تمغہ حسنِ کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ گیت نگار مسرور ؔ انور 5جنوری1941 سے یکم اپریل 1996




تمغہ حسنِ کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ

گیت نگار مسرور ؔ انور

5جنوری1941 سے یکم اپریل 1996

تحریر شاہد لطیف

سوہنی دھرتی کے حوالے سے ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے جو مسرور ؔ انور کاہے۔ اُن کے ساتھ راقم نے خاصا وقت گزارا ۔یہ روز مرہ معاملات میں کیسے تھے؟ گھر میں بحیثیت باپ اور دیگر افراد سے تعلقات میں کیسے تھے؟ ایک اِنسان کے ناطے  راقِم نے اُن کو کیسا پایا ؟ مختصر عرض کرتا ہوں ۔

خاکسار، پاکستان ٹیلی وژن کا مشکور ہے کہ اُس کے طفیل، فِلم ، ٹی وی، ریڈیو او ر اسٹیج کی کئی شخصیات کے ساتھ کام کرنے ، اور اُن کے پاس بیٹھنے کا موقع مِلا۔ 1981 کا پورا سال میرے لئے بہار ہی بہار رہا۔وہ ایسے کہ پہلے ہمارے ملک کے نامور موسیقار نثار بزمی سے میری شناسائی ہوئی پھر اُن کی معرفت ایک ایسی ہنس مُکھ شخصیت کا ساتھ مِلا، جِس کو زمانہ مسرور ؔ انور کے نام سے یاد کرتا ہے۔ انہوں نے بزمی صاحب کی کئی ایک یادگار فلموں کے گیت لکھے تھے۔ میں ایک مرتبہ لاہور گیا، وہاں حضرت کو فون کیا، موصوف بہت خوش ہوئے اور اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ وہ اتنی گرم جوشی سے ملے کہ مجھ کو شرمندگی ہونے لگی۔بقول صوفی غلام مصطفےٰ تبسم: ’’ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔۔۔‘‘۔

مسرور ؔ بھائی کمال کی شخصیت تھے۔ وہ سب لوگوں سے اِسی طرح ملتے تھے۔بس پھر اُس دِن کے بعد، جب بھی آپ کراچی آتے، مجھ کو ضروربتاتے۔میں بھی جب لاہور جاتا، آپ سے لازماََ ملاقات ہوتی۔ اُن کی معرفت، لاہور کے مشہور فنکار ، پلے بیک گلوکاران، موسیقار، فلمی شعراء، صدابندی اور دیگر شعبوں کے ہنر مندوں سے ملاقات ہو تی۔ 

ایک دل چسپ بات یاد آ رہی ہے جس میں مسرور ؔ بھائی کی وجہ سے راقِم نے ا نہونی کو ہونی بنا دیا ۔ وہ یہ کہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے کسی ڈ رامے کے لئے ادا کار ابراہیم نفیس درکار تھے۔ اِن کے نہ آنے سے ریکارڈنگ متاثر ہو رہی تھی ۔راقِم نے اُس وقت کے پروگرام منیجر مُحسن علی سے لاہو ر ایک فون کرنے کی اجازت مانگی۔مسرور ؔ بھائی سے درخواست کی کہ وہ نفیس بھائی کو ریکارڈنگ میں آنے کا کہیں۔اِس خاکسار کو علم تھا کہ مسرورؔ انور اور نفیس بھا ئی کی دوستی ، کراچی میں بننے والی فلم ’ بنجارن ‘ سے قائم تھی۔تو یہ انہونی اللہ کے کرم سے ہو گئی۔اور پی۔ٹی۔وی۔ کی انتظامیہ میں اِس کمتر کے وقار میں اضافہ ہو گیا۔

