Sheereen Nawa Mehnaaz .second and last part
شیریں نوا مہناز
دوسرا اور آخری حصّہ
تحریر شاہد لطیف
پچھلے ہفتہ مہناز کے ذکرمیں تشنگی رہ گئی ،و ہ ایسی فنکارہ ہے جِس کا تذکرہ کسی بھی لحاظ سے ایک کالم میں نہیں سما سکتا تھا لہٰذا جو باتیں رہ گئیں وہ آپ تک پہنچاتا ہوں۔مہناز عام زندگی میں بے حد ملنسار سادہ پُر خلوص تھی۔ مارچ ۱۹۹۹ میں جب وہ صدر فاروق خان لغاری سے اپنا تمغہء حسنِ کارکردگی لینے اِسلام آباد آئی تو میں نے اُسے اپنے غریب خانے میں قیام کی دعوت دی ۔ایک گیسٹ ہاؤس میں سرکاری انتظام ہونے کے باوجود اُس نے میری دعوت قبول کر لی ۔ اِسی تقریب میں مسرور انور صاحب کو بعد از مرگ یہی ایوارڈ دیا گیا جو اُن کی بیگم نے وصول کیا۔دیر آید درست آید، حکومتِ پاکستان کو۱۹۷۱ میں لکھے گئے قومی گیت:
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
پر ایوارڈ دینا مسرور بھائی کے دنیا سے گزر جانے پر یاد آیا۔بہرحال تقریب کے بعد میں خود اُسے اپنے گھر واقع لال کڑتی، راولپنڈی لے آیا ۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے ۔ ہم لوگ کچھ عرصہ پہلے ہی کراچی سے پنڈی منتقل ہوئے تھے۔ ہم خود بھی بوری نشین قسم کے لوگ ہیں ۔مارچ کا مہینہ اور سردی کا زمانہ، ہم خود بھی قالین پر بستر لگا کر سوتے تھے اور مہناز کو بھی ہم نے ایسا ہی ایک بستر فراہم کیا۔اُس رات مہناز نے بغیر ساز کے اپنی سریلی آواز میں کئی گیت، ٹپے، حضرت امیر خسروؒ کے مشہور گیت سنا کر ایک سماں باندھ دیا۔مہناز کی خواہش پر ہم نے کسی کو بھی اِس کی آمد کا نہیں بتایا تھا۔سامعین میں خاکسار کے ساتھ میری بیوی اور بیٹیاں موجود تھیں۔ہمیں آج بھی وہ محفل اسی تازگی کے ساتھ یاد ہے۔اگلی صبح اُس نے بتایا کہ رات بہت پر سکون گزری۔اُس نے ایک دفعہ بھی ہماری کم مائیگی پر اشارتاََ تک کچھ نہ کہا ۔ سادے سے ناشتہ کے بعد میں خود اُسے ہوائی اڈہ چھوڑنے گیا۔سادے سوٹ کے اوپر سفید چادر اوڑھے، بغیر میک اَپ، ایک گھریلو خاتون کی طرح خوشی خوشی اُس نے ہم سب کو خدا حافظ کہا اور کراچی پرواز کر گئی۔
مہناز نے ۱۹۹۰تک ۱۳ مرتبہ بہترین گلوکارہ کے نگار ایوارڈ حاصل کیے۔جو ہمارے ملک میں کسی بھی گلوکارہ کے حصہ میں نہیں آئے۔مزید برآں مہناز وہ واحد گلوکارہ ہے جِس نے مسلسل سات سال ہر سال بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ حاصل کیا:
- " سلاخیں " ۔ 1977
- " پلے بوائے " 1978
- " خوشبو " 1979
- "بندش " 1980
- " قُربانی : 1981
- " بیوی ہو تو ایسی " 1982
- " کبھی الودع نہ کہنا " 1983
۲۰۱۱ میں مہناز کو ،لکس اسٹائل ایوارڈز کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈدیا گیا۔گزشتہ تحریر میں ذکر کیا تھا کہ مہناز نے اپنا فنی سفر ۷۰ کی دہائی سے شروع کیا۔اُس کی دو خصوصیات ، شیریں نوائی اور سُر پر قابو، نے لاہور کے موسیقاروں اور فلم بینوں کو جلد ہی اپنی جانب متوجہ کر لیا اور ابتدا ء میں ہی اُس کے نغمات نے مقبولیت حاصل کر لی ۔
