افریقیات ۔2
افریقیات ۔2
تحریر شاہد لطیف
اپنے ہی ہائی کمیشن / سِفارتخانہ میں ذلیل ہونا
1979 کے موسمِ سرما میں کراچی سے کینیا کے دارالحکومت نیرو بی کے لئے قومی ائر لائن کی پرواز ہی راقِم کا اوّلین ہوائی سفر تھا۔ میرا دِل چاہتا تھا کہ یہ سفر لمبا ہوتا جائے۔اور یہ دعا قبول بھی ہوگئی جب جہاز نیروبی کے بجائے ممباسا جا اُترا جو کینیا کا دوسرا بڑا شہر تھا ۔ بتلایا گیا کہ جہاز کے انجن میں خرابی ہے اور ........... بہرکیف یہ 3 دِن وہیں رُکا۔مُسافروں کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔یوں PIA کی بدولت ممباسا کی خوب سیاحت کی؛ اور پہلی دفعہ سواحیلی زُبان سے واقفیت ہوئی۔ممباسا کے ساحل کی ریت بالکل سفید تھی اور وہاں کے کوّوے بھی سفید، جو میرے لئے سخت حیرت کا باعث تھے۔
ممباسا کو الوداع کہتے ہوئے نیروبی پہنچا۔مُجھ کو یہ شہر اُس وقت کے کراچی کے مُقابلہ میں بہت بہتر لگا۔ ایک ریستوراں میں جانے کا اِتفاق ہوا جو 24ویں منزل پر واقع تھا اور آہستہ رفتار سے گھُوم بھی رہا تھا۔بڑی اور کُشادہ سڑکیں، شاندار دُوکانیں۔یہاںپاکستان ہائی کمیشن،یعنی سِفارت خانہ بھی بہت خوبصورت تھا۔حسبِ روایت جو کام ایک گھنٹے میں ہونا تھا وہ یقین جانئے 5 دِن میں بھی نہیں ہوا۔روزانہ صبح 9 بجے وہاں جاتا ، لنچ تک بیٹھتا، پھر باہر سے کچھ کھا پی کر آتا۔ اِس طرح شام کے 5 بج جاتے اور دفتر کا وقت ختم۔وہاں میری پھپھو یا خالہ کا گھر تو تھا نہیں جہاں کوئی ٹھکانہ کرتا۔روزانہ کے حساب سے کینین شیلنگ خرچ ہو رہے تھے۔
چلیں میری تو کوئی بات نہیں،لیکن ایک نئی نویلی پاکِستانی دُلہن بے چاری بھی ہر روز پریشان حال آیا کرتی،جو اپنے شوہر کے پاس آگے کہیں جا رہی تھی۔ہم دونوں کا مسئلہ ایک تھا ۔وہ یہ کہ اُس زمانے میں اگر آپ کو کسی ایسے مُلک میں جانا ہو جِس کا نام پاکستانی پاسپورٹ میں پہلے سے درج نہیں ہے ، تو آپ اُس ملک کے قریب ترین پاکِستانی سِفارتخانہ جا کر،اپنے پاسپورٹ پر اُس ملک کے نام کا اندراج کروائیں جہاں آپ کو جانا ہے۔میں نے روانڈا، بورونڈی، زائیر وغیرہ کے نام کا اندراج کروانا تھا۔ اُس دُلہن کا بھی کسی افریقی ملک کے اندراج ہی کا مسئلہ تھا۔
یہ حُکم ٹھیک تھا یا نہیں،بات تو اِس پر عمل کی تھی جو بد قسمتی سے ہمارے سفارتکار قطعاََ نہیں کر رہے تھے۔وہ لڑکی تو خیر ایک د لہن تھی،لیکن مجھے بھی شاید اُ س وقت اپنا موقف ٹھیک سے پیش کرنا نہیں آتا ہو گا ۔پانچویں روز، ہائی کمیشن کے ایک کینین Kenyan کارکن نے ہم دونوں سے پاسپورٹ اور اندراج والے فارم لئے اور انتظار کرنے کو کہا۔ہم دونوں نے اللہ کا شُکر ادا کیا کہ کسی کو تو ہم پر ترس آ یا۔کچھ دیر بعد وہ شخص ہمارے پا سپورٹ واپس لے کر آ یا ۔ پہلے اُس نئی نویلی دُلہن نے خوشی کے ساتھ اپنا پاسپورٹ کھولا ....... اور ...... دیکھتے ہی چکرا کر گِرتے گِرتے بچی۔ایک صفحہ کی نشان دہی کرتے ہوئے اُس نے اپنا پاسپورٹ میری طرف بڑھایا ۔ جب اُس صفحہ پر میری نِگاہ پڑی تو شرمندگی کے مارے فوراََ نظریں زمین پر گاڑ لیں۔پھر اپنا پاسپورٹ کھول کر دیکھا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے سخت کوفت ہو رہی ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کے ایک صفحہ پر قلم سے روانڈا ، بورونڈی اور زائیر لکھ کر بھارتی ہائی کمیشن ، نیروبی کی مہر لگی ہوئی تھی ۔
’’ صاحب! آپ لوگ کئی دِن سے اِدہر پریشان بیٹھا ہے، ‘‘ اُس کینین کارکن ( کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی غیر منقسم ہندوستان سے تھا ) کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی ۔ ’’ کیا پاکستان کیا ہندوستان۔ ارے ! جہاں آپ لوگوں نے جانا ہے اُن کو اِس کا کیا پتا؟۔سب چلتا ہے‘‘۔
اور جناب واقعی سب چل گیا۔آج جب میں یہ بات اپنے نواسوں نواسیوں کو بتاتا ہوں تو اُس وقت کی وہ نئی نویلی دُلہن بھی اب اپنے پوتے پوتیوں،نواسوں نواسیوں کو یہ ناقابلِ یقین وا قعہ سُنا یا کرتی ہو گی۔
نائی اُنگی Nyungwe کے جنگل میں:
نیروبی کو خیرباد کہتے ہوئے، راقم اُس وقت کے نہایت آرام دہ جہاز میں بیلجئم کی قومی ہوائی کمپنی، سبینا ائر لائن Sabina Airlineٍ کی پرواز کے
