رات مُجرم اور ریل
وِکٹر لَو رَینزو وہائٹ چرچ : Victor Lorenzo Whitechurch
(12 March 1868 150 25 May 1933)
یہ صاحب مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کے پادری بھی تھے۔انہوں نے مختلف موضوعات پر کئی ایک ناول لکھے۔وجہ شہرت ان کی مختصر کہانیاں ہیں۔ بی بی سی نے اِن کے مجموعے Thrilling Stories of the Railway پر ایک سیریز بھی بنائی تھی۔
یہ کہانی ’ رات مُجرم اور ریل ‘ وہائٹ چرچ کی سنسنی خیز کتاب Thrilling Stories of the Railway
کی دوسری کہانی The Convict's Revenge سے ماخوذہے۔واضح ہو کہ اِن کی یہ کتاب 1912میں شائع ہوئی تھی۔
کہانی کا مرکزی خیال ایک خطرناک مجرم کا جیل سے فرار اور پھر ۔۔۔بظاہر مجرم نے موت کا پورا سامان کر رکھا تھا لیکن یہاں یہ مقولہ صادر آتا ہے کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات مُجرم اور ریل
تحریر شاہد لطیف
’’ اوہ !! ‘‘ میرے دائیں بازو کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اُس کے مونہہ سے بیساختہ نکلا۔’’ اِسی چیز سے میں بہت گھبراتا ہوں !‘‘۔
میں اور میرا ساتھی ریل کی پٹریوں پر بنے ایک لیول کراسنگ کے قریب کھڑے ہوئے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ گرج کے ساتھ نزدیک آتے ہوئے ریل کے انجن کی روشنی نظر آنے لگی ۔ہم دونوں جہاں تھے وہیں رک گئے اور چند قدم کے فاصلے سے ریل گاڑی گزرنے لگی اور آخری ڈبہ بھی گزر گیا جس کی لال بتی ہم سے دور ہوتی ہوئی نظر آئی۔
میں نے اُس سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئی مسکرا کر کہا ’’ ایک سابق سپاہی اور جیل کے گارڈ ہو کر ریل گاڑی کا اتنا خوف؟‘‘
’’ ہر شخص میں کوئی کمزوری، کوئی اندر کا خوف ہوتا ہے،مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ میرے اندر بھی ایک خوف ہے ۔اگر تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ہوتا جو 10 سال پہلے میرے ساتھ ہوا تھا تو تم بھی ریل گاڑی کے قریب سے گزرنے پر ’ جُھرجھری ‘ لئے بغیر نہ رہ سکتے۔
’’ یہ تو پھر بہت دل چسپ کہانی ہو گی۔۔۔ریل کی پٹریوں، ریل کے انجن یا پھر ریل گاڑی سے ڈرنے کی یقیناََ کوئی تو وجہ ہو گی؟‘‘۔ میں نے اس قصے میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں ! بالکل ہے! ‘‘ ،اُس نے خاصی کمزور آواز میں بولنا شروع کیا۔’’ اگر تم میرے ساتھ میرے گھر چلو تو وہاں چائے پیتے ہوئے گفتگو کریں گے اور ریل گاڑی سے خوف کھانے کی وجہ بھی جان جاؤ گے‘‘۔
اس سہ پہر سے پہلے تک یہ صاحب میرے لئے اجنبی تھے۔ میں ڈور سے مچھلی پکڑنے کا شوق رکھتا ہوں۔کسی دوست نے ندی کے اِس مقام کا بتایا تھا کہ بھیڑ بھاڑ سے دور اور ڈور سے مچھلی پکڑنے کے لئے ایک بہتر ا نتخاب ہے۔ میں اسی غرض سے یہاں آیا تھا۔ مجھے بیٹھے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ یہ صاحب میرے قریب آ کر بیٹھ گئے۔سلام دعا کے بعد گاہے بگاہے باہم دلچسپی کے موضوعات پر بات چیت بھی ہوتی رہی۔ مغرب سے کچھ دیر قبل ہم نے اپنی اپنی ڈوریں لپیٹنا شروع کر دیں۔تھوڑی دیر بعد ہم دونوں وہاں سے چل پڑے۔ قریبی بستی اور اس ندی کے درمیان کھیت تھے۔راستے میں اُس نے اپنے بارے میں بتلایا کہ وہ پہلے فوجی تھا پھر جیل میں گارڈ بھرتی ہو گیا اور چند سال پہلے ہی وہاں سے ریٹائر ہوا ہے۔ اس ندی کے ساتھ جو بستی ہے یہ وہیں پلا بڑا اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد یہیں پر آ گیا ہے۔
