سدابہا ر موسیقار کریم شہاب الدین


سدابہا ر موسیقار کریم شہاب الدین 


تحریر شاہد لطیف



دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں   

 ایسا   نشہ تیرے پیار نے   دیا        
کھو   گئے   سپنوں   میں   ہم


 تیری یاد آ گئی غم خو شی میں ڈھل گئے

 اِک   چراغ   کیا جلا سو چراغ جَل گئے


ماضی کے یہ گیت کل بھی مقبول تھے اور آج بھی مقبول ہیں..... لیکن...... ایک بہت ہی بڑا المیہ یہ ہے کہ اِن گیتوں کے گلوکاروں کے نام تو عوام جانتی ہے لیکن اکثریت اِن مقبول ترین نغمات کے خالق ، یعنی موسیقار اور شا عر کا نام نہیں جانتی۔ اِن کی وجوہات کیا ہیں؟ اِس موضوع پر گفتگو پھر سہی ، لیکن آج اُس سدابہار موسیقار کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اپنی طرزوں کی نغمگی کی طرح میٹھی میٹھی اور فرحت انگیز شخصیت کا مالک تھا یعنی کریم شہاب الدین۔ 


70 کے اواخر میں راقم نے کریم شہاب الدین کو مُحسن شیرازی صاحب کے   لائیو اسٹیج شو  فروزاں   میں دیکھا۔ پھر قسمت مجھے پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی مرکز میں لے آئی۔ جہاں اُن دِنوں سہیل رعنا، کریم شہاب الدین، غلام نبی ( غلام نبی کے ساتھ مرحوم عبدالطیف کی جوڑی   غلام نبی عبدالطیف کے نام سے مشہور تھی۔ اِن کی مشہورِ زمانہ اُردو فلم   آگ کا دریا ہے  ) نیاز احمد، فیروز گُل، جاوید اللہ دتّہ، اختر اللہ دتّہ اور زیڈ ایچ فہیم صاحبان کا بہت نام تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے نثار بزمی صاحب کے پہلے باقاعدہ موسیقی کے پروگرام کروانے کا اعزاز بھی اِس خاکسار کو حاصل ہے۔ 


راقِم نے کریم شہاب الدین کے ساتھ خاصا عرصہ گزارا ہے۔ اُن میں ایک ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے کی قائدانہ صلا حیت تھی۔ہر ایک سازندے کا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے ۔لایؤ اسٹیج ریکارڈنگ ہو یا کوئی اسٹودیو ریکارڈنگ، کریم بھائی کی موجود گی بھر پور ہوا کرتی تھی ۔ نہایت ہی اچھے منتظم، اور اپنے مزاج اور مصروفیت دونوں میں غضب کی لچک رکھتے تھے۔ ایسی لچک میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ وہ ریکارڈنگ / ریہرسل کے لئے یہ ذہن میں رکھ کر آتے تھے کہ اَس دُھن اور اُس کے پیسوں pieces کے لئے کون کون سے ساز ہوں گے ۔ یہ بھی کہ کِس سے کیا پیس بجوانا ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ گیت کی موسیقی، شاعری اور سازوں کے امتزاج کا وہ مجموعی تاثر پیدا کیا جا سکے جو سُننے والوں کے کانوں کو بھلا لگے۔

موسیقی کی دنیا کا آغاز کریم شہاب الدین نے آغا خان آرکسٹرا بمبئی، بھارت سے کیا۔وہاں پر اُن کی ہم عصر مشہور موسیقار جوڑی، کلیان جی آنند جی تھے ، جِن کے ساتھ اُن کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ پھر وہ ڈھاکہ ، مشرقی پاکِستان چلے آئے اور یہیں سے فِلموں میں موسیقی دینا شروع کی۔ کریم شہاب الدین اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔وہ پرنس کریم آغا خان کے کہنے پر بمبئی سے ڈھاکہ گئے تھے اور اُنہی کی ہدایت پر غالباََ 70 کے اوائل میں لاہور آ گئے جہاں اُنہوں نے پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے موسیقی کے بہت سے پروگرام کیے۔بعد ازاں وہ 70  کے اواخر میں کراچی چلے گئے ۔


کریم بھائی کی گرفت کمپوزیشن اور آرکسٹریشن پر بہت گہری تھی۔ اُن کا تجربہ بھی بہت وسیع تھا۔ اُن کی تمام دھنیں اور ارینجمنٹ بالکل اُن کی اپنی اور اصلی ہوا کرتی تھیں۔ میلوڈی یا گیت کی نغمگی کا مجموعی تاثر، کریم بھائی کے ہاں اوّل تا آخر قائم رہتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اُردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ میلوڈی کی یہاں دو مِثالیں دی جاتی ہیں:
؂
وہیں زندگی کے حسیں خواب    ٹوٹے
میرے ہمسفر تم جہاں ہم سے چھوٹے 
اِس گیت کو صہبا اختر صاحب نے لکھا ( شاعر صدیقی صاحب کا بھی نام لیا جاتا ہے) جِس کے گلوکار جمال اکبرتھے۔

