Kahaan Woh... Kahaan Yeh... Deeni Partiyon Ki Siyasi Taarikh Ka Jaizah
کہاں وہ ...... کہاں یہ......
دینی پارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔1
تحریر شاہد لطیف
جمیعتِ علمائے ہند ،۱۹ نومبر ۱۹۱۹ میں قائم ہوئی۔یہ مذہبی اور سیاسی جماعت متحدہ ہندوستان کی حامی تھی، یعنی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن، اور مطالبہ ء پاکستان کے خلاف۔ اُس کے نزدیک اب بھی مُسلمان بلا شبہ ہندوستان کا حصّہ ہیں اور ہندو مسلم اتحاد ہندوستان کی آزادی کے لئے ضروری ہے ۔ اِسی لئے اِس جماعت نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مِل کر کام کیا۔ علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب اور اُن کے ہم خیال ممبران نے اِس نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے قیامِ پاکستان کی حمایت کی او ر جمیعتِ علمائے ہندسے علیحدہ ہو گئے ۔
علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب ۱۹۴۴ میں آل انڈیا مُسلم لیگ کے ممبر بن گئے، اِس طرح دیوبندیوں کی نمایندگی بھی قیامِ پاکستان میں شامِل ہو گئی۔ جمیعتِ علمائے ہند کے منفی پراپاگینڈا اور الزامات سے نبٹنے کے لئے اُنہوں نے ۱۹۴۵ میں جمیعتِ علمائے اِسلام قائم کی۔علّامہ ؒ صاحب ۱۹۴۹ میں اپنے انتقال تک اِس پارٹی کے صدر رہے۔علّامہ شبّیر احمد عثمانی ؒ کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اُنہوں نے ۱۹۴۸ میں قائدِ اعظمؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی۔گو کہ وہ کبھی کابینہ کے رُکن نہ بنے تا ہم وہ اپنے انتقال تک پاکستان کی مجلسِ قانون ساز کے ممبر رہے۔اُن کا ایک اور تاریخی کام ’ قرار دادِ مقاصِد ‘ ہے جو دستور ساز اسمبلی سے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ کو منظور ہوئی۔علّامہ ؒ صاحب کا انتقال ۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ میں بغداد الجدید، اُسوقت کی ریا ست بہاولپور میں ہوا اور اگلے روز اِسلامیہ کالج کراچی میں تدفین ہوئی۔
علّامہ ؒ صاحب نے دارالعلوم دیوبند سے فارغ ا لتحصیل ہونے کے بعد اِسی درسگاہ میں پڑھایا ۔ ۱۹۲۵ میں سعودی عرب کے سُلطان، عبد العزیز ا بِن سعود پوری نے دنیا سے علمائے دین کی ایک کانفرنس بُلوائی۔ہندوستان سے جانے والے علماء میں علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ صاحب بھی شامِل تھے۔۱۹۲۹ میں نئی قائم ہونے والی جامعہ مِلّیّہ اِسلامی، نئی دہلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ یہاں مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا عبد الباریؒ فرنگ محلی،شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ،مولانا مُفتی کِفایت اللہؒ ، مولانا عبد الحقؒ صا حبان جیسے جیّد علماء کا ساتھ رہا۔ اِس تدریسی ادارے میں آپ صحیح بخاری کے اُستاد رہے۔
جمیعتِ علمائے اِسلام ۱۹۶۲ سے مولانا مُفتی محمود صاحب کی زیرِ نگرانی سیاسی طور پر بہت فعال نظر آئی۔صدر ایوب خان کی پالیسیوں کے خلاف اِس جماعت نے موثر آواز اُٹھائی۔۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں جے۔یو۔آئی نے حصّہ لیاجب کہ اِس کے مقابِل جماعتِ اسلامی پاکستان اور جمیعتِ علمائے پاکستان( جے۔یو۔پی) میدان میں تھیں۔جے۔یو۔آئی نے قومی اسمبلی میں ۷ اور صوبائی اسمبلیوں میں ۹ سیٹیں حاصل کیں، اِس طرح وہ سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں میں حصّہ دار بنی۔مُفتی محمودصاحب نے صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ کاعہدہ سنبھالااور قوانین کو اِسلام کے مطابق کرنے کی کوششیں کیں۔۱۹۷۳ میں جب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان اسمبلی تحلیل کی تو مفتی محمود صاحب نے ا حتجاجاََ استعفیٰ دے دیا۔
۱۹۴۵ سے قائم شدہ جمیعتِ علما ئے اِسلام ،کی ۱۹۸۸ میں گروہی تقسیم ہوگئی اور ایک حصّہ مولانا فضل الرحمان کے نام کی مناسبت سے جے۔یو۔آئی (ف) کہلایا۔جمیعتِ علمائے اِسلام کی یہ تقسیم۱۹۸۰ کی صدر ضیاء الحق کی افغان پالیسی اور بعض افغان گروپوں کی حمایت کی وجہ سے ہوئی۔