ذریعے کیگالی ایرپورٹ، رُوانڈا Rwanda پہنچا۔دِلچسپ بات لکھتا چلوں کہ یہ ہوائی کمپنی 2001 میں دیوالیہ ہو گئی۔اب 2002 سے برسلز ائر لائینز Brussels Airlines چل رہی ہے۔
رُوانڈا کی کوئی بندرگاہ نہیں۔اِس کے پڑوسی مما لک جمہوریہ کانگو، یوگینڈا، تنزانیہ اور بورونڈی ہیں۔ سال کے بارہ مہینے تقریباََ ایک سا موسم ہوتا اور ہر روز ہی ہلکی سی پھوار پڑتی تھی ۔ زمین نہایت زرخیز۔اِن ممالک میں دنیا کی بہترین کافی پیدا ہوتی ہے۔کیلے بہت ہوتے ہیں، پھل کے علاوہ مقامی لوگ اِ س کو بطور سالن بھی استعمال کرتے ہیں۔میں نے بھی کھائے، اچھے اور اپنا ایک جداگانہ ذ ائقہ رکھتے ہیں۔ جیسے انگلستان کے عوام Fish & Chips شوق سے کھاتے ہیں بالکل ویسے یہاں آلو کی طرح کی ایک چیز بہت زیادہ کھائی جاتی ہے۔میں نے بھی جب پہلی مرتبہ کھائی تو اُس کا بھی اپنا ہی ذائقہ تھا۔نہ وہ کچالو نہ ہی آلو کے ذائقہ کے جیسی لگی۔
دارالحکومت کیگالی Kigali ملک کے تقریباََ بیچ میں ہے۔یہ ایک باقائدہ اور منظم شہر تھا جبکہ میرے خیال میں افریقہ کا ایک بالکل ہی اور تصور تھا ۔ اگلے روز ہی میں نے اُس فِلم یونِٹ سے رابطہ کر لیا۔ شہر کی خاص چیزیں دیکھتے ہوئے ہماری منزل نائی اُنگی Nyungwe کا جنگل تھا۔
گھنے جنگلات کے کیمپ میں رہنا کیسا ہوتا تھا؟ جنگل میں اور اِس کے قریب رہنے والوں کی زندگی کے شب و روز کیا ہوتے تھے ؟ خونخوار درندوں، حشرات وغیرہ اور وباؤں سے کیسے بچا جاتا تھا؟ اِن بستیوں کے مکین ایک دوسرے کے ساتھ کیسے گزارا کیا کرتے تھے؟ کیا اِن لوگوں کی کوئی ثقافت تھی؟ خود گھنے ترین جنگل میں پہلے طلوعِ آفتاب کو دیکھ کر راقِم کی کیا حالت ہوئی؟ میرے زیادہ تر واقعات اِنہی کا احاطہ کریں گے۔
جنگل میں پہلا نا قابلِ برداشت طلوعِ آفتاب :
عام طور پر کام کا آغاز صبح سویرے ہوا کرتا ہے میں بھی اپنے واقعات کا آغاز، جنگل میں اپنی اوّلین صبح سے کرتا ہوں۔آپ نے کیلنڈروں ، دیگر پوسٹروں اور ویڈیوز میں یہ طلوع اور غروبِ آفتاب دیکھے ہوں گے لیکن اِن مناظر کو محفوظ کرنے والوں کے دِل پر کیا گزرتی ہے؟ آپ کو یہ واقعہ پڑھنے سے اندازہ ہو گا۔
صبح ہونے میں کچھ وقت باقی تھا جب جنگل کے نسبتاََ کم گھنے علاقے میں واقع ہمارے ۔ کیمپ یونٹ کو صبح کے مناظر کی عکس اور صدا بندی کا کہا گیا۔چاروں طرف عمومی خاموشی تھی پھر رفتہ رفتہ ، دور نزدیک کے پرندوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔یہ آوازیں کانوں کو بہت بھلی محسوس ہو رہی تھیں۔لیکن پھر بتدریج یہ بڑھتی گئیں اور سر پھٹنے کی سی کیفیت ہونے لگی۔لیکن پھر بتدریج اِس کی شدّت کم ہو گئی۔
ابھی دماغ کا چکرانا صحیح معنوں میں کم بھی نہیں ہوا ہو گا کہ ایک دوسرا سلسلہ شروع ہو گیا۔چاروں جانب سے بھینی بھینی خوشبوئیں آنے لگیں، ان میں بیشتر ایسی تھیں جو میں نے کبھی سونگھی یا محسوس نہیں کیں۔پھر آوازوں کی طرح سے اِن خوشبوجات کی خُوشبو اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ سر اور دِماغ گھومنے لگے ، یقین کیجئے ایسا لگتا تھا کہ سائنسی فِلموں کی طرح، میرا بھی سر بھک سے اُڑ جائے گا۔
پَو پھَٹ چکی تھی مگر اُونچے درختوں کی وجہ سے سورج دِ کھا ئی دینے میں کچھ وقت لگا۔ ماحول میں خاموشی طاری تھی۔ فِلم کیمرہ مشرق کی جانب سورج کے نظر آنے کے مقام پرعکس بندی کے لئے تیار تھا۔پرندوں کی آوازیں تو پہلے ہی صدابند ہو چکی تھیں، پھر بھی مائکرو فون ایک اونچے مقام پرمحفوط طریقے سے رکھ دیا گیا ۔ مجھے رات کیمپ میں بتا دیا گیا تھا کہ اکثر لوگ جنگل کے طلوعِ آفتاب کی تاب نہیں لا پاتے۔اِس بات کو میں نے قطعاََ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔اب جو درختوں کی اوٹ سے اُبھرتے سورج پر نگاہ پڑی تو دم بخود رہ گیا۔لگتا تھا کہ سورج اور میرے درمیان کچھ بھی نہیں، تھوڑی ہی دیر بعد یوں محسوس ہُوا گویا کسی ریل گاڑی کے انجن کا وزن میرے سینے پر آ گیا ہو۔ اُس قدرتی نظارے کی میں بالکل بھی تاب نہ لا سکا۔پہلے ہی روز میں یہ جان گیا کہ جنگل انتہاؤں کا نام ہے۔
لنگور کی ناراضگی کی جھلک :
