Kowi To Ho Jo Awam Ki Dad-rasi Karay .....
کوئی تو ہو جو عوا م کی دادرسی کرے۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
اسی ہفتے دو کمسن بھائیوں کی پراسرار موت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ایک فیملی نے زمزمہ کے علاقے کے ایک نامور ریستوراں سے سنیچر 10 نومبر کو کھانا کھایا پھر ڈی ایچ اے فیز 4 سے چنکی منکی امیوزمنٹ پارک کے باہر اسٹال سے چاکلیٹ کھائی۔یہ لوگ اپنے گھر 2 بجے شب پہنچے۔ صبح 6 بجے اِن تمام افرادِ خانہ کو اُلٹیاں شروع ہو گئیں۔گھر کے دیگر افراد اِن کو 2:45 سہ پہر اسپتال میں لے گئے۔بچوں کی والدہ نے پولیس کی تفتیش میں یہ بھی بتایا کہ اِن بد نصیب بچوں نے گھر میں دودھ بھی پیا تھا۔دونوں کمسن بچے اسپتال ہی میں انتقال کر گئے۔بد نصیب خاندان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کو شک ہے کہ یہ اموات زمزمہ کے ریستوراں یا چنکی منکی امیوزمنٹ پارک کے باہر اسٹال سے چاکلیٹ کھانے سے ہوئی ہیں۔کراچی پولیس نے بدھ کے روز تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 322۔قتل بالسبب اور 272 ۔کھانے پینے میں ملاوٹ کے تحت کیس رجسٹر کر لیا۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ خاندان کے گھر سے قے کے کچھ نمونے لاہور کی لیبارٹری اور کچھ حسین ابراہیم جمال انسٹیٹیوٹ آف کیمیسٹری، جامعہ کراچی بھیجے ۔ یہ رپورٹیں تقریباََ دس دِن بعد ملیں گی۔ذرائع کے مطابق جب پولیس کے ذمہ داروں سے پوچھا گیا کہ یہ نمونے لاہور کی لیب کیوں بھیجے تو یہ تکلیف دہ جواب ملا کہ کراچی کی (سرکاری) لیبارٹری پچھلے کچھ عرصہ سے غیر فعال ہے۔بہرحال فی الحال کوئی گرفتاری نہیں ہوئی البتہ تمام ممکنہ زاویوں سے تفتیش جاری ہے۔
اُدہر سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز ابرار شیخ نے مذکورہ ریستوراں اور وہ اسٹال سیل کر دیا ہے جہاں سے کھانا اور چاکلیٹ کھائی گئی تھی۔ شیخ صاحب نے وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ ریستوراں کو حال ہی میں صفائی کے انتظامات بہتر بنانے کا نوٹس دیا گیا تھا۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کے آپریشن ڈائریکٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتوار کو یہ ریستوراں سیل کیا گیا ۔انہیں منگل کے روز خفیہ اطلاع ملی کہ زمزمہ ہی کے علاقے میں مشتبہ انداز میں ایک گودام سے مال لوڈ ہو رہا ہے۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ ریستوراں کے گودام سے درآمد شدہ گوشت کے ڈبے اور دیگر اشیاء سوزوکی میں لوڈ ہو رہی ہیں۔اِن کی ٹیم نے پولیس کی مدد سے جب چھاپہ مارا تو علم ہوا کہ درجنوں ڈبوں میں 2014 کا امریکہ سے درآمد شدہ گوشت موجود تھا۔ انفرادی پیکٹوں کے لیبل سے معلوم ہوا کہ یہ گوشت زائد المدت ہے۔اس کی ا یکسپائری کی تاریخ 24 فروری 2015 تھی۔پولیس کو دیکھ کر سوزوکی ڈرایؤر فرار ہو گیا البتہ ایک شخص وحید علی کوپولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔سوال جواب کے دوران اُس نے کہا کہ وہ اس گودام کا نگران اور مذکورہ ریستوراں کا ملازم ہے۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز نے الزام لگایا کہ ریستوراں کی انتظامیہ نے دورانِ تفتیش پہلے اپنے گودام کے بارے میں نہیں بتلایا تھا۔ انہوں نے اتھارٹی کے چھاپہ مارنے سے قبل اپنے ریستوراں کے ڈیپ فریزر سے اشیاء غائب کر دیں۔پھر بھی سندھ فوڈ اتھارٹی نے ریستوراں میں موجود اشیاء کے نمونے حاصل کر لئے ۔واضح رہے کہ اس واقعے سے چند روز قبل بھی یہاں سے کچھ نمونے لئے گئے تھے جب صفائی کے ناقص انتظامات پر مذکورہ ریستوراں کو نوٹس دیا گیا تھا۔
