ایک نا اہل ہیرا




ایک نا اہل ہیرا

تحریر شاہد لطیف

1987 کے اوائل میں کسی کام سے لاہور آناہوا تو تھانہ قلعہ گوجر سنگھ بھی جانا ضروری خیال کیا۔ یہاں ترین صاحب ایس ایچ او کے فرائض انجام دے رہے تھے اور میری موصوف کے ساتھ کراچی سے سلام دعاء تھی۔حال احوال پوچھنے کے بعد حسبِ معمول ان سے کسی عجیب و غریب کیس کے بارے میں پوچھا تو جواب میں وہ حوالات کی طرف لے چلے۔ ان حوالاتیوں میں سر جھکائے بیٹھے، سکندر نامی نوجوان کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ آؤ اس سے ملو یہ خود عجیب و غریب ہے۔ یقین مانیں اس شخص کی سنائی ہوئی کہانی نے ایک طویل عرصہ میرے اعصاب پر ہتھوڑے برسائے رکھے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ میرا نام سکندر ہے۔حالات مجھے ڈ کیتوں کے گروہ میں لے آئے۔ لیکن اِس میں کچھ میرا ارادہ بھی شامِل تھا ۔ شروع میں صرف مشاہدے کے لئے ڈاکے کی وارداتوں میں ساتھ جاتا رہا ۔ اسکے بعد وارداتوں کی ریکی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔یوں ایک دن ایسا بھی آ گیا جب میں نے خود ایک تجربہ کار ڈاکو کی قیادت میں ’ ڈاکے ڈیوٹی ‘ پر جانا تھا‘‘۔ 

’’ وہ لاہو ر کے دو لت مند وں کی بستی ماڈل ٹاؤن تھا، جس کے ایک بنگلے میں ہمیں یہ واردات کرنا تھی۔ ریکی کے حساب سے واردات کے وقت گھر میں دو بچے، ان کی ماں ، بچوں کی دادی اور خانساماں موجود ہونا تھے۔ واردات کا آغاز عین منصوبہ کے مطابق ہوا۔ اس سلسلے میں دیئے جانے والے احکامات پربے چوں و چراں عمل کیا اور کروایا جا رہا تھا ۔ بظاہر حالات قابو میں تھے یوں میرا یہ ڈاکہ صحیح ا ور کا میاب جا رہا تھا ۔ زیورات و نقدی باندھنے کے بعد پرائزبونڈوں کی گَڈیاں اکھٹی کر رہا تھا کہ گھر کی بزرگ خاتون بے خوف آگے بڑ ھیں اور کہا کہ یہ کسی کی امانت ہیں اور اللہ رسول ﷺ کا واسطہ دیا کہ امانت چھوڑ دوں‘‘۔اتنا کہہ کر وہ کچھ دیر بالکل خاموش رہا، پھر تھوڑی دیر بعد اس نوجوان نے کہنا شروع کیا: ’’ کاش!!! میں یہ واسطہ والی بات نہ سن سکتا۔ مجھ کو ایسا لگا کہ زمین نے میرے پاؤں جکڑ لئے ہوں۔سر کو بہت سخت چکر سا آیا۔ میں نے سب کچھ ان بزرگ خاتون کے ہاتھ میں رکھ دیا‘‘۔

