Gayay Gi Duniya Geet Mairay. Mosiqar Rasheed Attre
’’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا ‘‘
اور
’’ گائے گی دنیا گیت میرے ‘‘
موسیقار رشید عطرے
(15 فروری 1919سے 18 دسمبر 1967 )
تحریر شاہد لطیف
امرتسر میں واقع خوشی محمد کے گھرانے میں 15 فروری 1919 کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ بچے کا نام عبد الرشید رکھا گیا۔ یہ موسیقی کا گھرانہ تھا۔ کس کو پتہ تھا کہ عنقریب یہ بچہ موسیقی کی دنیا میں اپنی پہچان بنائے گا۔ویسے بھی خواہ وہ موسیقی کا گھرانہ ہی کیوں نہ ہو، گھر کے تمام افراد مشہور نہیں ہوتے۔اس بچے کے والد خوشی محمد بہت اچھے گلوکار اور ہارمونیم نواز تھے۔عبد الرشید نے ابتدا میں اپنے والد سے اسرار و رموز سیکھے پھر خاں صاحب عاشق حسین سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔کئی ایک سازوں میں مہارت حاصل کر لی خاص طور پر طبلہ جو ردھم اور تال کی اکائی ہے۔موسیقی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایف اے بھی کیا ۔اِن کے تذکروں میں اُس وقت کے ایک عظیم گائیک اُستاد فیاض علی خان، بڑودا والے کے شاگرد ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔غالباََ انہی دو اساتذہ کے ہاں تعلیم کے دوران عبد الرشید کو دھنیں کمپوز کرنے کا شوق ہوا۔ پھر وہ پنجاب سے کلکتہ منتقل ہو گئے اور عظیم فلمی موسیقار رائے چند بورال کے پاس جا کر اُن کی معاونت کرنے لگے۔ بورال صاحب کی معاونت کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ بورال صاحب کو پنکھج ملک کے ساتھ بھارتی فلمی موسیقی کا بابا آدم مانا جاتا ہے۔یہ رائے چند بورال ہی تھے جنہوں نے 1935میں سب سے پہلے فلموں میں پلے بیک سنگنگ کو متعارف کروایا۔ وہ اولین فلم ’’ دھوپ چھاؤں ‘‘ تھی۔ علی سفیان آفاقی صاحب کا کہنا ہے کہ موسیقار رشید عطرے اکثر رائے چند بورال کا تعریفی انداز میں ذکر کیا کرتے تھے۔کیوں کہ بورال صاحب نے اُن کو انگلی پکڑ کر موسیقی ترتیب دیناسکھایا تھا۔ پھر عبد الرشید کے باقاعدہ فلمی سفرکا آ غاز ہو گیا ۔
یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیقار رشید عطرے کا نام عبد الرشید اور والد کا نام خوشی محمد، تو اِن کے نام میں ’ عطرے ‘ کی اضافت کا کیا پس منظر ہے؟ میں نے اِن کے پوتے، جنید عطرے سے یہ سوال پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ میں اپنے والد سے پوچھ کر بتاؤں گا۔کاش کہ میں نے یہ سوال آفاقی صاحب سے کیا ہوتا۔۔۔
غیر منقسم ہندوستان میں موسیقار رشید عطرے کی معروف فلمیں:
رشید عطرے بورال صاحب سے موسیقار بننے کی عملی تربیت حاصل کر کے لاہور واپس آ گئے ۔ یہ لاہور ہی سے فلمی موسیقار کی حیثیت سے کام شروع کرنا چاہتے تھے۔ بھاگ دوڑ رنگ لائی اور انہیں بتدریج کامیابیاں ملنے لگیں۔