کچھ اپنا تجربہ بتاتا ہوں کہ میں نے اُسے ا وّل تا آخر ، گیت کی تیاری کے تمام مراحل میں کیسا پایا؟ وہ بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کرتی تھی۔البتہ کام کے بعد ہنسی مذاق ضرورہوتا تھا۔وہ صحیح معنوں میں فنکارہ تھی۔کبھی اُس کی جانب سے کوئی معمولی سی بھی غلطی ہو جائے تو خود ہی ریہرسل یا ریکارڈنگ روک دیا کرتی تھی۔قطع نظر اس کے کہ راقم اُس کو فلموں میں آنے سے پہلے ہی جانتا تھا، کوئی نیا شخص بھی سیکنڈوں میں اندازہ لگا لیا کرتا تھا کہ ’ ہاں یہ میٹھی آواز ہے‘۔آواز میٹھی ہے یا بس گزارہ ہے، یہ بعد کی بات ہے پہلے تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آواز سُر میں بھی ہے؟ مہناز کے ہاں تو ایسا لگتا تھا کہ آواز نہیں کوئی ساز ہے۔یعنی سُر میں پکا۔یہ چیز خوب ریاضت اور اُستاد کی نگرانی میں مشق کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔اپنے عروج کے زمانے سے لے کر انتقال تک مہناز نہایت منکسر المزاج تھی۔ اِس چیز کی آج کے فنکار میں کمی ہے۔ریاضت بھی ہو گئی ا ستاد سے ضروری مشقیں بھی کر لیں اب اللہ کی دین میٹھی آواز بھی شامِل ہو گئی اِس طرح جب تمام ضروری عناصر ملے تو مہناز بنی۔ اِس درجے کیُ سُریلی آواز کم کم ہی سننے میں آتی ہے اور فی زمانہ تو کوئی بھی نہیں! اتنی صلاحیتوں کے باوجود خواہ صرف ایک ہی گیت کیوں نہ ہو اُس نے ہمیشہ ریہرسل کرنے کو فوقیت دی ۔ جب پوچھا جاتا تو کہتی کہ اِس سے نغمہ اور ردھم قابو میں آتے ہیں۔
اپنی والدہ اور والد صاحب سے موسیقی کے بنیادی رموز سیکھنے ، درجہ بدرجہ نیم کلاسیکی اور راگ راگنیوں سے واقفیت اور پھر اساتذہ سے تربیت لینا اور سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے پڑھنایہ سب مہناز کے اُس وقت کام آیا جب وہ ۱۹۷۰ اور ۱۹۸۰ کی ہیروئنوں کی پلے بیک سنگر بنی۔اور اس کے ساتھ ساتھ جہاں موقع مِلا غزل کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔واضح ہو کہ اُس وقت مادام نور جہاں، اقبال بانو، اور فریدہ خانم کا طوطی بولتا تھا۔
مہناز کے شیریں نوا اور سریلی آواز ہونے کے علاوہ قسمت کی یاوری اور خوش نصیبی کا بھی دخل ہے ۔ ۷۰ کی دہائی کے اوائل میں پاکستان فلمی صنعت میں ایسی خواتین پلے بیک سنگر کی بہت کمی تھی جِن کی آواز بابرہ شریف، شبنم اور اُس وقت کی ہیروئنوں پر جچ سکے۔رونا لیلیٰ اسی زمانے میں بنگلہ دیش چلی گئی تھی، مالا کی بھی اب وہ پہلی سی آواز نہیں رہی تھی۔لے دے کے ایک مادام نورجہاں تھیں جو اُس وقت زیادہ تر پنجابی فلموں کی ہو کے رہ گئی تھیں۔ اِس خلا کو مہناز نے بڑی مہارت کے ساتھ پُر کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال گزر گئے اور لاہور میں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی،اے۔حمید، ماسٹر عنایت حسین،ماسٹر عبد اللہ،روبن گھوش ، ایم۔اشرف، کمال احمد اور دوسرے موسیقار مہناز کو سامنے رکھ کر دھنیں بنانے لگے اور چاروں طرف اُس کے گیت گونجنے لگے۔ مہناز کے چند مشہور گیت درجِ ذیل ہیں:
