Kahan Woh Kahan Yeh, Deeni Jamaaton Ki Siyasi Taarikh Ka Jaizah.2



کہاں وہ۔۔۔کہاں یہ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۲

تحریر شاہد لطیف

مولانا مُفتی محمود ( ۱۹۸۰۔۱۹۱۹)انڈین نیشنل کانگریس کے ممبر رہے اور جمعیت علمائے اِسلام کے بانی ممبران میں سے ایک ہیں۔۱۹۴۰ کی دہائی میں اُنہوں نے مسلم لیگ کی مخالفت بھی کی۔قیامِ پاکستان کے بعد، ۱۹۵۰ میں اُنہوں نے مدرسہ قاسم العلوم ، ملتان میں مدرس کے فرائض انجام دئیے۔بعد میں صدر مدرس، مفتی اعلیٰ، شیخ الحدیث اور مہتمم کے عہدوں پر بھی کام کیا۔ اپنی زندگی میں تقریباََ ۰۰۰،۲۵ فتوے جاری کیے۔صدر ایوب کے ون یونٹ کی بھرپور مخالفت کی اور ۱۹۶۲ میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابا ت میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیااوراپنے تمام مخالفین کو شکست دی۔۸ جنوری، ۱۹۶۸ میں ڈھاکہ، مشرقی پاکستان میں مولانا مفتی محمود ایوب حکومت کی مخالف جمہوری مجلسِ عمل کے اہم لیڈر تھے۔ ۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں تو مولانا نے کمال کر دیا جب ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ سے وہ ذوالفقار علی بھٹو کو بری طرح شکست دے کر کامیاب ہوئے۔اِن انتخابات کے فوراََ بعد اُن کو علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب کی قائم کردہ جمعیتِ علمائے اِسلام کا صدر نامزد کر دیا گیا۔جیسا کہ اِس سے قبل لکھا جا چکا ہے کہ مولانا یکم مارچ ، ۱۹۷۲ کو سرحد اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ مقرر ہوئے ؛ لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان حکومت ختم کی تو احتجاجاََ مولانا مفتی محمود اور اُن کی کابینہ نے ۱۴ فروری، ۱۹۷۳ کو استعفے دے دیے۔اپنی وزارتِ اعلیٰ میں اُنہوں نے بہت سی اصلاحات نافذ کیں جیسے شراب پر پابندی، سرکاری دفاتر میں اُردو زبان کو سرکاری درجہ د ینا،لین دین پر سود کا خاتمہ کر نا،صوبہ میں جمعہ کو ہفتہ وار سرکاری تعطیل قرار دینا وغیرہ ۔ مولانا مفتی محمود صاحب کا تحریکِ ختمِ نبوت میں نہایت اہم کردار رہا ۔ اُنہوں نے سوویت روس کے خلاف ۱۹۷۹ کے افغان جہاد کی بھر پور حمایت کی۔ 

۱۹ جون ، ۱۹۵۳ کو پیدا ہونے والے اِن کے بیٹے، مولانا فضل الرحمان اآج کل جمیعت علمائے اسلام (ف) کے صدر اور قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ۱۹۸۸ میں قومی سطح پر ابھرے جب وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ وفاق میں وہ اور اُن کی پارٹی بینظیر کے پہلے اور دوسرے دور ، یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کی تیسری حکومت میں شریک رہے۔اُنہوں نے اپنا سیاسی سفر۱۹۸۰ میں ۲۷ سال کی عمر میں شروع کیا جب وہ اپنے والد مولانا مفتی محمود کے انتقال کے بعد جمیعتِ علمائے اسلام کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔مولانا صاحب کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی پارٹی ہر تین سال بعد باقاعدگی سے اپنے پارٹی الیکشن کرواتی ہے لیکن جمیعتِ علمائے اسلام (ف) کے امیر یا صدر مولانا فضل ا لرحمان صاحب ہی مسلسل نظر آتے ہیں۔خاندانی موروثیت کاجو کام پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد شروع کیا تھا وہ اب بعض دینی جماعتوں میں کہیں زیادہ شدت سے نظر آتا ہے۔

مولانا پرسب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ حضرت اپنے سیاسی نظریات اور سیاست میں ’ یو ٹرن‘ بہت لیتے ہیں۔دوسرا یہ کہ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح حکومت میں شامِل رہیں؛خواہ اُس پارٹی کے سیاسی نظریات مولانا کی جماعت سے متصادم ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک طرف وہ نفاذِ شریعت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف لادینی اور بائیں بازو کے گروپوں سے اتحاد بھی کر لیتے ہیں۔

بینظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں مولانا کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کا چیرمین مقرر کیا گیا۔کچھ اور ہوا یا نہ ہوا ، مولانا کے تعلقات مشرقِ وسطیٰ کے لیڈران سے ضرور استوار ہو گئے۔ کاش کہ اپنی ذات، اپنی جماعت اور اپنے مدرسوں کے ساتھ ساتھ اِن تعلقات کو ملک اور قوم اور خاص طور پر بین الا قوامی معاملات میں پاکستان کی حمایت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا۔ 

