Afriqiyaat.Teesra Aur Aakhri Hissah


افریقییات

دلچسپ واقعات کا آخری حصّہ
تحریر شاہد لطیف

برِّ اعظم افریقہ بہت بڑا ہے جِس کا چپہ چپہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ راقِم البتہ مشرقی اور وسطی افریقہ کا کچھ حصہ ہی دیکھ سکا ۔ جنت مکانی میرے والد صاحب کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا اِن ہی کتابوں کو پڑھ کر یہاں کی مہم جوئی، پُراسرار واقعات اور شکاریات سے متعلق میں پہلے ہی سے آگاہ تھا اب اُس کتابی علم کے ساتھ ساتھ مشاہدے کی نعمت مِلنے والی تھی جِس کے لئے میں اللہ تعالیٰ کا مشکور تھا ۔چونکہ یہ میرا اولین کام تھا اور تھا بھی اپنے مطلب کا، پھر کام میں مختصر وقفوں میں گھومنے پھرنے، سیکھنے سکھانے کو وقت بھی میسر تھا لہٰذا وہ سارے واقعات اور مشاہدات ، اب بھی فلم کی مانند تمام وقت نظروں کے سامنے رہتے ہیں گویا یہ کل کا کوئی واقعہ ہو۔


سلطنتِ اومان کے سلطان قابوس کا قابلِ تعریف کام 
میرے اِس یونٹ میں ایک منصوبے کے ختم ہونے اور دوسرے کے شروع ہونے کے درمیان اکثر ہفتہ پندرہ دِن کا وقفہ ہوا کرتا تھا جِس سے میں نے فائدہ اُٹھایا ۔ ایسے ہی ایک وقفے کے دوران راقِم نے مملکتِ بورونڈی کے دارالحکومت بُوجُونبُورا سے تنزانیہ کے شہر کِگوما جانے کا پروگرام بنایا۔ کیمپ سے باہر نکلاہی تھا کہ قریبی بستی سے ڈھول بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔اب تو مجھے بھی کچھ کچھ پتا لگ گیا تھا کہ اِس قِسم کے ڈھول بجائے جانے کا مطلب کوئی غیر معمولی واقعہ یا اعلان مقصود ہوا کرتا ہے۔ یقین کیجیے بہ رضا و رغبت ، یونٹ والوں سے کہا کہ میں کام پر جانے کے لئے تیار ہوں۔ ایسے مواقع پر اکثر اچھے کَٹ اویز مِل جایا کر تے تھے؛ اور اب بھی ہم اِسی نیت سے نکلے ۔ ہمارا رُخ اندرون جنگل ایک مختصر سی بستی کی جانب تھا ۔ یونٹ کم سے کم وقت میں آواز کی سمت بڑھ گیا۔ویسے اِس سے قبل مقامی افراد کو معلومات لینے کے لئے آواز کی سمت بھیجا جا چکا تھا۔ابھی ہم راستے ہی میں تھے کہ سامنے سے کچھ لوگ دوڑے چلے آئے۔یقیناََ کوئی بہت اچھی خبر لائے تھے کیوں کہ خوشی اُن کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔آنے والے تیزگام کی رفتار سے خوشی خوشی کچھ بتلا رہے تھے ۔کورونڈی زبان میں کہیں کہیں سواحیلی کے یہ الفاظ ہی سمجھ آ سکے: ہیلی کوپتا (ہیلی کوپٹر) ماجیشی (مِلٹری/فوجی) علیمو (تعلیم)۔پھر مترجم نے بتایا کہ آگے جنگل بستی میں کسی عرب ملک کی شاہی فوج کے ہیلی کاپٹر آئے ہوئے ہیں۔ اِن میں آنے والے فوجی، مقامیوں کو تعلیم کے وظائف دے رہے ہیں۔ کافی چلنے کے بعد ایک مختصر ہموار میدانی علاقہ نظر آیا جہاں 5 بڑے ہیلی کاپٹر ایک ترتیب سے کھڑے ہوئے تھے۔اِن کے قریب تین خاصے بڑے فولڈنگ ٹیبل اور کئی ایک کُرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ہیلی کاپٹروں پر سلطنت آف اومان لکھا نظر آ رہا تھا۔ ہر ایک میزکے ایک طرف فوجی وردی میں تین افراد بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے سامنے تین کرسیوں پر مقامی لوگ۔ میز پر کاغذات کا ایک انبار اور ایسے ہی ان گنت کاغذی پلندے قریبی بکسوں میں رکھے ہوئے تھے۔


یونٹ کے سربراہ نے مترجم کے ذریعے جوگفتگو کی اُس کے مطابق سلطنتِ اومان کے سلطان قابوس بِن سعید کی ذاتی خواہش پر افریقہ کے غریب ترین ممالک کی غریب ترین بستیوں کے مسلمانوں میں مقامی حکومت کی اجازت سے تعلیمی وظایف دیئے جا رہے ہیں۔ یہاں صرف دو سرکاری ثبوت دیکھے جا رہے تھے: ایک یہ کہ وظیفہ لینے والا اُس ملک کا باشندہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ مسلمان ہو۔جو یہ ثبوت