فلم ’’ پگلی ‘‘ 1940کے اوائل میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اِس فلم میں انہوں نے دو گیتوں کی موسیقی مرتب کی۔باقی گیتوں کی دھنیں اُستاد جھنڈے خان نے بنائیں۔ فلم ’’ مامتا ‘‘ ( 1942 ) وہ پہلی فلم ہے جس کے تمام گیت موسیقار کی حیثیت سے رشید عطرے نے کمپوز کیے۔ فلم ’’ پنّا‘‘ (1944 ) میں اُن کے ساتھ موسیقار امیر علی بھی تھے۔ فلم ’’ شیریں فرہاد ‘‘ (1945) پنچولی پکچرز ( لاہور ) اپنے وقت کے بڑے بجٹ کی فلم تھی۔ پہلے ماسٹر غلام حیدر کو موسیقار منتخب کیا گیا ۔ اُس وقت اِن کا ڈنکا بجتا تھا۔ کسی معمولی بات پر انہوں نے انکار کر دیا ۔وہ ویسے بھی اب مستقل بمبئی منتقل ہونا چاہتے تھے۔ اُن کی جگہ ایک غیر معروف نوجوان کو موسیقار لے لیا گیا۔ یہ رشید عطرے تھے۔ اس فلم میں پنڈت امر ناتھ نے بھی بعض گیتوں کی موسیقی موزوں کی ۔ فلم ناکام رہی۔ مذکورہ فلم کے نمایاں اداکار، اپنے وقت کی مشہور اداکارہ راگنی اور جے انت تھے۔اِن کا اصل نام زکریا خان تھا ۔یہ بھارتی اداکار امجد خان کے والد ہیں ۔ موسیقار رشید عطرے کی فلم ’’ کمرہ نمبر 9 ‘‘ بھی لگ بھگ اسی زمانے میں ریلیز ہوئی۔
بھارتی فلمی صنعت میں موسیقار روی شنکر شرما المعروف روی ( 1926-2012) کو ’ مسلم سوشل ‘ فلموں کی موسیقی موزوں کرنے کا ماہر مانا جاتا ہے۔ بے شک انہوں نے فلم ’’ چودھویں کا چاند‘‘(1960 ) میں لازوال گیت بنائے۔لیکن غیر منقسم ہندوستان کی اولین ’ مُسلم سوشل ‘ فلم ’’ نتیجہ ‘‘ ( 1947) تھی جو بمبئی ٹاکیز کے تحت بنی تھی۔ یہ اپنے وقت کی سُپر ہِٹ فلم تھی جس کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ اس میں فلمساز اور گیت نگار نخشبؔ جارچوی کا یہ گیت بہت مقبول ہوا :
کہاں میں اور کہاں دینِ حرم کی کشمکش، نخشبؔ
کس کے نقشِ پا پر رکھ دیا گھبرا کے سر میں نے
پھر فلم ’’ پارو ‘‘ میں بھی عطرے صاحب کے گیت پسند کیے گئے۔ ہدایتکار شاہد لطیف (عصمت چغتائی والے) کی فلم ’’ شکایت‘‘ ( 1948 ) کو بھی موسیقار رشید عطرے کی یادگار فلم مانا جاتا ہے ۔
پاکستان بننے سے پہلے غیر منقسم ہندوستان میں انہوں نے 8فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ان میں 4کے وہ اکیلے موسیقار تھے۔باقی چار میں شریک موسیقاربھی تھے۔
پاکستان میں عطرے صاحب کی مشہور فلمیں:
اِن کے تذکروں میں پاکستان ہجرت کے سن کو نہیں لکھا گیا ۔البتہ ہدایتکار مسعود پرویز کی پنجابی زبان میں بننے والی فلم ’’ بیلی‘‘ ( 1950 ) موسیقار رشید عطرے کی پاکستان میں پہلی فلم ہے۔ مذکورہ فلم کی کہانی سعادت حسن منٹو اور مکالمے بابا عالم سیاہ پوش کے تھے۔گیت نگاروں میں احمد راہیؔ ، بچوں کی نظموں کے مشہور شاعر قیوم نظرؔ ، خود مسعود پرویز، بمبئی سے آنے والے مشہور گیت نگار ناظمؔ پانی پتی ، بابا عالم سیاہ پوش اور امرتا پریتم تھے۔اس فلم کا ایک گیت بہت مشہور ہوا : ’ سنو سنو اس دل کی دھڑکن میں تیرا ہی افسانہ ہے۔۔۔‘ آوازیں منور سلطانہ اور اللہ بخش ظہور۔یہ فلم ناکام رہی۔