جنگل میں بھی اللہ تعالیٰ کی ایک دنیا ہوتی ہے لیکن ہمارا یہ سفر لنگور Baboon کے علاقے کی طرف کا تھا۔ہمارا آمنا سامنا چھوٹے بڑے کئی طرح کے جانوروں سے ہوتا رہا لیکن چونکہ ہماری اِس ٹیم کو ایک خاص وقت تک لنگوروں کے علاقے میں پہنچنا تھا لہٰذا نہ کوئی کیمرہ نکلا نہ ہی مایکروفون اور ٹیپ ریکارڈر۔ واضح رہے کہ یہ خاصہ گھنا جنگل تھا جہاں اکثر مقامات پر دِن کے سورج کی روشنی بھی برائے نام ہی آتی تھی۔
محققوں کی تحقیق کے حساب سے اب ہم لنگوروں کے علاقے میں داخل ہو گئے تھے۔اچانک دھب کی آواز آئی اور دو لنگور گاڑی کی چھت پر دھم سے کودے۔ہمارے پیچھے ا ور آگے جانے والی جیپوں کی چھتوں پر بھی اُن کی اُچھل کُود جاری ہو گئی۔گاڑیوں کی رفتار ہلکی کر دی گئی فِلم کیمرے اور مائکروفون اپنا کام کرنے لگے۔مائک او ر ناگرا Nagra ٹیپ ریکارڈر میری زمہ داری تھی۔جیسا کہ اس سے پہلے والے واقعات میں بتایا جا چکا ہے کہ صرف ناگرا اِسپول ٹیپ ریکارڈرہی اُن دِنوں فِلم کیمرہ ( ویڈیو نہیں) کی رفتار، یعنی 24 فریم فی سیکنڈ پر پورا اُترتا تھا۔
میں اپنے فرائض انجام دینے کے لئے دروازے کی کھڑکی کھول کے بیٹھا تھا کہ ایکدم ایک بڑا لنگور چھت پر بیٹھے بیٹھے اُلٹا لٹک کر مائک کی طرف دِلچسپی سے دیکھنے لگا ۔غیر ارادی طور پر میں نے مائک اُس کی دسترس سے دور کر لیا۔شاید یہ حرکت اُس کو پسند نہ آئی اور سیکنڈوں میں اپنے ہاتھوں سے گاڑی کی چھت کو آرام سے پکڑ کر اِس طرح سے لٹکا کہ جیسے کہ وہ گاڑی سے کودنے والا ہو مگر کودتے کودتے ایک ایسی حرکت کر گیا، جو مائک اور کیمرے ، دونوں نے محفوظ کر لی۔ وہ لنگور جاتے ہوئے میرے مونہہ پر پیشاب کر گیا۔
چونکہ اِس فلم کا مرکزی خیال لنگور تھا چنانچہ مُختلف حالتوں میں اِس کے عمل اور ردِ عمل جاننے کے لئے میرے ساتھ جو سُلوک ہوا ، وہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ ڈولفن اور کئی جانوروں کی طرح یہ لنگور بھی بہت موڈی ہوتے ہیں۔اگر کبھی کھیل کھیل یا پیار سے وہ آپ کی گاڑی پر چڑھ آئیں تو گھبرائیے نہیں بلکہ کوئی بھی ایک فالتو چیز، جیسے رومال، اخبار، پھٹا پراناجوتا کچھ بھی کسی ایک لنگور کو دے دیں توباقی سب خوشی خوشی وہاں سے چلے جائیں گے ورنہ .......... وہ کم سے کم جو کریں گے وہ ذکر ہو چکا۔
20 فٹ لمبے خوبصورت اژدھے سے مُلاقات کا ماجرا
لنگوروں کا پروجیکٹ کئی روز کا تھا جو بغیر کسی دشواری کے پورا ہو گیا۔وہیں سے ہمارا اگلا پڑاؤ آکاگیرا Akagera کا جنگل تھا۔وہ کِس وجہ سے مشہور ہے اور وہاں کیا واقعہ پیش آیا بعد میں ذکر ہو گا پہلے ایک ایسا منظر دِکھاتا چلوں جِس کو دیکھ کر میں بھی بہت زیادہ حیران ہوا تھا۔
ہمارا تین گاڑیوں کا مختصر سا قافلہ نائی اُنگی سے باہر قریبی بستی سے ابھی کچھ دور تھا کہ آگے سڑک پر آمنے سامنے دونوں اطراف کا ٹریفک رُکا ہوا نظر آیا۔ اِس سے قبل ایسا تجربہ نہیں ہُوا تھا۔آفرین ہے ہمارے بیلجئم کیمرہ مین کو کہ لگتا تھا کہ سارا وقت وہ ڈیوٹی پر ہی رہتا ہے۔ہاتھ یا کاندھے پر فِلم کیمرہ نہیں ہے تو کیا ہُوا، آنکھیں ہی کافی ہیں۔پھر جہاں کوئی دِلچسپی کی چیز دیکھی، فٹا فٹ کیمرہ تیار اور مجھے بھی تیاری کے احکامات۔نہ جانے وہ کب گاڑی کی چھت پر چڑھا اور پھر اگلے لمحہ اُس کی آواز سُنائی دی کٹ اویز CUT AWAYS کی تیاری کر لو۔کٹ اویز ایک اِصطلاح ہے جِس کے معنی ہیں تھوڑی دیر کو اصل کی جانب سے توجہ ہٹانا۔مثلاََ ہم لنگوروں کی فلم بندی کر رہے تھے اب اگر کوئی اور چیز ، جِس کا لنگوروں سے کوئی تعلق نہ ہو مگر ہو دلچسپ ، تو تھوڑی دیر کو اسکرین پر آنے سے دیکھنے والوں کو وہ بھلی لگے گی۔
ہم دونوں دوڑتے ہوئے ٹریفک کی رُکاوٹ کے مقام پر پہنچے تو وہاں سڑک کے بیچوں بیچ ایک لمبا چوڑا اژدھا آرام کر رہا تھا، جِس کا مونہہ اور دُم سڑک کی دونوں طرف کی جھاڑیوں میں کہیں تھی۔واضح ہو کہ سڑک اتنی کُشادہ یھی کہ دو گاڑیاں آمنے سامنے سے گُذر سکیں۔
وہ اژدھا بے حد خوبصورت بلکہ خوبصورتی کا مُرکب تھا۔ماحول کی مطابقت سے اُس پر جا بجا کئی رنگوں کے چھوٹے بڑے دھبے بہت پیارے لگ رہے تھے۔یقین مانیے کہ ایک سیکنڈ کو بھی دہشت کا احساس نہیں ہوا بلکہ اِس پر پیار ہی آیا۔فلمبندی کے دوران میں نے اُس کی جِلد کو ہاتھ لگایا تو وہ بہت سخت بلکہ کھردری محسوس ہوئی۔مونہہ کو چھوڑ کر دُم تک کی جب پیمائش کی گئی تووہ 20 فٹ نکلی۔ اُس پر کوئی 15 ا فراد بیٹھے ہوئے تھے۔فلم اور عکسبندی کے دوران ہماری ٹیم بھی اُس پر بیٹھی۔یہ اژدھا اپنی چوڑائی اور اونچائی کے لحاظ سے ایک بہت تناور کٹے ہوئے درخت کی طرح سے تھا۔