دیتا اُس کی تو کایا پلٹ ہو جاتی۔وہ ایسے کہ خواہ سامنے والا پرائمری کے درجے کا ہے، سیکنڈری درجے، کالج میں جانا چاہتا ہے، یونیورسٹی میں جانے کا خواہش مند، اِن درجِ بالا دو ثبوت دینے کے بعد سلطان قابوس کی سلطانی مُہر والے سرکاری فرمان پر اُس سے متعلق کچھ لکھا جاتا کہ فلاں ملک کے فلاں اسکول، کالج ، یونیورسٹی، پیشہ ورانہ درس گاہ میں اِس طالبِ علم/طالبہ کی تعلیم کے مکمل اخراجات (فیس، رہا ئش، کھانا پینا) سلطان قابوس کی ضمانت پر ہے۔یہ ایسا سلطانی فرمان تھا کہ جیسے دنیا بھر کے بین الاقوامی بینکوں میں مانا جانے والا کوئی چیک ۔ اِس سارے عمل کو سلطانی عملہ کی اجازت سے فلم اور صدا بند کیا گیا۔جو طلباء بالغ نہیں تھے اُن کے سرپرستوں سے لکھت پڑھت کی جاتی ۔ خاکسار کی مارے حیرت سِٹّی ہی گُم ہو گئی جب یہ دیکھا کہ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے لئے بھی خواہش مند کینیا، تنزا نیہ وغیرہ کے نام لیتے اور مراد پاتے تھے۔سیکنڈری درجے والے ایک بچے کا سرپرست ، برسلز ( بیلجیئم کا دارالحکومت) میں تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند ہوا۔ کمال کی بات یہ کہ اُس کا یہ ارمان پورابھی کر دیا گیا ۔ مگر اِس کہانی میں ایک بات اومانی حکام مستقل دہراتے رہے کہ کسی کو ایک فرانک بھی نقد نہیں مِلے گا ۔ سب کچھ سلطان کے حساب میں ہو گا۔جب فیس، ہاسٹل، کھانا پینا اور سال میں ایک مرتبہ اپنے وطن آنا اور پھر واپس جانا مفت توپھر تو بات ہی ختم ہوئی نا؟ایک اور بات بھی وہ کہتے تھے کہ وظیفے والوں کا مکمل ریکارڈ بشمول تعلیم حاصل کرنا، حاضری، اور سب سے بڑھ کر نتائج براہِ راست سلطان کو جائیں گے جو اُن کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ سالانہ کارکردگی کے لحاظ سے آیا آئندہ سال کا وظیفہ جاری رکھاجائے یا نہ؟


عرب شیوخ ، غریب اِسلامی ممالک کے عوام کی بہبود کے لئے امداد ضرور دیتے ہیں لیکن وہ ’معلوم ‘ وجوہات کی بِنا پر ضرورت مندوں اور مستحقین تک نہیں پہنچا کرتی۔افریقی غریب مسلمانوں کے لئے سلطان قابوس کی یہ مدد ہی تو در اصل اِسلام کی خدمت تھی ۔ اِس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہو گی۔ 


سلطان قابوس بِن سعید، 1970 میں اپنے والد، سعید بِن تیمور کا تختہ اُلٹ کر سلطنتِ اومان کے سُلطان بنے تھے۔یہ اب تک اِس سلطنت کے سُلطان ہیں، اِس طرح وہ موجودہ عرب دُنیا میں واحد سب سے لمبے عرصہ کے فرماں روا ں ہیں۔ اپنی سلطنت میں تیل کی دولت سے افریقی پسماندہ علاقوں کے مسلمانوں کا بھی سلطان قابوس نے خیال رکھا ۔

..............................................
کگوما آمد اور یوگینڈا تنزانیہ جنگ میں اشیاء کی اسمگلنگ 
ذکر ہو رہا تھا بُوجُونبُورا سے کِگوما جانے کا۔جھیل ٹانگا نیکامیں اِس سے قبل بھی سفر کرنے کا تجربہ تھا۔اصل مہم جوئی تو تنزانیہ کے ساحلی شہر کِگوما سے شروع ہونے والی تھی ۔ کِگوما تنزانیہ کی جھیل ٹانگا نیکا کے ساحل کی بندرگاہ ہے۔ اُس زمانے میں یہ اِس جھیل کی سب سے زیادہ مصروف بندرگاہ ہوا کرتی تھی۔ یہاں سے تاریخی ریلوے لائن، تنزانیہ کی پوری چوڑائی کا 779 میل سفر طے کرتے ہوئے دارالحکومت اور بندرگاہ دارالسلام Dar es Salaam تک جاتی ہے۔اِس ریلوے لائن سے متعلق کئی ایک پراسرار کہانیاں سُن رکھی تھیں۔ یہ ریلوے لائن جرمن نوآبادیاتی دور میں بچھائی گئی تھی۔اسٹیشن پر لکھی تار یخی عبارت کے مطابق یہ 1905میں بننا شروع ہوئی ۔یہ تنزانیہ میں اُس زمانے کی جرمن فنی مہارت کی سب سے بڑی مِثال مانی جاتی ہے ۔ 1252 کلومیٹر طویل ریلوے لائن دارالسلام سے شروع ہو کر کِگوما تک، جنگِ عظیم اول سے کچھ ہی پہلے، 1914میں مکمل ہوئی۔ اِس کی تعمیر سے جھیل ٹانگانیکا سے تجارت کا نیا راستہ کھلا اور یوں ٹانگانیکا (تنزانیہ کا پرانا نام) کی ترقی کا سفر تیز تر ہوا۔ 1964سے پہلے ٹانگانیکا اور زنجیبار دو الگ الگ ملک تھے اور دونوں مِل کر تنزانیہ کہلائے۔ بات ریلوے لائن کی ہو رہی تھی ۔ برطانوی دور میں بھی مین لائن کے ساتھ کچھ برانچ لائنیں بچھائی گئیں۔ اب بھی سُننے میں آتا ہے کہ گرمی، دھوپ کی سختی، شدید بارشیں اور 
علا قائی پراسرارکہانیوں نے مِل کر اِس لائن کے بعض حصّوں کی تکمیل میں بہت دشواریاں پیدا کیں۔ اِس پر آگے چل کر بات ہو گی۔