بستی کے شروع کے مکانوں کی قطاروں میں ایک گھر کے سامنے ہم جا کر رک گئے۔تمام مکانات تقریباََ ایک سے تھے۔دروازہ کھول کر اُس نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔میں تھوڑا سا ٹھِٹکا۔
’’بے دھڑک اندر آ جاؤ! میں یہاں اکیلا ہی رہتا ہوں‘‘۔ ایک تو مجھے واقعی چائے کی طلب ہو رہی تھی دوسرے اُس نے جِس پُر خلوص انداز سے یہ پیشکش کی وہ میں رد نہ کر سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ لو! چائے پیو ! ‘‘، میرے سامنے چائے کا کپ رکھتے ہوئے اُس نے کہنا شروع کیا۔’’ تو سنو کہ ریل گاڑی اور ریل کی پٹریوں سے میں کیوں خوفزدہ ہو جاتا ہوں ! اور یہاں آتے ہوئے ریل گاڑی کو دیکھتے ہی میرے اوسان کیوں خطا ہو گئے تھے‘‘۔
’’ اس قصے کی شروعات اُس وقت ہوئیں جب جیل میں قیدی نمبر 2036 کولایا گیا۔میری ملازمت کے دوران کئی طرح کے قیدی یہاں آئے اور گئے ۔ان میں سے بعض حیرت انگیز طور پر نہایت اچھے تھے لگتا ہی نہیں تھا کہ انہوں نے کبھی معمولی سا بھی جرم کیا ہو گا۔کچھ بہت بد تمیز تھے،لیکن آنے والا نیا قیدی بد زبانی ، بد تمیزی اور لڑائی جھگڑوں میں اپنی مثال آپ تھا۔اِس کے یہاں منتقل ہونے سے پہلے ہی اِس کی ’ شہرت ‘ یہاں پہنچ چکی تھی۔ اسکے جرائم کی ایک لمبی فہرست تھی۔کیا کیا اس نے نہیں کیا تھا ،ہاں قتل ہی ایک ایسا جرم رہ گیا تھا جو ابھی ثابت نہیں ہو سکا تھا۔قیدی نمبر 2036 کے قاتل ہونے سے کوئی بعید بھی نہیں تھی۔اس کے ساتھ میری پہلی ڈیوٹی ہی میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اِس قیدی کے ساتھ ڈیوٹی دینا ایک عذاب ہے۔یہ اندازہ قیدی کے ڈیل ڈول، قد کاٹھ سے نہیں بلکہ اُس کی آنکھوں سے ہوا۔ ایسا بد تمیز اور معمولی باتوں پر مشتعل ہو جانے والا قیدی میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جلد ہی وہ مجھ سے شدید خار کھانے لگا۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اُس کی بد قسمتی یا میری کہ جیل میں اُس کے غلط رویے کی رپورٹ سب پہلے میں نے کی تھی جِس کی اُس کو ’ خاطر خواہ ‘ سزا بھی دی گئی ۔ اُسی رات گشت کے دوران جب میں اُس کی کوٹھری کے پاس سے گزرا تو تمام احتیاط کو ایک طرف رکھتے ہوئے قیدی نمبر 2036 نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا:
’’ مجھے موقع مل لینے دو! تمہیں زندہ چھوڑا تو میرا نام ۔۔۔نہیں ‘‘۔
’’ جیل کی ملازمت میں ایسی دھمکیاں سننا کوئی چونکا دینے والی بات نہیں تھی۔
ہاں ! البتہ اِس دھمکی کی اہمیت کا اندازہ بعد میں ہوا‘‘۔