- " کیوں روئے شہنائی"۔فلم ' حیدر علی' ، موسیقار ' خواجہ خورشید انور '
- "مجھے دل سے نہ بھلانا "۔فلم ' آئینہ '(1977)، موسیقار ' روبن گھوش '
- " دو پیاسے دل ایک ہوئے" ۔فلم ' بندش'، موسیقار ' روبن گھوش '
- "میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا"۔فلم ' پہچان (1975) '، موسیقار ' نثار بزمی'
- " تیرے میرے پیار کا ایسا ناتا ہے"۔فلم ' سلاخیں(1977) '، موسیقار ' کمال احمد'
- "میں جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے"۔فلم ' خوشبو(1979) '، موسیقار ایم۔اشرف
مہناز نے ٹیلی وژن کے لئے بھی گیت و غزل کے بہت خوبصورت پروگرام کیے۔ اِن گیت ا ور غزلوں کی خوبصورتی میں لائٹ کلاسیکل،ٹھمری، دادرا وغیرہ کا علم ،آواز میں لوچ اور مُرکیاں اور بول کے بناؤ پر خاصا عبور شامل ہے۔یہاں میں فراز کی مشہور غزل کی مثال دیتا ہوں
اب کے تجدیدِ وفا کانہیں امکاں جاناں
اِس کو مشہور کرنے میں اِس غزل کے موسیقارکے ساتھ ساتھ مہناز کا بھی کم ہاتھ نہیں ۔
خواجہ خورشید انور مہناز کی آواز کی لوچ سے متاثر ہوئے اور ۱۹۷۸ میں بننے والی فلم، حیدر علی میں مہناز سے ایک سے زیادہ گیت ریکارڈ کروائے۔ مہناز نے مہدی حسن صاحب کے ساتھ کئی ایک دوگانے صدابند کروائے۔اس کے علاوہ مادام نورجہاں اور ناہید اختر کے ساتھ بھی ۔شاید مہناز ہی نے ہماری فلموں میں سب سے زیادہ دوگانے ریکارڈ کروائے۔
مہناز کے بعض ناقدین اُسے ضرورت سے زیادہ مونہہ پھٹ اور صاف گو کہتے ہیں۔پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے لکھتا چلوں کہ کون کِس پائے کا مونہہ پھٹ اور صاف گو ہو سکتا ہے اِس کا فیصلہ مادام نورجہاں کے پاس بیٹھ کر ہو جایا کرتا تھا۔یہ امتحان کیسے لیا جاتا تھا؟ اِس پر کبھی آیندہ بات ہو گی۔ میں نے بھی یہ بات مہناز سے پوچھی تو اُس نے کہا: ’’ ہاں میں جو بات ہے کہہ دیا کرتی ہوں ۔دل میں نہیں رکھتی مگر کبھی مادام نورجہاں سے میرا جھگڑا نہیں ہوا۔وہ میری اُستاد بھی تو ہیں ! میڈم کی ناک پر ہر وقت غصّہ تو نہیں بھرا رہتا تھا نا! بلکہ اِس کے بر عکس میرے میڈم سے بہت خوشگوار تعلقات رہے‘‘۔ ویسے یہ بات ایک حد تک ٹھیک ہے۔میں نے ۸۰ کی دہائی میں بزمی صاحب کے ساتھ خود مادام نورجہاں سے دو گھنٹے ملاقات کی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اب لئے دیے رہتی ہیں ۔