CUT AWAYS کا ذکر ہوا تو میں بھی کچھ کہتا چلوں کہ اسی اثناء میں دیکھا کہ ایک ٹرک ڈر ائیورنے اپنے ٹرک کے ریڈی ایٹر Radiator کے نیچے والے نَٹ کو کھولااوراُبلتا ہوا پانی ایک مگ میں ڈالا، نَٹ کو واپس لگایا اور پانی میں کافی ڈال کر چسکیاں لے کر پینے لگا۔اُس کے اَس عمل کو میرے علاوہ کسی نے بھی غور سے نہیں دیکھا ۔ کیوں؟اِس لئے کہ اُن کے لئے شاید یہ ایک عام سی بات تھی۔
میں نے اپنے یونٹ کے ایک ڈرائیور سے پوچھا کہ کھڑے ہوئے ٹرک ڈرائیور ،اِس اژدھے کے اوپر سے اپنا ٹرک کیوں نہیں گذار لیتے؟، جواب میں اُس نے کہا کہ اگر کوئی ارادتاََ ایسی حرکت کرے تو اُس کے ہا ں جو بچہ پیدا ہو گا اُس کی کھال ا دھوری، سانپ کے جیسی ہو گی۔تیز روشنی میں وہ نہیں رہ سکے گا۔پڑھنے والوں کی دِلچسپی کے لئے لکھتا چلوں کہ راقِم نے بھی ایسے دو بچے دیکھے تھے۔
کچھ دیر بعد ہمارے دائیں جانب سے ایک سیٹی بجتی سُنائی دی۔مقامی لوگ فوراََ اُس اژدھے سے اُترنے لگے۔میں بھی اُترا اور اُس اُترنے سے متعلق دریافت کیا۔مجھے بتلایا گیا کہ اِس حجم کے اژدھے، حرکت کرنے سے پہلے باقاعدہ آواز نکال کر خبردار کرتے ہیں ۔
اب آتے ہیں اصل واقعہ کی جانب۔بہت ہی سست رفتاری سے اژدھے نے حرکت شروع کی ۔ آہستہ آہستہ بالآخر وہ سڑک سے اُتر کر دائیں جانب ہلکا سے نیم دائرہ بناتا ہوا چلا گیا۔سڑک سے نیچے پکی زمین اُس کے وزن سے ڈھائی انچ دب گئی اور اژدھے کے جانے کی جگہ پر ڈھائی انچ گہری ایک باقاعدہ گزرگاہ بن گئی۔اور اِس کے راستے میں آنے والی جھاڑیاں ، اُس کے وزن سے دائیں بائیں جھکی پائی گئیں۔ایک جگہ کسی بڑے لنگور کی پسلیاں اُس نے اُگلی ہوئی تھیں۔
ہاتھی کا وقتِ آخر اور اُن کا شہرِخمو شاں
لنگوروں پر کام ختم کرنے کے بعد اگلی مہم قدرے سنجیدہ اور خطرناک تھی۔ وہ اِس طرح کہ ہاتھیوں کے غول کا ایک ہاتھی قریب المرگ تھا، اور پورا غول اُس کے ساتھ اپنے قبرستان جا رہا تھا۔ اِس غَم کے سفر میں ایک معمولی سی بات اُن کو سخت اشتعال دِلا سکتی تھی، خواہ وہ کیمرہ کے لینس کا اِنعکاس Reflection ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں میں آپ کو جنگلی حیات کی عکس بندی کے مُختلف مراحل سے آگاہ کرتا چلوں۔
ہاتھیوں کی مِثال دیتا ہوں۔آکاگیرا Akagera جنگل اِن کی آماجگاہ ہیں۔ نیشنل جیوگرافیک فِلم سوسائٹی میں سب سے پہلے تو لائبریریوں میں، پھر فیلڈ، یعنی خود اِس جنگل میں آ کر ’ آکاگیرا ‘ کے ہاتھیوں پر تحقیق کی گئی ۔اِن میں حیوانات کے ماہر اور ایک سینئر لایٹنگ کیمرہ مین بھی تھا۔ اُس کی تحقیق یہ تھی کہ کِس مہینہ میں عکس بندی کرنے آنا ہو گا ؟ اُس وقت کیا موسم ہو گا؟ قدرتی روشنی کا کیا انتظام ہو گا؟ کلر ٹمپریچر کیا ہو گا؟ ۔جانوروں کے ماہرین کا کام اِن ہاتھیوں کے غول ، اِن کے فضلہ اور عمومی موڈ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا نا تھا کہ آیا کوئی ہاتھی بیمار ہے؟۔پھر اِن ہاتھیوں کے قبرستان کا کھوج لگا نا۔یہ سب تحقیق کا شعبہ ہے جو اس کام کو مہینوں یا سال پہلے کرتا ہے۔اب جب اِس تحقیق سے مسلح ہو کر کوئی یونِٹ یہ کام کرنے جائے گا تو اُس کو 200% علم ہوتا ہے کہ اُس نے کب ، کیا کرنا ہے۔کوئی الل ٹپ کام ، یا ، ہوا میں تیر نہیں چلائے جاتے۔
جب کسی ہاتھی کا وقتِ آخر ہوتا ہے تو اکثر وہ خود اپنے غول کے ساتھ ایک مخصوص دَلدلی علاقے کی طرف سفر کرتا ہے، جِس کو راقِم نے ہاتھیوں کا قبرستان لکھا ہے۔دیکھا جائے تو حقیقتاََ یہ اُن کا قبرستان ہی ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو کیچڑ زدہ دَلدَل میں کئی ایک ہاتھیوں کی باقیات ملیں گی۔بعض ایسے گویا ہڈیوں کا ایک بڑا ڈھانچہ۔کچھ پُرانے ، کچھ اُس سے بھی قدیم اوربعض پہلو کے بَل گِرے ہوئے۔
