ؐMosiqar Nashad



ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت کا وہ خوش نصیب موسیقار 
جس کے تقریباََ تمام گیت مقبولِ عام ہوئے

شوکت علی دہلوی المعروف ناشاد
11 جولائی 1923 سے 14 جنوری 1981

تحریر  شاہد لطیف

11جولائی 1923 کو دہلی میں پیدا ہونے والے شوکت علی کے تذکروں میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ انہیں بانسری بجانے کا شوق تھا اور وہ 1940 کے اوائل میں بمبئی میں آ گئے تھے۔جب کہ مجھے پاکستانی فلمی صنعت کی ایک معتبر شخصیت جناب علی سفیان آفاقی نے بتایا کہ شوکت علی بہت اچھے سارنگی نواز تھے اور ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ سارنگی بجایا کرتے تھے ۔ سارنگی بجاتے بجاتے انہیں موسیقار بننے کا خیال آیا لیکن کبھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا البتہ ان کے ساتھ کام کرنے والے سازندوں کو ان کی اس دبی خواہش کا علم تھا اور وہ اُن کی موسیقار بننے کی صلاحیتیوں کو بھی جانتے تھے۔انہیں سب سے پہلے موسیقار بنانے کا سہرا فلمساز و اداکار شیخ مختار کے سر جاتا ہے جب انہوں نے بمبئی میں اپنی فلم ’’ ٹوٹے تارے‘‘ ( 1948)بنانے کا سوچا۔ انہوں نے اس کے لئے موسیقار شوکت علی کا انتخاب کیا۔اِن کا پہلا فلمی گیت گلوکارہ راجکماری کی آواز میں بہادر شاہ ظفر کا کلام : ’’ نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں۔۔۔‘‘ ہے۔ شیخ مختار نے اپنی دوسری فلم ’’ دادا‘‘ ( 1949)کے لئے بھی شوکت علی ہی کوموسیقار رکھا۔ شوکت علی دہلوی کی قسمت کا تارہ چمکانے والے گیت نگار اور فلمساز نخشب جارچوی (1925-1967 )تھے اور اِس کا سبب اُن کی فلم ’’ نغمہ‘‘ ( 1953) تھی۔یہ فلم شوکت دہلوی کے لئے بہت اہم ہے کیوں کہ اسی فلم سے اُن کا فلمی نام ’’ ناشاد ‘‘ مشہور ہوا۔یہ نام اِن کے لئے خوش بختی لایا حالاں کہ ’ ناشاد ‘ کے لفظی معنی ’ افسردہ دل‘ کے ہیں۔مذکورہ فلم نے شوکت دہلوی کے ناشاد بننے میں کیا کردار ادا کیا؟ یہ مجھے آفاقی صاحب نے بتایا : ’’ جب فلمساز نخشب بمبئی میں اپنی فلم ’ نغمہ ‘ بنانے آئے تو موسیقار کے لئے ’’ نوشاد علی ‘‘ سے رابطہ کیا۔وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم کی موسیقی دیا کرتے تھے۔ مصروفیت کی بِنا پر معذرت کر لی۔نخشب صاحب میں خود پسندی بہت تھی ۔اِس انکار نے اُنہیں غصہ دلا دیا ۔انہیں گمان تھا کہ ان کے لکھے ہوئے گیت کوئی بھی موسیقار مقبول کروا سکتا ہے۔لیکن مشکل یہ تھی کہ اس خود پسندی اور غصہ کی عادت کی وجہ سے کسی بھی موسیقار سے ان کی بنتی نہیں تھی۔نئے موسیقاروں میں ان کی نظرِ انتخاب شوکت دہلوی پر پڑی۔موسیقار نوشاد علی کی طرح شوکت دہلوی بھی طرزیں موزوں کرتے ہوئے راگ راگنیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔نخشب صاحب نے اِن کو اپنی فلم کا موسیقارچُن لیا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ شوکت دہلوی کا نیا فلمی نام ’ ناشاد ‘ رکھ دیا۔اول تو وہ نوشاد کو نیچا دکھانا چاہتے تھے دوسرے یہ کہ وہ نوشاد اور ناشاد کے معمولی فرق سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔ انہوں نے تو اپنے فائدے کے لئے شوکت علی دہلوی کو استعمال کرنے کا سوچا تھا مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ عنقریب ناشاد خود اپنی پہچان بن جائیں گے اور بہت نام پیدا کریں گے‘‘۔