کِگوما میں جرمن دور کی کچھ نشانیاں دیکھیں۔یہاں کا ریلوے اسٹیشن اپنے اندردو مختلف ادوار کے نو آباد یاتی آثار لئے ہوئے ہے ۔بہت سی بنیادی معلومات یہاں کنندہ ہیں۔راقم کے یہاں آنے کا جو زمانہ تھا وہ یوگینڈا اور تنزانیہ کی جنگ کے اختتام کا دور بھی تھا ( 1978سے  1979) لہٰذا یہاں کافی ہلچل محسوس ہوئی۔صاف معلوم ہو رہا تھا کہ یوگینڈا میں ضرورت کی ہر چیز کی قِلت ہے۔ کیوں کہ مختلف نوعیت کی اشیاء نہ جانے کہاں کہاں سے کِگوما میں منگوا کر چھوٹے ٹرکوں میں آگے جنگ زدہ علاقے میں زیادہ منافع کے لئے لے جا ئی جاتی تھیں۔میں نے یہ اندازہ لگایا کہ کِگوما کے رہنے والے اِس جنگ سے بہت زیادہ خوش تھے ۔ اول تو وہ وہاں سے بہت دور ہو رہی تھی ۔ دوسرے یہ کہ اور تو اور جنگ زدہ علاقے میں صرف ڈبل روٹی ہی سپلائی ( اسمگل) کرنے والے، دِنوں میں ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے...... جی ہاں ڈبل روٹی کی اسمگلنگ بھی اُس وقت کابڑا آئٹم تھی.........

اگست 1972 میں یوگینڈاکے سر براہ، عدی امین نے اپنے ہی ملک میں ’ اقتصادی جنگ ‘ شروع کر دی تھی ۔ ایشیائی اور یورپی باشندوں کو ، جو وہاں کی تجارت اور صنعتوں کو ایک زمانے سے چلا رہے تھے اور برطانوی نو آبادیاتی زمانے میں اُن کے باپ دادا ہندوستان اور یورپ سے بہتر مستقبل کے لئے افریقہ آئے تھے، اُن کی تجارتی کمپنیوں اور کارخانوں کو قومیا کر ملک سے ہی نکال دیا گیا۔یہ چھوٹے بڑے صنعتی یونٹ، یوگینڈا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ 1973 میں جامعہ کراچی میں میرے ساتھ یوگینڈا سے نکالے گئے بہت سے آغا خانی طلباء بھی زیرِ تعلیم تھے ۔اِن ہی کے لئے پیر الٰہی بخش کالونی میں پرنس کریم آغا خان . نے
 ’ امین آباد ‘ نام کی بستی بسائی۔ عدی امین نے تنزانیہ کے ساتھ جنگ شروع تو کر دی مگر ....... اُن کی حکومت بھی گئی اور باقی ماندہ زندگی جلا وطنی کی حالت میں سعودی عرب میں گُزری۔
...........................................................

ایک عجیب اسرار

راقم نے اب تک کتابوں میں ہی پڑھا تھا کہ فلاں جگہ سڑک بنائی یا ریل کی لائن بچھائی جا رہی تھی لیکن کچھ نا قابلِ یقین پراسرار واقعات ایسے ہوئے کہ چند گز کام بھی ہفتوں نہ ہو سکا اور عجیب و غریب حالات میں کئی ایک مزدور لقمہء اجل بَن گئے۔اور پھر بالآخر ’ اُس ‘ جگہ کو بائی پاس کر کے کام چلایا گیا۔ایسی ایک روایت روہڑی کے آس پاس ریلوے لائن بچھائے جانے کی بھی سُننے میں آتی ہے ۔ راقِم کے کِگوما آنے کا اولین مقصد بھی ایک ایسے ہی ایک مقام کو دیکھنا تھا۔

سینما والے عثمان بھائی نے خاکسا ر کے اِس شوق کو دیکھتے ہوئے کِگوما میں ایک مقام کی نشاندہی کرا دی تھی جِس کے بارے میں مشہور تھا کہ دارالسلام سے ریلوے لائن بچھاتے ہوئے جب جرمن کِگوما میں پہنچے تو ایک دم سب کام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔پہلے تو بِن موسم محدود علاقے میں شدید بارشیں، پھر بیماریاں۔مقامی مزدور تو کام کرنے سے ہی انکاری ہو گئے۔جو کھینچ تان کر تھوڑی بہت لائن بچھتی وہ نامعلوم وجوہ کی بِنا پر ٹیڑھی ہو جاتی۔یہ قطعاََ ممکن نہیں تھا لیکن پھر بھی .... یہ بگاڑ راتوں رات مستعد چوکیداروں اور جرمن سپاہیوں کی موجودگی میں عین اُن کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا۔مقامی لوگوں نے بہت کہا کہ لائن کا رُخ بدل دیا جائے تو امکان ہے سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن شاید لائین بنانے والے بھی اپنی ضِد کے پکے تھے۔روایت بتائی جاتی ہے کہ جب کچھ مزدوروں کی پراسرار پس منظر میں اموات ہوئیں تب اُس مقام سے لائن کو ہلکا سا خم دے کربائی پاس کر دیا گیا اور یوں وہ کام مکمل ہوا۔

یہاں کِگوما میں رہنے والے عثمان بھائی کے ایک واقف کار سے ملاقات کی اور اُس مقام کو دیکھنے اور کھلی فضا میں رات بھر وہاں ٹہرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔وہ صاحب یہ ساری کہانی جانتے تھے لیکن ایسی کسی بات پر یقین کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔بہر حال ہم لوگ نکلے ...... شہر کے مضافات میں بتدریج آبادی کم ہوتی گئی حتیٰ کہ ایک جگہ بالکل ختم ہو گئی۔یہاں سے تین اطراف میں میلوں کوئی آبادی نظر نہیں آتی تھی۔البتہ جِس چیز پر آنکھ فوراََ ٹکتی تھی وہ چند فٹ نشیب میں ریلوے لائن تھی۔وہ حضرت کہنے لگے کہ توہم پرستی کی وجہ سے یہاں اِس ریلوے لائن کے خم کے آس پاس میلوں کوئی بھول کر بھی نہیں آتا۔البتہ وہ ایک بات بتانے لگے کہ یہیں کہیں اِسی موضوع پر بننے والی کسی فِلم کی عکسبندی کے دوران بھی کوئی جان لیوا واقعہ پیش آیا جِس پر اب یہاں نہ آنے کی مہر ثبت ہو چکی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ کبھی اِس جگہ ایک کتبہ بھی ہُوا کرتا تھا جِس پر یہاں ہونے والے واقعہ کے بارے میں مختصر عبارت درج تھی جو خود اُنہوں نے اپنے لڑکپن تک دیکھا تھا۔ عثمان بھائی کے علاو ہ ر اقِم نے یہاں کئی ایک لوگوں سے اِس موضوع پر گفتگو کی۔گھوم پھر کر بات ایک جگہ آ جاتی تھی کہ یہاں ’کچھ ‘ ہے ضرور ۔ میں اِس ’کچھ ‘ ہی کی تو تلاش میں آیا تھا۔طے ہوا کہ اِس مقام پر رات ٹہر کر صبح میں خود اُن صاحب کے گھر آ جاؤں گا۔