فلم ’’ بیلی ‘‘ کی ناکامی کے بعد موسیقار رشید عطرے ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے ۔یہیں انہوں نے ایک زبردست ملی نغمہ تخلیق کیا:
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے ایک دن
اس نغمہ کو ملک بھر میں بہت پسند کیا گیا تھا۔ حکومتِ آزاد جموں کشمیر نے اس کو اپنا ملی نغمہ قرار دے دیا۔ وہاں کے ریڈیو اسٹیشنوں سے یہ تب سے اب تک برابر نشر ہو رہا ہے۔اورانشاء اللہ جموں کشمیر کی آزادی تک جاری رہے گا۔ یہ موسیقار رشید عطرے کے لئے ایک اعزاز ہے۔
ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں موسیقی کے شعبے سے منسلکی کے زمانے میں ہدایتکار اور اداکار نذیر کے بہت اصرار کرنے پر عطرے صاحب اُن کی فلم’’ شہری بابو‘‘کے لئے موسیقی دینے کو تیار ہو گئے۔فلم کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی اور واہ واہ ہو گئی۔ فلم ’’ شہری بابو‘‘ ( 1953) کے ایک گیت نے تو قبولِ عام حاصل کر لیا : ’ بھاگاں والیو نام جپو مولا نام۔۔۔‘ گیت نگار ( غالباََ) بابا عالم سیاہ پوش، آواز عنایت حسین بھٹی۔یہ پاکستانی فلمی صنعت کا ایک امر گیت ہے۔اس گیت کو بعد کے آنے والے گلوکاروں نے بھی ٹیلی وژن پر آ کر گایا۔عطرے صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ زبیدہ خانم نے پہلی مرتبہ اسی فلم میں گیت ریکارڈ کروایا ۔ مذکورہ فلم میں عطرے صاحب کی معاونت صفدر حسین نے کی جو آگے چل کر خود اچھے موسیقار ثابت ہوئے۔اس فلم کی کامیابی نے موسیقار رشید عطرے کی قسمت کے بند دروازے کھول دیے۔پھرانہوں نے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کی ملازمت چھوڑ دی اور واپس لاہورکی فلمی صنعت میں آ گئے۔
فلم ’’ روحی ‘‘ ( 1954) پاکستان کی پہلی فلم ہے جو فلم سنسر بورڈ نے مسترد کر دی تھی۔اِس کی وجہ طبقاتی کشمکش بتلائی گئی ۔دوبارہ ایڈیٹنگ کے بعد جب نمائش کی اجازت ملی تو یہ لکھنا بیکار ہے کہ صرف اسی ایک بات کے لئے بہت سے لوگ مذکورہ فلم دیکھنے آئے۔ اس فلم کا ایک گیت بہت پسند کیا گیا: ’میری دنیا میں انقلاب آیا ہے، اِس طرح کوئی بے نقاب آیا ہے۔۔۔‘ آواز عنایت حسین بھٹی۔
سن 1956 اپنے ساتھ عطرے صاحب کے لئے مزید کامیابیاں لایا: سُپر ہِٹ سلور جوبلی فلم ’’ چن ماہی‘‘ ( 1956 ) ہدایتکار انور کمال پاشا، گیت نگار طفیلؔ ہوشیارپوری اور موسیقار رشید عطرے کی یہ یادگار فلم ہے۔ یہ اداکارہ بہار کی یہ پہلی فلم ہے۔ اس کے گیت بے انتہا مقبول ہوئے۔بعد کے آنے والے گلوکاروں نے انہیں ری مِکس کر کے گایا۔’ بُندے چاندی دے، سونے دی نتھ لَے کے آ جا ہو، آوازیں زبیدہ خانم اور ساتھی، ’ نی چٹھئیے سجنا دی اے، تینوں گھُٹ گھُٹ جپھیاں پاواں۔۔۔‘ آواز زبیدہ خانم۔دوسری سُپر ہِٹ سلور جوبلی فلم ’’ سرفروش ‘‘ ( 1956)بھی ہدایتکار انور کمال پاشا ہی کی ہے۔’ تیری اُلفت میں صنم دل نے بہت درد سہے اور ہم چُپ ہی رہے۔۔۔‘ گیت نگار طفیل ہوشیار پوری اور موسیقار رشید عطرے کا یہ گیت بے مِثال ہے۔