بیشک یہ سب مواقع قدرت نے موسیقار ناشاد کی مقبولیت اور ترقیوں کے لئے میسر کئے۔ نخشب تو وسیلہ بنے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فلم ’’ نغمہ‘‘ ( 1953 )کے گیتوں پر موسیقار ناشاد نے اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کر دیں۔نخشب جارچوی نے بھی اپنی پوری قوتِ تخیلہ سے کام لیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذکورہ فلم سُپر ہِٹ ثابت ہوئی۔فلم کے گیت ہر خاص و عام نے بہت پسند کیے۔گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں یہ گیت:
بڑی مشکل سے دل کی بیقراری کو قرار آیا
کہ جس ظالم نے تڑپایا اسی پر ہم کو پیار آیا
آج بھی آپ یہ گیت سنیں تو کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے کیوں کہ ایک سادا دھن اور کم سازوں کے استعمال نے بولوں کے اثر کو نمایاں کیا ۔ یہ ناشاد صاحب کی پہلی زبردست کامیابی تھی۔ ان کا یہ فلمی نام ’ ناشاد‘ بے حد خوش قسمت ثابت ہوا ۔آفاقی صاحب کے بقول: ’’ نخشبؔ صاحب نوشاد کو نیچا تو نہیں دکھا سکے مگر انہوں نے ناشاد کی مدد سے ثابت کر دیا کہ وہ نوشاد صاحب کی موسیقی کے محتاج نہیں‘‘۔

پھر انہوں نے 1955 میں ایک فلم ’’ بارہ دری ‘‘ کی جس کے تمام ہی ہِٹ ہوئے:’ بھلا نہیں دیناجی بھلا نہیں دینا۔۔۔‘ گیت خُمار بارہ بنکوی، آوازیں محمد رفیع اور لتا، ’ محبت کی بس اتنی داستاں ہے۔۔۔‘ آواز لتا، ’ چلی وہ نصیب کی آندھیاں کہ محل وفا کے اجڑ گئے، گھڑی بھر کو جو نہ ہوئے جدا وہ سداکو آج بچھڑ گئے‘، آواز خود ناشاد صاصاحب کی ، ’ تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی، اک خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہیں بنتی‘ ، گیت فیاضؔ ہاشمی آواز طلعت محمود۔
اس کے بعد فلم ’’ بڑا بھائی ‘‘ میں بھی اِن کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔اس کے بعد نخشب ؔ صاحب کی فلم ’’ زندگی یا طوفان‘‘ تھی۔علی سفیان آفاقی صاحب کہتے ہیں : ’’ اِس فلم نے ناشاد کو بھارت کے موسیقاروں میں مستحکم کر دیا۔بمبئی میں اس وقت بڑے بڑے موسیقار موجود تھے ۔ایک نوجوان موسیقار کا اپنا سکہ جما دینا ہی بہت برا کارنامہ تھا۔پھر ناشاد بمبئی کی فلمی صنعت میں معتبر ہو گئے‘‘۔نخشبؔ صاحب بہت اثر و رسوخ والے آدمی تھے۔انہوں نے کہہ سن کر اپنی فلم ’’ زندگی یا طوفان‘‘ 1958 میں پاکستان میں بھی ریلیز کر دی۔یہاں فلم نے ریکارڈ بزنس کیا اور نخشب صاحب نے پاکستان میں فلم ’’ فانوس‘‘ بنانے کا اعلان کیا۔اپنے بمبئی کے دوست رشید عطرے کو موسیقار منتخب کیا لیکن اپنی طبیعت اور مزاج کی بنا پر عطرے صاحب نے تین گیت بنا کر معذرت کر لی۔باقی گیت سیف چغتائی نے ترتیب دیے۔فلم ناکام رہی۔’’ فانوس‘‘ کے بعد نخشبؔ صاحب کو ناشاد یاد آئے۔نخشبؔ صاحب بڑے بڑوں کو ایک منٹ میں شیشے مین اتار لیا کرتے تھے۔انہوں نے یہی حربہ موسیقار ناشاد پر آزمایا۔ ناشاد بے چارے سیدھے سادھے شریف النفس بھلا کہاں تک انکار کرتے۔ وہ اُس وقت اپنی شہرت کی بلندی پر تھے۔لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔پہلے بھی نخشبؔ صاحب نے اپنے مطلب کے لئے ناشاد صاحب کو استعمال کیا تھا۔وہ کہاں تک کامیاب رہے؟ الگ بات ہے البتہ ناشاد صاحب کی قسمت کا تارہ ضرور چمکا دیا۔اب کی مرتبہ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔کئی لوگوں نے ناشاد صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ بھی دیا، دیکھا جائے تو منطق کے لحاظ سے درست تھا لیکن ناشاد صاحب کے لئے پاکستان میں ایک زبردست کامیابی انتظار کر رہی تھی۔ناشاد صاحب فلمساز نخشبؔ جارچوی کی نئی فلم ’’ میخانہ‘‘ کے لئے پاکستان آ گئے۔مذکورہ فلم بھی نخشبؔ صاحب کے مزاج کے بھینٹ چڑھ گئی البتہ اِس کے گیتوں نے چہار جانب دھومیں مچا دیں۔ موسیقارناشاد نے 1947سے 1962تک بھارت میں 30فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے تقریباََ 66 فلموں میں 400 سے زائد گیتوں کی موسیقی دی۔