ریستوراں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مبینہ گودام سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں۔نیز یہ بھی کہا کہ سندھ فوڈ اتھارٹی ہمارا نام بدنام کر رہی ہے۔ہم نے اس کے خلاف عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹا یا ہے اور ہائی کورٹ نے 20نومبر کو اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز کو بلوایا ہے۔
اس تمام منظر نامے میں جو سب سے زیادہ مضحکہ خیز پہلو ہے وہ تفتیشی ٹیم کا اشتہار دیناکہ اگر 10 نومبر کو کسی اور کو بھی اس ریستوراں یا اسٹال سے کھانے کے بعد طبیعت خراب ہوئی ہو تووہ اپنا بیان ریکارڈ کرائے۔گویا اگر کوئی ’’ اور ‘‘ کہیں سامنے نہیں آتا تو ریستوراں یا اسٹال والے بے گناہ ہوئے؟ بات دو یا دس کی نہیں بلکہ بات حقائق کی ہے۔جب دو اموات کے تانے بانے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ مذکورہ ریستوراں کو قبل ازیں بھی صفائی کا نوٹس دیا جا چکا ہے ۔نیز اسی ریستوراں کے گودام سے زائد المعیاد گوشت بھی برآمد ہوا ہے تو انتظار کس بات کا؟ یہی دو باتیں مالکان کے خلاف کافی ہیں۔ ہمیں اپنے منصفوں سے کوئی گلہ نہیں ۔مسئلہ ہمارے عدالتی نظام کا ہے۔کسی کیس کو انجام تک پہنچانے میں اتنا زیادہ وقت لگ جاتا ہے کہ اس دوران حقائق مسخ ہو جاتے ہیںیا ’’کر دیے جاتے ہیں‘‘۔ہم اپنے تمام دنیاوی اعمال میں یورپ اور امریکہ کی نقّالی کرتے ہیں ۔اچھی بات ضرور اپنانی چاہیے تو اُن کی اچھی باتوں میں ایک بات یہ ہے کہ مضرِ صحت خوراک کا ایک بھی کیس سامنے آ جائے تو اسی کو بنیاد بنا کر تہہ تک پہنچتے ہیں۔مزید ’’ کیسوں ‘‘ کا انتظار نہیں کرتے۔وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ اتنے زیادہ لوگوں میں سے صرف یہ ہی ایک کیوں متاثر ہوا؟ اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ دونوں بچوں کی اموات کی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو بھی قبل ازیں انہیں سندھ فوڈ اتھارٹی ناقص صفائی کا نوٹس دے چکی تھی۔اس کا اُن کے پاس کیا جواب ہے؟
ابھی یہ سطور زیرِ تحریر تھیں کہ تازہ اطلاع آ گئی ۔۔۔ کہ ایڈووکیٹ اظہر صدیقی نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کو از خود نوٹس کی مفادِ عامّہ کی درخواست دائر کر دی ہے۔ جس میں بنیادی نقطہ یہی اُٹھایا گیا ہے کہ مذکورہ ریستوراں کے مالکان نے پہلے بھی سندھ فوڈ آرڈیننس 2016 کی خلاف ورزی کی ہے اور اب بھی یہی اندیشہ ہے کہ معاملہ دبا دیا جائے گا۔لہٰذا عوام کی داد رسی کے لئے عدالت از خود نوٹس لے۔
شکر ہے کوئی تو عوام کا پُرسانِ حال ہوا! اس سے پہلے کراچی کے گھمبیر مسائل سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد حل ہوئے جن میں پانی اور ایمپریس مارکیٹ اور صدر سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ سرِ فہرست ہیں۔اُمید ہے زائد المعیاد خوراک ، نامور ریستورانوں کی ناقص صفائی کے معیار پر سپریم کورٹ سپریم کورٹ ضرور توجہ دے گی۔
کوئی تو ہو جو وعام کی دادرسی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشنوں میں کالم " اُلٹ پھیر " میں صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔
Comments