محققوں کی تحقیق کے حِساب سے اِس مخصوص غول کے ایک ہاتھی کا وقتِ آخر تھا اور ااُنہوں نے دلدلی علاقے کی جانب سفر شروع کر رکھا تھا۔ہمارے فِلم یونٹ کا منصوبہ ، ہاتھیوں کے اپنے قبرستان تک آنے کے راستہ میں دو منتخب جگہوں پر عکس بندی کرنے کا تھا ۔عام حالات میں ہاتھیوں پر دستاویزی فِلموں کی عکس اور صدابندی میں کوئی بہت زیادہ دِقّت پیش نہیں آتی لیکن غَم و الم میں ڈوبے، اِن ہاتھیوں کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ جتنا ممکن ہو سکے اِن سے دور رہا جائے۔لہٰذا ایک دِن قبل ہی پورے یونٹ نے تیّاری کر لی۔کیسی تیّاری؟ یہ کہ کسی بھی قِسم کا کوئی کیمیکل ، خوشبو، شیونگ کریم، ٹوتھ پیسٹ، صابن ، چائے کافی، مشروبات، چولہا یا آگ، تمباکو نوشی سب ممنوع قرار پائے۔البتہ ایک مخصوص اسپرے ہر ایک فرد استعمال کرتا تھا جو اِنسانی بو کو ختم یا بہت کم کر دیتی تھی۔جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ یہ سب تدابیر عام طور پر ہاتھیوں کے لئے نہیں کی جاتیں، یہ صرف اِس لئے کی گئیں کہ کوئی معمولی سی بے احتیاطی ہماری سال بھر کی محنت پر پانی نہ پھیر دے ۔
یونٹ کو بتلایا گیا تھا کہ زیادہ امکان اِس بات کا ہے کہ وہ مخصوص ہاتھی دلدلی علاقے تک پہنچ جائے گا۔مگر عین ممکن تھا کہ راستہ ہی میں مُوت آن دبوچتی۔ایسے میں یونٹ کا کام بے انتہا خطرناک ہوتا۔تحقیق سے ثابت تھا کہ اگر راستہ میں ہاتھی مر جائے تو باقی ہاتھی اُس کو لاوارث چھوڑ کر کبھی نہیں جاتے؛ بلکہ تھوڑا انتظار کر تے ہیں اور جب یقین ہو جائے کہ یہ مر گیا تو اُس کو دھکے مار مار کر اپنے دلدلی قبرستان میں لا کر ہی چھوڑتے ہیں خواہ اُس مُردہ ہاتھی کا کتنا ہی بُرا حشر کیوں نہ ہو جائے۔
دلدلی قبرستان تک ’ وہ ‘ ہاتھی خیریت سے پہنچ گیا۔اِس میں ہم سب کی بھی خیریت رہی۔ آج بھی جب وہ مناظر یادآتے ہیں توجِسم میں جھرجھری آ جاتی ہے۔
وہ ہاتھی دَلدَل میں چپ چاپ آگے بڑھ کر کھڑا ہو گیا۔باقی ہاتھی کچھ فاصلہ پر ٹہر گئے۔اُس غول میں تقریباََ 30 عدد چھوٹے بڑے ہاتھی تھے۔یہ سب گھنٹوں کھڑے رہے۔پھر نسبتاََ چھوٹے ہاتھی اور بڑی مادائیں وہاں سے کچھ آگے بڑھ گئیں جہاں اُنہوں نے کچھ پیٹ پوجا کی۔باقی غول اُس ہاتھی کے ’ انجام ‘ کا مُنتظر رہا۔پھر جب غول کے سردار نے مناسب سمجھا تو ایک خاص آواز نکالی اور غول خاموشی سے کچھ آگے چلا گیا جہاں پہلے ہی سے بعض ہتھنیاں اور چھوٹے ہاتھی موجود تھے۔لیکن حیرت ناک بات یہ تھی کہ اُس ہاتھی کی ساتھی، یعنی اُس کی جوڑی دار ہتھنی وہیں بھوکی پیاسی موجود رہی۔غول کے باقی ہاتھی اُس کے لئے آگے منتظر تھے۔وہ غریب بھی خاصی دیر اکیلے قبرستان کے کنارے کھڑی رہی لیکن ابھی شاید ہاتھی کی زندگی باقی تھی، بالآخر وہ باقاعدہ آنکھوں میں آنسو لئے، ایک غمناک آواز نکال کر آہستہ آہستہ باقی غول سے جا مِلی۔
یہ جو چند مناظر آپ کی نظروں سے ابھی گزرے، میرے لئے اُس وقت یہ بہت اثر انگیز تھے۔ کیسا شاندار ایثار تھا۔
اِس دستاویزی فِلم کی تدوین Editing غالباََ لندن میں کی گئی تھی اور اُسی سال نُمائش کے لئے پیش کر دی گئی تھی۔
لشکری چیونٹیاں army ants :
چیونٹی دیکھنے میں تو ننھی مُنی سی ایک مخلوق ہے لیکن محاوروں اور ضرب الامثال میں ہاتھی کی برابری کرتی نظر آتی ہے ۔لشکری چیونٹیاں army ants وسطی اور مشرقی افریقہ میں پائی جاتی ہیں ۔ کوئی بدقِسمت انسان اِن کے ہتھے چڑھ جائے تو کم و بیش چار گھنٹوں کے بعدڈھانچے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ فوج کے حملہ آور دستہ کی مانند یہ منظم طریقہ پر تقریباََ 25 میٹر فی گھٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں ۔ سواہیلی زبان میں اِن چیونٹی کی اِس قسم کو سیِےَافُو کہا جاتا ہے۔یہ ہمارے ہاں کی چیونٹی سے خاصی بڑی ہوتی ہیں، جسامت کے مقابلے میں ان کا سر بڑا ہوتا ہے۔اِن کے جبڑے سمندری کیکڑے کے زنبور کی طرح سے تلوار جیسے کاٹ رکھتے ہیں جن کے کاٹنے سے شدید تکلیف ہوتی ہے۔جبڑوں کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ اگر ان کو کھینچ کر الگ کیا جائے تو یہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں مگر اس کا سر کاٹنے والی جگہ میں ہی رہ جاتا ہے۔
ہمارے یونٹ کو ایک صبح مقامی افراد نے بتایا کہ فلاں مقام پر سِیافو کی جارحانہ حرکت دیکھی گئی ہے، اس پر یونٹ انچارج نے خبر لانے والے کو کچھ ضروری احکامات دے کر رخصت کیا اور تمام یونٹ کو تیار رہنے کو کہا۔ہمارا اُس روز اپناعکسبندی کا کام ، سہ پہر کو شروع ہونا تھا ۔ڈ یڈھ دو گھنٹے بعد وہ شخص اِس اطلاع کے ساتھ واپس آیا کہ لشکری چیونٹیان قریبی بستی سے آدھ میل کے فاصلہ پر خوراک کی تلاش میں ہیں ۔
