TV Channels Kay Morning Show Aur Urdu Angraizi Ka Malghooba




ٹی وی چینلوں کے مارننگ شو اور اُردو انگریزی کا ملغوبہ

تحریر شاہد لطیف

پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات شروع شروع میں شام ساڑھے چار بجے سے رات دس گیارہ بجے تک ہوا کرتی تھیں۔پھر صبح کی نشریات شروع ہوئیں۔اُس زمانے میں ریڈیو کی طرح پروگرام سے پہلے اسکرین پر اناؤنسر آ کر آنے والے پروگرام کے بارے میں بتایا کرتی تھی۔ بہرحال نہ اناؤنسر نے کبھی صبح کی نشریات کو انگریزی میں مارنگ شو کہا نہ ہی کبھی پاکستان ٹیلی وژن کی انتظامیہ نے یہ کہلوایا۔ پی ٹی وی کے تما مراکز میں باقاعدہ ایک شعبہ ہوتا تھا جو اناؤنسر کے تلفظ اور اُس کی اُردوسمیت تمام پروگراموں میں ہونے والی گفتگو، مکالموں وغیرہ کی بہت سخت دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔کرنا بھی چاہیے تھا۔اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام خالص پاکستانی بن گئے ۔ پھر جب 1990 میں شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈکاسٹنگ کمپنی کے ساتھ تین سالہ معاہدے کے تحت ا ین ٹی ایم (نیٹ ورک ٹیلی وژن مارکٹنگ) کی نشریات شروع ہوئیں تو آہستہ آہستہ فرق سامنے آنے لگا۔ اسکرپٹ میں ایک ایک لفظ کو دیکھنا اور ریہرسلوں میں تلفظ اور صحیح اُردو پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔آرٹسٹوں کو معاوضے پی ٹی وی کے مقابلے میں کافی زیادہ دیے جانے لگے۔این ٹی ایم خود کوئی پروگروم نہیں بناتا تھا ۔اس کام کے لئے مارکیٹ میں پروڈکشن ہاؤس ایک دم میدان میں آ گئے جن سے پروگرام خرید کر ’ نیٹ ورک ٹیلی وژن مارکٹنگ ‘ اپنے ہاں سے نشر کرتا تھا۔ پی ٹی وی کے نامورپروڈیوسر در پردہ اُن پروڈکشن والوں کے لئے کام کرتے تھے۔ یہاں ’’ چاند گرھن‘‘ جیسے اعلیٰ ڈرامے بھی بنے۔این ٹی ایم کی تو خیر پالیسی یہی تھی کہ تین سال میں دو کو چار اور چار کو آٹھ کرنا ہے اس لئے خود کوئی ڈرامہ سازی یا فلمسازی نہیں کی۔اس لئے اُس نے جو اپنے ہاں سے پیش کیا باہر سے خرید کرکیا۔ لیکن افسوس تو اُس وقت کی پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن کی انتظامیہ پر ہے کہ اُن کی کیا مجبوری تھی جو انہوں نے بھی پروگرام خریدنے شروع کر دیے! یہ اُس وقت ہوا جب ایک ٹی وی پروڈیوسر غضنفر علی نے پی ٹی وی کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر اپنا ادارہ ’’ کمبائن‘‘ کے نام سے بنایا اور پی ٹی وی انتظامیہ سے وقت خریدا۔اشتہارات لانا بھی ’’ کمبائن‘‘ کی ذمہ داری تھی اور اشتہارات اور اسپانسر کے پیسے بھی اُسی کے۔ لہٰذا یہ خاصا منافع بخش کام رہا۔’’ کچھوا اور خرگوش ‘‘ ان کا پہلا ڈرامہ تھا جو پی ٹی وی سے چلا۔پھر انہیں 2000 میں انڈس وژن کے نام سے نجی ٹی وی چینل چلانے کی اجازت ملی۔یہ مشرف دور تھا۔پھر اس کے بعد بہت سے ٹی وی چینل اور بھی آ گئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں کہ یہ کیوں ہوا !  بحث یہ ہے کہ جب پروگرام کی تیاری پر کمرشل ازم حاوی ہو گیا تو معیار تیزی سے گرنے لگا۔ کوئی بھی کامیاب کارخانہ یا فیکٹری اُس کو کہتے ہیں جس کا معیار یکساں ہو۔یہی کوالٹی کنڑول ہے کہ تیار مال کا معیار ایک ہو۔اگر آپ نے پروگرام بنانے کی فیکٹری لگوا لی تو پھر اُس کا ایک معیار مقرر ہونا چاہیے تھا۔افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔آہستہ آہستہ اُردو میں انگریزی کا ر نگ نمایاں ہوتا گیا۔کیاڈراموں کے مکالمے کیا میزبان کی گفتگو اور کیا خبریں، ہر جگہ انگریزی کو فخریہ بولا جانے لگا ۔ 

