سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا
سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا
تحریرشاہد لطیف
پاناما کیس کا اونٹ بالآخر بیٹھ ہی گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف تا حیات نا اہل قرار دے دیے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا فیصلہ آیا ہے کہ کوئی سیاستدان تا حیات نا اہل قرار دے دیا جائے۔سیاسی اعتبار سے شاید میاں صاحب کو اتنا نقصان نہ پہنچے کہ اب وہ وزیرِ اعظم بننے کی تینوں مدتیں پوری کر چکے ہیں لیکن ۔۔۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے غیر ملکی میڈیا پر گردش کرنے والے اعتراضات پر ہلکا سا تبصرہ ہو جائے۔اُن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باعث اگلا وزیرِ اعظم یقیناََ اسی پارٹی کا ہوگا۔اُن کے خدشات کے مطابق یہ وزیرِ اعظم ربڑ ا سٹیمپ ہو گا۔۔۔ ہماری حکومتوں کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ طاقت کا مرکز ہمیشہ ایک عہدہ رہا۔صدر زرداری کے عہد میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے توہینِ عدالت کا مرتکب ہونے کے باعث چند سالوں کے لئے نا اہل قرار دے دیا۔ وجہ ۔۔۔ کہ وزیرِ اعظم نے عدالت کے حکم کے مطابق صدر زرداری کے خلاف کرپشن کے پرانے کیس کو دوبارہ کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس وقت طاقت کا مرکز صدر کا عہدہ تھا۔اور اِس حکومت میں کل تک یہ مرکز وزیرِ اعظم کا تھا۔
کیا وجہ ہے کہ صدر اور وزیرِ اعظم کے عہدوں میں توازن نہیں۔کہیں نہ کہیں ہمارے پارلیمانی نظام میں خرابی ہے۔جب اختیارات ایک عہدہ کے پاس ہوں گے تو وہ تمام قوانین کا نفاذ اپنے مفاد کے مطابق کرے گا۔یہی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔
کیا آ نے والے وزیرِ اعظم میں بھی طاقت مرتکز ہو گی؟ شاید نہیں ! اکثریتی پارٹی حکومت بناتی ہے اور پارٹی کو اُس کا سربراہ چلاتا ہے۔ایک ایسا سربراہ جس کے مقابلے میں کوئی اور نہ ہو ۔۔۔کیا کوئی اُس کے سامنے دم مار سکتا ہے؟ خواہ وہ وزیرِ اعظم ہی کیوں نہ ہو؟
جو سیاسی طور پر تا حیات نا اہل قرار دے دیا جائے جب کہ سیاسی اہلیت کے لئے دو شرائط پائی جاتی ہیں: صادق اور امین ہونا۔تو نا اہلیت یہ ثابت کرتی ہے کہ اب مذکورہ شخص میں یہ دو صفات مفقود ہو گئی ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی نا اہلیت میں کیا تمام سیاست نہیں آتی؟ کیا پارٹی معاملات ، انتظامات اور فیصلے سیاست کا حصہ نہیں؟عدالت نے ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر وزیرِ اعظم کے خلاف یہ فیصلہ دیا یعنی وزیرِ اعظم اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی صفائی پیش نہ کر سکے ۔کیا آئین میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جو کسی سیاسی نا اہل کو ہر طرح کی سیاسی کاروائیوں سے روک سکے؟ ہم اُس وقت تک سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے جب تک کرپشن کو اُس کی جڑوں سے ختم نہ کر دیں۔
اسی پاناما کیس میں وکیلوں کی بحث کے دوران سپریم کے ایک جج صاحب نے اپنی ریمارکس میں کہا کہ وہ ا تمام سیاستدان اور دیگرافراد جن کے نام اس کیس میں شامل ہیں ، اگر اُن کی صحیح طریقے سے تفتیش کی جائے تو ایک کے سوا تمام سیاست سے نا اہل قرار دے دیے جائیں۔وہ خوش نصیب جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیر جناب سراج الحق صاحب ہیں۔
اس ساری گفتگو کا حاصل ہمارا یہ خدشہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو اب ’’ صادق اور امین ‘‘ نہیں رہا ۔ کیا اس بنیاد پر وہ پارٹی کی سربراہی سے بھی نا اہل قرار دیا جا سکے گا؟ اگر ایسا نہ ہوا تو بات پھر وہیں کی وہیں رہے گی۔صرف وزیرِ اعظم کا نام نہیں ہو گا ۔۔۔ اختیارات تو اسی کے ہوں گے ! کیا نیا وزیرِ اعظم پارٹی کے سربراہ کے سامنے اختلاف کی جراء ت کر سکے گا؟
میرا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ قائدِ اعظم ؒ کا یہ فیصلہ کہ پارٹی کے تمام عہدے دار بشمول سربراہ، حکومت یا وزارت میں شامل نہیں ہوں گے، بہترین تھا۔لیاقت علی خان ؒ نے جب اِس فیصلے کے خلاف قدم اُٹھایا تو اُس کے بعد حکومتی عہدوں میں توازن باقی نہ رہا۔اِس نظیر پر ہر حکومت میں عمل ہوتا رہا سوائے وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی کے۔دور جانے کی ضرورت نہیں، ۱۹۸۸ سے آج تک ہر سیاسی حکومت میں پارٹی سربراہ ہی کلی اختیارات کا مالک رہا۔خواہ وہ صدر ہو یا وزیرِ اعظم یا پھر کچھ بھی نہ ہو تو بھی !
اللہ کرے جلد ہی وہ وقت آئے کہ ہمارے یہاں بھی قانون کا صحیح نفاذ ہو سکے!!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
آج، 29 جولائی ، 2017، بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا خاکسار کا کالم ' اُلٹ پھیر ' میں تحریر " سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا"۔
Comments