لئے وضع کیا گیا تھا جو آگے چل کر بنگلہ دیش کے قیام کا موجب بنا۔دوسرے الفاظ میں آپ اور آپ کی پاکستان پیپلز پارٹی نے طے کر لیا تھا کہ آئینی اور قانونی طور پر مشرقی پاکستان کے شیخ مُجیب کو ملک کا وزیرِ اعظم نہیں بننے دینا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ آپ نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کی سرے سے کوئی سرگرمی ہی نہیں دکھائی نہ موجودگی ہی ثابت کی اور اپنی پارٹی کا نام ’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘ کہلوایا۔بہتر ہوتا کہ اس کا نام صرف ’ پیپلز پارٹی‘ رکھا جاتا۔پاکستان کا لفظ اُس وقت قطعاََ مناسب نہیں تھا۔بحر حال اقتدار میں آتے ہی نئی لیبر پالیسی کا اعلان کیا گیا اور ایٹمی منصوبے کے پروگرام پر سرگرمی دکھائی۔۱۹۷۳ کے آئین کے بننے اور تمام سیاسی پارٹیوں کا اس سے متفق ہونا بلا شبہ بھٹو صاحب کے کھاتے میں جاتا ہے۔البتہ اُن کی کئی ایک پالیسیوں سے عوام اور سیاسی پارٹیاں بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کی مخالف ہو گئیں۔بھٹو صاحب سے متعلق اُن کے رفقاء کاروں نے کئی ایک انٹرویو اور لکھی گئی کتابوں میں ایک بات تسلسل سے کہی کہ ذوالفقار علی بھٹو اُٹھتے بیٹھتے سوشلزم، اسلامی سوشلزم، جمہوری سوشلزم کی بات بے شک کرتے تھے لیکن ......... عملاََ ایک عجیب ہی نظام نظر آتا تھا .......جیسے مختلف چیزوں کا مرکب ......پیپلز پارٹی جمہوری سوشلزم کی حامی تھی ، کھُل کر نیم لادینی نیم اسلامی ہونے کا پرچار کرتی تھی۔جاگیرداری ختم کرنے کا اعلان بس تقریر کی حد تک ہی رہا۔ آخر وقت تک وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔جمہوری سوشلسٹ نظریات کے باوجود پیپلز پارٹی کبھی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکی۔کمیونسٹ پارٹی نے اِس بات پر بارہا پیپلز پارٹی کے مفاد پرست ہونے کا الزام بھی لگایا ۔
۱۹۷۳ سے ۱۹۷۵ کے عرصے میں پیپلز پارٹی کے انقلابی کمیونسٹ معراج خالِد اور خالد سیّد کو پارٹی ہی سے نکال دیا گیا تاکہ سندھ اور پنجاب کے طاقتور جاگیرداروں کی سیاسی حمایت حاصل ہو سکے۔اِس اقدام سے پارٹی کے بائیں جانب جھُکاؤ کا تاثر اور عنصر جاتا رہا۔ قصّہ مختصر یہ کہ ۱۹۷۷ کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے منشور سے ’ سوشلزم‘ کا لفظ ہی غائب کر دیا گیا۔انتخابی نتائج کو پاکستان قومی اتحاد ( پی۔این۔اے) نے دھاندلی کے الزامات لگا کر مسترد کر دیا ۔قومی اتحاد سے بات چیت کی گئی جو ناکام رہی اور پیپلز پارٹی کے خلاف سِول نا فرمانی کی تحریک چل پڑی۔بعینہٖ یہی کام ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی نئی پیپلز پارٹی نے صدر ایوب کے خلاف کیا تھا۔لیکن اب کی مرتبہ بے چینی اور نا فرمانی کی شدت زیادہ تھی ۔پہلے پیپلز پارٹی یہ ماننے پر تیار نہیں تھی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔پھر بعد میں یہ مان لیا گیا کہ چند حلقوں میں ہوئی ہے ؛ بہر حال پیپلز پارٹی نے تسلیم کر لیا کہ دھاندلی ہوئی ہے ۔اب سوال یہ تھا کہ پھر کیا کیا جائے؟ اِس پر قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی بات چیت کے کئی دور چلے۔ قریب تھا کہ کسی سمجھوتے پر پہنچ جا تے لیکن وہی ہوا جو ۱۹۵۸ میں اُس وقت کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہوا۔وہ باہمی سمجھوتے پر پہنچنے ہی والے تھے..... کہ...... اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہاں بھی وہی کہانی دھرائی گئی اور چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون، 17 جون 2017 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ١١ پر کالم الٹ پھیر میں شایع ہوا .
Comments