Posts

Showing posts from October, 2017

Ustad Salamat Husain Bansuri Nawaz

Image
 اُستاد سلامت حسین

اُستاد سلامت حسین بانسری نواز

اُستاد سلامت حسین بانسری نواز تحریر شاہد لطیف اکتوبر 1980میں راقِم کو پاکستان ٹیلی وژ ن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرا م سے منسلک ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ ایک دن صدر دروازے پر بین الاقوامی شہرت یافتہ موسیقار، بانسری نواز سلامت حسین پر نظر پڑی جو سر جھکائے جا رہے تھے۔ میں اُنہیں اچھی طرح سے پہچانتا تھا ۔ میں بہت شوق سے اِن کو سننے پاک امریکن کلچرل سینٹر، آرٹس کونسل وغیرہ جایا کرتا تھا۔ آج وہ میرے سامنے تھے، میری دلی خواہش تھی اِن کی بانسری پر کلاسیکی راگوں پر مبنی پروگرام پیش کروں۔جلد ہی ایسے کئی ایک مواقع آئے اور پروڈیوسر مرغوب احمد صدیقی صاحب کے ساتھ اُن کے کلاسیکی موسیقی کے پروگرام راگ رنگ کیے ۔ طویل عرصہ بعد پچھلے دنوں سلامت صاحب سے ایک نشست رہی ۔ اُس میں کی گئی گفتگو اور سوال جواب پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے پیش کیے جا رہے ہیں:  ’’ میں 1937میں ریاست رام پور میں پیدا ہو ا۔ میرے خالو،ریاست کے سرکاری بینڈ میں تھے اور مُشتاق حُسین خان اور اِشتیاق حُسین خان سے کلاسیکل موسیقی کا درس لیا کرتے تھے۔یہیں موسیقار نوشاد علی بھی اِن سے سیکھنے آتے تھے۔میں کم عمری سے ہی خالو کے ساتھ

کراچی میں ٹریفک کے مسائل و حادثات میں موٹر سائیکل کا کردار

کراچی میں ٹریفک کے مسائل و حادثات میں موٹر سائیکل کا کردار تحریر شاہد لطیف پچھلے دِنوں جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے زیرِ اہتمام ایک سمینار کا انعقاد ہوا جس کا عنوان ’ روڈ اوئیرنیس‘ تھا۔اس میں بعض چونکا دینے والے اعداد و شمار اور انکشافات کیے گئے۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس عمران یعقوب نے کہا : ’’ 75 فی صدحادثات موٹرسائیکل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اِس کا شکا ر 16 تا22 سال تک کے نوجوان بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں۔اِن حادثات کی ایک بڑی وجہ ہیلمٹ کا عدم استعمال ہے‘‘۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔آپ کراچی کے کسی بھی مصروف اشارے، کراسنگ، یو ٹرن حتیٰ کہ ریلواے پھاٹک پر چلے جائیں ۔آپ کو ایک ہی نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔وہ یہ کہ تقریباََ تمام ہی موٹر سائیکل سوار (بشمول فیملی) ٹریفک قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے آگے جمع نظر آتے ہیں ۔ابھی اُن کے جانے کا اشارہ بھی نہیں کھلتا کہ پانچ دس موٹر سائیکل والے اکٹھے اپنی راہ لیتے نظر آئیں گے۔یہ لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کو یہ سب کرنے کا حق ہے، اِن کا وقت دوسروں سے زیادہ قیمتی ہے (اور جان سستی) اور سب سے بڑھ کر کوئی اِن کی موٹر سائیکل کو ٹچ بھی کر دے تو ۔۔۔

Karachi Main Traffic Kay Masayal O Hadsaat, Aur Motor Cycle Ka Kirdar

Image
کراچی میں ٹریفک کے مسائل و حادثات اور موٹر سائیکل کا کردار

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ

ٹیلی وژن اداکارہ خالدہ ریاست ( یکم جنوری 1953 سے 26 اگست 1996 ) تحریر شاہد لطیف خالدہ ریاست ۔۔۔70 اور80 کی دہائی کا ایک چمکتا ہوا تارہ جو اپنی ہم عصرخاتون فنکاروں، روحی بانو اور عظمیٰ گیلانی سے کسی طور بھی کم نہیں۔پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی نامور اداکارہ عائشہ خان، خالدہ کی بڑی بہن ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی ہم عصر ساتھی فنکاراؤں کے مقابلے میں انہوں نے کم کام کیا لیکن جو کردار ادا کیا، ایسا کیا گویا کہ یہ خالدہ ریاست نہیں بلکہ وہ کردار خود چیخ چیخ کر اپنی موجودگی ثابت کر رہا ہو۔ جید اور تجربہ کار فنکاروں کا اپنا ایک معیار ہوا کرتا ہے لیکن خالدہ کے ہاں معیار کا بھی ایک اپنا ہی معیار ہے۔وہ ایسے کہ انہوں نے اپنی اداکاری کا کوئی ایک معیار مقرر ہی نہیں کیا ۔ اُن کے ہاں تو ہر ایک ڈرامے اور ہر ایک کردار کا اپنا ہی علیحدہ معیار ہوا کرتا تھا۔ اداکاری میں کردار کواپنے اوپر حاوی کر کے سامنے لے آنا کوئی مذاق نہیں۔ دیوانگی کی حد تک کردار میں ڈوب کر اپنی روح کے کرب کو سامنے لانے کی شدید ترین تکلیف اور کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ خالدہ ریاست سلسلے وار ڈرامہ سیریل ’ نامدار ‘ سے ٹیل