زبیدہ خانم نے بھی اس کو دل سے گا کر امر کر دیا۔آج بھی شوق سے سنا اور گایا جاتا ہے۔’ تاروں کا بھی تو مالک یہ چاند بھی تیرا ہے، پھر بھی میری قسمت میں دنیا کا اندھیرا ہے‘ گیت طفیلؔ ہوشیار پوری اور آواز اقبال بانو۔اس گیت میں بولوں اور دھن کا ایک بہت اثر انگیز ماحول بنتا ہے۔ غور سے سنیں تو گیت شروع ہوتے ہی اُس کا ردھم یا چال بھی فریاد کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ انٹرول میوزک کے بعد ا نترے میں ردھم کی چال کے معمولی فرق سے بولوں پر بھرپور توجہ مرکوز ہوجاتی ہے۔پھر انترے سے واپس استھائی میں کی گئی وہ خفیف سی تبدیلی دوبارہ محسوس ہوتی ہے۔بظاہر معمولی لیکن در اصل یہ ایک عظیم اختراع ہے۔ میں نے ایسا کام اس سے پہلے نہیں دیکھا ۔ پھر فلم ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ ( 1957 ): ’ تڑپتی ہیں تمنائیں ستارو اُن سے کہہ دینا۔۔۔‘ گیت نگار تنویرؔ نقوی، آوازیں ناہید نیازی اور منیر حسین۔اِس کے بعد فلمساز و ہدایتکار وحید الدین ظہیر الدین احمد، المعروف ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم ’’ وعدہ ‘‘ ( 1957 ) کے مشہورِ زمانہ گیت آتے ہیں : ’ بار بار برسیں مورے نین۔۔۔‘ گیت سیف الدین سیفؔ ، آوازیں شرافت علی اور کوثر پروین، ’ جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں۔۔۔‘ گیت سیف ؔ الدین سیف ، آواز گلوکار شرافت علی، نین سے نین ملائے رکھنے کو۔۔۔‘گیت طفیل ؔ ہوشیارپوری، آوازیں اُستاد فتح علی خان ، زاہدہ پروین اور ساتھی۔ فلم ’’ وعدہ ‘‘ اپنے گیتوں کی وجہ سے سُپر ہِٹ فلم ثابت ہوئی۔فلم ساز اور گیت نگار سیف الدین سیفؔ کی فلم ’’ سات لاکھ ‘‘ (1957 ) بھی ایک تاریخ ساز فلم ہے: ’ آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آ جا بالما‘، گیت سیف الدین سیفؔ ، آواز زبیدہ خانم، ’ گھونگٹ اُٹھا لوں یا گھونگٹ نکالوں۔۔۔‘ گیت سیف الدین سیفؔ ، آواز زبیدہ خانم، ’ قرار لوٹنے والے تو قرار کو ترسے۔۔۔‘ گیت سیف الدین سیف ؔ آواز مُنیر حسین، ’ یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں۔۔۔‘ گیت سیفؔ الدین سیف، آواز سلیم رضا۔ سیف الدین سیفؔ کی یہ فلم سُپر ہِٹ رہی ۔ عطرے صاحب کی دھنوں کی وجہ سے منیر حسین اور سلیم رضا شہرت کی بلندی پر چلے گئے۔ مذکورہ فلم کے ہدایتکار اور اسکرین پلے لکھنے والے جعفر ملک کے معاون حسن طارق تھے۔ انہوں نے اس کے بعد فلم ’ نیند ‘ بنائی اور پاکستانی فلمی صنعت کے نامور ہدایتکار ثابت ہوئے۔
