Khush Naseeb Mosiqar Akhtar Allah Ditta
خوش نصیب موسیقار اختر اللہ دتّہ
تحریر شاہد لطیف
۱۹۸۰ کے آخری ہفتے چل رہے تھے، راقم کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز میں آئے ابھی دو ہی ماہ ہوئے تھے جب گلوکار محمد علی شہکی کو ٹیلی وژن کی گزر گاہ میں آتے ہوئے دیکھا ۔ زمانہء طالبِ علمی میں وہ این۔ای۔ڈی یونیورسٹی اور میں جامعہ کراچی میں تھا۔ شہکی جامعہ کراچی کے مختلف شعبوں میں ہونے والے فنکشنوں میں گاتے تھے، راقم بھی بینڈ کے ساتھ اسٹیج پر لائیو گا تا تھااِس طرح ہماری اچھی دعا سلام تھی ۔پھرپی۔ٹی۔وی کراچی کے موسیقی کے پروگراموں کی وجہ سے شہکی کی بہت شہرت ہو گئی ۔
اُس دِن ملاقات میں شہکی نے بتایا کہ وہ اب اللہ دتّہ گروپ کے ساتھ اسٹیج پر گانا گا رہا ہے۔نیز یہ کہ نہ صرف اُسے بینڈ کے ساتھ گانے کا مزا آ تا ہے بلکہ یہ عوام میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔مجھے میوزک بینڈ دیکھنے اور سننے کا شوق ہوالہٰذا اُسی شام شہکی نے ایک ہونے والے فنکشن میںآنے کی دعوت دی۔ میں وہاں کچھ دیر سے پہنچا۔ پہنچتے ہی دو چیزوں نے سیکنڈوں میں میری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ایک ساؤنڈ سسٹم دوسرا میوزک۔اسٹیج پر کئی ایک سازوں کے ہمراہ لایؤ گاناکافی سُنا تھا لیکن یہ تجربہ اُن سب سے الگ محسوس ہوا۔ آواز اور اُس سے متعلق سائنس پربات پھر سہی ......لیکن اُس دن یوں محسوس ہوا جیسے بارش کے بعد فضاء نکھر جا ئے، آسمان اور پھولوں کے رنگ اپنی اصل رنگت میں نظر آئیں ..... بس ویسا نکھار گانے والے اور تمام سازوں بشمول ڈرم سیٹ..... کی آواز میں محسوس ہوا تو میں مبہوت ہو کر رہ گیا۔ مجھے یقین تھا اِس آواز کو کوئی منجھا ہو ا ماہر ساؤنڈ انجینئر کنٹرول کر رہا ہے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ جو مائکروفون اسٹیج پر استعمال ہو رہا تھا وہ عام طور پر ساؤنڈ سسٹم والے استعمال نہیں کرتے ۔ میں نے لفظ ماہر اور منجھا ہوا یوں ہی استعمال نہیں کیا۔ الیکٹرانک کا جدید سامان پھر اُس پر درست استعمال،یہاں برابر کی چوٹ تھی ۔ اِسی نے تو شہکی کے گانے کو زبردست تڑکا لگا دیا۔ ساز و آواز بنانے والے کی کشش مجھے بے ساختہ اسٹیج کے قریب لے گئی۔ گیت کے اختتام پرمیں اسٹیج کے قریب آ گیا اور شہکی کو اشارہ کیا۔وہ بہت خوش ہوا اور مجھے اوپر بُلوایا۔سب سے پہلے اُس نے جاوید اللہ دتّہ المعروف جاوید بھائی سے ملاقات کروائی اور کہا کہ یہی زیادہ تر آڈیو مِکسر /ساؤنڈ کنٹرول کرتے ہیں اور دو کی بورڈ ایک ساتھ بجاتے ہیں۔جب کہ بعد میں علم ہوا کہ وہ تو بنیادی طور پر منجھے ہوئے سِتار نواز ہیں۔اِن کے ساتھ اُن کے چھوٹے بھائی اختر اللہ دتّہ پھر اِن سے چھوٹے بھائی شہزاد اللہ دتّہ جو بیس گِٹار نہایت ہی عمدہ بجا رہے تھے ۔ چونکہ میں نے بھی ساؤنڈ ہی سے اپنا سفر شروع کیا تھا لہٰذا میں نے باقی کا تمام پروگرام جاوید بھائی کے ساتھ بیٹھ کر اور کانوں سے ہیڈ فون لگا کر سُنا۔مجھے کہنے دیجئے کہ اتنی عمد ہ ساؤنڈ بیلینسنگ تھی کہ........واہ جاوید بھائی واہ!