پرویز ملک، وحید مراد اور سہہل رعنا کے بنائے گئے فلمساز ادارے ’ فلم آرٹس‘ میں مسرورؔ انورکو لکھنے کی ذمہ داری دی گئی۔ ادارے کی پہلی فلم ’ ہیرا اور پتھر‘( 1964)گولڈن جوبلی رہی۔کہانی نویس، مکالمہ اور گیت نگار مسرور ؔ انور، موسیقار سہیل رعنا اور ہدایت کار پر ویز ملک ، یہ ایک عرصہ کامیابی کی اکائی ر ہی۔ کراچی کی بنی ہوئی فلمیں ، جیسے’ ارمان‘، ’ دوراہا‘، ’ احسان ‘وغیرہ اِس کی مِثال ہے۔
مسرورؔ انور نے فلمی صنعت کو کئی ایک کامیاب فلمیں لکھ کر دیں جیسے: گولڈن جوبلی فلم ’ دل میرا دھڑکن تیری‘ (1968 ) ، ’ عشقِ حبیب‘ (1965 )، ’پھول میرے گلشن کا‘ ( 1974) اس فلم کے مکالمے بھی مسرورؔ انور نے لکھے۔ گولڈن جوبلی فلم ’جب جب پھول کھلے‘ (1975 )،گولڈن جوبلی فلم ’محبت زندگی ہے ‘ ( 1975)، گولڈن جوبلی فلم ’ صاعقہ‘(1968 ) کی کہانی علی سفیان آفاقی کے ساتھ انہوں نے بھی لکھی،البتہ مکالمے اور گیت مسرورؔ انور کے تھے ،ڈائمنڈ جوبلی فلم’ قربانی‘ (1981 )،سلور جوبلی فلم’ تلاش‘ (1986 ) ، پلاٹینم جوبلی فلم ’ ہم دونوں‘ ( 1980)یہ فلم ’آئینہ‘( 1977)کے بعد دوسری کامیاب ترین اردو فلم ہے جو صرف کراچی میں 166 ہفتے چلی۔ ’ آئینہ ‘ 401 ہفتہ چلی تھی ۔گولڈن جوبلی فلم ’ کرن اور کلی‘ (1981 ) ۔

مسرورؔ انور کی کیا کیا باتیں لکھوں ! ایک اور بات یاد آئی۔پاکستان ٹیلی وژن کے راولپنڈی ایوارڈ منعقدہ 1981 کے سلسلہ میں مجھے موسیقی کے شعبہ کا نگران مقرر کیا گیا۔ اس لائیو اسٹیج شو کے لئے میری نظر میں موسیقار کریم بھائی المعروف کریم شہا ب الدین بہترین انتخاب تھے۔ ہم دونوں میں یہ طے ہوا کہ لاہور کی فلمی صنعت کے سازندوں کو شامل کرنا چاہیے ۔مسرور ؔ بھائی کو یہ بات بتلائی گئی اور کراچی میں بیٹھ کر پنڈی کے ایوارڈ کا مسئلہ براستہ لاہورحل کر دیاگیا۔ راقِم کی نگرانی میں موسیقی کا شعبہ ، توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا ۔ڈائریکٹر پروگرامز ماہ رُخ زبیر ( ، گلوکارہ نجمہ نیازی جو پلے بیک سنگر ناہید نیازی کی بہن ہیں ) ، ڈائرکٹر ایڈمنسٹریشن اینڈ پرسونیل زمان علی خان اور عشرت انیس انصاری ( آخری دو حضرات نے کراچی مرکز میں راقِم کی تربیت بھی کی تھی) ا ور دیگر ہیڈ آفِس کے افسران کی نظر میں خاکسار کی عزت دو چند ہو گئی اور پی ٹی وی کے اعلیٰ حکام میں یہ بات عام ہو گئی کہ موسیقی کا کوئی کام ہو، کوئی رُکاوٹ ہو، فکر کی کوئی بات نہیں۔۔۔کراچی میں فلاں شخص موجود ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا احسان اور مسرور ؔ بھائی کی بے لوث مدد تھی۔

اِن چنیدہ واقعات کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تو اُس وقت پی۔ٹی۔وی میں ایک معمولی معاون پروڈیوسر تھا اور مجھے اُن سے بھر پو ر فوائد پہنچے ۔ اُنکا کام یہ ہوا کرتا تھا کہ اگر کسی کو اُن کی ذات سے کوئی فیض پہنچتا ہے تو اُس کا ہاتھ پکڑ کر چل دیا کرتے ۔ میری طرح آج بھی ایک عالم اُنکا معترف ہے ۔

مسرور ؔ انور جب دوسروں پر بغیر کسی لالچ کے مہربان تھے تو لازماََ اُن کو ایک ذمہ دار شوہر اور ایک نہایت شفیق باپ بھی ہونا چاہیے تھا۔میں نے اُن کو اِس سلسلہ میں بہت متوازن پایا۔ اُنہیں ہم سے بچھڑے 20 سال ہو گئے۔آج بھی آپ اُن کے اکلوتے بیٹے ، احمد فراز سے یہ سوال کر سکتے ہیں۔وہ لازماََ کم و بیش وہی کہیں گے جو راقِم نے دیکھا اور محسوس کیا ۔ 