فلم ’’ چنگیز خان‘‘ ( 1958) نے تو کمال ہی کر دیا : ’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا۔۔۔‘ ملی نغمہ طفیلؔ ہوشیار پوری، آوازیں عنایت حسین بھٹی اور ساتھی۔اس گیت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس کو پاکستانی فوج کے ترانے کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔فوجی بینڈ پریڈ کے دوران یہ دھن بجاتے ہیں۔اس فلم میں ایک نعت بھی مشہور ہوئی تھی:’ اے ختمِ رسل ﷺ آپ سے فریاد ہے ہماری۔۔۔‘ بہزادؔ لکھنوی کی نعت کو منور سلطانہ نے ریکارڈ کروایا ۔ فلم ’’ جانِ بہار‘‘ ( 1958 ) :یہ فلم تدوین کار،فلمساز و ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی اور ملکہء ترنم نورجہاں کی اپنی زندگی کی کہانی ہے: ’ اب تو جی بھر کے خنجر چلائیں گے ہم ۔۔۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آوازیں نسیم بیگم اور زاہدہ پروین، ’ نہ آنسو بہے تھے نہ صدمے سہے تھے۔۔۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز نورجہاں۔پھر معرکۃالآراء فلم’’ انار کلی‘‘ ( 1958) کا ذکر آتا ہے : ’ بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار۔۔۔‘ گیت طفیل ؔ ہوشیارپوری اور قتیل ؔ شفائی، آواز نورجہاں۔مجھے علی سفیان آفاقی صاحب نے بتایا کہ پہلے اس فلم میں موسیقی کی ذمہ داری ماسٹر عنایت حسین کو دی گئی تھی۔انہوں نے دو خوبصورت گیت ریکارڈ بھی کرا لئے تھے۔لیکن فلمساز انور کمال پاشا کو جلدی تھی جب کہ ماسٹر صاحب بقول آفاقی صاحب، خاصے اطمینان سے کام کرتے تھے۔ماسٹر صاحب کی مشاورت اور مرضی سے معینہ مدت کے اندر اندر ریکارڈنگ مکمل کروانے کے لئے عطرے صاحب کو باقی کے گیت سونپے گئے۔
سلور جوبلی فلم ’’ مکُھڑا ‘‘ ( 1958) موسیقی اور گیتوں کے لحاظ سے ایک یادگار فلم ہے : ’ دلا ٹہر جا یار دا نظارہ لین دے‘ وارث لدھیانویؔ کے اس گیت کو زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی نے الگ الگ ریکارڈ کروایا۔اس فلم کے ہدایتکار جعفر ملک اور معاون ایس سلیمان تھے جنہوں نے آگے چل کر خود ہدایتکاری میں بہت نام پیدا کیا۔یہ سنتوش کمار اور درپن کے چھوٹے بھائی ہیں۔ مذکورہ فلم عطرے صاحب کی سُپر ہِٹ پنجابی فلم ہے۔سَن 1959 کی ایک یادگار سلور جوبلی فلم ’’ نیند ‘‘ ( 1959 ) کے گیت بھی اب تک بے حد مقبول ہیں : ’ چھَن چھَن چھَن چھَن بولے پائل بولے۔۔۔‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’ تیرے در پر صنم چلے آئے ۔۔۔‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں ۔ مذکورہ فلم کا اسکرین پلے بھی حسن طارق نے لکھا اور یہ بحیثیت ہدایتکار اُن کی اولین فلم ہے۔اگلے سال سلور جوبلی فلم ’’ سلمیٰ ‘‘ (1960 )کا ایک گیت تو غالباََ ملکہء ترنم نورجہاں کے سدا بہار گیتوں میں شامل ہے : ’ زندگی ہے یا کسی کا انتظار۔۔۔‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’ سانوریا مَن بھایؤ رے۔۔۔‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نسیم بیگم، ’ جھولے میرے پاؤں جھولے میرے جھمکے۔۔۔‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نسیم بیگم۔پھر فلم ’’ شام ڈھلے‘‘ ( 1960 ): ’ سو بار چمن مہکا،سو بار بہار آئی۔۔۔‘ غزل صوفی غلام مصطفےٰ تبسم، آواز نسیم بیگم ۔ اس کے بعد گولڈن جوبلی فلم ’’ شہید ‘‘ ( 1962 ): ’ حبیبی ہیا ہیا، حبیبی ہیا ہیا ۔۔۔‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نسیم بیگم، ’ اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔۔۔‘ گیت منیرؔ نیازی، اصل دھن موسیقار حسن لطیف لَلِک نے بنائی جِس کوفلم کے لئے عطرے صاحب نے ارینج کر کے ریکارڈ کرایا۔مجھے یہ بات خود علی سفیان آفاقی صاحب نے بتلائی۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ اداکار ( اور گلوکار علاؤ الدین: یہ بقول آفاقی صاحب بمبئی میں گلوکاری کے لئے گئے تھے) علاؤ الدین کے گھر میں اکثر موسیقی کی محفل ہوتی جس میں ریڈیو پاکستان لاہور کے موسیقار اور گلوکار حسن لطیف اکثر منیرؔ نیازی کی غزلیات اور گیت سناتے تھے۔ کبھی خود منیر نیازی بھی آ جاتے۔ منیر ؔ نیازی کی غزل ’ اُس بے وفا کا شہر ہے۔۔۔‘ حسن لطیف کی آواز میں سننے والے بہت پسند کیا کرتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر فلمساز اور ہدایتکار ریاض شاہد نے اس غزل کے موسیقار اور گلوکار حسن لطیف سے بات کی کہ وہ یہ دھن اور غزل اپنی فلم ’’ شہید ‘‘ میں لینا چاہتے ہیں۔ عطرے صاحب خود اُن محافل میں ہوتے تھے۔انہوں نے برملا کہا کہ واقعی یہ بہت اچھی دھن ہے۔ آفاقی صاحب کا کہنا ہے کہ میلوڈی میں رشید عطرے نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ فلم شہید کے اس گراموفون ریکارڈ پر موسیقار کا نام رشید عطرے ہے۔آفاقی صاحب کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
موسیقار رشید عطرے نے ایک فلم کی فلمسازی بھی کی۔مذکورہ فلم کے اکثر گیت سُپر ہِٹ ہوئے۔ فلم تھی ’’ موسیقار ‘‘ ( 1962 ): ’ گائے گی دنیا گیت میرے۔۔۔ ‘ آواز نورجہاں، ’ جا جا میں تو سے ناہیں بولوں۔۔۔‘ آواز نورجہاں، تنویرؔ نقوی کے اس گیت کو سلیم رضا اور نورجہاں نے الگ الگ گایا: ’ تم جُگ جُگ جیو مہاراج رے ہم تیری نگریا میں آئے ‘ ۔نجم نقوی صاحب کی فلم ’’ قیدی ‘‘ (1962 ) پاکستانی فلمی صنعت میں ایک ممتاز درجہ رکھتی ہے۔یہ ایک ریکارڈ ہے کہ 7 شعراء نے اس فلم کے لئے گیت و غزل لکھیں:نخشبؔ جارچوی، تنویرؔ نقوی، فیض احمد فیضؔ ، قتیلؔ شفائی، حبیب جالبؔ ، مظفرؔ وارثی اورعزیزؔ کاشمیری: ’ اک دیوانے کا اس دل نے کہا مان لیا۔۔۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آوازیں مہدی حسن اور نورجہاں، ‘ قوالی انگ میں تنویرؔ نقوی کا گیت ’ محفل میں تیری، تیرے طلبگار آ گئے ، آ سامنے کے طا لبِ دیدار آ گئے‘ ، آوازیں سلیم رضا، سائیں اختر حسین اور ہم نوا، ’ میرے دل کی انجمن میں تیرے غم سے روشنی ہے۔۔۔‘ گیت حبیب جالبؔ ، آواز سلیم رضا، ’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔۔۔‘ نظم فیضؔ احمد فیض، آواز نورجہاں۔ گولڈن جوبلی فلم ’’ فرنگی‘‘ (1964 ) کے بغیر موسیقار رشید عطرے کا ذکر نا مکمل رہے گا۔