Posts

Showing posts from July, 2018

نیا ۔۔۔پرانا ۔۔۔نہیں! صرف قائد ؒ کا پاکستان

نیا ۔۔۔پرانا ۔۔۔نہیں! صرف قائد ؒ کا پاکستان تحریر شاہد لطیف  25جولائی 2018 کا دِن آیا اور گزر گیا۔ہر ایک دن کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور کوئی تاریخ۔۔۔ ’’ تاریخ‘‘ بن جاتی ہے۔مثلاََ 14اگست1947۔ 14اگست1947 سے لے کر 25 جولائی 2018تک پاکستان میں بہت سی تاریخیں ’’ تاریخ ‘‘ بن چکیں۔یقیناََ یہ آخری تاریخ بھی تاریخ بن جائے گی۔ 2018 کے انتخابات کا اصل معرکہ میڈیا کے میدان میں ہوا۔یہاں گھمسان کے رَن کے ساتھ ساتھ کچھ لطائف بھی گردش میں رہے۔مثلاََ دو بھایؤں کا ایک مکالمہ میری بیٹی نے مجھے بھیجااور فرمائش کی کہ میں اِس پر ایک کالم لکھوں ۔انتخابات کے نتائج اور تجزیوں پر پورے ملک میں قلمکاروں کے قلم رواں ہیں لیکن میں صرف اِن دو بھایؤں کے مکالمے کا تجزیہ کروں گا۔ دو بھائی گفتگو کر رہے ہیں۔ چھوٹا سات سالہ بھائی اپنے اٹھارہ سالہ بھائی سے کچھ پوچھ رہا ہے: چھوٹا بھائی: بھائی ایک بات تو بتائیں۔ میں کئی دنوں سے ایک گاناسُن رہا ہوں ’ بنے گا نیا پاکستان‘ تو پھر پرانا کہاں جائے گا؟ اور یہ نیا والا ہو گا کہاں؟کیا ہم بھی وہاں شِفٹ ہوں گے ؟ ہم تو اپنی پرانی چیزیں کام والی کو دیتے ہیں

Naya .... Purana .... Naheen ! Sirf Quaid Ka Pakistan

Image
 "روزنامہ نوائے وقت کرزی اور کوئٹہ کی 28 جولائی کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم " اُلٹ پھیر

آئیے۔۔۔ سائیکل چلائیے

آئیے۔۔۔ سائیکل چلائیے تحریر شاہد لطیف زمانہ کتنی ہی ترقی کر لے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی اہمیت گزرتا وقت کم نہیں کر سکتا۔مثلاََ گھوڑا مثلاََ سائیکل۔۔۔دونوں سواریاں ہیں۔۔۔ایک وقت تھا کہ یہ دونوں اپنے وقت کے status symbol تھے۔۔۔خیر گھوڑا تو اب بھی اسٹیٹس سمبل ہے۔اس کی اصل اہمیت پہاڑی علاقوں میں اب بھی پہلے جیسی ہی ہے۔رہی سائیکل تو اب یہ اسٹیٹس سمبل تو نہیں رہی لیکن اہمیت کے اعتبار سے اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ہاں قیمت کے اعتبار سے بچگانہ سائیکلیں اب بھی اسٹیٹس سمبل بنتی ہیں۔ خواہ کچھ بھی ہو سائیکل اب بھی مزدور طبقے اور خاصی تعداد میں طلباء کی اہم ضرورت ہے۔یہ وہ سواری ہے کہ ’’ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے‘‘۔بس خریداری کا خرچہ پھر نہ تیل نہ پانی۔۔۔احتیاط سے چلائیں تو برسوں چلتی ہے۔چلتے چلتے ’ چین ‘ اتر جائے تو بیٹھ کر چین چڑھا لیں ۔ پتھریلی زمین پر ٹائر پنکچر ہو جائے تو چند روپؤں میں پنکچر لگوا لیں اور پہیے کی ہوا کم ہو جائے تو خود ہی بھر لو۔ بات سائیکلوں کی ہو تو ایک ادارے کا نام سائیکل سے نتھی اب بھی ہماری عمر کے لوگوں کے لاشعور میں زندہ

