کہاں وہ .......کہاں یہ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ -١
کہاں وہ .......کہاں یہ...... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ -1
تحریر شاہد لطیف
ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی موازنہ کرنا ہو تو شروعات ،کہاں وہ..... اور کہاں یہ...... سے کی جاتی ہے۔ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک بزرگوار اِسی موضوع پر مسلم لیگ کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ کہاں قائدِ اعظم ؒ کی مُسلم لیگ اور کہاں یہ میاں نواز شریف کی مُسلم لیگ۔
آج کی پاکستان مسلم لیگ کے لیڈران سے پاکستانی عوام کو یہ امیدیں ضرور ہوتی ہیں کہ وہ اور نہیں تو قائدِ اعظم ؒ کے نام ہی کا کچھ خیال رکھیں گے۔ عوام کو کوئی دھیلے کی سہولت نہ دیں کم از کم مزید نئی تکالیف تو نہیں دیں گے......اُس محفل میں رونا ہی اِس بات کا تھا کہ اِس سیاسی جماعت نے ملک کا ستیا ناس کرنے میں بڑھ چڑھ کر کام کیا۔اقتدار اور اختیار کے لئے اِس جماعت کے لیڈران نے کیا کیا نہیں کیا۔اور جنہوں نے اِس بہتے گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے تو اُن سے روزِ حشر ضرور پوچھا جائے گا کہ آپ صاحبِ اختیار تھے کِس مصلحت کے لئے آپ نے آنکھیں بند رکھیں اور ملک کا ستیا ناس کرنے والے اپنے پیٹی بھائیوں کو نہیں روکا؟ میثاقِ جمہوریت میں کیا لیا اور کیا دیا گیا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان مسلم لیگ کے نام کے ساتھ نواز شریف کے نام کا پہلا حرف ’ ن ‘ کیوں شامِل کیا گیا۔گویا ڈنکے کی چوٹ آپ خود پاکستان مسلم لیگ کی دھڑے بندی کے مرتکب ہو نا ثابت کر رہے ہیں۔ یا پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سرے سے وہ قائدِ اعظم ؒ والی پاکستان مسلم لیگ ہی نہیں ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے کنوینئر نواب زادہ لیاقت علی خان نے 14 اور 15 دسمبر 1947 کو کراچی میں کونسل کا اجلاس بلوایاکہ کیا نئی مملکت میں پارٹی کا نام مسلم لیگ رکھ لیا جائے؟ حسین شہید سہروردی جو آل انڈیا مسلم لیگ کے نامزد وزیرِ اعظم برائے بنگال1937 تھے اور 1946 کے انتخابات میں بھی یہی نامزد ہوئے تھے، اِس رائے سے متفق نہیں ہوئے۔اِن کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان حاصل کر لیا گیا ہے لہٰذا لفظ ’ مسلم ‘ اب اپنی افادیت کھو چکا چنانچہ پارٹی کا نام ’ پاکستان لیگ ‘ ہونا چاہیے۔ سہروردی صاحب کی تجاویز پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا لہٰذا انہوں نے 1949 میں اپنی سیاسی پارٹی عوامی لیگ کی بنیاد رکھ لی۔
نئی مملکت کے لئے یہ پہلا سیاسی جھٹکا ثابت ہوا۔اُدھر اپریل 1949 میں چوہدری خلیق الزماں کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیاساتھ ہی طے ہو گیا کہ پارٹی کے لیڈران اب کوئی وزارت یا سرکاری عہدہ حاصل نہیں کر سکیں گے مگر یہ بات محض کاغذات تک محدود رہی۔سامنے کچھ، پسِ پردہ کوئی اور والی بات اول روز سے ہی اِس پارٹی کا مقدر ہو گئی۔اور پارٹی کمزور ہوتی چلی گئی۔ قائدِ اعظمؒ کی رحلت کے بعد ممتاز دولتانہ 25 نومبر 1948 کو پنجاب مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۔ محمد ا یوب کھوڑو جِن پر کرپشن کے کیس چل رہے تھے اور جرم ثابت ہونے پر تین سال کے لئے جیل جانے والے تھے وہ 5 دسمبر کو بلا مقابلہ مسلم لیگ سندھ کے صدر منتخب ہو گئے۔8 اکتوبر 1950کووزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو پارٹی کی مرکزی کونسل نے پارٹی کا صدر منتخب کر لیا۔(اب آپ کر لیں بحث ) ۔اِس اقدام کو نظیر بناتے ہوئے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ممتاز دولتانہ نے بھی پنجاب مسلم لیگ کی صدارت اپنے ہاتھ میں لے لی۔صوبہ سرحد کیوں پیچھے رہتا وہاں کے وزیرِ اعلیٰ خان عبدل قیّوم خان بھی صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب کر لئے گئے۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیرِ اعظم منتخب کر لیا گیا۔اور یہیں سے پاکستان پر منحوسیت کے سائے ، غلام محمد کو ملک کے تیسرے گورنر جنرل بنائے جانے سے شروع ہو گئے۔پہلوں کی مثال کو دیکھتے ہوئے خواجہ ناظم الدین بھی16 نومبر 1951 میں مسلم لیگ کے صدربن گئے۔ٹھیک اسی طرح صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبوں کی مسلم لیگ کے صدر ہو گئے۔اِس کہانی میں صرف چوہدری محمد علی ایک ایسے وزیرِ اعظم نظر آتے ہیں جنہوں نے وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے پارٹی کا سربراہ بننا پسند نہیں کیا اور سردار عبدلرب نشتر پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔
یہ بات سب کہ معلوم ہے کہ لیاقت علی خان کے فوراََبعد ہی پاکستان مسلم لیگ کو جاگیرداروں نے اُچک لیا۔اِس کے کرتے دھرتے یہی لوگ تھے۔اِسی کے ردِّ عمل میں مشرقی پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیوں نے ایک مشترکہ جدوجہد کا پلیٹ فارم بنایا جِس کا نام ’ جگتو فرنٹ ‘ تھا۔ جِس نے 1954 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان میں عملاََ بے دست و پا کر کے عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا۔اِس طرح کِریشک سَرامِک پَرُوجا پارٹی کے جناب اے۔کے۔فضلِ حق ( جِن کو شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے)یہاں کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو گئے۔یوں پہلی مرتبہ یہاں کے لیڈر ان بھی وفاق کا حصہ بننے لگے۔جیسے حسین شہید سہروردی۔
چند ماہ بعد ہی مسلم لیگ کے وفاق اور مغربی پاکستان کے جاگیرداروں نے لیگی گورنر جنرل، غلام محمد کے ہاتھوں فضلِ حق صاحب کی حکومت کو چلتا کروا کر گورنر ، میجر جنرل اسکندر مرزا کے ذریعہ گورنر راج نافذ کروا دیا۔ یہی مشرقی پاکستان کی سیاست کا ایک بہت اہم موڑ ہے۔آج ہمارے مشرقی بازو کو بنگلہ دیش بنانے میں اول نام ہی مسلم لیگ کا آتا ہے۔اب یہ دلیل دینا کہ اُس وقت تو غلام محمد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے بالکل کمزور ہے۔اگر ایسا تھا تو مسلم لیگ کے دیگر ذ مّہ داران کیا سوئے ہوئے تھے؟ گورنر جنرل تو بیمار و لاغر تھے ۔خودسے چل پھر اور کھانا پینا بھی نہیں کر سکتے تھے، البتہ مفاد پرست مسلم لیگی جاگیرداروں کے لئے ایک سونے کے انڈے دینے والی مرغی ضرور تھے۔حیرت ہے کہ کوئی ایک آواز بھی مغربی پاکستان سے اِس جمہوریت کش عمل کے خلاف نہیں اُٹھی جیسا کہ اُٹھنی چاہیے تھی۔
جاگیرداروں نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے کٹھ پتلی گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں 24 اکتوبر 1954 کو اسمبلیاں ہی تڑوا دیں جب کہ کافی حد تک مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیڈران ایک باہمی قابلِ قبول دستور بنانے پر رضامند ہو چکے تھے۔قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اِس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلینج کر دیا ۔ عدالت نے بھی اِس اقدام کو غیر قانونی قرار دے کر اسمبلی بحال کروا دی۔ جواباََ جاگیردار ٹولے نے وفاق کو فریق بنوا کر سپریم کورٹ میں اپیل کر دی اُس وقت کے جیف جسٹس محمد منیر صاحب کی سربراہی میں ایک بینچ بنایا گیا۔ جسٹس منیر صاحب نے اِس کیس میں مشہورِ زمانہ اصطلاح ’’ نظریہء ضرورت ‘‘ کو پیش کیا۔یعنی کام تو قطعاََ ٹھیک نہیں لیکن ضرورتاََ اِس کی اجازت ہے۔
یہ تو مسلم لیگ کا نوحہ ہے اب آتے ہیں پاکستان مسلم لیگ کی جانب۔اب آپ اِس کو کیا کہیں گے کہ جِس کام کی ابتدا ہی غلط ہو تو پھر اچھائی کی توقعات کرنا بیکار ہوتا ہے ۔اِس سیاسی جماعت کے بانی صدر ایوب نے 1962 میں اِس کی بنیاد رکھی ۔ جنہوں نے جمہوریت پر شبخون مارا اب وہی جمہوریت کا پودا لگانے لگے۔بہر حال جلد ہی یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔کنونشن مسلم لیگ جو صدر ایوب کی حمایت کرتی تھی اور کونسل مسلم لیگ جو ایوب خانی آئین کی مخالف تھی کہ اِس سے صدر مطلق العنان ہو گیا ہے۔دلچسپ بات یہ کہ خود کونسل مسلم لیگ سے کئی ایک لیگیں بن گئیں جیسے مسلم لیگ قیوم گروپ۔
(جاری ہے)
..........................................
اختتام
( ٧ مئی ٢٠١٧ کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ١١ پر کالم' الٹ پھیر ' میں شایع ہونے والی سلسلہ وار مضمون، "کہاں وہ .... کہاں یہ ....مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ" کی قسط )
Comments