کراچی میں گیت نگار شبیؔ فاروقی کے بعد، لاہور میں مسرور ؔ انور کو دیکھا جو اپنے گیتوں کی صدابندی کے وقت ، ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں ضرور موجود ہو تے تھے۔ صدابندی کے دوران، کبھی صرف ایک لفظ کو آ گے پیچھے یا تبدیل کرنے سے گلوکار/ گلوکارہ کو سانس لینے یا توقف کرنے میں آسانی ہو جا تی ہے۔ 

مجھے مسرورؔ بھائی کے ساتھ فلمسازوں، تقسیم کاروں اور ہدایت کاروں کے دفاتر جانے اور وہاں ہونے والی گفتگو بغور سُننے کا کئی دفعہ اتفاق ہوا ۔فلمی کہانیوں، منظر ناموں، گیتوں اور مکالموں کی باتوں کے علاوہ، پچھلے پیسوں کی عدم اد ائیگیوں کا بھی ذکر ہوتا جِن کی ایک سے زیادہ دفعہ وعدہ خلافی ہو چکی ہوتی تھی۔ایسے حالات میں بھی مسرور ؔ بھائی کی وہی مسکراہٹ قائم رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے مسرورؔ انور کو صحیح معنوں میں ’ مسرور ‘ رکھا ہوا تھا۔زمانے کے سرد و گرم، مالی معاملات اور دیگر ذاتی مسائل کا کبھی ذکر نہیں کیا ؛ بلکہ ہم جیسے عام سے لوگوں کے ننھے مُنے مسائل حل کر کے تمام وقت شاداب رہا کرتے ۔وہ ایک عملی انسان تھے۔فلمی صنعت میں ہونے والی کسی گروہی سیاست / لابی کے حصہ دار نہیں بنے ۔چونکہ آپ کو اپنے کام پر مکمل گرفت تھی لہٰذا آخر وقت تک استقامت اور دل جمعی سے کام کیا۔

موسیقاردیبو بھٹہ چاریہ کے ساتھ مسرورؔ انور نے پہلا فلمی گیت فلم ’ بنجارن ‘ کے لئے لکھا تھا۔ فلم ’ بدنام ‘ کی موسیقی بھی انہوں نے ترتیب دی تھی ، سہیل رعنا، لال محمد اقبال، امجد بوبی، خلیل احمد، ایم۔اشرف، روبن گھوش، ناشاد، نثار بزمی، مُحسن رضا خان اور دوسر ے موسیقاروں کے ساتھ کئی مشہور گیت لکھے جو آج بھی نہ صرف عوام کی زبان پر رہتے ہیں بلکہ روز مرہ ضرب الامثال کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ جیسے :
فلم ’ الزام‘ ( 1972)میں ناشاد کی موسیقی میں صابری برادران کی قوالی :
آئے ہیں تیرے در پر تو کچھ لے کر جائیں گے
ورنہ اِس آستاں پہ یہ جاں دے کہ جائیں گے
فلم ’بے وفا‘( 1970)میں نثار بذمی کی موسیقی میں نورجہاں کا یہ گیت:
ابھی ڈھونڈ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری
کہ تُم آ گئے اچانک بڑ ی عمر ہے تمہاری
1965کی دوسری پاک بھارت جنگ میں آپ نے یہ مشہور قومی نغمہ لکھا :
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
قومی جذبہ سے سرشار یہ لازوال نغمہ ، مسرور ؔ بھائی نے موم بتی کی ہلکی روشنی کی مدد سے دورانِ جنگ، بلیک آوٹ میں لکھا تھا۔ مجھ کو یہ بات اُن کے صاحبزادے احمد فراز نے بتائی، جِن کو اُن کی تائی امّاں نے بتایا ۔ اگلی صبح وہ اِس نغمہ کو ریڈیو پاکستان کراچی لے کر گئے ؛ جہاں بہت کم وقت میں اُس کی دھن بنی اور مہدی حسن کی آواز میں صدا بند کر کے نشر کر دیا گیا ۔اِس قومی نغمہ کو بچوں کے نصاب میں شامِل کر لیا گیا ہے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ یہ دھن مہدی حسن نے خودبنائی تھی۔ 