’’ دیکھتے ہی دیکھتے 2سال بیت گئے لیکن قیدی نمبر 2036 میں کسی بھی قسم کی بہتری کے کوئی آثار پیدا نہیں ہوئے۔عجیب ڈھیٹ ہڈی کا بنا ہوا انسان تھا کہ اُس کا کثرتی بدن اور طاقت جیل کی خوراک سے قطعاََ متاثر نہیں ہوئی۔وہ جیل کے خطرناک ترین قیدیوں کی فہرست میں شامل تھا۔اِس کے بعد، جس سال کا میں ذکر کر رہا ہوں اُس کے رویے میں اچانک تبدیلی آنا شروع ہوئی۔سب سے پہلے تو اُس میں فرماں برداری نظر آنے لگی۔دوسروں کا تو علم نہیں لیکن میں اسی جیل میں عام اور ’ ٹیڑھے ‘ قیدیوں کو قریب سے مشاہدہ کر چکا تھالہٰذا اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں ، میں خطرناک قیدیوں میں اچانک اُٹھنے والی فرماں برداری کی لہر میں چھپی عیاری کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا۔ایک روز تمام قیدی کمپاؤنڈ میں ورزش کر رہے تھے کہ اچانک بہت گہری دھند چھانے لگی۔میری ڈیوٹی دیوار پر بنی پوسٹ پر تھی۔ایک دم نیچے شور و غُل مچ گیا۔ یہ تھی تو خطرے کی بات لیکن مجھے اطمینان تھا کہ قیدیوں کے سروں پر رائفلوں سے مسلح دو مستعد گارڈ جو کھڑے تھے۔دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نمبر 2036 نے قریبی کھڑے سنتری کے سر پر اچا نک اپنا آہنی ہاتھ رسید کیا اور اس سے پہلے کہ دوسرا سنتری رائفل سیدھی کرتا، مذکورہ قیدی نے بجلی کی سی تیزی سے سنتری کے سر پر قریبی رکھی اینٹ دے ماری اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا‘‘۔
’’ فوراََ ہی سرچ پارٹی ترتیب دی گئی۔ جیل کی اندرونی دیوار کے تین اطراف ایک کافی اونچی اور ناقابلِ عبور دیوار تھی۔پھر اِ س دیوار میں جا بجا واچ ٹاور بھی بنے ہوئے تھے۔اِن کے سامنے سے بچ نکلنا تقریباََ ناممکن تھا۔اب صرف چوتھی سمت رہ جاتی ہے یہ تقریباََ بنجر اور ویران علاقہ تھا ۔یہ کوئی خالہ جان کا گھر نہیں تھا کہ ٹہلتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئے۔ دروازے اور دیواروں کے برجوں میں مسلح سنتری پہرے پر موجود ہوتے تھے۔بہرحال قیدی نمبر 2036 شدید ترین دھند کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمام حصاروں کو عبور کر کے چھلاوے کی طرح نو دو گیارہ ہوگیا‘‘۔
’’ جب شام ڈھلنے کو آئی تو تلاش پارٹی کو چند میل کے فاصلے پر بنیان اور کسی کپڑے کوزبردستی لنگوٹ بنا ئے ایک شخص نظر آیا۔اُس نے بتلایا کہ ایک اجنبی نے موت کی دھمکی دے کر اِس کے کپڑے اُتروا ئے اور وہ خود پہن لئے۔پھر اپنے پہنے ہوئے دھاری دار کپڑے اتارکر کہا کہ سردی لگے تو جیل کا تحفہ سمجھ کر پہن لینا۔ سرچ پارٹی سمجھ گئی کہ یہ کون ذاتِ شریف ہو سکتا ہے لیکن خانہ پری کے لئے تفصیلی بیان لکھا گیا۔ بیان میں جو حلیہ بتلایا گیا وہ ہو بہو نمبر 2036 کاتھا‘‘۔
’’ وہ رات 9 اور10 کے درمیان کا وقت ہو گا جب ہماری تلاش پارٹی ریلوے لائین کے بلند پشتے کے پاس آپس میں صلاح مشورے کے لئے رُک گئی۔یہ ریلوے لائن جیل سے پانچ یا چھ میل سنسان علاقے میں شمال کی جانب سے گزرتی تھی‘‘۔
’’ تلاش کے لئے کیا ہمیں اسٹیشن جانا چاہیے ؟‘‘، ہمارے چیف نے کہنا شروع کیا۔’’ اس وقت ہم جہاں کھڑے ہیں یہاں سے ریلوے اسٹیشن 2 میل شمال کی جانب ہے‘‘۔
