Sheerin Nawa Mehnaaz
شیریں نوا مہناز
تحریر شاہد لطیف
۱۹۶۹۔۱۹۶۸ کا زمانہ تھا راقِم کا ریڈیوپاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگرام ’نئے فنکار ‘ میں حصّہ لینے تقریباََ ہر ہفتہ ریڈیو اسٹیشن جانا رہتا تھا؛ یوں کئی نامور ہستیوں کی دعائیں لینے کا اعزاز حاصل ہو ا۔ آج اختر وصی علی صاحب سے ذکر شروع کرتا ہوں۔یہ پاکستان منتقل ہونے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے۔ریڈیو پاکستان کراچی آ کر دونوں میاں بیوی،اختر وصی علی صاحب اور کجّن بیگم محض سوز و سلام، مرثیہ اور نوحہ کے لئے مختص ہو کر رہ گئے۔اِس سلسلے میں خاکسار کو یاد ہے کہ اُسی زمانے میں ریڈیو کے جیّد فنکار،موسیقار کیا اور گلوکار کیا، خواتین کیا اور حضرات کیا ، یہ برملا کہتے تھے کہ اختر صاحب نے اب صرف سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے کے میدان کو منتخب کر کے ہم پر بہت احسان کیا ورنہ اتنے بڑے فنکار کی موجودگی میں ہم کہاں جاتے؟۔
گو ۱۹۶۹ کے بعدمیرا ریڈیو پاکستان کراچی کم کم جانا رہا تاہم دہلی گھرانے کے اُستاد امراؤ بندو خان صاحب اور اختر وصی علی صاحب کے ہاں آنا جانا لگا رہا۔ کجّن بیگم جب سوز و سلام پڑھا کرتی تھیں تو اُن کے ساتھ اُن کے دو بہنیں اور کچھ لڑکیاں بھی آیا کرتیں تھیں ۔ ۷۰ کی دہائی کے اوائل میں ایک روز علم ہوا کہ اِن نامور میاں بیوی کی صاحبزادی نے ریڈیو کے بزمِ طلباء کے مقابلہء موسیقی میں ا تنا عمدہ نغمہ سُنایا کہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے پروڈیوسر جناب امیر امام نے اُس کو اپنے پروگرام نغمہ زار میں شرکت کی دعوت دے دی، جِس کے موسیقار سُہیل رعنا تھے۔ واضح ہو کہ بزمِ طلباء کے پلیٹ فارم سے ہمارے ملک کو کئی ایک نامور فنکار مِلے ۔جیسے مشہور فِلمی شاعر یونس ہمدم صاحب۔
اختر وصی صاحب کی یہ ہونہار بیٹی مہنازتھی۔جِس کو ایک عرصہ اپنی والدہ اور خالاؤں کے ہمراہ ریڈیو اور ٹیلی وژن میں سوز خوانی کرتے دیکھا تھا۔چونکہ اختر وصی صاحب کے ہاں اِس خاکسار کا آنا جانا تھا لہٰذا یہ سب سُن کر کوئی حیرت نہ ہوئی کیوں کہ میں ایک عرصے سے اِس کی محنت دیکھ رہا تھا۔مہناز کو ہمیشہ یہ بات یاد رہتی تھی کہ سب سے پہلے ریڈیو کے سلیم گیلانی صاحب نے اُس کی حوصلہ افزائی کی اور پنڈت (موسیقی کے درجوں کے لحاظ سے اُستاد سے بڑ ا درجہ) غلام قادر کے پاس مزید بہتر ہونے کے لئے بھیجا۔پنڈت صاحب مہدی حسن کے بڑے بھائی تھے۔
وقت گزرتا رہا ۔میں کالج سے جامعہ کراچی آ گیا۔پھر قسمت مجھے گراموفون کمپنی آف پاکستان میں صدابندی کا کام سیکھنے لے گئی اور یوں آہستہ آہستہ اہل فن اور صاحبِ قلم افراد سے وا سطہ پڑنے لگا ۔ کہاں ایک گھریلو سوز و سلام پڑھنے والی لڑکی اور کہاں ملک کی مشہور پلے بیک سنگر مہناز!۔اب EMI میں فلم آئینہ کے لانگ پلے ریکارڈ بن رہے تھے۔اور میں فخر سے چیف ساؤنڈ انجنئیر عزیز صاحب اور فیکٹری منیجر جناب مُسلم عباسی سے کہا کرتا کہ یہ وہی مہناز ہے جو اپنی والدہ کے ساتھ سوز و سلام کی ریکارڈنگ کے لئے ریڈیو پاکستان کراچی آیا کرتی تھی۔