اِسی طرح 1971کی تیسری پاک بھارت جنگ میں مسرورؔ انور نے ایک اور معرکہ مارا ۔ یہ تب سے لے کر اب تک ، ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔ اس نغمہ پر آپ کو بعد از مرگ تمغہِ حسنِ کارکردگی مِلا تھا۔ وہ نغمہ ہے:
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
اِ س نغمہ کو بھی ہمارے ملک کے نصاب میں شامِل کیا گیا ہے۔موسیقار سُہیل رعنا نے اس کی دھن بنائی ۔ اصل نغمہ شہناز بیگم کی آواز میں صدابند ہوا تھا۔بعد میں اس کو پاکستان کے سب ہی نامور فنکاروں نے پیش کیا۔

سو ہنی دھرتی کے حوالے سے ایک ضروری بات لکھتا چلوں کہ جناب اظفر رضوی صاحب ( م ) نے اپنی مشہورکتاب ’ میرے عالی جی ‘ میں یہ نغمہ جمیل الدین عالیؔ سے منسوب کر دیا جِس سے خاصی بے چینی بھی پھیلی تھی۔

اِن کے مقبول فلمی گیتوں کی ایک طویل فہرست بن سکتی ہے؛ ذیل میں چند گیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
1 ۔ پلاٹینم جوبلی فلم ’ ارمان‘ ( 1966) ۔ سہیل رعنا کی موسیقی میں اس گیت کو الگ الگ مالا اور احمد رشدی نے صدا بند کروایا :
اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم
2 ۔ کو کو کو رینا: فلم ’ ارمان‘ آواز احمد رشدی۔یہ گیت آگے چل کر ساری زندگی احمد رشدی کا پہچان گیت رہا۔
3۔فلم ’ بدنام‘( 1966)آواز ثریا ملتانیکر اور موسیقی دیبو بھٹہ چاریہ:
بڑے بے مروت ہیں یہ حُسن والے
کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
4 ۔ سلور جوبلی فلم ’ نصیب اپنا اپنا‘( 1970) موسیقی میرے اساتذہ لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال کی اور آواز احمد رشدی۔اس گیت پر احمد رشدی کو بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔
اے ابرِ کر م آج اتنا برس
اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں
5۔سلور جوبلی فلم ’ دوراہا‘ ( 1967) میں سہیل رعنا کی موسیقی میں یہ گیت اب تک مقبول ہے ،آواز مہدی حسن :
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
6۔سلور جوبلی فلم ’ جہاں تم وہاں ہم‘ ( 1968) : روبن گھوش کی موسیقی میں احمد رشدی اور مالا کی آوازوں میں یہ دوگانا سپر ہِٹ تھا :
مجھے تلاش تھی جِس کی وہ ہمسفر تُم ہو
میرے حسین خیالوں کی رہ گزر تم ہو
7۔گولڈن جوبلی فلم ’ آگ‘ (1967 ) میں نثار بزمی کو موسیقی میں یہ گیت سدا بہار ہیں: نورجہاں کی آواز :
بیتے دنوں کی یادوں کو کیسے میں بھلاؤں اے دل
پتھر بن کر پیار میں کب تک اپنا درد چھپاؤں
اور مہدی حسن :
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
اک روشنی اندھیرے میں بکھرا گیا کوئی
8 ۔گولڈن جوبلی فلم ’ خوشبو‘ (1979 ) میں ایم اشرف کی موسیقی میں مہناز کی آواز میں یادگار گیت:
میں جِس دِن بھلا دوں تیرا پیار دِل سے
وہ دن آخری ہو میری زندگی کا
9 ۔گولڈن جوبلی فلم ’ عندلیب‘ (1969 ) میں نثار نزمی کی موسیقی میں نورجہاں اور احمد رشدی کی آوازوں میں الگ الگ یہ گیت آج تک بے مثال ہے:
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے
چپ رہ کے بھی نظر میں ہیں پیار کے اشارے
10۔ پلاٹینم جوبلی فلم’ انجمن‘ ( 1970) کو 8 عدد نگار ایوارڈ ملے۔جن میں بہترین گیت نگار مسرورؔ انور، بہترین موسیقار نثار بزمی اور بہترین گلوکارہ رونا لیلیٰ کے ایوارڈ بھی شامل ہیں :
دل دھڑکے میں تجھ سے یہ کیسے کہوں
کہتی ہے میری نظر شکریہ
11۔فلم ’ مشکل‘ (1995 )امجد بوبی کی موسیقی میں تحسین جاوید کی آواز میں یہ گیت بہت مقبول ہوا:
دِل ہو گیا ہے تیرا دیوانہ اب کوئی جچتا نہیں
نادان ہے سمجھتا نہیں بِن تیرے رہتا نہیں
12۔ ڈائمنڈ جوبلی فلم ’ بوبی ‘ (1984 ) میں امجد بوبی کی موسیقی میں غلام عباس اور سلمیٰ آغا کی آوازوں میں الگ الگ یہ گیت بے حد مقبول ہوا:
اِک بار مِلو ہم سے توسو بار ملیں گے
ہم جیسے کہاں تم کو طلب گار ملیں گے
13۔ ڈائمنڈ جوبلی فلم ’پہچان‘ (1975 ) میں نثار بزمی کے یہ گیت اآج تک مقبول ہیں:
ناہید اختر کی آواز:
اللہ اللہ کیا کرو دُکھ نہ کسی کو دیا کرو
جو دنیا کا ملک ہے نام اسی کا لیا کرو
اور مہناز اور مہدی حسن کی آوازوں میں الگ الگ یہ گیت:
میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا
میری آنکھوں میں تیرا ہی رنگ رہے گا
مسرور ؔ بھائی ڈائری باقاعدگی سے لکھا کرتے تھے۔جو معلومات کا خزانہ اور خود اُن کے لئے گیتوں ، کہانیوں اور منظر نامہ لکھنے کے لئے مدد گار ہوتیں۔ایک مرتبہ کہنے لگے کہ یہ ڈائریاں اُن کے لئے خیالات، کہانیوں کے پلاٹ وغیرہ کا ایک سرچشمہ ہیں۔