اس گولڈن جوبلی فلم کے بعض گیت تو امر ہیں : ’ آ بھی جا دلدارا آ بھی جا دلدارا، جب سے تو بچھڑا ہے میرا دل ہے پارہ پارہ، آ بھی جا دلدارا‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نسیم بیگم، ’ بن کے میرا پروانہ آئے گا اکبر خانہ ، کہہ دوں گی دلبر جانا پخیر ر اغلے‘ ، گیت تنویرؔ نقوی، آوازمالا، ’ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘ غزل فیض احمد فیضؔ ، آواز مہدی حسن، نعت تنویرؔ نقوی ’ تیری ذات ہے مظہرِ نورِ خدا ،میری بگڑی ہوئی تقدیر بنا‘ آواز نورجہاں اور ساتھی۔ گولڈن جوبلی پنجابی فلم ’’ جی دار ‘‘ ( 1965) وہ اولین پاکستانی تاریخ ساز فلم ہے جس نے پلاٹینم جوبلی ( 75 ہفتے) کی : ’ اساں نویاں بنا لیّاں راہواں، تے منڈے بڑا تنگ کردے‘ گیت حزیںؔ قادری، آواز مالا۔ عطرے صاحب کی موسیقی میں فلم ’’ پائل کی جھنکار‘‘ ( 1966 ) کے گیت بھی بہت زیادہ مقبول ہوئے: ’ ہم نے تمہیں دل دے ہی دیا۔۔۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آوازیں سلیم رضا اور نسیم بیگم، ’ حُسن کو چاند، جوانی کوکنول کہتے ہیں، اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‘ غزل قتیلؔ شفائی، آواز سلیم رضا، ’ میرے دل کے تار بجیں بار بار ہو ا تجھ سے پیار آ جا ، رہوں بیقرار کروں انتظار گئے نین ہار آ جا‘ گیت قتیلؔ شفائی ۔یہ گیت د و الگ الگ طور سے ریکارڈکیا گیا۔ ایک مہدی حسن کی آواز میں ، دوسرا نسیم بیگم اور مہدی حسن کی آواز میں۔ مذکورہ فلم کے تذکرے میں یہ بھی ملتا ہے کہ گلوکار سلیم رضا کی یہ ریلیز شدہ آخری سُپر ہِٹ فلم تھی۔ پھر1966 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی ، علی سفیان آفاقی کی کہانی پر مبنی فلم ’’ سوال ‘‘ ( 1966 ) کا گیت خاص و عام میں مقبول ہوا :
ارے او بے مروت ارے او بے وفا
بتا دے کیا یہی ہے وفاؤں کا صلہ
رشید عطرے کی موسیقی میں اس لازوال گیت میں، فلم اور ٹیلی وژن کے مشہور بانسری نواز سلامت حسین صاحب نے تینوں انتروں کے انٹرول میوزک میں وائلن کے ساتھ بانسری بجائی ہے۔توجہ سے اس گیت کو سُنیں تویہ غم کے تاثر کو مزید بڑھاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اس مشہورِ زمانہ گیت کے لکھنے والے فیاضؔ ہاشمی ہیں اور آواز نورجہاں کی۔مذکورہ فلم کا ایک اور گیت بھی آج تک گایا جاتا ہے: ’ لَٹ اُلجھی سُلجھا جا رے بالم، میں نہ لگاؤں گی ہاتھ رے۔۔۔‘، گیت فیاضؔ ہاشمی، آواز نورجہاں، ’ رات کی بے سکوں خاموشی میں رو رہا ہوں کہ سو نہیں سکتا۔۔۔‘ گیت فیاضؔ ہاشمی، آواز مہدی حسن۔اس گیت کی دھن بہت ہی عجیب سے تاثرات لئے ہوئے ہے۔کبھی آپ اکیلے میں اس کو سُنیں تو آپ اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا میں پائیں گے۔