’’ ہونا ہوانا کچھ نہیں ، گلاس توڑا بارہ آنے!‘‘۔وہ صاحب ہنستے ہوئے یہ کہہ گئے ۔

وہ عصر کا وقت تھا۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ مجھے ڈر وخوف محسوس نہیں ہوتا، بالکل ہوتا ہے؛ لیکن خوف ذدہ ہونے کے لئے کوئی و جہ بھی تو ہو؟ نیچے چند فٹ پر وسیع و عریض ایک قطع تھاجہاں کچھ چوپائے چلتے پھرتے نظر آئے۔جو اِس بات کا ثبوت تھا کہ فی الحال ’سب ٹھیک ہے‘ ۔جہاں میں بیٹھا ہوا تھا وہاں سے تیز رفتاری سے چلیں تو پانچ منٹ میں ریلوے لائن کے عین اُس مقام تک پہنچا جا سکتا تھا جہاں اُسے خم دیا گیا تھا۔خاکسار نے اسٹاپ واچ سے اس فاصلہ اور وقت کا حساب لگایا تھا۔ میں نے جیبی ڈائری نکالی اور بسم اللہ پڑھ کر اُس روز کی تاریخ درج کی اور چند جملے لکھے کہ میں اِس جگہ کیوں آیا ہوں۔اور اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ..... سے رابطہ کیا جائے۔ ( یہ چیز میں نے اپنے یونٹ کے کیمرہ مین سے سیکھی تھی) ۔ چہار سو خاموشی تھی البتہ اِس دوران دو تین مال گاڑیاں ضرور گزریں۔شاید تعظیماََ انجن ڈرایؤروں نے عین خَم والے مقام پر ہارن بجائے۔ 


شام ہونے پر میں نے ہاتھ پیروں اور چہرے پر مچھروں سے بچنے کے لئے ایک لوشن لگا لیا ۔ مغرب ہونے سے کچھ پہلے پرندوں کے غول کے غول اپنے اپنے آشیانوں کی جانب جاتے نظر آئے ۔ میں خاصی بہتر جگہ پر بیٹھا تھا ۔کوئی بہت زیادہ پیڑ ، جھاڑیاں اور اونچی گھاس نہیں تھی پھر نطروں کے سامنے ایک وسیع علاقہ تھا۔سورج غروب ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد خاموشی چھا گئی۔کبھی کسی پرندے یا جانور کی کوئی آواز آ جاتی۔ میں چونکہ عملاََ جنگل سے آیا تھا اِس لئے یہاں میں بہت پُر سکون تھا۔کچھ وقت اور گزرا تب چند سیکنڈوں میں آسمان پر حدِ نگاہ دمکتے تارے نظر آنے لگے۔اتنی تعداد میں روشن و چمک دار تارے دیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھاوہ بھی ہر طرف چھائی ہوئی خاموشی میں۔بس یہی لمحہ تھا جب مجھے دور سے قدیم زمانے کی ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی سُنائی دی۔آواز کی سمت سے لگتا تھا کہ ریل گاڑی دارالسلام کی جانب سے آ رہی ہے۔کچھ اور وقت بیتا تو ایک دفعہ وہ آواز دوبارہ سنائی دی۔اب وہ کافی قریب سے آ رہی تھی۔ پھر ایک دم سامنے سفید دھواں اُڑتا ہوا نظر آیا۔ایک ثانیہ کو میں پریشان ہو گیا کہ ریل گاڑی کے انجن کا دھواں سفید تو نہیں ہوتا۔وہ واقعی سفید رنگ کا دھواں تھا اور انجن کی بناوٹ بھی عین اُسی طرح کی تھی جیسی 1919 میں ریل کے انجن ۔میں نے کِگوما کے ریلوے اسٹیشن میں لگائی ہوئی پرانی تصویروں میں ایسے انجن اور ٹرینیں دیکھی تھی۔میں اللہ کا نام لے کر تیز قدموں ریلوے لائن کے خم کی جانب بڑھا۔گاڑی اب میری آنکھ کے لیول میں مزید قریب آ گئی ۔یہ ٹر ین کون سی تھی؟ کم از کم آج ہی کے دِن مال گاریوں کے انجن مختلف تھے، اُن کا دھواں سفید نہیں تھا۔لیکن یہ کیا؟...... انجن ریلوے لائن چھوڑ کر سیدھ میں آنے لگا....خم بناتی ہوئی ریلوے لائن کے بجائے وہ کسی دیو ہیکل ٹرک کی طرح زمین پر آنے لگا۔اور وہ تمام سفر جو خم میں ریل کی پٹڑی پر کرنا تھا وہ زمیں پر سیدھ میں کر گیا۔نہ وہ گاڑی اُلٹی نہ کوئی شور و غُل ہوا۔صرف ایک دم سردی بڑھ گئی۔یہ سب مجھ سے چند گز کے فاصلہ پر ہوا۔نہ جانے گاڑی کے کتنے ڈبے تھے آخری بھی گزر گیا جِس کے پیچھے ایک لالٹین جھول رہی تھی ،اُس کی روشنی بھی سفید.... پھر ایک سیٹی اور سُنائی دی اور پھر یہ گاڑی میرے دیکھتے ہی دیکھتے دھندلی ہو کر غائب ہو گئی ۔ میری آنکھوں اور سر میں درد ہونے لگا۔پانی کی بوتل سے میں نے اپنے مونہہ اور آنکھوں پر چھینٹے مارے۔آنکھ میں چبھن قدرے کم ہوئی تو ریلوے لائن کی جانب بڑھا۔آسمان بدستور دمکتے تاروں کی جگمگاہٹ سے بھرا ہوا تھا۔زمین پر بغیر پٹڑی ریل گاڑی کے چلنے کے نشان دیکھنے کی کوشش کی جو نہیں مِلے۔نزدیک سے کسی ڈرے ہوئے جانور کی گھُٹی ہوئی آواز وقفے وقفے سے سُنائی دے جاتی۔ کاندھوں پر اور دماغ پر بہت بوجھ محسوس ہونے لگا ۔اللہ کا نام لے کر اورسونے سے قبل کے معمولات پڑھ کر دائیں کروٹ لیٹ گیا۔ صبح کے قریب پھوار پڑی جِس سے میں بیدار ہوا۔اللہ کا شکر ادا کیا۔جب تھوڑی سی روشنی ہوئی تو غور سے سامنے ریلوے لائن کے خم کے متوازی دیکھا۔مزید روشنی پر چل کر اُس مقام پر گیا جہاں رات والی ٹرین پٹڑی سے اُتر کر زمین پر چلی تھی۔وہاں ایسا کوئی نشان، کوئی علامت نہیں دیکھی۔اب اتنی بھی جل تھل نہیں ہوئی تھی کہ نشانات مِٹ جاتے۔ہاں دو چیزیں ایک دم نظروں کے سامنے پڑی مِلیں۔یہ قدیم طرز کے کوٹ کے دو عدد بٹن تھے جِن پر لکھی زبان تو سمجھ نہیں آسکی ۔