میں چپ نہ رہ سکا اوربے ساختہ کہہ اٹھا، ’’ سکندر !! یہ واسطے والی بات ہضم نہیں ہو رہی۔دیکھو تم نے ایک ڈ کیت کا پیشہ اختیار کیا تھا کوئی سماجی خدمت کرنے والی این جی او نہیں۔ اللہ واسطے کے لحاظ، انسانیت اور رحمدلی کے جذبات اور یہ پیشہ ۔۔۔ ایسا تم نے کیوں کیا؟ ‘‘۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نظریں نیچی کیئے خاموشی سے حوالات کے تباہ حال فرش کو تکتا رہا پھر کچھ دیر بعد نظریں اٹھا کر بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے جسم سے ساری توانائی نچوڑ لی ہے۔میں باہر آ کر اس بنگلہ کے دروازہ پر بیٹھ گیا۔ میرا ساتھی دوڑ کے آیا۔گھر کے اندر سے زور زور کی آوازیں آنے لگیں ۔سامنے سڑک پر بھی ایک کار آ کر رکی۔ شاید اس گھر سے فون کر کے ڈاکے کی واردات کی اطلاع آس پڑوس کو دے دی گئی تھی۔ اہلِ محلہ ہمارے سامنے آ گئے میرے ساتھی نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی اور اس کی آڑ میں فرار ہو گیا ۔ اچانک کوئی پکارا یہی ہے! جانے نہ پائے۔ کئی ایک لوگ میری جانب لپکے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے میری دھنائی شروع ہو گئی ‘‘۔

’’ تمہارے پاس بھی تو ہتھیار تھا، تم ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے کیوں فرار نہ 
ہو ئے؟‘‘۔

’’ جی ہاں !! میں آسانی سے وہاں سے نکل سکتا تھا، مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھ کو اللہ رسول ﷺ کے واسطہ کو سن کر نہ جانے کیا ہو گیاکہ پورا جسم کانپنے لگا اور سخت سردی سی محسوس ہونے لگی ‘‘۔

’’ تو گویا تمہاری یہ ڈکیتی ناکام ہو گئی ‘‘۔

جواب میں اس نے خاموشی سے سر کو جھکا لیا اورکہا : ’’ الٹا پبلک نے مجھے جانوروں کی طرح سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ اگر وہاں پولیس وقت پر نہ پہنچتی تو میرا بُھر کس نکل چکا ہوتا‘‘۔

’’ ترین صاحب! یہ کیسی بات کر رہا ہے؟۔کیا اِس کی بات سچ ہے؟‘‘۔میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’ ہاں۔یہ بد نصیب ٹھیک کہتا ہے‘‘۔ ترین صاحب نے لفظ ’ بد نصیب ‘ زور دے کر ادا کیا۔

’’ بد نصیب کیوں؟‘‘۔میں نے پوچھا۔

’’ وہ ایسے کہ تُم کو اِس نے اپنی پوری کہانی نہیں سُنائی۔شاید اِس قِسم کی کوئی کہانی اب تک تُم نے نہیں سُنی ہو گی‘‘۔ترین صاحب نے جواب دیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ کیوں سِکندر صاحب! تمہاری ایسی کیا انوکھی کہانی ہے؟‘‘۔میں نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مگر اپنایت سے سوال کیا۔

’’ میری تو ایسی کوئی کہانی نہیں رپورٹر صاحب‘‘۔نہ جانے مجھے اُس نے کیوں رپورٹر سمجھ لیا۔ 

’’ ارے بھئی نہیں سُنانا چاہتے تو نا سہی۔ پھر کبھی سُن لوں گا۔ترین صاحب کی باتوں سے تو یوں لگتا ہے کہ تُم اِن کے تھانے میں اکثر ا ندر باہر ہوتے ہی رہتے ہو۔ تو کیوں میا ں مُقدّر کے سِکندر!! آئندہ اِس حوالات میں مِلو گے یا ۔۔۔ ؟‘‘۔ 
میر ے اِس نا مکمل جُملے پر سِکندر کے ہونٹوں پر ایک مُسکراہٹ اُبھری۔

’’ میں اپنے آپ کو بد نصیب تو نہیں کہتا ۔ ہاں! البتہ شاید نا اہل ہوں‘‘۔

’’ ارے شاید نہیں۔یہ تو ہے ہی پرلے درجے کا نا اہل‘‘۔ترین صاحب نے تو ایک دم ہی 25 کِلو کی بات کر دی۔