۲۰۱۳ کے انتخابات کے نتائج کے لحاظ سے یہ ملک کی پانچویں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری ۔ قومی اسمبلی کی ۲۷۲ سیٹوں میں سے اِس کے حصّہ میں ۱۵ سیٹیں آئیں۔یہ مکمل طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے شمالی علاقے پر مبنی سیاسی پارٹی ہے۔اِس جماعت کا اتحاد موجودہ حکمران پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے۔ جبکہ مولانا سمیع الحق صاحب کے نام کی مناسبت سے جے۔یو۔آئی (س) اِس جماعت کا دوسرا حصّہ ہے۔اِس پارٹی کی کے۔پی۔کے میں علاقائی اہمیت ضرور ہے لیکن قومی سطح پر کوئی نمائندگی نہیں۔۸۰ کی دہائی میں جے۔یو۔آئی نے صدر ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کی حمایت کی جیسے افغانستان میں روس مخالف جہاد ۔صدر ضیاء کی مالی امداد اور سرکاری سرپرستی سے جے۔یو۔آئی نے ہزاروں مدرسے ( خاص طور پر صوبہ سرحد میں) قائم کر لئے جہاں سے مبیّنہ طور پر طالبان تیار ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ جماعت ضیاء الحق اور جماعتِ اسلامی کی بڑھتی ہوئی قربت سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئی ۔ یوں پیپلز پارٹی کی چلائی ہوئی ضیاء مخالف تحریک ایم۔آر۔ڈی (تحریکِ بحالیِ جمہوریت) میں شامِل ہو گئی۔ اِس طرح جمیعت علمائے اِسلام کے دو گروپ ہو گئے۔مولانا فضلالرحمان گروپ جو صدر ضیاء کا مخالف اور مولانا سمیع الحق گروپ جو ضیاء الحق کا حامی تھا۔مولانا سمیع ضیاء الحق کے زمانے کی پارلیمان، مجلس شورےٰ کے ممبر بھی تھے۔
ملک میں شریعت کے نفاذ میں سمیع الحق گروپ، فضل الرحمان گروپ سے زیادہ فعال اور سنجیدہ ہے۔اوّل الذکر گروپ کا اثر و رسوخ خیبر پختونخواہ کے چند اضلاع تک ہی محدود ہے؛ جبکہ آخر الذکر گروپ کا اثر و رسوخ کے۔پی۔کے اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں غالِب ہے۔دونوں گروپوںکے پاس مدرسوں اور مساجِد کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اِسی کی مدد سے وہ ملک کی سیاسی اور مذہبی سیاست میں فعال نظر آتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دونوں گروپوں کے پاس پورے ملک کے ۶۵ فی صد مدرسے ہیں۔تقریباََ ۰۰۰،۳۰ افغان مہاجر ین طلباء اِن مدارس سے پڑھ کر افغانستان کی تحریکِ طالبان کا حصّہ بنے۔ ان طالبان میں اُن کے لیڈران بھی شامِل ہیں جیسے مُلّا عمر۔ پاکستانی طالبان، افغان طالبان ،فوج اور امریکہ کے مابین مختلف امور پر بات چیت میں بھی اِن گروپوں کا نام لیا جاتا ہے۔سیاسی میدان میں فضل الرحمان گروپ زیادہ کامیاب ہے۔مولانا فضل الرحمان ، بینظیر کے دوسرے دورِ حکومت (۱۹۹۶۔۱۹۹۳) میں پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیرمین رہے۔
جمیعت۔علمائے اِسلام (ف) نے ۲۰۰۲ کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں ۴۱ اور صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی میں ۲۹ سیٹیں حاصِل کیں۔بعد ازاں مولانا فضل الرحمان ۲۰۰۴ میں اپوزیشن لیڈر نامزد ہوئے اور ۲۰۰۷ تک اِس عہدے پر رہے۔اِس جماعت پر بھی الزامات لگتے رہے جیسے سینیٹر مو لانا شیرانی جِن کے پاس اسلامی فقہ کی کوئی سند نہیں تھی اُن کو ۲۰۱۰ میں اسلامی نظریاتی کونسل کا چیرمین بنا دیا گیا ۔ اتنے اہم عہدہ پر رہتے ہوئے حضرت موصوف نے بعض نہایت غیر ذ مہ دارانہ بیانات دیے جیسے خواتین پر تشّدّد کے لئے ہونے والی قانون سازی وغیرہ۔اب بھی، گو کہ جے۔یو۔آئی حکومت کا حصّہ نہیں لیکن مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے چیرمین ہیں۔اِسی پارٹی کے ایک اور سینیٹر طلحہ محمود ، سینٹ کی کمیٹی برائے داخلہ امور کے چیرمین ہیں۔ہے نا حیرت کی بات!!!
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتا م
خاکسار کی یہ تحریر، 15جولائی 2017 بروز سنیچر ، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر کالم 'اُلٹ پھیر' میں شائع ہوئی۔
Comments