کہاں وہ .... کہاں یہ ..... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۴
کہاں وہ .... کہاں یہ ..... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۴
تحریر شاہد لطیف
۱۹۶۵ کے بالواسطہ انتخابات بنیادی جمہوریت کے تحت کروائے گئے ۔اِس نظام میں ا نتظامیہ بہت با اختیار تھی لہٰذا آسمان سے فرشتے بھی اُتر آتے تب بھی جیت انتظامیہ کی ہی ہونا تھی۔ ایوب خان کی زیرِ سایہ کنونشن مسلم لیگ کے مقابلے میں خاتونِ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو اصلی مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا اور ایوب خان کے خلاف صدارتی ا نتخاب کا اعلان کر دیا۔پورے ملک کی اپوزیشن نے اُن کی حمایت کی۔ یہاں سے پاکستان مسلم لیگ کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ خاتونِ پاکستانؒ کے انتقال کے بعد پاکستان مسلم لیگ کی صدارت پر نور الامین فائز ہوئے۔ ۱۹۷۱ کی پاک بھارت جنگ اور نور الامین صاحب کے انتقال کے بعد پارٹی کی مقبولیت کا گراف نچلی ترین سطح پرآ گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ۷۰ کی دہائی میں قومیانے کی پالیسی کے خلاف شدید رد عمل کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ کو دوبارہ واپسی کا موقع مِل گیا۔کئی نوجوان، جیسے نواز شریف،جاوید ہاشمی،ظفر الحق اورشجاعت حسین مسلم لیگ کے فعال سیاسی لیڈر بن کر اُبھرے۔پارٹی کے اہم معاملات میں اندرونی اختلافات، اختیارات کی کشمکش ،کسی سیاسی پروگرام اور سمت کے تعین کا نہ ہونا اور بد انتظامی یہ وہ نکات ہیں جو سیاسی کارکنان اور عوام کی نظروں میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو بے وقار کر دیتے ہیں۔ کل کی مسلم لیگ اور آج کی پاکستان مسلم لیگ دونوں کو اس بد انتظامی کا سامنا رہاہے۔
نورالامین صاحب نے لیگیوں کے مختلف گروپوں کو متحد کرتے ہوئے یہ پارٹی قائم کی تھی ۔ لیکن تربیت کے فقدان کے باعث پارٹی کے کئی ممبران بھٹوصاحب کی پیپلز پارٹی میں شامِل ہو گئے ۔ ۱۹۸۵ کے غیر جماعتی انتخابات کے بعدصدر ضیاء الحق کی سرپرستی میں دائیں بازو کے ہم خیال ممبران اسمبلی نے پاکستان مسلم لیگ کا دوبارہ احیاء کیا۔دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ ....یہ بھی نظریہ ضرورت ہے....اِسی لئے پاکستان مُسلم لیگ کے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اِس سیاسی جماعت کے پیچھے فوج کی حمایت ہے۔مگر جلد ہی پارٹی کے دو اہم لیڈران ، محمد خان جو نیجو اور فِدا محمد خان کی باہمی چپقلش کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ تحلیل ہوکر دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی ۔
پاکستان مسلم لیگ ۱۹۷۷ کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے پاکستان قومی اتحاد کا ایک اہم سیاسی حصّہ تھی۔ چوہدری شجاعت حسین اور نواز شریف نے پارٹی کے مالی معاملات کے سلسلے میں بہت مدد کی۔یہی وقت تھا جب پارٹی دوبارہ زندہ ہوئی اور بھٹو صاحب کے خلاف پیر پگاڑا صاحب کو بھی ساتھ مِلا لیا۔ ۱۹۷۷ کے ضیائی مارشل لاء کے بعد اس پارٹی کو اپنے آپ کو دوبارہ فعال کرانے کے لئے آمادہ کیا گیااور مسلم لیگی لیڈر چوہدری ظہور الہیٰ کے زیرِ قیادت چند ا فراد کی حکومت بنا دی گئی ۔۱۹۸۴ کے ریفرینڈم کے بعد ضیاء الحق ملک کے صدر منتخب ہوگئے ۔۱۹۸۵ کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نے ہر طرح سے صدر ضیاء الحق کی حمایت کی جِس کے جواب میں صدر نے پاکستان مسلم لیگ کے محمد خان جو نیجو کو ملک کا وزیرِ اعظم اور نواز شریف کو پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔
اس پارٹی کی جدید تاریخ ۱۹۸۸ کے پارلیمانی انتخابات سے شروع ہوتی ہے جب سابقہ وزیرِ اعظم جونیجو صاحب کے زیرِ قیادت چلنے والی پاکستان مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک مسلم لیگ کے دو لیڈر تھے ، فِدا محمد خان جو آل انڈیا مسلم لیگ کے پرانے فعال کارکن رہے تھے او ر دوسرے اُس وقت صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نواز شریف ۔ دوسری مسلم لیگ کے لیڈر جونیجو صاحب تھے۔اوّل الذکر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور آخر الذکر پاکستان مسلم لیگ (ف) کہلائی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر فِدا محمد خان اور نواز شریف پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل بنائے گئے۔جونیجو گروپ کچھ ہی عرصہ میں زوال کا شکار ہو گیا جبکہ فِدا گروپ پاکستان مُسلم لیگ کا جانشین بن گیا۔
۱۹۸۸ کے انتخابات میں عوامی تاثر تو یہی دیا جاتا ہے کہ ترقی پسند اور بائیں بازو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف حزبِ اختلاف کی زیادہ تر چھوٹی بڑی اِسلامی ذہن رکھنے والی پارٹیاں اِسلامی جمہوری اتحاد (آئی۔جے۔آئی) کے نام پر متحد ہو گئی تھیں۔یہ تاثر درست نہیں ہے۔یہ کھُلے عام دائیں بازو والوں کا اپنے اپنے مفادات کی خاطر ایک وقتی اتحاد تھا ۔اِس اتحاد کا نام اِسلامی ضرور تھا لیکن عوام بھٹو صاحب کے ہز ماسٹر وائس، مولانا کوثر نیازی صاحب سے پہلے ہی ’’ اِسلامی سوشل ازم ‘‘ کو دیکھ اور سُن چکے تھے لہٰذا وہ جلد ہی جان گئے کہ اِسلامی سوشلزم کی طرح اِسلامی جمہور ...... کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ مذکورہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب رہی ۔ نواز شریف نے ،جو پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی کامیاب رہے تھے، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بننے کو فوقیت دی۔اِس طرح بینظیر بھٹو کے لئے پہلی مرتبہ ملک کا وزیرِ اعظم بننے کاموقع آیا ۔اندر خانہ کہانی یہ ہے کہ ایک دفعہ اور...... اسکندر مرزا اور غلام محمد والے.... پرانے کھیل کی بساط سج گئی تھی۔ صرف ۲۰ ماہ میں کرپشن اور بد انتظامی کے الزام لگا کر ۱۹۹۰ میں صدر غلام اسحٰق خان نے وزیرِ اعظم کو گھر بھیج کر بینظیر کی حکومت اور قومی اسمبلی ختم کر دی۔
۱۹۹۰ کے عام انتخابات میں دو سیاسی اور انتخابی اتحاد مقابلے میں اُترے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) اب بھی اِسلامی جمہوری اتحاد کا حصّہ تھی لہٰذا نواز شریف کی قیادت میں انتخابات کے اکھاڑے میں اُتر گئی۔ دنگل کا دوسرا اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک الائنس ( پی۔ڈی۔اے)تھا۔اِسلامی جمہوری اتحاد ،یعنی آئی۔جے۔آئی، انتخابات میں زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہی اِس طرح نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ قومی حکومت بنائی گئی۔دوسری طرف پاکستان کی سیاسی ثقافت میں بھی واضح تبدیلی محسوس ہونے لگی۔طاقت اور اختیارات روایتی جاگیرداروں سے نکل کر ترقی پذیر صنعت کار اور تجارت پیشہ افراد کے پاس آنے لگے۔ سیاسی شطرنج کے تمام کھلاڑیوں کو بخوبی علم تھا کہ یہ ۵۰ کی دہائی نہیں ۔ اب جلدی جلدی حکومتوں کو گھر بھیجنا قطعاََ نا مناسب ہے لیکن لگتا ہے کہ جیسی روح ویسے ہی فرشتے بھی تھے۔ صدر غلام اسحاق خان نے اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت کو ۱۸ اپریل ۱۹۹۳ میں چلتا کر دیا۔مولوی تمیز الدین خان کی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی جِس نے اب کی دفعہ نظریہ ضرورت کا استعمال نہیں کیا بلکہ یہ حکومت بحال کر دی، یوں نواز شریف ۲۶ مئی کو وزارتِ عظمیٰ پر دوبارہ فائز ہو گئے۔لیکن کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور تھی کیوں کہ فوج اور فوجی قیادت نے وزیرِ اعظم اور صدر دونوں کو مستعفی ہونے کو کہا،یوں نواز شریف اور غلام اسحٰق خان اپنے اپنے منصب سے باہر ہو گئے۔
( جاری ہے)
................................
اختتام
( ٢٧ مئی ٢٠١٧ کے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں شایع ہونے والے کالم ' الٹ پھیر ' میں مضمون " کہاں وہ... کہاں یہ ... مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ -٤)
Comments