اب تو مجھے بھی اِس سِکندر نامی لڑکے میں دِلچسپی پیدا ہونے لگی۔
’’ یہ کِس طرح سے نا اہل ہو گیا؟‘‘۔میں نے سوال کیا۔

’’ آؤ! میرے دفتر میں آ جاؤ، وہیں پر بات کرتے ہیں‘‘۔یہ کہتے ہوئے اُنہوں نے ایک سپاہی کو کہا کہ وہ سِکندر کو اُن کے کمرے میں لے آئے۔

’’ حوالاتی کو؟‘‘۔میں نے حیرت سے سوال کیا۔

’’ ہاں! اِسی کو ‘‘۔سِکندر کی جانب اِشارہ دیتے ہوئے ترین صاحب نے کہا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ 
ایس ایچ او کا دفتر ایک عام سا مگر صاف سُتھرا کمرہ تھا ۔ہمیں وہاں بیٹھے چند لمحہ ہی ہوئے ہُوں گے کہ ایک سِپاہی سِکندر کو لے آیا۔

’’ بیٹھو سِکندر!‘‘۔ترین صاحب نے دوستانہ انداز میں اُس سے کہا؛ اور وہ ہم دونوں کے رُخ کی طرف رکھی ہوئی کُرسی پر بیٹھ گیا۔میں نے غور سے اُس کے سراپا اور چہرے کو دیکھا ۔ وہ ایک عام نوجوان لگا جِس میں مجھے تو کوئی چونکا دینے والی بات نظر نہیں آئی۔ حوالات میں تو وہ مُسلسل نگاہ نیچی کئے سر جھکائے بیٹھا تھا لیکن یہاں اُس کے آ نے کی چال، بیٹھنے کا طریقہ بالکل ہی مُختلف لگا۔مجھے تو وہ ذہنی طور پر چاق و چوبند محسوس ہوا ۔
اِسی لمحہ مُجھے بے اِختیار ہنسی آ گئی۔حیرت کی بات یہ ہوئی کہ ترین صاحب کے بجائے سِکندر نے ہنسی کا سبب دریافت کیا۔

میں نے سِکندر کی جانب دیکھتے ہُوئے جواب دیا: ’’ مجھے فِلم ’ انار کلی ‘ میں ماسٹر عنایت حُسین کی موسیقی میں نورجہاں کا یہ گیت یاد آ گیا جسے تنویر ؔ نقوی نے لکھا تھا ‘‘۔ ’ کہاں تک سُنو گے کہاں تک سُناؤں ‘۔

’’ فلم میں غالباََ یہ منظر شہنشاہ اکبر کے دربار کا ہے جہاں انار کلی کو بُلوا کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے‘‘۔ترین صاحب بولے۔

’’ ایک تو پتہ نہیں کیوں آپ پولیس والے ہر ایک جگہ کو تھانہ ہی سمجھتے ہیں۔اکبر بادشاہ کا دربار ہے قلعہ گوجر سنگھ کا تھانہ تو نہیں‘‘۔ میں نے مذاق میں کہا۔جب کہ دِل ہی دِل میں اُن کے ذوق کی داد دے رہا تھا۔

اِس ہلکے پھلکے ماحول کا سِکندر پر بہت خوشگوار اثر ہوا اور وہ بھی زیرِ لب مُسکرانے لگا۔

’’ سِکندر، ‘‘ میں نے اُس کی طرف دیکھ کر کہا۔’’ نہ میں کوئی رپورٹر ہوں نہ تفتیشی افسر۔ایک معمولی سا لکھنے والا ہوں اور یہ ترین صاحب ہیرا آدمی ہیں۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کبھی کسِی بے قصور پر ہاتھ تک نہیں اُٹھایا ہو گا اور ۔۔۔‘‘۔