’’ جی ہاں ! ‘‘، میں نے بیساختہ جواب دیا۔’’ یہ عین ممکن ہے کہ نمبر 2036 اسٹیشن کے آس پاس چھپا کسی ریل گاڑی کا انتظار کر رہا ہو، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اسٹیشن کے مخالف سمت گیا ہو گا۔بہرحال ۔۔۔‘‘۔
’’یہاں چیف نے تین پارٹیاں ترتیب دیں‘ ‘۔
’’ تم ایسا کروکہ اسٹیشن کی جانب چلے جاؤ‘‘، میری طرف دیکھتے ہوئے کچھ توقف کے بعدچیف نے کہا ‘‘۔
’’ جیسا کہیں گے میں ویسا کرنے کو تیار ہوں۔اس بہانے اسٹیشن ماسٹر اور اُن کے عملے سے بھی ملاقات ہو جائے گی‘‘۔
’’ ٹھیک ہے! ‘‘، چیف نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔’’ پھر تم اکیلے ہی ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے جاؤ۔یہ اسٹیشن جانے کا مختصر ترین راستہ ہے‘‘۔
’’تو میں نے پٹری کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔گو کہ دھندختم ہو چکی تھی لیکن پھر بھی رات کافی تاریک تھی تاہم کچھ ہی دیر بعد میری آنکھیں رات میں پٹری کی مدہم چمک کی عادی ہو گئیں۔ یکساں اورمناسب رفتار سے چلتے رہنے کی وجہ سے میں نے اچھا فاصلہ طے کر لیا۔ چلنے کے لئے میں نے اپنے دائیں ہاتھ والی ریل کی پٹری کا انتخاب کیا تا کہ سامنے سے آتے ہوئے ریل کے انجن کی روشنی دور ہی سے نظر آ سکے۔ ابھی تک سب ٹھیک تھاکہ مجھ سے ایک بے وقوفی ہو گئی۔میں نے ہاتھ میں پکڑی بھری ہوئی رائفل کاندھے سے لٹکا لی تا کہ سگریٹ سُلگا سکوں‘‘۔
’’ مجھے سگریٹ پیئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ اوپر سے خنکی کی وجہ سے سردی بھی محسوس ہو رہی تھی ۔ ایسے میں مجھے سگریٹ کی طلب ہوئی۔اور جیسا کہ جناب ! آپ جانتے ہیں تمباکو نوشی کے عادی شخص کے لئے وہ وقت کتنا مشکل ہوتا ہے ۔ پھر میں نے صبح سے ایک ہی سگریٹ پیا تھا۔بہر حال میں نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور ماچس نکالی۔ بد قسمتی سے اُس میں صرف ایک ہی دیا سلائی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی اور میں اس کی موجودگی میں اپنی قیمتی اکلوتی دیا سلائی ضائع کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا۔میں کسی سائے یا اوٹ کی تلاش میں پٹری پر بڑھتا رہا۔اچانک مجھے اندھیرے میں پٹری کے بالکل قریب ایک کُٹیا نما کوئی چیز نظر آئی۔اُس کا دروازہ پٹری کی طرف تھا۔میں پٹری سے نکل کر اُس کی طرف بڑھا ۔دروازے کے قریب ہو کر میں نے دیا سلائی نکالی اور اسے ہوا سے بچا نے کے لئے ذرا اور آگے کو جُھکا تو دروازہ میرے وزن کو برداشت نہ کر پایا۔اچانک دروازہ کھلا اور میں اپنی ہی جھونک میں اندر جا پڑا۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور میں زمین پر جا پڑا۔گرتے گرتے بھی کھلے دروزے سے آتی ملگجی روشنی میں مجھے قیدی نمبر 2036 کا منحوس چہرہ نظر آ گیا۔اِس سے پہلے کہ میں سنبھلتا ، اُس نے مجھ پر چھلانگ لگائی اور میری گردن کو اپنی آہنی گرفت میں لے لیا۔میں نے دفاع کی بہت کوشش کی لیکن میں اس کے شکنجے سے خود کو آزاد نہ کرا سکا‘‘۔