Aiyay ...... Cycle Chalaiyay

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 21 جولائی کی اشاعت میں صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم اُٹ پھیر۔

Maroof Mousiqar, Shayer Aur Khush- al-Haan Gulukar Mehdi Zaheer

Image
روزنامہ نوائے  وقت کی 17 جولائی کی اشاعت  میں لاہور، اسلا م آباد  اور ملتان کے صفحہ فن و ثقافت  میں شائع ہونے والی تحریر 

اپنی ذات میں ایک ادارہ، نامور موسیقار، شاعر، اپنے لحن کی نوعیت کے یکتا گلوکار اور ریڈیو پاکستان کراچی مرکز کے سینئر پروڈیوسر مہدی ظہیر ضو کلیمیؔ : (1927-1988)

اپنی ذات میں ایک ادارہ، نامور موسیقار، شاعر، اپنے لحن کی نوعیت کے یکتا گلوکار اور ریڈیو پاکستان کراچی مرکز کے سینئر پروڈیوسر  مہدی ظہیر ضو کلیمیؔ : (1927-1988) تحریر شاہد لطیف پاکستان ٹیلیوژن کراچی مرکزکے شعبہ پروگرام میں راقِم کو 80 کی دہائی میں معاون پروڈیوسر کی حیثیت سے ملک کی نامور شخصیات کوقریب سے دیکھنے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ۔دل چاہتا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے کا تجر بہ اور ان کی فنکارانہ زندگی کی کچھ باتیں کی جائیں جوشایدپڑھنے والوں کو دلچسپ لگیں ۔آج جِس شخصیت کا ذکر کروں گاوہ مہدی ظہیر ہیں۔ کراچی کے فیڈرل کیپیٹل ایریا ، المعروف ایف سی ایریا میں ایک عام سے سرکاری کوارٹر میں مجھے مہدی ظہیر کی خدمت میں بارہا حاضری کا شرف حاصل رہا۔  مہدی ظہیر 1927 میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام سید افتخار مہدی تھا اور شاعری میں ضو کلیمیؔ تخلص کرتے تھے۔اُن کا زیادہ تر کلام ہمیشہ ہی غیر مطبوعہ رہا۔شاید وہ اس کو شائع کرانے یا مشہور ہونے میں سنجیدہ نہیں تھے حالاں کہ خاکسار نے اُن کے سرکاری کوارٹر میں صادقین، شان الحق حقی اور کئی ایک نام

1 Liter Petrol Par 40 Rupees Tax ?

Image
 جولائی 14 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر ' میں شائع ہونے والی تحریر۔

ایک لیٹر پٹرول پر 40روپے ٹیکس ؟ حکومت نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔۔۔سپریم کورٹ

ایک لیٹر پٹرول پر 40روپے ٹیکس ؟ حکومت نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔۔۔سپریم کورٹ تحریر شاہد لطیف یہ ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی کوئی حکومت عوام الناس سے مخلص نہیں رہی۔پٹرول کی قیمتیں اس کی ایک واضح مثال ہے۔حال سے ماضی کی جانب جائیں تو موجودہ نگران حکومت، نواز شریف کے تینوں دور، پیلپز پارٹی کی تمام حکومتیں، مشرف دور۔۔۔آپ کسی بھی سال کے پٹرول کی قیمت معلوم کر کے جس مرضی فارمولے کو استعمال کیجئے نتیجہ یہی ملے گا کہ فی لیٹر وہ قیمت اُس سے کہیں کم ہے جو بے چارہ صارف ادا کر تا ہے۔مختلف قسم کے ٹیکسوں سے فی لیٹر پٹرول کی قیمت کہیں سے کہیں پہنچا دی جاتی ہے۔حالاں کہ تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمتیں کم ہوتی ہیں اور پاکستان کی آئل ریفائینریاں کھلی مار کیٹ سے سستا تیل لیتی ہیں پھر بھی ۔۔۔ جمہوریت کی علم برد ار سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی، عوام کی خیر خواہی کی سب ہی دعوے دار رہیں، لیکن عمل اس کے بالکل برخلاف کیا ۔ ناک دائیں جانب سے پکڑیں یا بائیں ، بات ایک ہی ہے اسی طرح کبھی عوامی دباؤ،یا کسی ترنگ یا کسی اور لہر میں مرکزی حکومت پٹرول کی قیم