مسرورؔ انور کو بعد از وفات، اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے
 تمغہِ حُسنِ کارکردگی سے نوازا جو اُن کی بیگم نے وُصول کیا۔یہ بھی اِتفاق ہے کہ نصرت فتح علی خان کی بیگم نے بھی اِسی تقریب میں اُن کا بعد از وفات تمغہِ حُسنِ کارکردگی وُصول کیا۔ گلو کارہ مہناز بھی اِس تقریب میں صدرِ پاکستان سےتمغہِ حُسنِ کارکردگی  وُصول کرنے کراچی سے آئی تھیں ۔ اِس خاکسار کو اعزاز حاصل ہے کہ مہناز نے میرے غریب خانے میں قیام کیا ۔ 

مسرورؔ انور نے غالباََ اب تک سب سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔آپ نے 17 مذ کورہ ایوارڈ حاصل کئے۔ مجھ کو یہ بات اِن کے صاحبزادے، احمد فراز نے بتلائی جو آجکل ’ جیو ‘ لاہور میں اہم ذمّہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

مسرورؔ انور کے کچھ نگار ایوارڈوں کی تفصیل:
فلم ’ صاعقہ‘ ( 1968) بہترین اسکرین پلے، فلم ’ صاعقہ‘ ( 1968)‘ بہترین گیت نگار، فلم’ انجمن ‘ (1970) بہترین گیت نگار، بہترین اسکرین پلے،فلم ’ قربانی‘ ( 1981) بہترین گیت نگار،فلم ’ بیوی ہو تو ایسی‘ (1982 ) بہترین گیت نگار،فلم ’ بوبی‘ (1984 )بہترین نغمہ نگار،فلم ’ بلندی‘ (1990 ) بہترین نغمہ نگار،فلم ’ آج اور کل‘ (1992 ) بہترین گیت نگار،فلم ’ ویری گُڈ دنیا ویری بیڈ لوگ‘ (1998 ) بہترین نغمہ نگار۔

لاہور ہی میں منعقدہ ہفت روزہ نگار کی ایک تقریب میں مسرور ؔ بھائی نے نگار کے روحِ رواں جناب الیاس رشیدی سے میری ملاقات کروائی تھی۔