اِن کے مشہور گیت:پاکستان میں اُن کی پہلی فلم ’’ میخانہ‘‘ (1964 )’ جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے،آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے‘ گیت نخشبؔ جارچوی، آواز سلیم رضا، ’ میں دیوانہ مجھے نہ چھیڑو چھیڑ کے تم پچھتاؤ گے، پاگل پن سے کھیل نرالے تم پاگل ہو جاؤ گے‘ آواز مہدی حسن، ’ اک اپنا اک بیگانہ سُن لو دل کا افسانہ‘ آواز ناہید نیازی اور ساتھی۔ پاکستان فلم ڈیٹا بیس کے مطابق 1965میں موسیقار ناشاد کی کوئی فلم نمائش کے لئے پیش نہیں ہوئی۔البتہ 1966سے 1980تک وہ مستقل فلموں میں موسیقی دیتے رہے۔ فلم ’’ جلوہ‘‘ ( 1966) ’ وہ نقابِ رُخ اُلٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں،کوئی جا کہ اُن سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں‘ گیت کلیمؔ عثمانی، آواز مجیب عالم، واضح ہو کہ یہ مجیب عالم کا پہلا فلمی گیت تھا۔’ لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں، دیپ جلیں سُر کے ساگر میں جب میں گیت سناؤں‘ آواز مہدی حسن۔اِس گیت کو ناشاد صاحب نے صبح کے راگ ’ آہیر بھیرو ‘ میں کمپوز کیا۔صبح کے اِس راگ میں ایسی التجا اور پاکیزگی کا عنصر پایا جاتا ہے جو اِس گیت کے سننے والے کو مبہوت کر دیتا ہے۔فلم ’’ ہم دونوں‘‘ ( 1966) ’اُن کی نظروں سے محبت کو جو پیغام ملا، دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اک جام ملا‘ گیت کلیمؔ عثمانی، آواز رونا لیلیٰ۔یہ رونا کا پہلا فلمی گیت تھا۔فلم ’’ پھر صبح ہو گی‘‘ ( 1967) ’ دیا رے دیارے کانٹا چبھا او مو رے کانٹا چبھا پاؤں میں، کانٹا نکال بلم پیپل کی چھاؤں میں ‘ ، گیت فیاضؔ ہاشمی آواز رونا لیلیٰ اور چوہدری رفیق انور، ’ پھر صبح ہو گی اندھیرے نہیں رُکنے والے، اُن اندھیروں سے اجالے ہیں ابھرنے والے‘ گیت صہباؔ اختر آواز مسعود رانا۔فلم ’’ رشتہ ہے پیار کا ‘‘ (7 196 ) ’ زخمِ دل چھپا کے روئیں گے، تجھ کو آزما کے روئیں گے‘ گیت فیاضؔ ہاشمی آواز نسیم بیگم، ’ معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے، نظروں سے ملیں نظریں کیا ہو گا خدا جانے‘ گیت فیاض ؔ ہاشمی آوازیں احمد رشدی اور رونا لیلیٰ۔فلم ’’ ناہید ‘‘ (1968 ) ’ سجنا میں نے تجھ سے پیار کیا، کہتا ہے زمانہ دل نہ لگانا،دل نے تیرا اعتبار کیا‘ آواز نورجہاں۔ سید شوکت حسین رضوی کی ’’ فلم ’’ عاشق‘‘ ( 1968) میں موسیقار ناشاد کی دل پذیر موسیقی میں رونا لیلیٰ اور مہدی حسن کی آوازوں میں تسلیم ؔ فاضلی کا یہ گیت : ’اے گُلِ نو بہار جھوم، اے دلِ بے قرار جھوم۔۔۔‘‘بہت مقبول ہوا ۔اس گیت کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی دھن میں رونا لیلیٰ کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح خوشی کا تاثر چھلکتا ہے جب کہ اُسی دھن میں مہدی حسن کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح غم ہے۔اس قسم کا کام میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔البتہ بعد میں 1980 کی دہائی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ جانا ہوا تو وہاں ’ ایسٹر ‘ کے تہوار پر ایک چرچ میں ایک ایسا گیت سُنا کہ جس کی دھن میں غم کے ساتھ خوشی کا تاثر تھا ۔کیوں کہ ایسٹر آدھا خوشی آدھا غم کا تہوار ہے۔بہرحال اس گیت کی مقبولیت کے با وجود یہ فلم فلاپ ہو گئی ۔ فلم ’’ تم ملے پیار ملا‘‘ ( 1969) ’آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں، آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں‘ گیت نگارتسلیم فاضلی آوازیں مہدی حسن اور نورجہاں۔یہ ناشاد صاحب اور تسلیم فاضلی کی بے مثال تخلیق ہے۔فلم ’’ سزا ‘‘ ( 1969) ’تو نے بار بار بار کیا مجھے بیقرار، جا رے سانورے پیا تیرا دیکھ لیا پیار‘ گیت قتیلؔ شفائی آواز مالا،
’ جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ ‘ آواز مہدی حسن۔کہانی نگار اورفلمساز علی سفیان آفاقی کی اِس فلم کے ہیرو بھارتی اداکاراؤں تبّو اور فرح کے والد جمیل تھے۔ جِن کی پاکستان میں یہ پہلی اور غالباََ آخری فلم تھی۔فلم ’’ سالگرہ ‘‘ ( 1969) ’ لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے، یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘ گیت شیونؔ رضوی آواز نور جہاں، ’ میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ، میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ‘ آواز نورجہاں۔ فلم ’’ افسانہ‘‘ ( 1970 ) ’ یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اب ہوش میں آنا مشکل ہے، جب آنکھ ملانا مشکل تھااب آنکھ بچانا مشکل ہے‘ گیت تنویرؔ نقوی آواز مجیب عالم۔فلم ’’ چاند سورج‘‘ ( 1970 ) ’ نگاہ نیچے کیے سر جھکائے بیٹھے ہیں، یہی تو ہیں جو میرا دل چرائے بیٹھے ہیں‘ آواز مہدی حسن، ’ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے، یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے‘ غزل معین احسن جذبیؔ آواز حبیب ولی محمد۔فلم ’’ رِم جھِم ‘‘ (1971 ) ’ میں نے اک آشیاں بنایا تھا اب بھی شاید وہ جل رہا ہو گا، تنکے سب خاک ہو چکے ہوں گے اک دھواں سا نکل رہا ہو گا‘ آواز نورجہاں ۔انٹر نیٹ پر یہ گیت دیکھا جا سکتا ہے۔کیا دل آویز میلوڈی ہے۔گیت کی استھائی سے پہلے غمزدہ سولو وائلن واقعی سننے کے لائق ہے۔فلم ’’ افشاں‘‘ ( 1971 ) ’ خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے، کسی کا نام لوں لب پر تمہارا نام آئے‘ تسلیمؔ فاضلی کے اس گیت کو مہدی حسن اور نورجہاں نے الگ الگ ریکارڈ کروایا۔یہ گیت پاکستان کی سرحدیں عبور کر کے ایک جہاں میں پسند کیا جاتا ہے۔ جہاں جہاں غزل اور گیت سُنا جاتا ہے وہاں وہاں ملکی ،بنگلہ دیشی اور بھارتی گلوکاروں سے فرمائش کر کے سُناجاتا ہے۔ایک دو نہیں میں نے کئی ایک مرتبہ خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ ہوتے دیکھا ہے کہ جہاں کہیں غزل کا فنکار نظر آیا فوراََ اس غزل کی فرمائش کر دی۔فلم ’’ اک سپیرا‘‘ ( 1971 ) ’ وعدے کر کے صنم تو نہ آئے،پیار کے خوب وعدے نبھائے‘ گیت تسلیمؔ فاضلی آواز رونا لیلیٰ۔فلم ’’ خاک اور خون‘‘ ( 1971 ) ’ زندگی اپنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ۔۔۔‘ نورجہاں کے ساتھ رجب علی کا دوگانا ہے۔رجب علی کا یہ پہلافلمی گیت تھا جو سُپر ہِٹ ثابت ہوا۔یہ اعزاز بھی موسیقار ناشاد کو جاتا ہے کہ انہوں نے مجیب عالم، رونا لیلیٰ اور رجب علی کو فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔پھر مجیب عالم کی کیا بات ہے یہ صحیح معنوں میں پیدا ئشی پلے بیک سنگر تھے۔کمال کے آدمی تھے، کبھی اِن پر بھی بات ہو گی۔ فلم ’’ ہل اسٹیشن‘‘ ( 1972) ’ میرا دل نہ جانے کب سے تیرا پیار ڈھونڈتا ہے، جو خزاں میں کھو چکی ہے وہ بہار ڈھونڈتا ہے‘ گیت تسلیمؔ فاضلی آواز ڈھاکہ فلمی صنعت کے گلوکار بشیر احمد۔فلم ’’ الزام ‘‘ ( 1972) ’ ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی، نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی‘ گیت مسرورؔ انور آواز نورجہاں، ’ محبت کرنے والو ہم محبت اس کو کہتے ہیں۔۔۔‘ غلام فرید مقبول صابری قوال اور ہمنوا۔ فلم ’’ ایک رات ‘‘( 1972) کا ایک گیت زبان زدِ عام ہو گیا تھا جس کو تسلیم ؔ فاضلی نے لکھا۔ اِسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا:
پھر آ کے چلے جانا
اک بار چلے آؤ
صورت تو دکھا جاؤ
