Kitabcha Ya " Kutta Bacha " .... Hairaan Hoon Dil Ko Rowoon Keh Pitoon Jigar Ko Main
کتابچہ یا ’’ کُتّا بچہ ‘‘ ۔۔۔ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
تحریر شاہد لطیف
5 ستمبر کی سہ پہر خاکسار کے اسکول کے زمانے کے ہم جماعت طارق سعود قدوسی نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا ۔اس میں جیو نیوز کے ایک نیوز کاسٹر اسکر ین پر کہہ رہے ہیں : ’ برطانوی فوجیوں کی خودکشی کی روک تھام کے لئے راہنما ’’ کُتّا بچہ ‘‘ فراہم کر دیا گیا ‘۔ اسکرین میں نیچے اسی خبر کی پٹی چل رہی ہے کہ برطانوی فوجیوں کی خودکشی کی روک تھام کے لئے راہنما کتابچہ فراہم کر دیا گیا ۔خبر کے دوران اُن فوجیوں کی ایک مختصر ویڈیو بھی دکھلائی گئی۔ طارق سعود قدوسی نے اس ویڈیو کلپ کے ساتھ یہ جملہ لکھا تھا : ’’ بھائی ! اِن کی اصلاح کا سوچیں ورنہ اُردو زبان کا اللہ ہی حافظ ! ‘‘
یہ قطعاََ ہنسی مذاق میں اُڑا دینے والی بات نہیں! اِس سے ملتی جلتی حواس باختہ اور ناقابلِ معافی غلطیاں مختلف چینلوں میں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اِن میں’’ تلفظ ‘‘ کی ٹانگ توڑنا سرِ فہرست ہے۔ بھارتی فلموں ، ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں میں جس طرح کی زبان بولی جاتی ہے اُسی طرح کی زبان ہمارے ہاں کے یہ نیوز کاسٹر پاکستانی چینلوں پر بولتے نظر آتے ہیں۔کم سے کم اِس قسم کی باتیں اُس ٹی وی چینل کو زیب نہیں دیتیں جو اپنے آپ کو ملک کا سب سے بڑا نیوز چینل کہلواتا ہے !
میں 80 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے منسلک رہا۔پی ٹی وی کے تمام مراکز میں ایک شعبہ’ پریزنٹیشن ‘ ہوتا تھا ۔کراچی مرکز میں اُس کے انچاج قریش پور تھے۔ اناؤنسر اور نیوز کاسٹروں کا تلفظ، زیر زَبر اور اضافت پر نظر رکھنا اِس شعبہ کے فرائض میں شامل تھا ۔آئیے مزید پیچھے کی جانب چلتے ہیں۔ 1965 کی جنگ کے فوراََ بعد خاکسار نے ریڈیو پاکستان کراچی کے بچوں کے پروگرام میں حصہ لینا شروع کیا۔ میں نے وہاں چھوٹے بڑے اور نامور گلوکاروں کو ریکارڈنگ سے پہلے جناب کرار نوری صاحب کے پاس تلفظ ، زیر زَبر اور اضافت کی نوک پلک سنوارتے دیکھا۔نوری صاحب یہ بھی دیکھتے تھے کہ گیت و غزل میں سانس لینے کے لئے کہیں کوئی لفظ اور اضافت تو نہیں ٹوٹ رہی؟ گلوکار لفظ کیسے توڑتا ہے اُس کی مثال پیش کرتا ہوں ۔ گلوکارہ مالا کی آواز میں فلم ’’ انسانیت ‘‘ ( 1967 ) کا گیت بہت مشہور ہوا تھا: ’ محبت میں سارا جہاں جل گیا ہے، زمیں جل گئی آسماں جل گیا ہے۔۔۔‘ مذکورہ گیت میں مالا نے اِس کو یوں ادا کیا: ’ محبت میں سا را جہاں جل گیا ہے۔۔۔‘ سا کے بعد سانس لی اس طرح لفظ سا را ٹوٹ گیا۔ اگر وہ لفظ سارا سے پہلے سانس لیتیں تو لفظ سارا نہیں ٹوٹتا اور مصرعے کی خوبصورتی اور مو سیقی کی لَے قائم رہتی۔آئیے اب اضافت کی بات کرتا ہوں :
اُستاد قمر ؔ جلالوی کی مشہورِ زمانہ غزل ہے:
مریضِ محبت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکرِ شامِ الم جب کہ آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے
دوسرے مصرعے میں دو اضافتیں ہیں: ذکرِ شام اور دوسری شامِ الم؛ وہ بھی ساتھ ساتھ۔اِس غزل کو آپ انٹر نیٹ پر منی بیگم کی آواز میں سنئیے۔منی بیگم نے شا مِ الم میں اضافت توڑتے ہوئے لفظ شام کی اضافت یعنی ’ شامِ ‘ کے بعد سانس لیا جس سے اضافت ٹوٹ گئی اور مصرعے کا لطف جاتا رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ لفظ ذکر سے پہلے اور لفط الم کے بعد دونوں جگہ سانس لیتیں ۔اس سے دونوں اضافتیں قائم رہتیں اور موسیقی کی لَے بھی برقرار رہتی۔ریڈیو پاکستان میں اِن چھوٹی چھوٹی لیکن اہمیت کی حامل باتوں کا بے حد خیال رکھا جاتا تھا۔ اُدھر ریڈیائی ڈراموں ، فیچر اور دوسرے پروگراموں کی ریہر سلوں میں بھی کم و بیش ان باریکیوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔ریڈیو اناؤنسر کے تو ایک ایک لفظ پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ جب ہی تو ریڈیو پاکستان کا ایک معیار تھا۔