ایک مرتبہ میں نے مسرورؔ بھائی کو تجویز پیش کی کہ کیوں نہ بڑے پیمانے پر بزمی صاحب کو خراجِ عقیدت کا پروگرام ہیش کیا جائے۔ مجھے اِس کا خیال کراچی میں آیا۔ ہو ا یوں کہ میری موجودگی میں بزمی صاحب کے لئے گاہے بگاہے بمبئی بھارت سے ، لکشمی کانت اور پیارے لال، المعروف لکشمی کانت پیارے لال اور نامور گیت نگار آنند بخشی کے ٹیلی فون آیا جایا کرتے تھے۔ مسرور ؔ انور اُس قبیل کے لوگوں میں سے تھے کہ جِن کے نزدیک ناممکنات، ناممکنات نہیں ہوتیں ۔ مجھ سے کہا کہ ہاں یہ پروگرام بالکل ہو سکتا ہے۔فوراََ اپنی ڈائریاں کھولیں اور ایک صفحہ پر ترتیب سے پہلے نام لکھے پھر فون نمبر اور پھر فون کرنا شروع ہوئے۔ ایک لمحہ کو بھی نہیں پوچھا کہ آخر وہ یہ سب کیوں کریں؟ 

تو اُس روز گھنٹہ بھر میں ڈھاکہ ، بنگلہ دیش میں رونا لیلیٰ سے بات کر لی اور کراچی میں بنگلہ دیش کی قومی ائر لائن بیمان انٹر نیشنل سے رونا لیلیٰ اور اُن کے ساتھ آنے والوں کے اعزازی ٹکٹ اور لاہور میں پانچ ستارہ ہوٹل میں اِن کے قیام کی بات بھی ہو گئی۔اُدہر لکشمی کانت سے بھی تفصیلی بات ہوئی ۔ خاکسار پر اُس وقت حیرتوں کے پہاڑ ٹو ٹ پڑے جب لکشمی کانت نے کہا کہ بزمی صاحب کے لئے وہ ، یعنی لکشمی کانت اور پیارے لال، 30سازندوں کا آرکسٹرا، گلوکار محمد عزیز اور گلوکارہ’الکا یاگنِک‘ کو وہ خود اپنے خرچہ پر لے کر آئیں گے۔ اور ہوٹلوں کے قیام کے اخراجات کے بھی وہی ذمہ دار ہوں گے۔۔۔کیوں؟ راقم کو اِس کیوں کے جواب پر بے انتہا خوشی ہوئی۔ آنجہانی لکشمی کانت نے کہا کہ بمبئی کی فلمی صنعت میں ہم بزمی صاحب کی بدولت داخل ہوئے۔ہم کو تیسرے درجہ سے دوسرے ، پھر اس کے بعد درجہ اوّل کے سازندے بنانے میں بزمی صاحب کا بہت ہاتھ ہے۔پیارے لال کا کہنا تھا کہ آج اگر بمبئی میں مجھ کو ایک اچھا ارینجر مانا جاتا ہے تو وہ بھی بزمی صاحب کی مرہونِ منت ہے۔

گیت نگار آنند بخشی نے تو حد ہی کر دی۔آنجہانی فرمانے لگے کہ مجھے پہلی فلم میں گانے لکھوانے کے لئے سید نثار خود میرا ہاتھ پکڑ کر لے گئے تھے ۔ مجھے پہلا فلمی گیت فلم ’’ بھلا آدمی ‘‘ ( 1958) میں ان ہی کی بدولت ملا لہٰذا میں بلا معاوضہ شرکت کروں گا۔

جب اِس پروگرام کے سرحد پار انتظامات اِ س قدر عمدگی سے طے ہوئے تو ملکی فِلمی صنعت کے نامور فنکار، اداکار اور اداکارائیں، کامیڈین وغیرہ کے بھر پور حصّہ لینے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیںآ تی تھی۔

میں نے تعلقاتِ عامہ کے سلسلہ میں مسرورؔ انور جیسا کوئی اور نہیں دیکھا ۔مجھے اِس مجوزہ پروگرام کی کامیابی نظر آنے لگی۔آپ دیکھئے نا ! لکشمی کانت پیارے لال اورآنندبخشی آنے کو تیار، رونا لیلیٰ تیار، بیمان انٹرنیشنل اور ہماری قومی ایر لائن بھی اعزازی ٹکٹ دینے پر رضامند۔۔۔لیکن یہ پروگرام بوجوہ نہ ہو سکا !
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مسرور ؔ بھائی ملک میں اور ملک کے باہر فلمی طائفہ لے جانے کے ماہر تھے۔مختلف محکموں کی منظوریاں، ضابطے، پھر دوسرے ممالک میں پیش آنے والے بعض مخصوص مسائل وغیرہ احسن طریقے سے حل کرواتے تھے۔
جب اِن کا لکھا، امجد بوبی کی موسیقی اور سلمیٰ آغا کی آواز میں یہ گیت: ’’ اک با ر ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے ۔۔۔‘‘ مقبول ہو کر سلمیٰ آغا کی مقبولیت کو چار چاند لگا رہا تھا تو دو تین مرتبہ وہ سلمیٰ آغا پر مشتمل طائفے لے کر براستہ کراچی ، ملک سے باہر گئے۔ وہ کراچی ائرپورٹ کے قریب ہوٹلوں میں قیام کرتے۔ اُ ن کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا پھر بھی جب میں وہاں جاتا تو ہمیشہ کی طرح گرم جوشی سے ملتے ۔ 