کاندھوں پر سے بوجھ اُتر گیا تھا اور سر اور آنکھ کا درد بھی ختم ہو گیا۔کچھ دیر پٹری کے خم کے پاس ایک ایک انچ کو غور سے دیکھا۔ کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی۔اب کی دفعہ پھر ریل گاڑی کی آواز آئی جو کِگوما کی جانب سے آ رہی تھی۔میں اپنی پہلے والی جگہ بیٹھ گیا۔وہ ایک مسافر ٹرین تھی ۔دور سے کالا دھواں دیکھ کر دِل بہت خوش ہوا۔ ٹرین ڈرا یؤر نے خم پر آ کر سیٹی بجائی۔اور یوں میں بھی اُن حضرت کے ہاں چلا۔


’’ اب آپ مانیں یا انکار کریں .... میں نے جو دیکھا وہ بیان کر دیا......‘‘۔یہ کہہ کر میں نے رات والا ماجرا عثمان بھائی کے واقف کار کو سُنا دیا۔جواباََ وہ صرف مسکرا دیئے۔

’’ یہ دیکھئے ... یہ رہے وہ دو عدد بٹن......‘‘۔میں نے اُن کے طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں ! یہ خاصے قدیم نظر آتے ہیں... لیکن ایسی کئی ایک اشیاء اب بھی اِس خم کے آس پاس دستیاب ہوتی رہتی ہیں کیوں کہ اس مقام پر 1919 سے لے کر اب تک کوئی نئی تعمیر نہیں کی گئی۔ریلوے لائن بناتے وقت ایسی کئی ایک اشیاء بیکار سمجھ کر وہیں کسی گڑھے میں پھینک دی جاتی ہوں گی،ویسے اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک ایسی جگہ لے جاؤں جہاں تم اور لوگوں کے ہمراہ کچھ ایسے منظر دیکھ سکتے ہو کہ جِن کی تصویر کیمرے سے لی جا سکتی ہیں مگر وہ دھندلی آتی ہیں‘‘۔
..........................................................

کیا وہ واقعی روحیں تھیں؟
’’وہ غالباََ سینٹ جوزف اسپتال اور اُس سے منسلک نرسنگ اسکول کی طالبات تھیں درختوں اور پھولوں سے گھرے ایک خوبصورت ہاسٹل میں رہا کرتی تھیں۔یہ زمانہ شاید 1967 کا تھا۔ہاسٹل اور اُن کے اسپتال اور درس گاہ کے درمیان پیدل کا راستہ تھا۔پھر ایک طالبہ شام کو ہاسٹل جاتے ہوئے حادثہ کا شکار ہو کر فوت ہو گئی۔ابھی لوگ اس بات کو بھولے بھی نہیں تھے کہ ایک اور مِلتا جلتا واقعہ ہو گیا۔ یہ حادثہ بھی سڑک کے اُسی موڑ پر پیش آیا۔جب تیسری طالبہ گاڑی سے ٹکرا کر ہلاک ہوئی تب اُس اسپتال،چرچ، اور نرسنگ اسکول کے کرتے دھرتے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔کیوں کہ اب معاملہ کی تہہ تک پہنچنا تھا۔تینوں حادثوں میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ وہ سنیچر کے روز شام اور رات کے درمیان ہوئے تھے۔جب چوتھی لڑکی بھی حادثی میں فوت ہو گئی تو پہلا کام یہ کیا گیا کہ ہاسٹل ہی بند کر دیا۔تب سے اب تک اُس جگہ کوئی حادثہ نہیں ہوا‘‘۔ 