’’ بَس کافی ہو گیا۔سِکندر اب کام کی بات کرو‘‘۔میری تعریفی بات کا ٹ کر ترین صاحب بولے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ جناب ! میں نے این ای ڈ ی انجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی سے سِول انجینیئرنگ کی ڈِ گری لی ۔ پھر کچھ ہی عرصے کے بعد مجھے اِسلام آباد میں ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازمت مِل گئی جورہائشی منصو بے بناتی تھی۔مجھے جلد ہی علم ہو گیا کہ ہر ایک مرحلہ میں یہ لوگ بے ایمانی کرتے ہیں۔پھر ایک ایسا بھی وقت آیا کہ میری ذمہ داری کے کام میں میں بھی کہا گیا کہ بے ایمانی کی جائے۔آپ خود سوچئے کہ اپنے دستخط کے ساتھ بے ایمانی کیسے کر سکتا تھا میں مالِکان کے پاس چلا گیا۔اُنہوں نے میری بات بہت غور سے سُن کر اکاؤنٹس افسر کو بُلوایا، میرا حساب کیا اور میں اُسی وقت نوکری سے باہر ہو گیا ۔ جب میں نے تجربہ کا سرٹیفیکیٹ مانگا تو یہ لکھ کر دیا کہ میں غیر ذمّہ دار اور نا اہل ہوں‘‘۔
’’ یہ تو کوئی خاص کہانی نہیں۔بہت عام سی بات ہے‘‘۔ میں نے کہا ۔

’’ آگے بھی تو سُنو! ‘‘۔ترین صاحب بولے۔’’ لڑکے پھر کیا ہوا ؟ تُم میرے پاس پہلی دفعہ کیسے آئے؟‘‘۔

’’ ارے!!! تو کیا یہ اِس حوالات میں آتا جاتا رہتا ہے؟‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’ یہ خود ہی بتائے گا‘‘۔ترین صاحب سِکندر کی طرف دیکھ کر بولے۔

’’ وہ وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف دور تھا۔ہر طرف بینکوں نے آسان اِقساط پر موٹر سائکلوں ، کاروں اور کریڈٹ کارڈوں کی برسات کر رکھی تھی۔وہ لوگ جو سائیکل نہیں خرید سکتے تھے کریڈٹ کارڈوں کی بدولت ایل سی ڈی، مائکرو ویو اون ، اسپلٹ اے سی اور فریج سے اُن کے گھر بھر گئے۔ ہر تیسرے شخص کے پاس موٹر سائیکل ہو گئی۔کمال کی بات یہ ہے کہ سود اور قسطوں پر موٹر بائک اور الیکٹرونک آلات لینے والے یہ بھول گئے کہ کل اگر اُن کی نوکری نہ رہی تو اُس ماہ یا اس سے آگے کی اقساط کون دے گا؟