اِس التجائی شاعری اور دھن پر ستار نواز، موسیقار اور ارینجر جاوید اللہ دتّہ کی بجائی ہوئی المیہ ستار سُننے سے تعلق رکھتی ہے، 3منٹ میں یہ گیت ختم بھی ہوجاتا ہے اور سُننے والا محسوس کرتا ہے کہ ابھی تو شروع ہوا تھا۔اس تاثر کو ستار نے قائم کیے رکھا۔پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے منسلک ہونے کی وجہ سے کراچی کے موسیقاروں اور میوزیشنوں، گیت نگاروں ، اور ہنر مندوں سے میرا اُٹھنا بیٹھنا تھا اور ماشاء اللہ اب بھی ہے۔ جاوید بھائی نے لاہور کی فلمی دنیا میں بہت سے یادگار گیتوں میں ستاربجائی ہے۔بہرحال ناشاد صاحب کی اگلی فلم ’’ بہارو پھول برساؤ‘‘ ( 1972 )’ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا، مجھے اپنے رب سے آس کہ میرا پیار ملے گا‘ گیت شیونؔ رضوی آواز مسعود رانا۔فلم ’’ سہرے کے پھول‘‘ ( 1973) ’ آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو، جس کی تصویر نگاہوں میں لئے پھرتا ہوں‘ آواز مہدی حسن۔ ’ اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی، سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی‘ آواز نورجہاں۔فلم ’’ عظمت‘‘ ( 1973) ’ زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، میں تو مر کر میری جان تجھے چاہوں گا‘ گیت قتیلؔ شفائی آواز مہدی حسن، ’ وہ میرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں، اُس کو حق ہے وہ جسے چاہے اسے پیار کرے‘ آواز نورجہاں۔ فلم ’’ تم سلامت رہو‘‘ ( 1974 ) ’ محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو، تم ہی ہو بندگی میری تم ہی میری عبادت ہو‘ مسرورؔ انور کے اس گیت کو نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ ریکارڈ کروایا، ’ کرتے ہیں محبت سب ہی مگر ہر دل کو صلہ کب ملتا ہے، آتی ہیں بہاریں گلشن میں ہر پھول مگر کب کھِلتا ہے‘ آواز غلام علی۔فلم ’’ زینت‘‘ (1975 ) ’ رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے، پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے‘ موسیقار ناشاد، گیت نگار تسلیمؔ فاضلی اور گلوکار مہدی حسن کی یہ کاوش امر ہے، ’ دیکھو دیکھو صنم مہرباں ہو گیا، کل تک تھا جو انجانا آج میری جان ہو گیا‘ ناہید اختر کی آواز میں پنجابی لوک گیت ’ بلّے بلّے نی ٹور پنجابن دی‘ کو سامنے رکھ کر موسیقی ترتیب دی گئی۔فلم ’’ نیکی بدی‘‘ (1975 ) ’ دل میں طوفاں چھپائے بیٹھا ہوں یہ نہ سمجھو کہ مجھ کو پیار نہیں، تم جو آئے ہو میری دنیا میں اب کسی کا بھی انتظار نہیں‘ آواز مہدی حسن۔فلم ’’ وقت‘‘ ( 1976 ) ’ دل توڑ کے مت جئیو برسات کا موسم ہے منہ پھیر کے مت جیؤ برسات کا موسم ہے۔۔۔‘ ۔فلم ’’ آشیانہ‘‘ ( 1976) ’ مسکراتا رہے آشیانہ،کروٹیں لاکھ بدلے زمانہ‘ گیت نگار تسلیمؔ فاضلی آواز اخلاق احمد۔فلم’’ محبت مر نہیں سکتی‘‘ ( 1977 ) ’ تو میری زندگی ہے تو میری ہر خوشی ہے، تو ہی میری پہلی خواہش تو ہی آخری ہے‘ تسلیمؔ فاضلی کے اس گیت کو نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ صدابند کروایا۔فلم ’’ ملن ‘‘ ( 1978 ) ’ یہ ساتھ کبھی نہ چھوٹے گا، جو مر کر بھی نہ ٹوٹے گا‘ گیت نگار مسرورؔ انورْ اس کو الگ الگ مہدی حسن اور ناہید اختر نے ریکارڈ کروایا۔ فلم ’’ آپ سے کیا پردہ‘‘ ( 1979 ) ’ تا تاتا تھیا، ناچے گا تیرا بھیا۔۔۔‘مختلف انداز میں مہدی حسن سے یہ گیت ریکارڈ کروایا گیا۔فلم ’’ ضمیر‘‘ ( 1980 ) ’ سُن ری پَوَن اے ری سُن گھَٹا ، کیا دن یہ سہانے آئے رے‘ ، تسلیمؔ فاضلی کے اس گیت کو ناہید اختر اور ناشاد صاحب کے بیٹے عمران نے دوگانے کے انداز میں ریکارڈ کروایا۔موسیقار ناشاد کی آخری فلم ’’ بدنام‘‘ تھی۔افسوس ہے کہ اِس کی تفصیلات معلوم نہ ہو سکیں۔