’’ اچھا ! پھر کیا ہوا؟ ‘‘ ۔میں نے دلچسپی سے اُن صاحب سے سوال کیا۔

’’ پھر یہ ہوا کہ کسی اخبار کا رپورٹر اِس کہانی کی تلاش میں ہاسٹل میں پوچھ گچھ کرنے آیا۔یہاں کے عملے نے اُسے ایک چونکا دینے والی بات بتائی ۔وہ یہ کہ اکثر سنیچر کی شام درختوں کے پاس کبھی ایک اور کبھی تین لڑکیاں سفید نرسنگ یونیفارم میں نظر آتی ہیں ۔مُختصر یہ کہ وہ رپورٹر بھی کوئی ڈھیٹ ہڈی تھا کچھ محنت کے بعد اُس نے اپنے اخبار میں دو تصویروں کے ساتھ یہ کہانی شائع کروا دی۔بس وہ دِن اور آج کا دِن ..... سنیچر کی شام سے کچھ پہلے سڑک کا یہ حصہ دو تین گھنٹوں کے لئے عمومی ٹریفک کے لئے بند کر دیا جاتا ہے۔عوام سڑک کی دونوں جانب تھوڑے تھوڑے فاصلوں سے موم بتیاں /دیئے جلا کررکھ دیتے ہیں۔سڑک کی دونوں جانب لال روشنی سے حد بندی کر دی جاتی ہے کہ اِس سے آگے جانا منع ہے۔یہاں تقریباََ ہر سنیچر یہ نظر آیا کرتی ہیں۔اور جو کوئی کیمرے سے ان کی تصاویر بنانا چاہے، اُس کی اجازت ہے۔یہ البتہ عجیب سی بات ہے کہ بہترین فلم اور کیمرے کے باوجود مکمل صاف تصویر نہیں آتی جب کی انسانی آنکھ سے یہ بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں‘‘۔


غالباََ ایک دو روز بعد ہی سنیچر کا دِن تھا۔میں اور وہ صاحب اپنے ا ولمپس کیمرے کے ساتھ مطلوبہ جگہ جا پہنچے۔باقاعدہ میلے کا اہتمام نظر آیا بہت ہی چہل پہل تھی۔بس لنگر کی کمی تھی۔مقامی انتظامیہ کے رضاکار جا بجا نظر آ رہے تھے۔روڈ پر دونوں جانب ہونے والا چراغاں ،غم کا تو نہیں البتہ خوشی کا تاثر ضرور دے رہا تھا۔بالکل ہمارے ہاں کی طرح پھیری والے چیزیں بیچ رہے تھے۔اچانک کہیں سے سواحیلی میں کوئی نعرہ بلند ہوا اور خاموشی چھا گئی۔ابھی سڑک کا وہ ٹکڑا بالکل خالی تھا اور اب نہ جانے ایک دم کہاں سے ایک نہیں دو دو لڑکیاں نرسوں کی یونیفارم میں آتی دکھائی دیں۔ایک کے چلنے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔دھڑا دھڑ کیمرے اور فلیش کام کرنے لگے۔ہم لوگوں نے بھی کئی ایک تصویریں اُتاریں۔وہ لڑکیاں ماحول اور اطراف سے بے خبر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ہاسٹل کی جانب مُڑ گئیں۔جو لوگ وہاں کھڑے تھے وہ سڑک پر اِن کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ہم بھی اُدہر ہی لپکے۔ہماری آنکھوں کے سامنے وہ دونوں دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ سیکنڈوں کے وقفے سے قریب کھڑے لوگ بھی اندر گئے۔گو کہ یہ ہاسٹل بند تھا لیکن وہاں ہال میں اسپتال کا عملہ رہا کرتا تھا۔ حیرت کی انتہا ہو گئی جب دروازے کے قریب بیٹھے شخص نے کہا کہ کون سی لڑکیاں؟ یہاں تو کوئی بھی نہیں آیا۔جب میں نے وہاں پر لوگوں سے بات چیت کی تو علم ہوا کہ عام خیال ہے کہ یہ وہ رو حیں ہیں کہ جو اِس جہاں اور اگلے جہاں میں کہیں اٹک کر رہ گئی ہیں۔سُننے میں یہ بھی آیا کہ کبھی یہ ذخمی حالت میں بھی نظر آتی ہیں۔


اِس ماجرے کا حاصل کلام یہ ہے کہ دوسرے روز جب تصویریں دھل کر آئیں تو زیادہ تر دھندلی تھیں لیکن دو چار قدرے بہتر۔جو نسبتاََ بہتر تھیں اُنہیں انلارج کروایا گیا۔فوٹوگرافی سمجھنے والے کافی افراد کو یہ دِکھلائی گئیں لیکن کسی نے بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی۔


واضح ہو کہ غالباََ 7جولائی 1967کو لال کوٹھی، ڈرگ روڈ کراچی ( موجودہ شارع فیصل) میں ایک کسٹم افسر کو سڑک کنارے ایک زخمی عورت نظر آئی ...... اُس کے ساتھ ہمدردی کرنا جان لیوا ثابت ہوا ۔ اگلے سال اِسی تاریخ کو ایک اور صاحب اپنی جان سے گئے البتہ شاید تیسرے سال والے صاحب بچ گئے۔

 1980 میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرام میں اپنی ملازمت کے  دوران اِس موضوع پر خاکساار نے روزنامہ جنگ کراچی کے 1967 سے لے کر کئی سال آگے کی اِن تاریخوں کے جولائی کے اخبارات کوخوب کھنگالا۔ پھر اُن تیسرے بچ رہ جانے والے صاحب اور اُن کے گھروالوں سے خاصی تحقیق کی تھی۔خیال تھا کہ طویل دورانیہ کے ڈراما بنایا جائے۔یہ تو نہ ہو سکا لیکن اُنہی دِنوں کراچی سے غیر قانونی طور پر مشرقِ وسطیٰ جانے والوں کی ایک پرانی لانچ بیچ سمندر میں خراب ہو گئی اور کافی جانی نقصان بھی ہوا۔اِس واقعہ کو بنیاد بنا کے سابق سینیٹر اور ڈرامہ نویس اور اداکار جناب تاج حیدر صاحب سے ایک ظویل دورانیہ کا ڈرامہ ’ جو گہرائی میں گئے‘ لکھوا کر سینیئر پروڈیوسر جناب بختیار احمد کے ساتھ کیا۔

 .....................................................