اب تک تو راقم لشکری چیونٹیوں کو تباہی کی مشین ہی سمجھتا تھا اب جو کچھ اُن سے کروایا جانے والا تھا وہ اُن کا ایک نہایت ہی قابلِ تعریف کام تھا: ہوا یہ کہ اندرونِ جنگل ایک مختصر سی بستی کے مکین بڑی کوشش کے بعد دھوکہ اور لالچ کے ذریعہ اِن سیِےَافُو چیونٹیوں کو اپنی بستی اور اُس سے ملحق تھوڑی سی کھیتی باڑی کی جانب لانے میں کامیاب ہونے والے تھے۔بستی کے مکیں دو چار روز کے لئے اپنے کچے پکے گھروں سے نقلٍ مکانی کر گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ یہ چیونٹیاں اپنے راستے میں حرکت کرنے والی ہر چیز چَٹ کر جاتی ہیں اور جنگل میں رہنے والوں کے لئے ابرِ رحمت۔کھیتی کو کچھ نہیں کہتیں جب کہ اُس کو نقصان پہنچانے والے حشرات کو رغبت سے کھاتی ہیں ۔ لشکری چیونٹیوں کا اِن کی بستی میں آناخوشگوار تاثرات چھوڑ جاتا ہے۔وہ ایسے کہ مکڑیاں، بچھو، سانپ اور چوہے وغیرہ ایسے صاف کر جاتی ہیں جیسے شہروں میں سال چھ ماہ کی ضمانت دے کر نامور کیڑے مکوڑے کنٹرول کرنے والے ادویات کا چھڑکاؤ کر کے جاتے ہیں۔ حیرتناک بات یہ کہ اِن گھروں میں رکھے ہوئے اناج سے وہ کوئی زیادہ سروکار نہیں رکھتیں۔ افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ بستی کے گھروں میں موجودہ روشنی کے ناکافی ہونے کی وجہ سے اِس سرگرمی کی ریکارڈنگ اور عکسبندی نہیں ہو سکی۔لیکن اِس کی کمی اُس منظر نے پوری کر دی جہاں اِن چیونٹیوں سے سرجری کا کام بطور سرجن کرایا گیا۔وہ ایسے کہ بڑھتے ہوئے لشکر کے کسی انتہائی جانب اُس مریض کو رکھا گیا جِس کی ٹانگ میں گہرا گھاؤ آ گیا تھا۔درد تو اُس غریب کو پہلے بھی ہو ہی رہا تھا اب وہ مزید بڑھ گیا ۔ گھاؤ کی دونوں جانب لشکری چیونٹیاں اپنے جبڑے گاڑنے لگیں دیکھتے ہی دیکھتے زخم کے دونوں جانب چیونٹیاں ہی چیونٹیاں نظر آنے لگیں ۔اِس مرحلہ پر اُس شخص کو وہاں سے ہٹا کر کھلی جگہ لے آئے اور برق رفتاری سے زخم کے دونوں جانب چیونٹیوں کو نوچ نوچ کر اُتارا جانے لگا۔عجیب ہی نظارہ تھا۔وہ چیونٹیاں نوچنے پر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھیں۔پیچھے والا حصہ آسانی سے ٹوٹ کر آپ کے ہاتھ میں آ جاتا لیکن مونہہ ...... اللہ کی پناہ واقعی سمندری کیکڑے کی طرح اُس کا مونہہ مریض کے زخم میں پیوست رہ جاتا تھا۔اب جو گھاؤ کو پانی میں بگھوئے ہوئے کپڑے سے صاف کیا تو اُس گہرے زخم کی جگہ واقعی صرف ایک لکیر نظر آئی جں کے دونوں جانب کالے کالے ٹانکوں کی صورت اُن چیونٹیوں کے سر رہ گئے تھے۔جب پوچھا گیا کہ کیا یہ ایک مرتبہ کی سرجری مریض کے لئے کافی رہے گی؟ تو اِس کا جواب دیا گیا کہ ان چیونٹیوں کی حرکات پر آدمی نظر رکھے ہوئے ہیں تو اگر مزید ضرورت ہوئی تو ایک دفعہ اور یہ کاروائی کی جائے گی۔مزے کی بات نفسیاتی طور پر وہ زخمی شخص اب مطمعن تھا اور ایک لکڑی کے سہارے چلنے بھی لگا۔
جنگل کے آس پاس رہنے والوں کی ثقافت :
اندرونِ جنگل یا اِن کی قریبی آبادیوں کے رہنے والوں کے اعتقادات زیادہ تر غیر الہامی تھے۔لیکن اُن کے بھی ضابطے اور قوانین ہُوا کرتے تھے۔یہ کہنا غلط ہو گا کہ تہذیب اِن کو چھو کر نہیں گئی۔اچھی یا بُری، اِن مقامی افریقیوں کی ایک تہذیب او ر با قاعدہ ثقافت تھی ۔ اِن کے ہاں بھی رنگا رنگ تہوار اور کھیل تماشے ہوتے تھے ۔ٹھیک ہے سجاوٹ اور خوبصورت نظر آنے کے پیمانے مختلف تھے مگر کیا مرد کیا عورتیں، تہواروں اورخوشی غمی کے موقع پر دِل کھول کر اِس قُدرتی جذبہ کا اِظہار کرتے تھے۔ رقص اور رِدھم Rythem تو اُن کی گٹھی میں پڑا ہوتا تھا۔کئی ایک طرح کے ردھم آلات استعمال کیا کرتے تھے مثلاََ روایتی ’ کانگو ‘، کئی قِسم کے ڈھول، جِن پر مختلف اقسام کے جانوروں کی کھال منڈھی ہوئی ہوتی تھی۔یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ یہ ہمیشہ اپنے مُخالف کی کھال کھنچوا کر ڈھولوں پر منڈھتے ہیں۔ میں نے اپنے قیام کے دوران ، ایسی ایک بھی بات نہ سُنی نہ دیکھی۔ راقِم نے بھی بلوچی لوک گیت ’ وشملے ‘ کو اُن کے کانگو پر خو د رِدھم دے اور گُنگنا کر سُنایا تو کئی ایک نوجوان دیوانہ وار رقص کرنے لگے۔حیرت ناک بات یہ کہ اُن کا رِدھم اِس سے مِلتا جُلتا ہی تھا۔