تنویرؔ نقو ی ، قتیلؔ شفائی، کلیمؔ عثمانی ، تسلیمؔ فاضلی، احمد ؔ راہی، شبابؔ کیرانوی اور د وسرے فلمی شعراء نے فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ بہت عُمدہ غزلیں بھی کہیں ہیں۔   اِسی طرح مسرورؔ انور بھی گیت نگار کی حیثیت سے مشہور ہیں حالاں کہ ابتدا ہی میں فلم ’ بدنام ‘ میں اُن کی لکھی گئی غزل مشہور ہو گئی تھی : ’’ بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دِل لگانے کی کوشش نہ کرنا ۔۔۔‘‘ اِس غزل نے پورے مُلک میں دھوم مچا دی تھی۔کہا تو یہ بھی جاتا رہا کہ اس فلم کو کامیاب کرنے میں اس غزل کا بھی بہت اہم حصہ ہے۔

ایک مرتبہ ریڈیو پاکِستان سے اِن کا انٹرویو نشر ہوا جِس کی ایک بات مجھے آج تک یاد ہے۔کِسی سوال کے جواب میں اِنہوں نے کہا کہ جب وہ اپنا گیت ’’ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم ۔۔۔‘‘ لکھ رہے تھے تو ایک جگہ گیت اٹک گیا ۔جو لکھتے ، بات نہیں بنتی ۔ اِس دوران فجر کا وقت ہو گیا ۔ اِدہر مسجد سے اللہ اکبر کی آواز بُلند ہوئی اُدہر گیت کا پورا تسلسل موزوں ہو گیا:
ہر اک مُوڑ پر ہیں رِواجوں کے پہرے
تُمہی کو نہیں اِسکا سب ہی کو گِلہ ہے
مگر لوگ جیتے ہیں اِن مُشکِلوں میں
ہے جِن کا نہیں کوئی اُ ن کا خُدا ہے
یہی ہے تَمنّا یہی اَلتِجا ہے
اور اِس کے سِوا ہَم بھلا کیا کہیں گے

مسرور ؔ بھائی نے لاہور آ کر اوّل اوّل نثار بزمی صاحب کے ساتھ کافی کام کیا۔’ لاکھوں میں ایک‘، ’ آگ‘، ’ انجمن ‘وغیرہ۔اُن کے ساتھ ساتھ لاہور کے تقریباََ سب ہی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔گیتوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ گیت موسیقار ایم اشرف کے لئے لکھے ۔

وہ بے شک ہنس مُکھ اور زندہ دِل اِنسان تھے اور فلم اور فلمی صنعت، مسرور ؔ بھائی کا اوڑھنا بچھونا تھی۔اِس بات کو وہ بہت سنجیدگی سے لیتے اور اِس صنعت سے پوری طرح واقف تھے۔میں نے انہیں کبھی فالتو بیٹھے نہیں دیکھا۔بھاگ دوڑ، محنت، لکھنا لکھانا اتنے بہت سے شعبوں میں بیک وقت اِس لئے کام کرتے تھے کہ زندگی کی گاڑی پُر سکون چلے۔ دِ ن ہو یا رات، کوئی اپنا مسئلہ اُ ن کے پاس لایا نہیں اور وہ پیشانی پر بَل لائے بغیر اُس کے ساتھ گئے نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ مسرورؔ بھائی کو دیکھ کر میں نے بھی اُن کے نقشِ پا پر چلنے کی کوشش کی۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسرور ؔ بھائی کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر  28 ستمبر کے نگار ویکلی   میں شائع ہوا۔ 


 

Comments

Popular posts from this blog