Zulfiqar Ali Bhutto Say Bilawal Zardari Tak-Peoples Parti Ki Siyasi Taarikh Ka Jaizah.Aakhri Hissah




کہاں وہ۔۔۔کہاں یہ۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک 
پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ۔آخری حصہ 

تحریر شاہد لطیف


خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بینظیر، پیپلز پارٹی نے اپنے اِن لیڈروں کی کرشماتی شخصیات کی وجہ سے بہتر کارکردگی دِکھائی۔ آج کی پیپلز پارٹی کے پاس فی الحال ایسی کوئی شخصیت نہیں۔سوال ہے کہ شخصیت پرستی کی ضرورت آخر کیوں؟ اِس کیوں کا جواب بد قسمتی سے خود اِس پارٹی کی مجبوری ہے کہ ر وزِ اوّل ہی سے پارٹی کی اہمیت ثانوی اور پارٹی کے لیڈر اور پارٹی وارثوں کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔

بینظیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد پارٹی میں عملاََ طاقت ا ور اختیارات کے تین مراکز ہو گئے: شریک چیرپرسن آصف علی زرداری اُن کی بہن فریال تالپر اور بِلاول زرداری۔پارٹی پر اِس وقت بھی پہلے ذکر کئے گئے دو افراد کا کنٹرول ہے۔پیپلز پارٹی کے پرانے لیڈران اور کارکنان کا موقف ہے کہ اگر پارٹی کو ملک گیر پیمانے پر کامیابی دِلانا مقصود ہے تو بلاول کو اِن دونوں کی سرپرستی سے نکلنا ہو گا۔( گویا وہ بھی اِس بات پر مہر ثبت کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی عوامی نہیں بلکہ بھٹو خاندان کہ ذاتی ملکیت ہے)۔اب پیپلز پارٹی میں نمبر ایک آصف زرداری ہو گئے۔بینظیر کے مُخلص اور آزمائے ہوئے لیڈران ایک طرف کر دیے گئے ۔اُن کی جگہ زرداری صاحب کے مُخلص اور آزمائے ہوئے چہرے نظر آنے لگے ۔ اِن میں بیشتر وہ تھے جِن کا نہ سیاست کا کوئی پس منظر یا تجربہ ہے اور نہ ہی کوئی تربیت تھی۔اُن کا مقصد فائدہ اُٹھانا اور پیسہ حاصل کرنا تھا ۔ سیاست کو بزنس بنا دیا گیا۔زرداری صاحب کا مشہورِ عام ’ مفاہمت کی سیاست ‘بھی اِسی کی ایک روشن مِثال ہے۔

صدرِ مملکت بننے کے بعد پارٹی کے تمام تر معاملات اُن کی بہن فریال تالپر کے ہاتھ میں آ گئے ۔ پیپلز پارٹی کی طاقت کا سرچشمہ لاڑکانہ سے نواب شاہ منتقل ہو گیا۔یوں ایک نئی بات وجود میں آئی وہ یہ کہ اب پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتنے والوں کو ایک نا قابلِ رسائی لیڈر کے تابع ہونا پڑا ۔ وزیرِ اعلی سندھ کی وقعت بھی تالپر صاحبہ کے ہاں ایک درباری سے زیادہ نہیں تھی۔اِن سے مِلنا جوئے شِیر لانے کے برابر تھا۔رفتہ رفتہ نچلی سطح کے کارکُن، ضلعی رابطہ کاروں اور طلباء گروپ ، مرکزی لیڈر کے تعاون اور صلاح مشوروں سے محروم ہو گئے۔اندرونی ذرائع کے مطابق ’’ ملاقات ‘‘ کا بھی نذرانہ لیا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی مشکل یہ ہے کہ پرانے، آزمودہ اور جید لیڈران جیسے اعتزاز احسن وغیرہ شخصیت پرستی کے بغیر پارٹی کا تصّور بھی نہیں کرتے۔اب ایک نئی شخصیت، بلاول زرداری کو تراشا جا رہا ہے۔بنیادی اہمیت کا سوال ہے کہ کیا پارٹی کے اختیارات مکمل طور پر اُس کے والد صاحب اُسے منتقل کر دیں گے؟

ذوالفقار علی بھٹو کی انا پسندی سے پیپلز پارٹی کے مُخلص بنیادی ممبران پارٹی چھوڑ گئے، اِن میں پارٹی کے سوشلسٹ ذہن رکھنے والے بانی ممبر ڈاکٹر مبشر حسن، معراج مُحمد خالِد اور جے۔اے۔رحیم بھی شامِل تھے ۔ اِس کے باوجود مختلف اور بعض متضاد نظریات کے حامِل افراد کو بھٹو اپنے زیرِ اثر رکھنے میں کامیاب رہے۔ اندرونی اور بیرونی مسائل سے نبٹنا خواہ صحیح طریقے سے ہو یا غلط، وہ کر گزرتے تھے ۔ یہ اُن کی دبنگ شخصیت کی وجہ سے تھا۔اُن کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کو اپنی شناخت بحال کرنے میں کم و بیش دس سال لگ گئے۔ پارٹی میں شخصیت پرستی کا یہ نقصان ہوا کرتا ہے کہ جب ایک نہایت طاقتور شخص دنیا سے چلا جاتا ہے تو اُس قد کاٹھ کی شخصیت کو تلاش کرنا یا اُس کی تراش خراش کر کے بنانے میں
زمانے لگ جاتے ہیں۔یہ پیپلز پارٹی کی بد قسمتی ہے کہ اُس کے ارکان شخصیت پرستی میں مبتلا تھے اِس لئے وہ بھٹو خاندان کے علاوہ کسی اور کو لیڈر ماننے پر رضامند نہ تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہ شاید کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ میرے جانے کے بعد پارٹی کو کون سنبھالے گا؟ ۔پارٹی میں اُن کے جانے کے بعد پرستش کے لئے ایک بھی ویسی شخصیت موجود نہیں تھی۔رہی بینظیر تو اُن کے رضیہ سلطانہ بننے میں ابھی وقت تھا۔سیاسی بساط پر جیسا ماہرانہ کھیل ذوالفقار بھٹو نے کھیلا ، اُس کے مقابلے میں بینظیر محض ایک عام کھلاڑی تھیں۔ بینظیر کی پیپلز پارٹی ہمہ وقت اختیارات کی حصول کی جنگ لڑتی ر ہی۔ دو مرتبہ اُن کو حکومت بنانے کا مو قع مِلا لیکن مکمل اختیارات حاصل نہ ہو سکے۔تیسری دفعہ وہ انتخابات سے پہلے قتل کر دی گئیں۔