مہناز ۲۰۰۰ میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بجھ سی گئی ۔اُس میں اب یاسیت نظر آنے لگی ۔کراچی میں موسیقار اختر اللہ دتہ سے خاکسار کی اچھی سلام دعا ہے، اُسی زمانے میں ایک دن اُن کے اسٹوڈیو جانا ہوا تو انہوں نے اپنی موزوں کردہ دھنوں میں مہناز کی کچھ غزلیں، جیسے مرزا داغ دہلوی کا کلام، اور بعض ٹیلی وژن پروگراموں کے گیت سنوائے۔ہماری مہناز کے موضوع پر لمبی گفتگو ہوئی۔لگتا تھا کہ اب وہ ہماری فلمی صنعت سے مایوس ہو گئی تھی۔بعد کی ایک ملاقات میں مہناز کا کہنا تھا کہ اب فلموں، فلمی موسیقی اور خود موسیقی کی ستائش کا معیار نہایت پست ہو گیا ہے۔نئے موسیقار اب بے ہنگم شور اور نرم و ملائم موسیقی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔وہ مجھے اُس ملاقات میں بہت بد دل لگی۔اِس طرح اُس نے بتدریج فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
ایک مرتبہ مہناز نے راقم کو بتایا کہ اُس نے ۳۵۰ سے زیادہ فلموں میں گانے گائے جِن میں اُردو، پنجابی اور سندھی فلمیں شامل ہیں۔اِسی زمانے میں اُس نے اپنی توجہ کا مرکز ریڈیو، ٹیلی وژن، ملکی اور غیر ملکی اسٹیج شوکو بنا لیا۔
مہناز نے کن معروف لوگوں کی شاگردی کی؟ اِس کے جواب میں خود اُس نے بتایا کہ پنڈت غلام قادر،نیاز احمد، لال محمد اور بلند اقبال ( المعروف لال محمد اقبال) اورمیڈم نورجہاں۔
مختلف موسیقار مہناز کی آواز کو مختلف انداز سے محسوس کرتے تھے اور اسی کی روشنی میں پھر طرزیں بناتے تھے ۔کریم شہاب الدین صاحب کا کہنا تھا کہ دھن پر غور کرنے کے بعد وہ شعروں اور اُس کے ہر ہر لفظ پر توجہ دیتی تھی۔ بس ایک دفعہ انترے کو گا کر بتانا کافی ہوتا تھا ۔باقی کا کام خود بخود ایسے ہوتا تھا گویا ایک میوزک کنڈکٹرا ور ایک شاعر بھی بیٹھاہے ۔کہاں سانس لینا ہے، کہاں سانس لینے سے اضافت ٹوٹ جائے گی۔شعر کے معنی کا تاثر ایسا کہ محض آواز کے زیرو بم سے ایسا لگتا تھا کہ کہیں پورا سُر جم کر لگ رہا ہے اور کہیں بس ہلکا سا سُر کو چھو کر واپس آ جاتا ہے ۔۔۔ واہ مہناز ۔۔۔ ایسا کام کم کم دیکھا۔وہ بولوں کی طرز کے ہر سُر پر سُر کا حق ادا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات لکھنا بہت ضروری ہے: ۱۹۸۱ میں اختر وصی علی اور مہناز کی والدہ کی موجودگی میں ،میں نے اُن تینوں سے سوال کیا:’’ کیا وجہ ہے کہ آج کل کے گلوکار/گلوکارا ؤں کی آوازیں اور سازندوں کے ساز بے اثر ہیں؟ یہ دل کی تاروں کو کیوں نہیں متاثر کرتے؟‘‘ اِس پر مہناز نے کیا جواب دیا وہ ملاحظہ ہو: ’’ گانے والے اور بجانے والے سارا دِن جب جھوٹ بو لیں گے، کوئی منٹ کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کیے بغیر نہیں گزرے گا تو سچا سُر کیسے لگ سکے گا؟‘‘
یہ سچی آواز ۱۹ جنوری ، ۲۰۱۳ کو خالقِ حقیقی سے جا ملی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر یکم اگست، 2017 نروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔
Comments