Kachra Phailanay Par Baldia Wasti Main Giriftariyan Aur Muqaddimat

Image
ٗ جولائی 7 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ  کی اشاعت کے صفحہ نمبر 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر' میں شائع ہونے والا کالم ' اُلٹ پھیر'

کچرا پھیلانے پر بلدیہ وسطی میں گر فتاریاں اور مقدمات

کچرا پھیلانے پر بلدیہ وسطی میں گر فتاریاں اور مقدمات تحریر شاہد لطیف پچھلے دنوں کراچی میں ایک عجیب بات ہوگئی جس پر کچھ احباب نے محض مسکرا کر اپنا رد عمل ظاہر کیا، بعض نے اسے ’ خبر‘ تک نہیں سمجھا۔لیکن میرے نزدیک یہ ایک خوشگوار روایت قائم کی گئی ہے۔کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیہ وسطی کے زیرِ انتظام حدود میں کچرا پھیلانے والے افراد کو باقاعدہ تھانے میں ایف آئی آر رپورٹ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا۔یہ واقعہ ذکریہ اسکول، کوثر نیازی کالونی ، بلاک ایف نارتھ ناظم آباد میں پیش آیاجہاں کوُڑا غلط جگہ پھینکنے پر 2 افرادکو حیدری مارکیٹ تھانے میں لکھت پڑھت کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔اُدھر بلدیہ وسطی کے خصوصی اجلاص میں فیصلہ کیا گیا کہ عوام الناس میں شہری اور تمدّنی شعورکی آگہی دینے کے لئے اپنی حدود میں جا بجا رضا کاروں کو تعینات کیا جائے گا۔  چونکہ اس جرم میں کسی کو پہلی مرتبہ سزا ملی اس لئے اس پر ملا جُلا ر د عمل سامنے آیا ۔اکثر احباب اس کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑا رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ صرف نمائشی اقدام ہے بھلا اس پر عمل کس طرح ہو سکتا ہے؟اور بعض ’ ماہرین‘ کا کہنا ہے کہ ا

پاکستانی یادگار فلمی حمد ،نعتیں اور قوّالیاں

پاکستانی یادگار فلمی حمد ،نعتیں اور قوّالیاں تحریر شاہد لطیف نہ جانے کیوں بعض دانشور پاکستانی فلموں اور اس سے منسلک شعبوں کو کسی قابل نہیں گردانتے ۔ وہ فلمی صنعت پر تنقید اور برائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جب کہ ہماری فلموں کے تمام شعبوں میں معیاری کام بھی ہوا ہے جیسے حمد،نعتیں، منقبتیں اور قوّالیاں ۔حمدیہ اور نعتیہ کلام نہایت اعلیٰ پائے کالکھا گیا اور پھر اُن کی طرزوں نے ایک ایسا سماں باندھا کہ آج بھی اُن کو سُنا جائے تو دِل کھنچتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ فلمی گلوکاروں نے خوبصورت طرزوں اور بولوں کو ادا کرنے میں اپنی روح نکال کر رکھ دی۔ ایک مختصر سا جائزہ ماضی قریب سے شروع کرتے ہیں۔1995میں فلم ’’ سرگم‘‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اِس فلم کی خا ص بات یہ ہے کہ ’’ سرگم‘‘ کو مختلف شعبوں میں 8 نگار ایوارڈ ملے۔مذکورہ فلم میں ریاض الرحمان ساغر کی لکھی ہوئی یہ حمدبہت مقبول ہوئی: اے خدا اے خدا جس نے کی جستجو مل گیا اُس کو تو سب کا تو راہ نما اِس کی طرز عدنان سمیع خان نے بنائی۔ اُن کی آواز میں صدابند ہو کر اُن ہی پر فلمائی بھی گئی۔حمد

Pakistani Yadgar Filmi Hamd, Natain Aur Qawwaliyan

Image
 روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کی 3 جولائی کی اشاعت کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہونے والی تحریر۔