بہر حال جس آسانی سے موٹر سائکلیں مل رہی تھیں بالکل اُسی طرح بینکوں میں ریکیوری کے شعبے میں کافی آسانی سے ملازمتیں بھی مل رہی تھیں ۔یہ وہ پس منظر تھا جب مجھے بھی ایک نجی بینک کےشعبہِ وُصولیات Recovery Department میں ملازمت مِل گئی۔ کچھ عرصہ میری اور مجھ جیسے درجنوں لڑکوں کی تربیت ہوئی پھر سینئر کے ساتھ ڈیوٹی لگا کر وصولی کا ٹارگٹ دیا گیا۔ میری پہلی ریکوری ایک موٹر سائکل کی عرصہ چار ماہ سے واجب الاد اِقساط تھیں ۔حسبِ کاروائی سب سے پہلے میں نے قسطیں نہ دینے والے صاحب کو فون کیا تو جواب مِلا کہ چھ ماہ سے نوکری چھوٹی ہوئی ہے ، ملتے ہی قِسطیں شروع ہو جائیں گی۔ اُسی شام میں مطلوبہ شخص کے ہاں چلا گیا۔اُس نے وہی بات دُھرائی۔میں نے اپنی مجبوری بتلائی کہ قسط نہیں آئی تو میری اپنی نوکری خطرہ میں پڑ جائے گی۔یہی بات میں نے واپس آ کر اپنی رپورٹ میں بھی لکھ دی۔جب یہ رپورٹ ریکوری کے شعبہ کے افسر کے پاس پہنچی تو اُس نے مجھے اپنے پاس بلوایا اور مجھ سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مولانا عبدالستار ایدھی کا دفتر نہیں بینک ہے۔ آپ جناب سے بھلا کبھی قسطیں ملیں؟ اور 2 کریڈٹ کارڈ اور 15 موٹر سائکلوں کی قِسطوں کی وصولی کا حتمی ٹارگٹ دے دیا۔ میں فرداََ فرداََ ہر شخص کے پاس گیا۔ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب کی وہی پہلی والی کہانی سے مِلتی جُلتی کہانیاں تھیں ۔ میرے ساتھ وصولیاتی ٹیم میں نئے بھرتی شدہ رنگروٹ بات چیت میں ٹھیک نہیں تھے۔گھر کی خواتین اور خود اُس شخص کی عِزت کا کچھ بھی خیال نہیں کر رہے تھے۔میں نے آگے بڑھ کر اپنی و صولیاتی ٹیم کو ایسا کرنے سے روکا۔واپس آیا تو مجھ سے پہلے میرے اُن ساتھیوں نے میری رِپورٹ کر دی اور یوں میں بینک کی نوکری سے بھی باہر ہوا۔ مجھ سے زبانی بھی اور تحریر اََ بھی کہا گیا کہ میں بینک کی ریکووری کے لئے قطعاََ نا مُناسب ہوں‘‘۔ 

’’ جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں کہ اُسی شام مجھے بینک کی نوکری سے نکال دیا گیاتھا اور اِسی رات کریڈٹ کارڈ کی و صولی کے اِس کیس میں اُس بد نصیب نے اپنی عزت کی خاطر خودکشی کر لی ۔ چونکہ میں بھی اُس کے گھر جانے والی ٹیم میں شامِل تھا لہٰذا میں پکڑ میں آ گیا۔بخدا میں نے ہر گِز کوئی بد تمیزی نہیں کی بلکہ اُلٹا میں نے اپنے ساتھ گئے ہوئے افراد کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔مگرجو تماشا بننا تھا وہ تو بنا ۔ لواحقین نے بینک اور اُس کی و صولیاتی ٹیم کے خلاف پرچہ کرا دیا۔تھانے میں بھی اُس شخص کے لواحقین اور اُس کے محلہ داروں نے مجھے پہچان کر بیان دے دیا کہ میں بھی اُس ٹیم میں تھا جبکہ باقی افراد روپوش تھے۔ بہر حال ہفتہ بھر میں اِس حوالات میں رہا پھر عدالت میں دوسری پیشی پر میری جان چھوٹی اور کسی بھی بینک کی نوکری کے دروازے مجھ پر بند ہو گئے ‘‘۔

’’ آسمان سے گرا کُجھور میں اٹکا۔آپ ایس ایچ او صاحب سے پوچھ لیں کہ مشکل سے ایک ہفتہ گُزرا ہو گا کہ بہت ذلیل و خوار ہو کر دوبارہ اِسی حوالات میں لایا گیا‘‘۔

’’ ہاں ایسا ہی ہے ‘‘۔ ترین صاحب بولے۔

’’ یار سکندر ! تمہاری تو کمال ہی کہانی ہے ! پھر اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ ۔میں نے سوال کیا۔