Khalida Riyast.- Kirdar Main Dhal Jany Wali Adakarah

Image

تُم ہو پاسبان اِس کے

تُم ہو پاسبان اِس کے تحریر شاہد لطیف آجکل میاں نواز شریف کے ایک بیان کا بہت چرچا ہے جِس میں انہوں نے قادیانیوں پر مبیّنہ زیادتیوں کے بعد ایک بیان میں اُنہیں اپنا بھائی قرار دیا ۔۔۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم رِشتوں کو بھی اِصطلاحاََ بیان کرنے لگے ہیں اور اُس کے حقیقی معنوں کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں۔لفظ ’’بھائی ‘‘ کو ہم بس ایسے ہی بیان کر دیتے ہیں اور اِس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔مثلاََ بھائی لوگ عموماََ بد معاشوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اِس طرح جب کسی سے ہمدردی جتائی جاتی ہے تو اُسے بھائی کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر آج تک کبھی کسی نے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو ’’بھائی ‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔کسی نے انفرادی فعل کیا بھی ہو تو اُسے بھی اِس لفظ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے کُجا کہ قومی سطح کے ایک راہنما جو پاکستانی عوام کی کثیر تعداد کے پسندیدہ ہیں، وہ برسرِ عام ایک اقلیت کے لئے، اسے استعمال کریں۔ ’’بھائی ‘‘ کا رِشتہ کسی شخص (مرد یا عورت) سے ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے بنتا ہے اور یہ ایک برابری کا رِشتہ ہے۔یا پھر ہمارے پیغمبرِ پ

Tum Ho Pasbaan Is Kay

Image
 تم ہو پاسبان اس کے

Nawaz Shariff Aur Indra Gandhi Ki Milti Julti Kahani - Doosra Aur Akhri Hissah

Image
 نواز شریف اور اندرا گاندھی کی ملتی جُلتی کہانی کا دوسرا اور آخری حصہ

پاکستان کا قومی ترانہ دوبارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟

پاکستان کا قومی ترانہ دوبارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟ تحریر شاہد لطیف وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ، حکومتِ پاکستان کی جانب سے ۲۰ اگست کے قومی اخبارات میں آدھے صفحہ کا اشتہار شائع ہوا۔ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ اب دوبارہ نئے سازوں اور آوازوں کے ساتھ صدا بند کیا جانے والا ہے۔ اِس میں کیا ساز ہوں ؟ ان کی تفصیل بھی درج ہے۔یہ بھی واضح درج ہے کہ اب آوازوں کے ’ کاؤنٹر ‘ کا استعمال کروا کر اس کو مغربی رنگ دیا جانے والا ہے۔ موسیقاروں اور فلمسازوں سے تکنیکی اور مالی بنیاد پر پیشکشیں مانگی گئی ہیں۔ اِس ترانے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تفصیل اس کے علاوہ ہے۔ اس اشتہار سے بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں : سب سے پہلا سوال جو یہ اشتہار پڑھ کر ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ کہ اِس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اِس سلسلے میں ، میں نے بھی تحقیق کی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق 70 ویں یومِ آزادی شایانِ شان منانے کے سلسلے میں مذکورہ وزارت میں ایک اعلی سطح کی میٹنگ ہوئی ۔ سیکریٹری انفارمیشن کی موجودگی میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی طے ہوا کہ پاکستان کا قومی ترانہ اور اُس کا سازینہ نئے زمانے اور نئے ت

امریکی بِپتا

امریکی   بِپتا تحریر شاہد لطیف چرکی ریڈ انڈین نَورا :  2000 کے شروع کا ذکر ہے، راقم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا کے ایک چھوٹے سے قصبے ’ اُوک ہِل ‘ میں رہتا تھا۔او ر کام کے سلسلے میں یہاں سے 52 میل کے فاصلہ پر ساؤتھ چارلسٹن چند روز کے اندر اندر منتقل ہونے کے انتظامات کا سوچ رہا تھا ۔ میری عادت تھی کہ فرصت کے اوقات یا کبھی چھٹی والے روز ،کسی ویران اور متروک قبرستان میں اپنی 1989 ماڈل کی ٹویوٹا ٹرسل میں جا کر گھومتا پھرتا۔ اِن ہی ایام میں ایک چرکی ( جِس کو ہم لوگ چیروکی کہتے ہیں) خاتون، نَورا Nora سے مُلاقات ہوئی جو اپنے آپ کو خالص چرکی کہلواتی تھی اور اس کی آنکھیں اور چہرہ مہرہ سب ہی ریڈ انڈین لگتا تھا۔میرے شوق کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے ایک خاندانی لیکن متروک اور غیر آباد قبرستان میں لے آئی۔واقعی ٹوٹے اور جھولتے ہوئے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں تو زمانے سے کوئی زندہ یا مردہ نہیں آیا ۔ میر ے کہنے پر وہ مجھے قبرستان کے ایک قدیم مقبرے میں لے آئی جس کا آدھا دروازہ کب کا گر چکا تھا ۔ بظاہر تو سورج کی روشنی کافی تھی لیکن اس مقبرہ میں ک