اللہ کی شان! کہ جب مشرف دور میں چینلوں کی مزید آمد ہوئی تو ’’ مارننگ شو ‘‘ کا چلن عام ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ مارننگ شو پاکستان کے اُردو ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے یا امریکہ اور برطانیہ کاکوئی چینل ہے!! پھر ایک چینل نے کیا شروع کیا یہ ایک بھیڑ چال ہو گئی۔پھر صد افسوس کہ پی ٹی وی میں بھی صبح کی نشریات میں انگریزی نام سے مارننگ شو پروگرام شروع ہو گئے جو ہنوز جاری ہیں جیسے
 ’’ مارننگ وِد جُگن‘‘ جو 2011 سے پی ٹی وی سے جاری ہے ۔اِن مارننگ شوز میں میزبان اپنا پروگرام شروع ہی انگریزی سے کرتی یا کرتے ہیں۔مہمانوں کا تعارف بھی، اور پھر سوالات کی بھی انگریزی اُردو کی کھچڑی پکائی جاتی ہے۔مثلاََ ’’ آج ‘‘ ٹی وی کا پروگرام ’’ آج پاکستان‘‘ کی میزبان ۔۔۔ نہ جانے وہ کنِ سے مخاطب ہوتی ہیں۔یا اُن کو معلوم ہی نہیں کہ اُن کے سامعین کون ہیں؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اِن میں میزبان کا زیادہ قصور بھی نہیں کیوں کہ وہ پروگرام کے کل پرزوں میں سے ایک پُرزہ ہے۔اُس کو منتخب کرنے والے نے اُسے اسی لئے منتخب کیا کہ وہ ’’ ایسی زبان ‘‘بول سکتی ہے۔کیا یہ احساسِ کمتری ہے یا احساسِ برتری؟کچھ بھی ہو اُردو زبان کا تو بیڑا غرق ہو گیا !! 

حیرت ہے کہ کسی اہلِ علم، پروفیسر، اہلِ قلم ، سینئر صحافی نے اِس خرابی حال کی نہ تو نشاندہی کی نہ اس کے خلاف رائے عامہ ہی منظم کی۔
جو ایک فی صد تعلیمی ادارے تمام معاشرے پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں جو اُردو زبان کو بطور ’’ زبان ‘‘ پڑھاتے ہیں۔۔۔وہی نام نہاد تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔انہیں اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ وہ اُردو بہ آسانی پڑھ اور بول نہیں سکتے لہٰذا وہ انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں ۔تو اُن سے گزارش ہے کہ وہ اپنا ایک انگریزی زبان کا چینل کھول لیں۔یہ تو جہالت کی انتہا ہے کہ اپنی زبان کو ’’ نہ بول سکنا‘‘ فخر کی علامت بنتا جا رہا ہے۔میں نے کئی سال ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں گزارے۔وہاں دو قومی زبانیں ہیں۔تمام سرکاری کاغذات ، امیگریشن فارم دونوں زبانوں میں چھپے ہوتے ہیں۔انگریزی اور اسپینش Spanish ۔دونوں زبانوں کے الگ الگ ٹی وی چینل ہیں۔مجال نہیں کہ انگریزی میں اسپینش کی ملاوٹ ہو یا اسپینش زبان میں انگریزی کا کوئی لفظ بولا جائے۔یہ صرف ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنی خالص زبان سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔آج مجھے لئیق اختر بہت یاد آ رہے ہیں۔ کیا زبردست میزبانی کیا کرتے تھے۔ایسی سادا اور عام فہم زبان استعمال کرتے تھے جس میں انگریزی کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔ 

بر سبیلِ تذکرہ یاد آیا کہ تقریباََ دس سال پہلے میں ایک ٹی وی چینل گیا۔وہاں کی ڈائریکٹر نے میری گفتگو کے بعد براہِ راست مجھے ایک ’’ مارننگ شو‘‘ کا میزبان بننے کی دعوت دی۔میں حیران رہ گیا اور بے ساختہ پوچھا کہ میں تو کسی اور مقصد کے لئے آیا تھا یہ اچانک آپ کو کیا خیال آیا؟کہنے لگیں : ’’ آپ نے اپنی ساری گفتگو میں ا نگریزی کا ایک لفظ استعمال نہیں کیا‘‘۔ اور مزے کی بات کہ وہ خود بھی ’’ گلابی اُردو ‘‘ بول رہی تھیں۔بوجوہ وہ پروگرام ٹیلی کاسٹ نہیں ہو سکا با وجود یکہ کافی ریہر سل بھی ہوئی۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ کہ صرف اُردو بولنا اپنے اندر ایک خاص تاثیر رکھتا ہے۔ یہ بہت میٹھی اور نرم زبان ہے ۔میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر کبھی کوئی ایسا پروگرام شروع ہو جس میں اردو اپنی اصل حالت میں بولی جائے تو وہ پروگرام نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔۔۔مقبولیت کے سارے ر یکارڈ توڑ ڈالے گا۔ آزمائش شرط ہے !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ تحریر 24 نومبر 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی/کوئٹہ کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔









 

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