وقت گزرتا گیا ، میں افریقہ چلا گیا پھر ۱۹۸۰ میں قسمت مجھے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز لے آئی جہاں مجھے میری مرضی کے پروگرام کرنے کو مِلے۔اُدہر مہناز کی شہرت دو چند ہو گئی۔اب دوبارہ اختر وصی صاحب کے ہاں آنا جانا شروع ہوا۔مہناز اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی ظفر کے ساتھ لاہور میں ہوتی تھی جب کہ کراچی میں اُس کے والد اختر وصی علی صاحب ،ظفر سے بڑا بھائی شبّر اور دیگر افرادِ خانہ رہا کرتے تھے۔اختر صاحب بہت ہی دلچسپ شخصیت کے حامل تھے۔بات مہناز کی ہو رہی ہے۔مہناز کِس معیار کی فنکارہ تھی یہ ثانوی بات ہے، اہم بات یہ ہے کہ عروج کے زمانے میں بھی میں نے اُس کو جیسے پایا ہو بہو وہ بالکل اُسی مہناز کی طرح لگی جو صرف سوز و سلام پڑھنے اپنی والدہ کے ساتھ جایا کرتی تھی۔کوئی غرور، بناوٹ، پھو ں پھاں کا شائبہ تک نظر نہ آیا۔ ایک دِن اُس سے پوچھا :’’ میری خواہش ہے کہ تُم سلطانہ صدیقی صاحبہ اور میرے پروگرام ’ آواز و انداز ‘ کے لئے ریکارڈنگ کراؤ‘‘۔بیساختہ بولی ’’کب ہے؟ ‘‘ ۔میں نے کہا: ’’ تم کراچی میں کتنے دِن کے لئے ہو‘‘؟ جواب آیا: ’’ ۴ دِن کے لئے‘‘۔ فوراََ موسیقار اختر اللہ دتہ سے اور شاعر محمد ناصر ؔ صاحبان سے رابطہ کیا۔یہ دونوں افراد تیز ترین کام کرتے رہے تھے۔قصّہ مختصر یہ کہ ریکارڈ وقت میں تین گیت اور ایک غزل تیار ہوئیں اور مہناز نے آڈیو اور اُس کے بعد وی۔ٹی۔آر بھی کروایا۔چلیں اختر اللہ دتہ اور محمد ناصرؔ تو گھر کے افراد تھے اب اِس سلسلے میں ایک اور واقعہ یاد آیا : موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر شبیؔ فاروقی صاحبان کے گیت، پروگرام ’ اُمنگ‘ کے لئے ، صدر میں واقع مشکور صاحب کے شاداب اسٹوڈیو میں مہناز کی آواز میں ریکارڈ ہونا تھے ۔ اُس کو صبح ساڑھے نو بجے اسٹوڈیو میں آنے کا وقت دیا گیا۔ میری عادت تھی کہ آڈیو ریکاڑڈنگ میں وقت سے پہلے آیا کرتا تھا۔اُس روز بھی پونے نو بجے پہنچا۔کیا دیکھتا ہوں کہ صفائی والا اسٹوڈیو میں صفائی کر رہا ہے اور مہناز باہر بیٹھی ہے۔ یہاں تو وقت پر بھی کوئی نہیں آتا کہاں کہ وقت سے پہلے !! یہ اُس کے عروج کا زمانہ تھا۔
اِسی ریکارڈنگ کی ایک اور یادگار بات یہ تھی کہ ا سٹوڈیو میں داخل ہوتے وقت اُس نے کلائی سے گھڑی اُتار کر پرس میں رکھ لی اور پوری ریکارڈنگ کے دوران کسی لنچ، چائے، پان کی فرمائش نہیں کی۔جب سب گیت کریم بھائی نے او کے کر دیے تو مہناز نے مشکور صاحب کے بھانجے اور ساؤنڈ انجنئیر توصیف سے کہا کہ وہ سب او کے ٹیک سُن کر تسلی کر لے اگر ضرورت ہو تو دوبارہ ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا پوچھا کہ گھڑی کیوں اُتاری؟ جواب ملاحظہ ہو: ’’ اسٹوڈیو میں گھڑی پر وقت دیکھنے کا مطلب ہے میرا ٹائم ختم اب میں نے جانا ہے‘‘۔پوچھا کہ چائے ،لنچ، پان وغیرہ کی فرمائش کیوں نہ کی؟ جواب مِلا : ’’ اِس لئے کہ اِس سب میں بہت وقت لگ جاتا ‘‘۔( اُس روز کسی وجہ سے ریکارڈنگ پھنس گئی تھی)۔پوچھا : ’’ فنکار تو اِس کا بھی انتظار نہیں کرتے کہ اُ ن کو او۔کے کہہ دیا جائے، اُن کو جانے کی پڑی ہوتی ہے۔جواب دیا: ’’ کسی نے وقت خریدا ہوا ہے ۔ابھی شفٹ کا وقت باقی ہے، ممکن ہے کہ غور سے سننے پر میری جانب سے کوئی غلطی سامنے آ جائے۔میں ابھی ہوں لہٰذا میرا فرض ہے کہ اپنی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کر کے جاؤں‘‘۔ہے کوئی آج مہناز جیسا؟؟؟
مہناز کے ہاتھ کا بنا ہوا لکھنوی ’ کھچڑا ‘ بار ہا کھانے کا اتفاق ہوا۔ اگر کھانے کو سُر تال میں بیان کیا جا سکتا تو وہ تال میں پورا سُر میں پکّا اور ’ سَم ‘ میں مضبوط تھا۔
لوگوں نے مہناز کی کیسیٹ، سی ڈی اور ٹیلی وژن پر بہت گانے سُنے۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، بے خیالی میں اکثر گنگناتے سُنا۔ساز کے بغیر بھی آواز کی نغمگی متاثر کرتی تھی۔کیا شیریں نوا مہناز تھی!!! اللہ اُس کی مغفرت کرے۔
پیدائش: ۱۹۵۸ تاریخ، وفات: ۱۹ جنوری، ۲۰۱۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کا یہ مضمون 18 جولائی 2017، بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوا۔
Comments