’’ اوہ ! یہ تم ہو ! ‘‘، مغلظات بکتے ہوئے اُس نے کہنا شروع کیا۔’’ میں نے تو تمہارا حساب چکانا ہے اور اِس سے بہتر موقع اور کیا ہو گا !‘‘۔
’’ کارِ سرکار میں مداخلت تمہیں بہت مہنگی پڑے گی‘‘۔میں نے اُس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی۔
’’ ہا ہا ہا ! ‘‘، اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔’’ وقت وقت کی بات ہوتی ہے ۔اب میں داروغہ اور تم قیدی ہو ! ہا ہا ہا ‘‘۔
’’اسی کشمکش میں ہم کھسک کر باہر آ گئے اور اچانک میری ہتھکڑی میری جیب سے پھِسلی اور ایک چھنکار کے ساتھ ریل کی پٹری پر جا گری۔ ہتھکڑی دیکھ کر نمبر 2036 کی آنکھوں میں چمک آئی اور اُس کو فوراََ اُٹھا لیا‘‘۔
’’ بہت خوب ! تو یہ زیورات تم مجھے پہنانے کے لئے لائے تھے۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ تمہارے ہاتھوں میں زیادہ سجیں گے۔ تمہیں بند کرنے کے لئے اب یہاں کوئی کال کوٹھری تو ہے نہیں ۔۔۔لہٰذا کوئی اور انتظام کرنا پڑے گا‘‘۔
’’ اُس نے پورا زور صرف کرتے ہوئے مجھے پٹری پر گرا دیا۔
’’ اب تم میرے رحم و کرم پر ہو ‘‘۔اُس نے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے کہا۔’’ میں چاہتا توتمارے سر پر اپنے ہاتھ کی ایک ہی ضرب سے تمہارا کام تمام کر سکتا تھا۔لیکن میں قتل کرنا نہیں چاہتا۔یہ کام میں اس پٹری پر آتی ہوئی ریل گاڑی پر چھوڑتا ہوں۔ہا ہا ہا ! تم سمجھ رہے ہو نا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ! جیل میں رہتے ہوئے ہم قیدیوں نے اور کچھ حاصل کیا یا نہیں البتہ دن بھر میں گنتی کی آنے اور جانے والی ٹرینوں کے اوقات ازبر ہو گئے ہیں۔ میرے مطابق شاید گھنٹے بھر میں ریل گاڑی آنے والی ہے‘‘۔
’’ مجھے دہشت زدہ کرتے ہوئے بڑی مہارت سے اُس نے مجھے ایک ہاتھ سے قابو کیا اور دوسرے ہاتھ سے میرے بائیں ہاتھ میں ہتھکڑی کا ایک کڑا بند کر دیا۔میرا یہ ہاتھ پٹری کے اندر لکڑی کے تختوں پر تھا۔پھر اُس نے پھرتی سے دوسرے کڑے کو پٹری کے نیچے سے گزارتے ہوئے میرے دائیں ہاتھ کو اس سے جکڑ دیا۔اب میرے دونوں ہاتھ پٹری کے ساتھ دائیں بائیں بندھ گئے اور میں بے بس ہو گیا۔اُس نے اپنے ہاتھ جھاڑے اور ایک کمینی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا:’’ کیا خیال ہے جناب ! اب آپ کے پاؤں بھی نہ باندھ دوں؟‘‘۔یہ کہہ کر وہ کُٹیا میں داخل ہوا اور فوراََ ایک رسی کا ٹکڑا لے آیا۔غالباََ اُس نے پہلے ہی اس پر نظر رکھی ہوئی تھی۔خیر ! اب اس نے میری ٹانگیں لکڑی کے تختوں پر سے گزار کر دوسری طرف رکھ دیں۔یہاں اُس نے میری ٹانگوں کو رسی سے لوہے کی پٹری کے ساتھ باندھ دیا۔پھر میری جیبوں کی تلاشی لی۔سب سے پہلے ہتھکڑی کی چابی نکالی اور دور پھینک دیا۔ جو بھی روپے پیسے نکلے اپنے قبضے میں کر لئے۔ ایک رومال جو میری جیب سے برآمد ہوا اُس کو ہاتھ میں لے کر کہنے لگا کہ شاید تم ڈر اور خوف سے چیخ پکار نہ کرو اِس لئے تمہارے ہی رومال سے تمہارا منہ باندھنا ضروری ہو گیا۔کم بخت نے بے رحمی سے میرا منہ بھی باندھ دیااور ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ مرتے مرتے بھی ایک ضرورت مند کی پیسوں سے مدد کرتے گئے۔