میری کبھی ناشاد صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی۔ستار نواز، موسیقار اور ارینجر جاوید اللہ دتہ اور علی سفیان آ فاقی صاحبان سے مجھے ناشاد صاحب پر کافی معلومات ملیں۔البتہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں ناشاد صاحب کے صاحبزادے شاہد علی ناشاد سے بہت ملاقاتیں ہوئیں۔اِن سے ایک طویل عرصے میرا رابطہ بھی رہا۔میرے پروگراموں میں موسیقار کریم شہاب الدین اکثر اِن کا نام لے کر اپنی ریکارڈنگ میں بلوایا کرتے تھے۔ شاہد علی بیس گِٹار بجایا کرتا تھا۔اپنے والد کی طرح دراز قدتھا اور دہلی کا ٹکسالی محاورہ بولا کرتا۔کبھی موڈ میں ہوتا تو گیتوں کی دھنیں بھی بنایا کرتا۔ناشاد صاحب کے ایک دوسرے صاحبزادے عمران سے بعد میں میری شناسائی ہوئی۔کسی ہوٹل میں ایک تقریب میں اِن کی آواز میں روبن گھوش کی موسیقی میں فلم ’’ آئینہ ‘‘ کا سرورؔ بارہ بنکوی کا گیت ’ کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں‘ سُنا۔یقین مانیے میں خود حیران رہ گیا۔ سُروں پر کیا اچھی گرفت تھی۔میری دلی خواہش تھی کہ اتنی اچھی آواز کو اپنے ٹی وی پروگراموں میں استعمال کروں لیکن۔۔۔ ناشاد صاحب نے عمران سے اپنی موسیقی میں کچھ فلمی گیت ریکارڈ کروائے تھے لیکن نہ جانے کیوں یہ گلوکار نہ بن سکا۔ناشاد صاحب کے ایک بیٹے امیر علی ناشاد نے فلم ’’ چوڑیاں‘‘ ( 1998 ) میں ایک گیت گایا : ’ کراں میں نظارہ جدوں او دی تصویر دا۔۔۔‘ جو بہت زیادہ مقبول ہوا۔ 