۲۰۰۱ میں ا فغانستان پر امریکی حملہ پر مولانا فضل الرحمان افغان طالبان کے طرف دار اور امریکی حمایت کرنے پر کھُل کر پرویز مشرف کی مخالفت کرتے تھے۔کچھ عرصہ وہ گھر پر نظر بند بھی رہے لیکن ۲۰۰۲ میں ایسا کیا ہوا کہ اُن کے خلاف تمام کیس ختم کر دیے گئے؟ ۔گو کہ متحدہ مجلسِ عمل ( ایم۔ایم۔اے) نے خاصی سیٹیں حاصل کیں لیکن مولانا نے اِس موقع پر پٹڑی ہی بدل لی اور امریکہ سے اپنی پارٹی کی دوستی کا اعلان فرما دیا۔مشہورِ زمانہ ’ وِکی لیکس ‘ کے بقول اسلام آباد میں امریکی سفارتکار کے مطابق ’’ مولانا فضل الرحمان مُلّا سے زیادہ سیاست دان ہیں‘‘۔با خبر حلقوں کے مطاق مولانا ’’ اُس ‘‘ زمانے میں امریکی سفارتکاروں سے مسلسل رابطے میں رہے؛ یہاں تک کہ ۲۰۰۷ مین اِن سِفارتکاروں کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی کہ بینظیر کے مُقابلے میں اُنہیں وزیرِ اعظم بننے میں تعاون کریں۔ 

۲۰۰۸ کے عام انتخابات میں تو مولانا ۱۸۰ ڈگری پر گھوم گئے جب اُنہوں نے طالبان کی حمایت سے یکسر ہاتھ کھینچ لیا اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکو مت میں شامِل ہو گئے، گو کہ بعد میں وہ اپوزیشن میں چلے گئے ۔ غیر فعال متحدہ مجلسِ عمل میں شریک پارٹیوں نے اِس اقدام کی مذمت بھی کی۔افغان طا لبان کا قصّہ تمام ہوا تو مولانا نے پاکستانی طالبان سے اپنے ’ خصوصی ‘ تعلقات کاپرچار کرنا شروع کیا ۔ پھر ۲۰۱۲ میں مولانانے ایک اور ’ یو ٹرن ‘ لیتے ہوئے ناٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف دوبارہ سخت موقف اختیار کر لیا۔ اِسی سال مولانا نے جمیعتِ علمائے اسلام (س) اور جماعتِ اسلامی کی شرکت کے بغیر ہی متحدہ مجلسِ عمل کا احیا ء کیا۔جمیعتِ علمائے اسلام (س) اور جماعتِ اسلامی کے بقول متحدہ مجلسِ عمل کی تجدید میں سب سے بڑی رکاوٹ خود مولانا فضل الرحمان صاحب تھے۔اِن کے مطابق یہ موقع پرست ہیں اور صرف طاقت اور اقتدار کا حصول چاہتے ہیں جو خود شریعت کے اصولوں سے متصادم ہیں۔

مولانا نے ۱۹۹۰ میں اپنے حلقے ، ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنے دوسرے عام انتخابات میں شکست کھائی ۔البتہ ۱۹۹۳کے انتخابات میں اِسی حلقے سے اسلامی جمہوری محاذ کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔یہی زمانہ تھا جب انہیں امورِ خارجہ کی قائمہ کمیٹی کا چیرمیں مقرر کیا گیا۔ ۱۹۹۷ میں مولانا نے قومی اسمبلی کا چوتھا الیکشن لڑا جس میں وہ ناکام رہے۔۲۰۰۲ کے عام انتخابات نتائج کے لحاظ سے مولانا کے لئے بہتر رہے۔وہ متحدہ مجلسِ عمل کے ٹکٹ پر ۲ حلقوں ، این۔اے ۲۴ اور این۔اے۔ ۲۵سے کامیاب رہے۔اِس طرح یہ اُن کی تیسری کامیابی رہی۔ یہ ۲۰۰۴ سے ۲۰۰۷ تک قائدِ حزبِ اختلاف رہے۔مولانا فضل الرحمان نے۲۰۰۸ میں عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے لئے چھٹی مرتبہ متحدہ مجلسِ عمل کے ٹکٹ پر دوبارہ دو حلقوں این۔اے۔۲۴ ڈیرہ اسماعیل خان اور این۔اے ۲۶ بنوں سے الیکشن لڑا۔ حیرت کی بات ہے کہ مولانا بنوں سے کامیاب اور اپنے روایتی اور آبائی حلقے سے ناکام رہے۔ اِس طرح یہ قومی اسمبلی میں چوتھی مرتبہ منتخب ہوئے۔اب اُنہوں نے طالبان سے اپنے آپ کو دور کر کے خود کو ’ اعتدال پسند ‘ کہلانا شروع کر دیا۔ 

جمیعت،علمائے اسلام کے بانی علامہ شبیر احمد عثمانی، خود مولانا مفتی محموداور اُن کے رفقاء یہ سب لوگ اپنے اپنے حصے کے یادگار کام کر گئے۔ملک اور قوم اور عام آدمی کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے زندگیاں لگا دیں۔ پھرسیاست کے ساتھ ساتھ تحریر و تحقیق اورعوامی بہبود کے کام جہاں تک ممکن ہوا کر گزرے۔ کہاں یہ لوگ۔۔۔اور کہاں یہ۔۔۔ بعد میں آنے والے۔
(جاری ہے)

....................................................
اختتام 
  آج، ٢٢ جولائی، ٢٠١٧ بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ١١ پر شائع ہونے والے  خاکسار کے کالم ' اُلٹ پھیر '   میں تحریر " کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔٢ " 

Comments

Popular posts from this blog