’’ اِس کے بعد میں نے ایک نامور فارمیسی میں سیلز مین کی ملازمت کر لی ۔کام کرتے ہوئے سات دِن ہوئے تھے جب میں نے 2500 روپئے بطور ایڈوانس لئے۔اُسی شام اپنے مُحلہ کے ایک اسٹور سے چند ضروری اشیاء خریدیں اور 500 روپئے کا ایک نوٹ دیا۔بس نوٹ دینے کی دیر تھی کہ کیش کونٹر پر شور مچا کہ یہ جعلی نوٹ ہے۔ کریڈٹ کارڈ کی اقساط کی عدم ادائگی پر عزت کی خاطر خودکشی کیس میں میری تصاویر اخبارات میں آئی تھیں اور ٹی وی چینلوں میں مجھے ایسے بنا کر پیش کیا گیا گویا میں کوئی بہت بُرا اور ظالم شخص ہوں۔ اوپر سے ایک ہفتہ حوالات میں بند ہونے کا مُحلہ میں پہلے ہی چرچا تھا۔ اب اِس جعلی نوٹ چلانے میں کسی ایک نے بھی میری بات نہیں سُنی کہ یہ پیسے تو مجھے فارمیسی والوں نے دئیے ہیں لہٰذا اُن سے پوچھا جائے۔ اسٹور والوں نے میرا تعلق جعلی نوٹ چلانے والے ایک منظم گروہ سے فوراََ جوڑ دیا اور میں اِس تھانے میں دوبارہ پہنچا دیا گیا‘‘ ۔یہاں سکندر نے کچھ توقف کیا ۔

’’ ترین صاحب واحد آدمی ہیں جنہوں نے پہلے اور اب میری بات سُنی اور اُس پر یقین بھی کیا۔اِن کے گھر کا جو کھانا آتا تھا اُس میں سے مجھے بھی حصہ دیتے رہے‘‘۔یہ بات کہہ کر اُس نے ترین صاحب کی طرف دیکھا جِن کا چہرہ کسی بھی قِسم کے تاثرات سے عاری تھا۔

’’ یہ ناکام ڈاکے کی کیا کہانی ہے؟ ‘‘۔میں نے سِکندر سے سوال کیا۔

’’ یہ کیا بتائے گا۔کیا کبھی کسی نے ناکام ڈاکے کی اصطلاح سُنی؟ بالکل بھی نہیں سُنی ہو گی۔ایسا کبھی ہو ا ہی نہیں ہو گا۔اب تُم خود دیکھ لو اِس نالائق کو، جو کام کیا وہ ناکام ہوا او ر تو اور ناکام ڈاکہ مار کے ڈاکووں کو بھی بدنام کر گیا۔چل بتا کہ ڈکیتوں کے گروہ میں کیسے جانا ہوا؟ ‘‘۔ ترین صاحب نے کہا۔

’’ اِس بات کو رہنے ہی دیں‘‘۔اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا ۔ مجھے ایسے لگا کہ سِکندر بھی خوش گوار مُوڈ میں ہے۔

’’ جہاں اتنا سب بتایا تو یہ بھی بتا دو ‘‘۔میں نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔

’’ جناب یہ حوالات ہے! جہاں مجھ جیسے تو خیر بہت زیادہ آتے جاتے ہیں لیکن کبھی ڈھیٹ اور عادی مُجرم بھی آ جاتے ہیں۔ دوسری دفعہ تو میں 14 دِن حوالات میں رہا پھر جعلی نوٹ کے سلسلہ میں6 ماہ جیل بھی گیا۔ جب جیل میں آیا تو علم ہوا کہ تھانے اور حوالات تو اسکول ہوتے ہیں اور جیل کالج۔یہاں کوئی لاکھ کہتا پھرے کہ میں بے قصور ہوں مگر وہ کسی نہ کسی عدالت سے سزا یافتہ ہو کر مُجرم کی حیثیت سے ہی آتا ہے۔میرا بھی درجہ مُجرم کا تھا۔جیل میں بڑے بڑے اُستاد، چور، جیب تراش، ڈکیت، نوسرباز، رسّہ گیر ،مستند فراڈیے، اسمگلر ، جواری وغیرہ ہم جیسوں کے لئے کالج پروفیسر تھے۔ آپ میں بس کچھ سیکھنے کی لگن ہو تو جیل میں اپنے قیام سے یقیناََ کچھ سیکھ کر باہر آ سکتے ہیں ۔ میری وہاں پپو ا ور خاور ڈکیت سے ملاقات ہوئی۔اِن میں ایک لاہورکی پوش کالونیوں میں وارداتیں کرتا اور دوسرا کرایہ پر دستیاب تھا ، کہیں بھی کام کرنا ہو، یہ حاضر۔(یہ نام اور مقام بدل دئیے گئے ہیں) ۔میں چھ ماہ کی جیل کے بعد رہا ہو کر گھر آ گیا‘‘۔