آصف علی زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو میں نمایاں فرق ہے لیکن ایک حیرت انگیز مماثلت بھی ہے: اپنی پارٹی کو اقتدار میں رکھنے کے جنون کو دونوں حضرات نے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنایا۔ دونوں نے امورِ حکومت نبٹانے کی وجہ سے پارٹی کے اندرونی خلفشار ، افرا تفری اور کھینچا تانی کووہ اہمیت نہیں دی جو بطور پارٹی صدر دینا چاہیے تھی۔اِس کے علاوہ دونوں شخصیات میں بہت فرق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو تمام طاقت اپنی ذات میں مرکوز رکھنا چاہتے تھے جبکہ آصف علی زرداری نے طاقت میں چند دوسرے لوگوں کو بھی شامِل کیا۔ جہاں بھٹو صاحب نے سیاست سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی وہاں زرداری صاحب نے لین دین ، جوڑ توڑ اور سودے بازی سے میدان مارے ۔بری بھلی جیسی بھی ہو، جمہوریت کی ریل گاڑی زرداری دور میں پٹڑی سے نہیں اُتری۔ اُن کی چال بازیوں کو داد دیجئے کہ ملکی تاریخ کے یہ پہلے منتخب صدر ہیں جنہوں نے ملک کے گیارھویں صدر کی حیثیت سے ۲۰۱۳ سے ۲۰۰۸ تک اپنی ۵سالہ مدت پوری کی۔ آصف علی زرداری نے پاکستانی سیاست پر اَن مِٹ نقوش چھوڑے لیکن پیپلز پارٹی کو مشکِل میں ڈال گئے۔

زرداری ۱۹۸۳ میں سیاست کے میدان میں اُترے، اُنہوں نے اپنے آبائی شہر نواب شاہ کے ڈسٹرکٹ کونسل کے الیکشن میں حصہ لیا لیکن وہ انتخاب ہار گئے یوں عملاََ ناکام رہے۔ تب وہ سیاست کو خیر باد کہہ کر پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ ۱۸ دسمبر ۱۹۸۷ کو بینظیر سے شادی کے موقع پر موصوف سے اقرار کروایا گیا کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے ۔لڑکپن اور نوجوانی میں وہ پولو کے اچھے کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔ دیکھا گیا ہے کہ اِس کھیل کے ماہر زندگی کی دوڑ اور معاملات میں کامیاب رہتے ہیں ۔ ناممکن کو ممکن کیسے بنایا جاتا ہے؟ پولو کے کھلاڑی خوب اچھی طرح جانتے ہیں !

ابھی بلاول کی تختی صاف ہے۔مگر جو باتیں با خبر حلقوں تک پہنچی ہیں اُن کے مطابِق یہ نوجوان اپنے والدکے طریقہء سیاست اور پھوپھی کے اثر سے نِکلنا چاہتا ہے۔

کہاں وہ ذوالفقار علی بھٹو ........کہ بیسیوں ملکی اور غیر ملکی افراد اور بیرونی حکمرانوں کو مشورے دیا کرتے تھے۔ اور کہاں یہ بلاول .......کہ خود مختار ہوتے ہوئے بھی مشیروں کے چنگل سے آزاد نہیں ہو سکا....پارٹی کے جیالے بھٹو کے متوالے ہیں، وہ اُس کے سحر سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے۔اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے آصف علی زرداری نے بلاول کے نام میں ’’ بھٹو ‘‘ کی نسبت کا اضافہ کر دیا۔اب پارٹی کے جیالوں کی ساری امیدیں ’’بلاول بھٹو زرداری ‘‘ سے وابستہ ہیں کیوں کہ وہ اس سے بھٹو کے نواسے کی حیثیت سے محبت کرتے ہیں ۔اور اُسی سے ہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ آیندہ ہونے والے انتخابات میں ۲۰۱۳ میں پیپلز پارٹی کو ہونے والی عبرت ناک شکست کو فتح میں بدل دے گا۔کیا
جیالوں کی یہ توقعات پوری ہو سکیں گی؟
..............................................................
اختتام
 آج ،8 جولائی روزنامہ نوائے وقت کراچی  کے صفحہ 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر'   میں خاکسار کی  تحریر " کہاں وہ۔۔۔ کہاں یہ۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک۔پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔آخری حصہ-"

Comments

Popular posts from this blog