سِرانگیِٹی کی سیاحت اور یہاں پیش آنے والا ایک افسوسناک واقعہ


راقِم نے جنگل میں صرف کام ہی کیاتھا۔اب اُس جاپانی نوجوان ناکاگاوا کی طرح بس میں بیٹھ کر تقریباََ 500 میل کے فاصلے پر واقع سِرانگِیٹی نیشنل پارک دیکھنے کے لئے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔مجھے خاص طور پر شیروں کو اُن کے قدرتی ماحول میں دیکھنے کا شوق تھا ۔ کِگوما میں لوگوں سے معلومات لے لی تھیں کہ کسی گروپ کے ساتھ منسلک ہو کر جانے میں خاصی بچت ہو جائے گی۔سِرانگیٹی پہنچ کر خوش قِسمتی سے تین افراد کا گروپ مِل گیا۔اِن میں یورپ سے آنے والے ایک میاں بیوی اور اُن کے ایک قریبی مِلنے والے تھے۔ اِن لوگوں نے ضروری کاغذی کاروائی کی اور ایک گائڈ کے ساتھ چھ سیٹوں والی رینج روور میں سرانگیٹی نیشنل پارک میں داخل ہوئے میں۔راستہ میں جو چھوٹا موٹا جانور مِلتا تمام حفاضتی ہدایات کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ لوگ گاڑی کے دروازے کھول اور باہر نکل کر کیمروں سے تصاویرُ تارنے لگتے۔اِن میں سے ایک صاحب 8 ایم۔ایم سُپر۔ موشن پِکچر کیمرے سے عکسبندی کر رہے تھے۔ایک جگہ شیروں کے علاقے میں گائڈ نے ٹہرنے کو کہا۔ خاصے فاصلے پرشیروں کا ایک گروپ بیٹھا ہوا نظر آیا۔حسبِ عادت یہ لوگ گاڑی سے اُترنے لگے۔گائڈ نے منع کیا لیکن ......اُترنے میں سب سے شیر تو خود گروپ کی خاتون ہی تھی۔اچھی خاصی مونہہ ماری ہو گئی۔گائڈ کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کی جان کا میں ذمہ دار ہوں لہٰذا آپ کی اپنی حماقت سے اگرآپ کے ساتھ کچھ ہوا تو میرا لائسنس ختم ہو جائے گا۔ وہ خاتون اپنے اِسٹل کیمرے کے ساتھ گاڑی سے باہر اُتری اور اُن کے شوہر اُس سے کچھ فاصلے پر اپنا فِلم کیمرہ اسٹینڈ پر فِٹ کرنے لگے۔پھر اچانک جو ہوا وہ سیکنڈوں کی بات ہے۔وہ شیر گاڑی سے خاصی دور تھے۔ظاہر ہے اگر قریب ہوتے تو یہ بے وقوف لوگ نیچے نہیں اترتے۔

میری بھی توجہ شیروں اور اِن میاں بیوی کے درمیان بٹی ہوئی تھی لیکن گائڈَ پیشہ ور تھا۔اُس کی تمام تر توجہ شیروں پر تھی ۔ اچانک وہ خبردار کرنے کے لئے چیخا ۔ اور ساتھ ہی ہوائی فائر کر دیا۔ایک نسبتاََچھوٹی شیرنی بجلی کی سی تیزی سے اُن دونوں کے سر پر آ گئی۔ ایک اور ہوائی فائر ہوا اور ساتھ ہی چیخ پُکار شروع ہو گئی۔اُدہر دوسری طرف بیٹھے ہوئے باقی شیر بھی غصہ میں غرانے لگے۔وہ دو نوں میاں بیوی فوراََ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ وہ عورت خوش نصیب تھی کہ چھوٹی شیرنی کا ایک پنجہ کمر پر رسید ہوا تھا۔ پیٹھ پر شیرنی کے پنجے نے تھوڑا بہت اُس کو نوچا ہوا تھا۔اللہ کا کرم ہوا .... کوئی بڑی شیرنی ہوتی تو ...... ۔ باقی مانند ہ شیروں کے تیور بھی کوئی اچھے نظر نہیں آ رہے تھے،ڈرایؤر نے گاڑی بڑھائی اور تیزی سے آگے بیس اور کیمپ آفس کی جانب دھول اُڑاتے چلا۔


کیمپ آفِس میں خاتون کی مرہم پٹی کی گئی۔اُس کی ساری اکڑ فوں نِکل چکی تھی۔اب وہ سہمی ہوئی تھی۔ وہاں یہ پتا لگا کہ ببر شیر اور شیرنیاں یہاں سیاحوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ہاں ایسا شازو نادر ہوا کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر حملہ کر دیں۔اب اُس خاتون کی وجہ سے پارک کی سیاحت ادھوری رہ گئی۔یہیں ایک میل نرس سے مُلاقات ہوئی جِس کا تعلق زایِئر (پرانا نام کانگو) سے تھا۔اُس نے اپنے ملک کی جو مختصر تاریخ سُنائی اُس کو سُن کر بہ حیثیت مسلمان، شرمندگی سے سر جھُک گیا۔وہ ایسے کہ کانگو کی پُراسرار سرزمین کے قصے کہانیاں یورپ میں بہت مقبول تھے۔کہ وہ خطرناک جنگلوں اور آدم خوروں کی جگہ ہے وغیرہ۔ پھر قریب کی تاریخ میں غلاموں کی تجارت میں اِس ملک کا نام مشہور ہوا۔وہ بتلا رہا تھا کہ اوروں کے ساتھ اِس انسانیت سوز تجارت میں ایک خاصا بڑا حصّہ عرب مسلمان تاجروں کا بھی رہا ۔ جو غلاموں کے علاوہ ہاتھی دانت کا بھی کام کیا کرتے تھے۔پھر یہاں وقتاََ فوقتاََ ہونے والی خانہ جنگی نے بھی بہت بربادی کی۔پھر قبائل کی آپس کی جنگیں الگ۔سب سے بڑھ کر نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تو باقاعدہ نسلی قتلِ عام کیئے گئے۔