تمہیں یاد تو ہو گا میں نے کہا تھا کہ جب بھی مجھے موقع ملا میں ۔۔۔خیر چھوڑو پچھلی باتیں ! مجھے اگر جلدی نہ ہوتی تو ریل کے انجن سے تمہارا انجام ضرور دیکھتا۔اور ہاں یہ رہی تمہاری بھری ہوئی سرکاری رائفل۔ اب میں اس سرکاری رائفل کو کیالئے لئے پھروں گا۔البتہ تم اپنی اس رائفل کو مرتے مرتے حسرت سے دیکھتے جانا‘‘۔ ’’ یہ کہتے ہوئے الوداعی مغلظات بکیں اور ہنستا ہوا اندھیرے میں غائب ہو گیا‘‘۔
’’ اب میری صورتِ حال یہ تھی کہ میں اوندھے منہ عموداََ پٹری پر لیٹا ہوا تھامیرے ہاتھ پاؤں دونوں پٹریوں سے بندھے ہوئے تھے اور 11 بجے آنے والی ریل گاڑی میرے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی تھی۔اور اس وقت دس بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔اور ہاں !! ایک بات تو رہ گئی میری کلائی کی گھڑی کا مذاق اُڑاتے ہوئے وہ بد بخت کہہ گیا تھا کہ ایسی کھٹارا اور دقیانوسی گھڑی مرتے وقت تمہارے ہاتھ میں ہی ہونی چاہیے۔ بہر حال۔۔۔میں نے اپنے حواس پر قابو پایا، خود کو تسلی دی کہ ابھی پچاس منٹ باقی ہیں اور کچھ کر گزرنے کے لئے یہ وقت کافی ہے۔میں سب سے پہلے اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے پاس اپنا منہ لے کر گیا اور ذرا سی جد و جہد کے بعد اپنا منہ رومال سے آزاد کرا لیا۔پھر میں نے پیروں کی طرف توجہ دی ۔نمبر 2036 نے میرے پیروں کو جب پٹری کے ساتھ باندھا تھا تو رسی کو پٹری کے گرد بل دیا تھا۔یہ میں جانتا تھا کہ ریل کے پہیوں کی رگڑ کی وجہ سے پٹری کے کنارے چھری کی دھار جیسے ہو جاتے ہیں۔میں نے پیروں کو حرکت دی تو خوش قسمتی سے وہ حرکت کرنے لگے یعنی نمبر 2036 نے اپنی حد سے زیادہ خود اعتمادی دکھاتے ہوئے رسی کی مضبوط گرہ پر توجہ نہیں دی تھی۔ میں نے اپنے پاؤں کی حرکت تیز کر دی ۔رسی پٹری سے رگڑ کھاتی رہی اور بہت وقت گزر گیااور کامیابی نصیب نہ ہوئی۔پھر بھی میں مایوس نہ تھا۔اتنے میں دور اسٹیشن سے ریل گاڑی کی سیٹی کی ہلکی سی آواز آئی۔گیارہ بجنے ولے تھے۔اِس آواز نے میرے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔پیروں کی حرکت میں تیزی کے ساتھ جوش بھی شامِل ہو گیا‘‘۔
’’ اتنے میں میرے ہتھکڑی بندھے ہاتھوں نے پٹری پر بھاری ریل گاڑی کی لرزش محسوس کی۔اور ساتھ ہی دور سے انجن کی مدھم روشنی نظر آنے لگی۔ریل گاڑی اور مجھ میں اب منٹوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ میری پیشانی پسینے سے شرابور ہو گئی۔میں نے اپنا آخری زور لگایااور اچانک ایک جھٹکے سے میرے پیر آزاد ہو گئے۔میں نے پُھرتی سے اپنی ٹانگوں کو سمیٹا اور پورا زور لگا کر اپنا پورا جسم پٹری سے باہر اُچھال دیا۔میں اب پٹری کے متوازی لیٹ گیا اور دائیں ہاتھ کو گُھماکر پٹری کے باہر رکھ دیا۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ میں بالکل پٹری کے ساتھ لمبا لیٹا ہوا تھا ۔دونوں ہاتھ بھی باہر تھے اور ہتھکڑی کے دونوں کڑوں کو ملانے والی زنجیر پٹری کے اوپر تھی اور ریل گاڑی میرے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔میں نے اپنا سر اپنے بازوؤں میں دبا لیااور باقی جسم کو جتنا پٹری سے دور کر سکتا تھا کیااور دَم سادھ لیا‘‘۔