فلم ’’ چٹان ‘‘ (1967 ): ’ گوری کر کے ہار سنگھار ہو جا چلنے کو تیار، سجن تجھے لینے آئے‘ گیت قتیلؔ شفائی، آوازیں مالا، نذیر بیگم اور ساتھی۔ فلم ’’ محل ‘‘ ( 1968 ) : ’ آواز جب بھی دیں ہم پہچان جائیے گا، آئیں گے یونہی ملنے جب بھی بلائیے گا‘ گیت فیاضؔ ہاشمی، آوازیں نگہت سیما اور مہدی حسن، ’ جیا را ترسے دیکھن کو، لگی ہے آس ملن کی‘ گیت فیاضؔ ہاشمی، آواز نورجہاں۔ ڈائمنڈ جوبلی فلم ’’ زرقا ‘‘ ( 1969 ): ’ ہمیں یقیں ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ رات اے فلسطین۔۔۔‘ گیت حبیب جالبؔ ، آوازیں منیر حسین، نسیم بیگم اور ساتھی، ’ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے، تو کہ نا واقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی‘، گیت حبیب جالبؔ ، آواز مہدی حسن۔فلم ’’ بہشت‘‘( 1974 ): ’ ستارو میری راتوں کے سہارو۔۔۔‘ آواز نورجہاں۔ عطرے صاحب اپنی آخری چند فلموں کے گیت اپنی وفات سے پہلے ریکارڈ کرا چکے تھے اور وہ فلمیں اُن کے انتقال کے بعد نمائش کے لئے پیش ہوئیں۔
موسیقار رشید عطرے نے پاکستان میں کُل55 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔اِن میں 48 اُردو اور 7 فلمیں پنجابی زبان میں ہیں۔اِن کے بعض تذکروں میں یہ تعداد 150بھی لکھی گئی ہے۔
ایوارڈ:
موسیقار رشید عطرے کو تین مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے: پہلا ایوارڈ 1957 میں فلم ’’ سات لاکھ‘‘ پر۔دوسرا نگار ایوارڈ 1959 میں فلم ’’ نیند ‘‘ پر۔تیسرا نگار ایوارڈ1961 میں فلم ’’ شہید ‘‘ پر۔
موسیقار رشید عطرے نے 27سال فلمی دنیا میں گزارے۔اِن میں سے 7سال غیر منقسم ہندوستان ، 1سال بھارتی اور 19 سال پاکستانی فلمی صنعت میں اپنی محنت سے نام کمایا۔میری کبھی عطرے صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن موسیقار رشید عطرے کے ساتھ کام کرنے والے بانسری نواز سلامت حسین صاحب اور مصنف، ایڈیٹر، فلمی تاریخ داں، مکالمہ نگار، فلمساز اور ہدایتکار علی سفیان آفاقی سے میری نشستیں ہوتی تھیں ۔عطرے صاحب کا اکثر ذکر ہوتا ۔ میرا عطرے صاحب کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ فلمی موسیقی کے لئے نہایت موزوں شخص تھے۔روز مرہ معاملاتِ زندگی میں بہت ساد ا اور بحث مباحثوں میں کبھی نہیں الجھتے ، صلح پسند اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والوں میں سے تھے۔ اِن کو بچھڑے ہوئے 51 سال ہو گئے ۔ ہمارے ہاں دو نسلیں آ چکیں۔ مجھے اُس وقت بہت اچھا لگتا ہے جب نئی نسل کے گلوکار موسیقار رشید عطرے کے گیت ٹی وی چینلوں اور لائیو پروگراموں میں پیش کرتے ہیں۔۔۔ اور تو اور لندن میں بھنگڑ ے گروپ والے سکھ نوجوان بھی سیف الدین سیفؔ کا گیت ’’آئے موسم رنگیلے سہانے۔۔۔ گاتے ہیں تو عظیم موسیقار رشید عطرے یہ کہتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں: ’’ گائے کی دنیا گیت میرے‘‘۔ واقعی ایسا ہی ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر منگل 27 نومبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی / کوئٹہ کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔
Comments