جب پاکستان ٹیلی وژن قائم ہوا تو شروعات میں مذکورہ شعبہ بہت محنت سے اناؤنسروں اور فنکاروں کو بہتر سے بہتر کام کرنے میں خود بھی سخت محنت کرتا اور کرواتا تھا۔ اب ۔۔۔ اب پاکستان ٹیلی وژن کا بھی دیگر چینلوں کی طرح ہی کا معیار رہ گیا ہے۔جب کسی بھی شعبہ میں اہل شخص کے بجائے سفارشی اور نا اہل شخص بھرتی ہو گا تو۔۔۔ پہلے مجال تھی کہ کوئی کمپئر، نیوز کاسٹر انگریزی اُردو کی کھچڑی بول رہا ہو ۔اگر اتنے سخت معیار کے بعد بھی کوئی احمقانہ بات آن ایئر چلی جاتی تو ایک شخص کی نہیں تقریباََ پوری شفٹ کی انکوائری ہوجاتی تھی ۔
اِس ’ کُتا بچہ ‘ کی خبر کا آن ائیر ہو نا ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ایسی احمقانہ حرکات لا علمی میں ہی زیادہ ہوتی ہیں۔سوال ہے کیسی لا علمی؟؟؟ کیا مذکورہ نیوز کاسٹر عام سمجھ بوجھ سے بھی عاری ہے؟ جیو نیوز نے ٹی وی چینل دیکھنے والوں کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ نئی حکومت کے نئے وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری صاحب نے اِس بے ہودگی پر کوئی ایکشن نہیں لیا؟ یا وزیرِ اطلاعات کو وہاٹس ایپ پر گردش کرتی ہوئی اتنی احمقانہ خبر کی اطلاع ہی نہیں !
یہ قطعاََ معمولی بات نہیں۔۔۔ اگر آج اس خبر کی باز پُرس نہ کی گئی اور آئندہ ایسا نہ ہونے کی پیش بندی نہ کی گئی تو واقعی مذکورہ نیوز چینل اُردو زبان کا بیڑا غرق کر دے گا۔ اتنے دھڑلے سے نیوز کاسٹر نے ایک نہیں دو مرتبہ کُتّا بچہ ادا کیا۔ جیو نیوز کے اس نیوز کاسٹر کی طرح کیا اُس وقت نیوز روم میں تمام افراد ہی نا اہل اور غیر پیشہ ور تھے؟ کیا مذکورہ چینل میں اُس وقت ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو اس حماقت کو روکتا۔۔۔اب جب سوشل میڈیا میں اس چینل کی مٹی پلید ہو رہی ہے تو عوام کی اشک سوزی کے لئے چینل انتظامیہ نے کیا ایکشن لیا؟ ابھی تک ایسی کوئی بات منظر پر نہیں آئی۔۔۔
اس سلسلے میں اس کم تر کی چند تجاویز ہیں: پہلی یہ کہ ٹی وی چینلوں میں کسی ذمہ دار اور معقول شخص کی یہ ڈیوٹی ہو کہ ہر ایک نئی خبر کا متن خود بھی پڑھے اور نیوز کاسٹر سے اپنی نگرانی میں پڑھوائے۔یہ کہنا کہ اب تو زمانہ تیز ہو گیا یہ پرانے زمانے کی حکمتِ عملی ہے۔۔۔ یہ بیکار دلیل ہے۔تیز زمانہ ہوتا تو روزانہ ہی ہر دوسرے منٹ کے بعد ایک نئی خبر نشر ہوتی۔آپ مذکورہ چینل کو ’ ٹِک ‘ کر دیکھئے،ایک ہی خبر بار بار دہرائی اور دکھلائی جا تی ہے۔اتنا زیادہ کہ خود آپ کو حفظ ہو جاتی ہے۔دوسری یہ کہ کوا چلا ہنس کی چال والی تقلید چھوڑ کر جو بات کہنا ہو وہ اُردو ہی میں کہی جائے۔نیوز کاسٹر ، کمپیئر اور اینکروں کا انگریزی اُردو ملغوبہ ختم کروایا جائے۔تیسری اور آخری تجویز یہ ہے کہ یہ چینل اپنے نئے پرانے نیوز کاسٹروں ، کمپیئروں اور اینکر پرسنوں کی تربیت کا اہتمام کرے۔تھوڑی سی محنت لگے گی جس کے نتیجے میں اس آئے دن کی احمقانہ غلطیوں سے جان چھوٹ جائے گی ۔اب یہ تربیت کیسی ہو گی؟ کون کرے گا۔۔۔ یہ غیر ضروری بحث ہو گی۔کیوں کہ یہ کیسے مان لیا جائے کہ تمام چینلوں میں صحیح الدماغ لوگ نا پید ہو گئے!!! یہ کام اگر کرنا چاہیں تو یہ چینل اپنے طور پر خود کروا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا میں نشر ہونے والی جیو نیوز کی خبر کے خلاف ہونے والے خاموش احتجاج کی طرح کیا ہم بھی اپنی اِس تحریر کو بھینس کے آگے بین بجانا ہی سمجھیں؟ فواد چوہدری صاحب !! کیا آپ سے اس سلسلے میں کوئی توقع رکھی جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
Comments