زندگی زندہ دِلی کا نام ہے۔کیا وسطی اور کیا مشرقی افریقہ، آپ کہیں چلے جائیں، جنگل اور اُس کے قریب رہنے والے اپنے حال میں مست اور ہر وقت خوش رہا کرتے تھے۔ معیارِ زندگی کیا بلا ہے؟ وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ فرانک، پونڈ، ڈالر کی دوڑ اُس وقت شروع نہیں ہوئی تھی۔غریب ہونا کوئی جُرم نہیں تھا۔بچت اور کل کیا ہو گا؟ ہمارے بچوں کا کیا بنے گا؟ اِن سوالات کا اُس وقت دور دور کوئی پتہ نہیں تھا۔کوئی قناعت پسندی سی قناعت پسندی تھی۔جب ہی توجو جِس حال میں تھا، خوش تھا۔
آج پورا چاند ہے، لیجئے زندگی سے بھر پور ہنگامہ تیّار۔جِس میں بستی کا سردار، مرد عورت ، لڑکے لڑکیاں، جوان بوڑھے سب ذوق و شوق سے حصّہ دار۔کسی کے ہاں ولادت ہوئی، لیجئے ایک اور رنگا رنگ تقریب۔حتیٰ کہ موت اور سوگ پر بھی بعض بستیوں میں خوشی منائی جاتی تھی۔
دریائی بھینسا بھی کم خطرناک نہیں :
رُوانڈا میں کئی ایک دریا اور جھیلیں ہیں جِن میں دریائی بھینسے Hippopotamus بھی پائے جاتے ہیں۔یہ جانور دِن بھر پانی میں رہنا پسند کرتا ہے اور شام کے بعد خشکی پر بھی آ جاتا ہے۔ چونکہ یہ ملک نِسبتاََ زیادہ بُلندی پر واقع ہے اِس لئے خطِ استوا پر واقع دیگر ممالک کے مُقابلے میں یہاں قدرے کم درجہ حرارت ہوتا ہے ۔ سارا سال نہ سردی نہ گرمی، اور تقریباََ روزانہ ہی پھوار پڑتی ہے۔ لہٰذ ا یہاں کی جھیلوں اور دریاؤں میں رہنے والے دریائی بھینسے، دِن میں بھی پانی سے باہر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔سواحیلی زبان میں اِس جانور کو ’ کی بَو کو ‘ Kiboko کہتے ہیں۔
لاہور کے چڑیا گھر میں بھی ایک جوڑا موجود ہے۔اِن کو راقِم ایک بے ضرر مخلوق سمجھتا تھا مگر ایسا ہے نہیں۔اب اِن کا بھی ایک واقعہ بتاتا چلوں۔ ہوا یوں کہ راقِم، بورونڈی Burundi کے دارالحکومت بوجومبورا Bujumbura سے تنزانیہ کے شہر ’ کیگوما ‘ Kigoma کے لئے، ایک فیری (مال بردار بڑی کشتی) میں جھیل ٹانگانیکا LakeTanganyika میں سفر کر رہا تھا۔بات سے بات نکل رہی ہے، یہ دنیا کی دوسری سب سے زیادہ گہری جھیل ہے اور اِس میں باقاعدہ بحری جہاز بھی چلتے تھے۔اُسوقت اِن دو شہروں کے سفر کا دورانیہ تقریباََ 14 گھنٹے کا تھا۔شام 6 بجے سفر کا آغاز ہوا۔ سفر بمشکل شروع ہی ہوا تھا اور کنارا ابھی دِکھائی دے رہا تھا کہ کچھ مُسافر عرشے پر آ گئے۔ میرے ساتھ ایک جاپانی نوجوان سیّاح ہمسفر تھا، جِس کا ذکر پچھلے واقعات میں کیا جا چکا ہے ، اُس نے اشارے سے نیچے جھیل کی سطح پر دیکھنے کو کہا۔ فیری کے بالکل ساتھ، بہت سے دریائی بھینسے نظر آئے ۔اِس سے قبل راقِم نے اِن کو اپنی رہائش گاہ کے پاس رات کو اکثر دیکھا تھا۔یہ اپنے کام سے کام رکھا کرتے تھے۔مگر یہاں جھیل میں ، ہماری اُس فیری کے ساتھ یہ بہت بے چین اور قدرے غصّہ میں نظر آ رہے تھے۔پھر تو گویا پانی کی سطح پر بھونچال سا آ گیا۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ مگر مچھ اور اِن مین کوئی تنازع ہے ۔مگر مچھ کا سب سے بڑا ہتھیار تو خود اُس کی دُم ہوتی ہے، جو کہ اِس لڑائی میں بخوبی استعمال بھی کی گئی۔مگر حیرت کا پہلو یہ تھا کہ دریائی بھینسے بھی برابر کی چوٹ تھے۔ دو بدو لڑائی کا انجام تو خیر کوئی نہیں نکلا۔البتہ عرشہ پر اِس لڑائی دیکھنے والوں کے شور و غُل سے ایک دو بھینسے مشتعل ہو گئے اور اپنی لڑائی چھوڑ کر فیری کو ضربیں لگانے لگے۔اگر یہ کوئی چھوٹی موٹی کشتی یا لانچ ہوتی تو خاصا نقصان کر سکتے تھے۔
چلتے چلتے ذکر کرتا چلوں کہ جانوروں کے مونہہ کو بند کرنے کی طاقت میں اِس جانور کا نمبر چوتھا ہے۔جو 1800 پونڈ فی مربع انچ ہے۔( وکی پیڈییا)۔
پہاڑی گوریلے :