اُس پروگرام کے بعد اُن سب کا پٹیل پاڑے میں کڑا ہی کھانے کا پروگرام بنا۔اختر صاحب نے مجھے بھی دعوت دی۔جاوید بھائی کو گھر جانا تھا اُن کے علاوہ ہم سب گئے۔ یہ اختر صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کی تمہید ہے۔ جاوید اللہ دتّہ شاید بڑ ا بھائی ہونے کی وجہ سے سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے جبکہ اختر صاحب سے بہت جلد دوستانہ ہو گیا۔ اِن کے والد صاحب جناب اللہ دتّہ صاحب ہمارے ملک کے نامور طبلہ نواز تھے۔اختر صاحب نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے بلیک اینڈ وہائٹ زمانے کے موسیقی کے پروگراموں میں گِٹارسٹ کی حیثیت سے عملی موسیقی کا آغاز کیا۔موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ کئی ایک پروگرام صدا بند اور ویڈیو ریکارڈ بھی کروائے۔
اُسی زمانے میں خاتون پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ ہفتہ وار موسیقی کا پروگرام ’ سُر سنگم ‘ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اِس ۲۰ منٹ کے پروگرام میں گیتوں کی چال کے ساتھ جدیدالیکٹرانک سازوں کو شامِل کر کے دو یا ڈھائی منٹ کے ۱۰ گیت ر کھنے کا تجربہ کیا گیا ۔ لیکن ایسے کہ مجموعی رچاؤ اور تاثر ہماری اپنی مشرقی موسیقی ہی کا ہو۔ پہلے پروگرام کی طرزیں اختر صاحب نے بنائیں۔ اِس میں شاعر جناب محمد ناصر ؔ نے ۹ گیت، دھنوں پر لکھے اور اُن کے ساتھ میرا یہ دوسرا پروگرام تھا۔ کہنے کو یہ معمولی کام لگتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں ۔ مثلاََ ایک گیت ٹینا ثانی کی آواز میں تیار کیا اس میں مغربی گائکی کی طرح پورے گیت ہی کو ٹینا کی آواز میں سیکنڈ اور تھرڈ کیا گیا:
؎
پلکوں کی چھاؤں میں دھوپ نہیں تیر ا ہی روپ ہے
جیون اِک آس ہے یہ آس ہے یہ کوئی بھول نہیں
سوچوں تو کچھ نہیں دیکھوں تو رنگ ہے چاہت کا سنگ ہے
بِلا شبہ یہ خاصا مشکل کام تھا۔اِن تینوں آوازوں کے لیول کو پورے گیت میں یکساں رکھنا وہ بھی اِس طرح کہ مین آواز کا لیول باقی دو سے زیادہ ہو۔سیکنڈ کا لیول اُس سے کم اور تھرڈ کا خفیف۔ایسا کام پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا فلموں او ر ٹی وی میں ضرورتاََ ایک آدھ مصرعے یا شعر میں کبھی کبھار سُننے میں آ یا کرتا تھا ۔ لیکن ایک پورا گیت ہی سیکنڈ اور تھرڈ کے آواز کے کاؤنٹر کے ساتھ کرنا کم از کم میرے لئے ایک بالکل ہی نئی اور حیران کُن بات تھی۔ ٹینا نے جی توڑ کر اِس گیت پر محنت کی۔اختر صاحب کے لئے تو ایک زبردست چیلنج تھا کہ ایسا کام اِس سے قبل کراچی مر کز میں کبھی نہیں ہوا تھا۔شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں پروگرام ’ سُر سنگم ‘ کے گیت صدا بند کیے جاتے تھے۔یہاں کے ریکارڈنگ انجینیرشریف اور سلیم قریشی صاحبان نے اختر اللہ دتّہ کے اِس خواب کو پورا کر کے کمال کر دیا اور توقع سے زیادہ خوبصورت نتائج دیے۔اختر صاحب نے میرے ساتھ کئی ایک پروگرام کئے۔پھر میرا بیرونِ ملک جانا ہوا، وہاں سے بھی اُن سے رابطہ رہا۔پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ حضرت ’’ سرود ‘‘ بہت پُر اثر انداز میں بجاتے ہیں ۔ایک عرصے سے اپنے دو ہونہار بیٹوں ، بِلال اور علی کے ساتھ وہ ایک اسٹوڈیو چلا رہے ہیں جہاں جنگلز اور اسپاٹ ریکارڈ ہوتے ہیں۔اِس وقت بھی اُن کے کمپوز کئے ہوئے کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات میڈیا میں ہیں۔وائس اوور اور اسپاٹ میں اُن کے بیٹے کافی شہرت پا چکے ہیں۔
میں جب بھی کراچی گیا اِن کے اسٹوڈیو ضرور گیا۔یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ وہ مجھے سامنے بٹھا کر سرود بجاتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ اُنہوں نے راگ پیلو سُنایا تھا۔ٹیلی وژن کے موسیقی کے پروگراموں میں کئی مشہور گلوکاروں کو گانا گوا چکے ہیں جیسے مہنا ز، غلام عباس، گُل بہار بانو، مجیب عالم وغیرہ۔
ماشاء اللہ اختر اللہ دتہ خوش نصیب موسیقار ہیں کہ جو طرز یا دھن وہ سوچتے ہیں ہو بہو ویسے ہی وہ صدا بند بھی کروا لیتے ہیں۔یہ کام اُن کی دسترس میں ہے کیوں کہ وہ خود ایک ماہر ساؤنڈ انجینیئر ہیں اوروہ لوگوں سے کام لے کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر ١١ جولائی ٢٠١٧، بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی میں صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔
Comments