دریائے کانگو کا سفر

سرانگیٹی کی سیاحت تو ملتوی کر دی گئی۔راقم کے پاس ابھی کچھ دِن باقی تھے لہٰذا کانگو اور دریائے کانگو میں سفر کرنے کا سوچا ۔دریائے کانگو کی سیاحت کی ایک بہت بڑی وجہ میرے والد صاحب کی سنائی ہوئی اسی خطہ سے متعلق مہم جوئی کی ایک کہانی تھی ( راقم نے کہیں سے اُس ناول کا بندوبست کر کے ترجمے کا کام شروع کر دیا ہے)۔حجم کے لحاظ سے دریائے کانگو دنیا کا دوسرا بڑا دریا ہے ۔ اِس کا طاس بھی کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔اُس میں مختلف نوعیت کے دلدل، اور نہایت گھنے جنگلات ہیں جہاں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جنگلاتی طاس ہے۔تنزانیہ،روانڈا،بُو رونڈی، زایئر اور دیگر ممالک میں اس کا طاس واقع ہے۔ جھیل ٹانگا نیکا کا پانی بھی دریائے کانگو میں آتا ہے۔صورت یہ بنی کہ مجھے واپس کِگوما جا کر پھر دریا ئے کانگومیں سفر کرتے ہوئے چھوٹے شہر کلیمی،کبالو اور کِنڈو سے ہوتے ہوئے کِساَنگاَنِی اور پھر یہاں سے کِنساشا۔صرف اِن دو مقامات کا ہی دریائی فاصلہ ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ دریاتنزانیہ میں ختم ہو کر بحرِ اوقیانوس میں گِرتا ہے۔


اِس سفر کی خاص خاص باتیں لکھتا ہوں۔باقاعدہ کیبن یا سیٹوں والی کشتی اُس وقت میسر نہیں تھی لہٰذا مال برداری کی بڑی لانچ ، جِس کو سندھ بلوچستان میں ہَوڑا کہا جاتا ہے ، اِس کے فرش پر بیٹھ کر سفر شروع کیا۔(ایسا ہی ایک سفر 1976 میں بولان میل سے کوئٹہ ۔کراچی کے درمیان راقم نے فرش پر بیٹھ کر کیا تھا)۔اِن مال بردار لانچوں کا کوئی شیڈیول وغیرہ اُس وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔یہ وہاں کا عام چلن تھا کہ مسافر یا سامانِ تجارت کے لئے وہ کہیں بھی مسافر اور سامان چڑھا اُتار سکتے تھے۔ کِساَنگاَنِی پراِس لانچ نے ختم ہو جانا تھا۔یہاں سے سیٹ والی لانچ ملی جِس پر کِنساشا تک ہزار کِلومیٹر سفر کرنا تھا۔یہ بہت بڑی لانچ تھی جِس میں موٹر کاریں اور مویشی بھی تھے۔چھوٹی کشتیوں اور چپو والی ڈنگیوں سے اِس بڑی چلتی ہوئی لانچ میں سامان چڑھایا جاتا رہا۔خود کنساشا شہر میں میلوں اندر اِسی دریائے کانگو سے زیادہ تر سفر ہوتے دیکھا ۔دو تین مرتبہ قریبی دلدل میں مختلف حجم کے مگر مچھ نظر آئے۔عملہ کے افراد نے بتایا کہ اب بھی کناروں پر بڑے جانور جیسے شیر وغیرہ نظر آ جاتے ہیں۔کونین کی گولیاں اور مچھر بھگانے کا تیل یہاں اہمیت کا حامِل تھا۔مجھے اول روز ہی کیمپ میں بتا دیا گیا تھا کہ وسطی افریقہ میں درندوں اور مگر مچھوں سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے ملیریا سے۔


کسانگانی میں ایک چپو والی کشتی بمع ملاح سے طے کیا کہ وہ باقاعدہ کھاڑیوں اور کسی جزیرے میں لے جائے۔ تقریباََ پورا دِن لگ گیا لیکن وہ سب کچھ خود دیکھ کر بہت اطمینا ن حاصل ہوا جیسے کے۔ٹو کا پہاڑ سر کر لیا ہو۔صرف اِس دِن کا مشاہدہ اب تک کی اِس دریائی مہم کا حاصل تھا اور یہ قطعاََ گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔یہ کہنا بیکار ہو گا کہ اِس کی مدد سے میں نے والد صاحب کی سُنائی ہوئی کہانی میں مناسب رنگ بھرنے کی کوشش کی ہو گی۔

کسنگانی اور کنساشا کے لمبے سفر نے مجھ پر اثر کیا۔کونین کی گولیاں اپنی جگہ۔مجھے بخار نے آ لیا۔کنساشا میں پورٹ کے اسپتال میں ڈاکٹر کو دکھایا ۔آثار اچھے نہیں تھے ٹیسٹوں کے لئے اور سب سے بڑھ کر آرام کے لئے سرکاری اسپتال میں داخلہ مِل گیا۔ایک رات تو بخار بہت تیز تھا پھر اللہ نے کرم کیا۔چار روز اسپتال میں رہا۔میں اُس اسپتال سے مطمعن تھا۔پھر فیصلہ کیا کہ یہیں سے ہوائی جہاز سے بوجومبورا چلا جاؤں۔میں نے ایسا ہی کیا۔ائر تنزانیہ کے فوکر جہاز میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پیر الہٰی بخش کالونی، کراچی کی 8 نمبر کی کٹھارہ بس میں سفر کیا جا رہا ہو۔

بوجومبورا میرا وطن نہیں لیکن اتنی بھیڑ بھاڑ اور نفسا نفسی اور رش والی جگہوں کے مقابلے میں اِس کم آبادی والی پر سکون جگہ آ کے بہت راحت مِلی۔راقِم کا اُس یونٹ میں زرافوں سے متعلق آخری کام تھا جِس میں کوئی خاص قابلِ ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔ پھر میں اپنی ہمشیرہ کی شادی کے سلسلے میں وہاں سے چھٹی لے کر کراچی چلا گیا.اور وہاں پہنچنے کے پندرہ روز میں اللہ کے فضل سے پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرام میں معاون پروڈیوسر کے ملازمت مِل گئی۔
.........................................................

اختتام 
( یہ مضمون ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے جولائی کے شمارے میں شائع ہوا)

Comments

Popular posts from this blog