’’ حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ وہی محلہ دار جو بڑھ بڑھ کر میرے خلاف گواہیاں دے رہے تھے اور میری مار پیٹ بھی کی تھی وہی اب ایسی عزت سے پیش آ رہے تھے کہ جیسے کہ میں حج کر کے آیا ہوں۔ جب میں اُسی اسٹور میں گیا جہاں پر جعلی نوٹ چلانے کے الزام میں مجھے حوالات اور اُس کے بعد جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی؛ اُن کا سلوک تو 360 کے زاویے پر بدلا ہوا پایا۔ وہ میرے آگے بچھے جاتے تھے کہ سکندر صاحب جو دِل کرے لیجئے، پیسے آتے رہیں گے‘‘۔

’’ یہ میرا آبائی گھر تھا جہاں کم از کم ہر ماہ کرایہ دینے کی تلوار تو نہیں لٹکتی تھی۔پھر بھی کام کاج تو کرنا ہی تھا۔میرا دِل نام نہاد شرافت اور اب ایسی منافقت سے اُکتا گیا۔مجھے اپنی اوقات اچھی طرح سے معلوم تھی۔یہ جھوٹی عزت میری جیل یاترا اور کسی انتقامی قدم کے ڈر کی وجہ سے کی جا رہی تھی ورنہ میرے پیٹھ پیچھے مجھے کِن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہو گا اس کا مجھے بہت اچھی طرح اندازہ تھا ۔یوں تومیری کبھی کسی سے دوستی تھی ہی نہیں پھر اب تو صرف میں اور میرے جیل کے ساتھی تھے۔ میں ملاقاتی کی حیثیت سے اکثر پپو سے مِلنے جایا کرتا۔وہیں ایک دِن اُس نے میرے دِل کی بات میری زبان سے نکلوا دی کہ حق حلال کی بہت کوشش کی لیکن مِلا کیا؟ حوالا ت اور جیل ؟ ۔ اب مجھے اُس کے ساتھ شامل ہو کر ’’ روزی ‘‘ کمانا چاہیے۔ بس اُس نے مجھے کچھ نا م اور پتے بتائے اور یوں اُس حوالے سے میں پپوکے گروہ میں شامِل ہو گیا۔باقی کی کہانی آپ جانتے ہی ہیں‘‘۔

’’ اب تُم نے کیا سوچا ہے؟ کیا کرو گے؟‘‘۔میں نے سوال کیا۔

’’ میں تو نا اہل ہوں نا۔ کچھ اور سہی ! ‘‘۔اِس جواب کے بعد سِکندر نے اپنا سر جھکا لیا۔

ترین صاحب آپ اِس کا کیا کریں گے؟‘‘۔ میں نے سوال کیا۔

’’ میں نے کیا کرنا ہے۔صبح اس کو ناشتہ کروا کر ہم بھی اس ’ نا اہل ‘ اور ناکام ڈکیتی کے ملزم کو اللہ رسول ﷺ کے واسطے چھوڑ دیں گے‘‘۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اختتام
یہ تحریر ماہنامہ حکایت ڈائجسٹ کے نومبر شمارے میں شائع ہوئی۔









































 

Comments

ulatphair said…
نوازش یمین الاسلام زبیری صاحب

Popular posts from this blog