’’ ایک زور دار گرج کے ساتھ انجن پھر ریل کے ڈبے ایک ایک کر کے میرے قریب سے گزرنے لگے۔یہاں تک کہ آخری ڈبہ بھی گزر گیا پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔شاید ایک صدی گزر گئی تھی۔میں نے سوچا شاید اِس حادثے میں میرے ہاتھ کام آ گئے ہوں ۔ میں نے اپنی انگلیاں محسوس کرنے کی کوشش کی ۔ ہاں !! یہ میری انگلیاں ہی تھیں جو حرکت کر رہی تھیں اور میں اُن کی حرکت محسوس کر رہا تھا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔میں نے دھیرے دھیرے اپنا سر اُٹھایا۔اپنے بازو سمیٹے ۔ ریل گاڑی کے پہیوں نے ہتھکڑی کی زنجیر اور خود ہتھکڑی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھامیں صرف اپنے جسم کی سلامتی کو محسوس کر رہا تھا۔بالآخر میں نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور احساسِ تشکر غم و غصے میں بدلنے لگا‘‘۔
’’ مجرم یقیناََ اسٹیشن کی طرف گیا تھااور اب وہ مال گاڑی کے کسی ڈبے میں چھپنے کی کوشش کرے گا۔میں ایک جذبے کے ساتھ اُٹھا۔احساسِ فرض ہر چیز پر حاوی ہو گیا۔میں نے تقریباََ دوڑتے ہوئے اسٹیشن کا رُخ کیا اور کچھ ہی دیر میں ریلوے گارڈکے دفتر میں اُس کی مدد طلب کرنے پہنچ گیا۔جب تک وہ آدمیوں کو لے کر آتامیں عمیق نظروں سے اسٹیشن اور اُس کے اِرد گِرد کا جائزہ لینے لگا۔دور دو تین ٹرک ترپال سے ڈھکے کھڑے تھے۔اچانک ایک ٹرک کے پاس کوئی سایہ سا لہرایا۔ہلکی سی ترپال اُٹھی اور سایہ اُس میں غائب ہو گیا۔ یہی وقت تھا جب گارڈ آدمیوں سمیت پہنچ گیا۔میں نے انہیں صورتِ حال اور خاص طور پر نمبر 2036 کی جسامت اور طاقت سے آگاہ کیا ۔ہم نے خاموشی سے ٹرک گھیرے میں لے لیا۔اِس سے پہلے گارڈ قریب ہی واقع ریلوے پولیس چوکی کو نمبر 2036 سے متعلق مطلع کر چکا تھا۔ہماری اس کاروائی کے دوران پولیس بھی پہنچ گئی اور کچھ ہی دیر میں نمبر 2036پولیس کی تحویل میں تھا‘‘۔
میرا نیا دوست یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔مجھ سے رہا نہ گیا اور بیساختہ سوال کر دیا:’’ اپنے مجرم کو بے بس دیکھ کر تمہارے دل میں کیا خیال آیا؟‘‘۔
’’ اب میں کیا بتاؤں ! گرفتار ہوتے ہوئے بھی نمبر 2036 نے نہ صرف مجھے گالیوں سے نوازا بلکہ میرے منہ پر تھوکا بھی۔میں دین کا کوئی بڑا عالم تو نہیں لیکن پتا نہیں اُس وقت مجھے کیا ہوا کہ میرا سارا غصہ ختم ہو گیا اور میں نے کچھ نہیں کیا۔کیوں اُس وقت وہ بے بس تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے ستمبر 2018 کےصفحہ 79 سے 86 پر شائع ہوئی۔
Comments
نہیں لکھی ہے۔ یقینا شاہد صاحب داد کے مستحق ہیں۔ میں کہوں گا کہ انہیں چاہیے کہ وہ اس قسم کی کہانیوں کے ترجموں پر توجہ دیں۔ یہ مختصر کہانیاں دلچسپ ہیں اور قاری کا بہت وقت بھی نہیں لیتیں۔
میں آپ کی اس حوصلہ افزائی کا بہت مشکور ہوں۔
کوشش کرون گا کہ آپ کے معیار پر پورا اُتروں۔
نوازش،
شاہد لطیر