کہاں   ہو تُم   چلے آ ؤ   محبت کا تقاضہ ہے
غمِ دنیا سے گھبرا کر تمہیں دِل نے پُکارا ہے
اِس گیت کے شاعر جناب شاعر صدیقی اور گلوکارہ شہناز بیگم تھیں۔ 
اِن گیتوں کو سُنیں تو آج بھی اتنا ہی لطف دیتے ہیں ۔


کریم شہاب الدین کو برِ صغیر پاک و ہند میں مرو جہ آرکیسٹریشن کے مختلف اِسٹائل پر کمال کا علم تھا؛ جِس کے وہ تجربات بھی کرتے رہتے تھے۔ وہ صحیح معنی میں ایک تخلیق کار تھے۔ وہ گیت کی چال ، وزن یا میٹر ، سُر ، سازوں کا انتخاب اور پھر اُن سب سے ایک ساتھ کام لینے میں بہترین مہارت رکھتے تھے۔


وائلن کے خاندان کا ایک ساز  چیلو celloہوتا ہے۔ ہمارے ہاں نہ جانے کیوں غم کا ساز سمجھ کر، کبھی کبھار ہی فلمی گیتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔کریم بھائی کے ہاں اِس کا اکثر استعمال دیکھا۔انہوں نے چیلو  کو ہر ایک موقع پر استعمال کیا ۔ اِس طرح اُس کے بارے میں غم کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے چیلو سے متعلق ایک بات لکھتا چلوں کہ یورپ میں اِس ساز کو اِنسانی آواز کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے جبکہ ہماری سارنگی  حقیقتاََ اِنسانی آواز سے اِس کے مُقابلے میں کہیں زیادہ قریب ہے۔آپ انٹرنیٹ پر دونوں سازوں کا انفرادی تقابل کر سکتے ہیں۔ 


راقِم کے اوّل اوّل موسیقی کے پروگراموں میں شاعر شبی فاروقی اور موسیقار کریم شہاب الدین کی جوڑی کا انتخاب ہوا۔کام کے معاملے میں یہ دونوں افراد  جِن  تھے۔وہ ایسے کہ کام کے وقت نہ دِن کو دِن سمجھتے تھے اور نہ رات کو رات ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی بالکل تازہ دم اور نئے کام کے لئے تیار ہوتے تھے۔کریم بھائی دیگر شعراء کے ساتھ بھی اُسی تیز رفتاری سے کام کر تے تھے اور اُن سے کر وا بھی لیا کرتے تھے۔ 


اب ایک ا یسے کام کا ذکر ہو جائے جو واقعی ایک  جناتی کام تھا۔ لیاقت باغ، راولپنڈی میں منعقد پی ٹی وی ایوارڈ 1981 کے سلسلہ میں مجھے اُس شو کے میوزک سیکشن کی ذمّہ داری سونپی گئی ۔میں نے اِسٹیج موسیقی کے لئے کریم بھائی کا انتخاب کیا۔میں نے اُن سے کہا کہ شو تو ہوتے رہتے ہیں ، یہ بھی ہو ہی جائے گا، مگر مزہ تو یہ ہے کہ کوئی نئی بات ہو! آپ ایسا کام کیجئے کہ یادگار بن جائے۔تو جناب جو نیا کام ہوا وہ  بینگ bangs تھے یعنی اسٹیج پر آنے والے ہر مہمان یا فنکار کے لئے بجایا جانے والا موسیقی کا اعلانیہ مختصر ٹکڑا۔ اُس تقریب میں شو کے منتظمین سے متوقع شراکاء کی فہرست لی گئی جو 80 سے زیادہ تھی۔اب کریم بھائی نے 100 کے قریب بینگ تیّار کئے۔ہر بینگ جُدا۔ کوئی بھی دو بینگ ایک جیسے نہیں تھے۔اب کسی نے یہ نوٹ کیا یا نہیں، اِس کا علم نہیں البتہ ایسا کام پھر اِس کے بعد کوئی نہ کر سکا۔ اِس کے علاوہ تمام مشہور فنکاروں نے جو گیت / غزل سُنانا تھیں اُن کو کراچی میں مکمل میوزک شیٹس پر لکھوایا گیاتا کہ لاہور کے فِلمی سازندے اُ ن شیٹوں کو سامنے رکھ کر بس ایک ریہرسل میں رواں ہو جائیں۔یہ خاکسار اُس پروگرام کے میوزک سیکشن کا ذمّہ دار تو تھا ہی ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ عملاََ راقِم نے کریم بھائی کے اسسٹنٹ کا بھی کام کیا کیوں کہ کسی وجہ سے اُن کا اسسٹنٹ راولپنڈی نہیں آ سکا تھا۔

کریم شہاب الدین کے تذکرے میں فلم چاند اور چاندنی کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اپریل 1968 میں اِس فلم کی نمائش شروع ہوئی۔مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان اور اِس سے آگے دنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو گیت سُنے جاتے تھے، اِس فلم کے گیتوں نے دھومیں مچا دیں ۔ کریم شہاب الدین کی موسیقی نے اِس فلم کو چار چاند لگا دئے۔


* تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے ....
 گو کہ مسعود رانا کا پہلے ہی فِلمی گلوکار کی حیثیت سے ایک نام تھا ۔اِس گیت نے اِن کو دوام بخشا ۔ وہ اِس دارِ فانی سے 4 اکتوبر 1995میں کوچ کر گئے مگر آج بھی پورے مُلک کے ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن، اُسکے FM 101 اور پورے مُلک کے دیگر FM اسٹیشنوں سے روزانہ مذکورہ گیت نشرہوا کرتا ہے۔اور رات گئے شعر و شاعری والے ریڈیو پروگراموں میں اِس گیت کا ہونا لازمی ٹہرتا ہے۔
* سرور بارہ بنکوی سے کون واقف نہیں۔ اِس فِلم کے تمام گیت انہی کے لکھے ہوئے ہیں ۔ 


اِسی طرح فلم  شرمیلی جو 1978 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی اُس میں یونس ہمدم صاحب کے لکھے ہوئے ایک لا زوال گیت کو عوام میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی: ؂   
 جی رہے ہیں ہم تنہا 
کریم شہاب الدین کی موسیقی اوریونس ہمدم صاحب کی شاعری کو اے نیّر نے ایسے ڈوب کر صدا بند کروایا کہ وہ اُنکی پہچان بن گیا۔ آنجہانی اے نیّر دنیا بھر میں جہاں گلوگاری کرتے ، اُن سے اِس گیت کی ضرور فرمائش کی جا تی تھی۔


طارق عزیز صاحب کے نیلام گھر میں ایک عرصہ تک کریم بھائی نے موسیقی ترتیب دی۔اِس میں مُستند گلوکاروں کے ساتھ سا تھ انہوں نے کئی ایک نئی آوازیں بھی روشناس کرائیں۔


راقِم نے کراچی کے  انٹر نیشنل فلم اسٹوڈیو ز  میں اطہرشاہ خان صاحب المعروف جیدی بھائی کی فلم  آس پاس  میں کریم بھائی کو پس منظر موسیقی دیتے ہوئے بھی دیکھا۔


1981 کی بات ہے، کریم بھائی پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں  سُر سنگم   پروگرام میں گیت ترتیب دے رہے تھے اِس سلسلہ میں وہ خاتون پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے د فتر میں بیٹھے تھے۔میں بھی وہیں موجود تھا کہ اچانک ہمارے مُلک کے ایک عظیم موسیقار جناب نثار بزمی صاحب آ گئے ۔اُنہوں نے کریم شہاب الدین کو دیکھ کر خوشی سے کہا 146146 کریم شہاب الدین ہمارے ملک کا بہترین ارینجر ہے۔یہ بات اُس ہستی نے کہی کہ جب وہ بمبئی میں تھے تو اُن کے آرکسٹرا میں لکشمی کانت اور پیارے لال بطور سازندہ کام کرتے تھے۔

نئے پرانے شاعر، سنجیدہ سازندے ، جلد غصّہ میں آنے والے بے چین سازندے، بے لچک اور جگادری ساؤنڈ انجینئر، اسٹوڈیو کی بد ذائقہ چائے لانے والے، فرعونی طبیعت کے ٹی وی اور ریڈیو پروڈیوسر، اور وہ بد قسمت بھی جو موسیقی کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے ، اِن سب سے کریم بھائی کا واسطہ رہتا تھا۔کیسے ہی حالات ہوں، کوئی بھی صورتِ حال ہو ، میں نے کبھی اُن کو آپے سے باہر ہوتے نہیں دیکھا۔وہ انتہائی بُردباری کے ساتھ سب سے معاملہ کرتے تھے ۔ ہائے ! اب ایسے لوگ کہاں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سرور بارہ بنکوی صاحب کے لکھے اور کریم شہاب الدین صاحب کی موسیقی میں فِلم چاند اور چاندنی کے مشہور گیت:
* جانِ تمنا خط ہے تمہارا

پیار بھرا افسانہ
دِل لے لو نذرانا                         ............ احمد رُشدی
* تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اِک   چراغ   کیا جَلا سو چراغ   جَل گئے    ..............مسعود رانا
* اے جہاں اب ہے منزل کہاں         ........... احمد رُشدی
* تجھے پیار کی قسم ہے میرا پیا ر بن کے آ جا
میری بے قراراریوں کا   تو   قرار بن کے آ جا .............. مسعود رانا
* دو پیار کی باتیں ہو جائیں       ........... احمد رشدی او ر مالا
* یہ سماں موج کا کارواں           ............. مالا
* لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ
آیا بہاروں کا موسم سُہانا              ........... مالا
..............................................
اختتام 
(٧ مارچ  ٢٠١٧ کے  روزنامہ نوائے وقت کراچی   کے صفحہ فن و ثقافت میں شایع ہونے والی تحریر )
  

Comments

Popular posts from this blog