ناشاد صاحب کے دھن بنانے کے بارے میں آفاقی صاحب نے مجھے بتایا: ’’ وہ ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے ۔کوئی سُر چھیڑتے اور گنگنانے لگتے دیکھتے ہی دیکھتے مکھڑا تیار ہو جاتا۔ہم نے انہیں دس منٹ میں بھی طرز بناتے ہوئے دیکھا جو سُپر ہِٹ ہوئی۔۔۔ کبھی کبھی وہ خود بھی مکھڑے کا شعر کہہ لیتے۔ہم نے ان جیسا کوئی اور دیکھا نا سنا جسے یہ کمال حاصل تھا‘‘۔آفاقی صاحب کے بقول: ’’ ناشاد صاحب بہت سریلے تھے۔ان کی آواز میں سوز اور مٹھاس تھی۔یہی وجہ تھی کہ جو طرز وہ گا کر سناتے بڑے سے بڑے گلوکار ویسا نہیں سنا سکتا تھا‘‘۔آپ بھی بھارتی فلم ’’ بارہ دری‘‘(1955 ) میں اِن کی آواز میں یہ خمارؔ بارہ بنکوی کا گیت ’ چلی وہ نصیب کی آندھیاں کہ محل وفا کے اجڑ گئے، گھڑی بھر کو جو نہ ہوئے جدا وہ سداکو آج بچھڑ گئے‘ سنیں تو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا۔آفاقی صاحب نے ایک دلچسپ بات بتلائی: ’’ میری فلم ’’ سزا‘‘ کے لئے قتیلؔ شفائی کا گیت ’ جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ۔۔۔‘ ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔مہدی حسن ناشاد صاحب کی بنائی ہوئی جگہیں صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے تھے۔ وہ ریکارڈنگ پینل سے ا ٹھ کر مہدی حسن کے پاس آئے اور کہا کہ’ کچھ کام کی طرف بھی دھیان دیا کرو ‘ اور وہ جگہیں خود گا کر بتلائیں اور کہا کہ میاں کچھ پروڈیوسر کا بھی خیال کر لیا کرو اس کا مال پانی ہو رہا ہے ‘‘۔ایک دفعہ ناشاد صاحب سے متعلق کہنے لگے: ’’ یہ بالکل بھی وہمی نہیں تھے۔اگر پہلے ہی ٹیک سے مطمئن ہوتے تو فوراََ او کے کہہ دیتے ورنہ کئی موسیقار تو کسی طرح مطمئن ہی نہ ہوتے تھے‘‘

میرے خیال سے ناشاد صاحب کے تمام گیتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ راگوں پر مبنی بہت آسان اور سادا دھنیں ہیں جنہیں گانا دشوار نہیں۔ان کی طرزوں میں میلوڈی کی مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔

افسوس کہ نئی نسل میں راگوں پر مبنی آسان دھنیں بنانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ ان کی طرزوں میں کوئی میلوڈی نہیں ہوتی ، صرف سازوں کا شور ہوتا ہے۔اب ناشاد صاحب جیسا پیدا ہونا مشکل ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 13 نومبر 2018کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ  کے صفحہ فن و ثقافت  پر شائع ہوئی۔



















 

Comments

Popular posts from this blog