والکانو نیشنل پارک Volcanoes National Park اِس جانورکی افزائش اور پُر امن بقاء کے لئے مثالی جگہ تھی۔ہمارے یونٹ کے ذمہ ایک دلچسپ کام سونپا گیا وہ بین الاقوامی شہرت کی حامِل ڈائیان فَوُسے سے گوریلوں سے متعلق اُس کی تحقیق پر بات چیت اور کچھ گوریلوں کی عکسبندی۔اِسی جگہ پر 1967سے امریکی فطرت پسندڈائیان فَوُسے نامی خاتون نے گوریلوں پر اپنا تحقیقی مرکز قائم کر رکھا تھا۔اس نے یہاں مسلسل 18 سال روزانہ اِن پر تحقیق کی۔ کہا جاتا ہے کہ تیزی سے ختم ہوتی اُن کی نسل کو معدوم ہونے سے بچایا۔اِس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر یہ مسئلہ اُٹھایا۔ خاتون نے کوئی زیادہ وقت تو نہیں دیا لیکن احقر نے پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی شخصیت کو قریب سے دیکھا۔اُس وقت لیپ ٹاپ انٹرنیٹ سیٹلائٹ فون وغیرہ کہاں تھے۔اِس سب کے نا ہونے کے باوجود وہ انسان نہیں جنّات کی مانند اپنے صبح شام گذارتی تھیں۔اِن کی سائنسی بنیادوں پر کی گئی تحقیق بعد میں آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ بنی۔
یہ پہاڑی گوریلے میدانی گوریلوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹے قد کے ہوتے ہیں جن کا اوسط قد پانچ فٹ ہوا کرتا ہے ۔تحقیق کے مطابق یہ چھ فٹ سے زیادہ بھی نظر آئے ہیں۔اُس بُلندمقام پر دھند اور بادلوں میں لپٹے پہاڑی جنگل میں خاکسار نے 10 فٹ کے فاصلے سے اِس جانور کو دیکھا تھا۔یونٹ کو بتلایا گیا تھا کہ پہاڑی گوریلے شرمیلے اور تنگ نہ کرنے والے جانوروں میں سے ہیں۔یہ گروپ میں کِس طرح سے رہتے ہیں، صبح شام کیسے بسر کرتے ہیں وغیرہ تو اِس سلسلہ میں ہمارا یونٹ ایک نسبتاََ کم شرمیلے گروپ کے ساتھ گروپ کی رضامندی سے نتھی ہو گیا۔ہے تو بڑی عجیب سی بات لیکن رضامندی اِن کے بڑے گوریلے کی حرکات اور اشاروں سے ظاہر ہو رہی تھی۔یہ بات ہمیں ڈائیان فوسے نے بتلائی تھی۔
ہماری موجودگی میں اِس گروپ کو غیر قانونی شکاری، تیندوے اور دوسرے گروپ کے گوریلوں کے ساتھ کسی قسم کی کشمکش میں مبتلا نہیں دیکھا، لیکن ہمیں بتایا گیا تھا کہ خطرہ کی صورت میں گروپ کا سردار ، گروپ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان تک دے ڈالتا ہے۔اِس خاتون نے پھر 1983 میں ایک کتاب لکھی ’’ Gorillas in the Mist ‘‘ جِس میں سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ اُس کی اپنی زندگی کی کہانی بھی تھی۔فوسے کو 1985 میں اِسی کے کیمپ میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔1988میں اِن کی کتاب پر فلم بھی بنائی گئی۔ ڈائیان فوسے کا کیس ابھی بند نہیں ہوا ہے۔
آنجہانی فوسے کے کیمپ میں اور قریبی بستی کے مقامی اِس خاتون کے بارے میں متضاد رائے رکھتے تھے جو ہمارے یونٹ نے عکس اور صدابند کی اور یہ دستاویزی فلم نشر بھی ہوئی۔
اب چند اختتامی جملے ۔ٹھیک ہے ڈائیان فوسے نے اپنی پوری زندگی اِس کام میں لگا دی اور موت کے بعد بھی اِسی کیمپ میں دفن ہونا پسند کیا، لیکن اُن کا ایک بین الاقوانی مقام اور نام تھا۔روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں۔ان کا کام صر ف گوریلوں کی تحقیق تھا۔راقم نے لاہور میں ایک نجی ٹیلی وژن چینل میں 2009 سے2011 تک ایک ذمہ دار عہدے پر کام کیا۔اَس دوران لاہور کے چڑیا گھر میں بچو ں کے ایک مجوزہ پروگرام کے لئے میری وہاں کی ڈاکٹر ثمن بھٹی سے ملاقات ہوئی۔راقِم نے چھوٹے بڑے جانوروں سے جو اِن کا سلوک اورجواب میں ببر شیر، تیندوے، کالے ریچھ، چمپینزی وغیرہ کی ان سے عملاََ محبت دیکھی تو اُس پر جی چاہتا ہے کہ باقاعدہ مضمون لکھوں۔ڈاکٹر صاحبہ کی اگلے گریڈ میں ترقی میں روڑے اٹکائے گئے جب کہ ان کی کارکرد گی ایسی تھی کہ ڈیوٹی کے بعد بھی جانوروں کا گوشت، پھل، دودھ وغیرہ کی سپلائی کے وقت خود موجود ہوتیں تا کہ بے زبانوں کو اُن کی مختص کردہ معیاری خوراک مل سکے۔ راقم نے بار ہا داکٹر صاحبہ کو اُن کی چھٹی میں بھی جانوروں کی خوراک کی سپلائی میں چڑیا گھر میں مستعد دیکھا۔مگر؟؟؟ افسوس کہ انتظامیہ نے اِس قدر قابل اور جانورون سے پیار کرنے والی شخصیت کی کوئی قدر نہیں کی۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے یہ قابلِ قدر جوہر اب مشرقِ وسطیٰ چلا گیا۔
............................................
اختتام دوسری قسط
(افریقیات کی یہ دوسری قسط ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے مئی 2017 کی اشاعت میں شایع ہوئی )
(افریقیات کی یہ دوسری قسط ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے مئی 2017 کی اشاعت میں شایع ہوئی )
Comments