Filmi Shakhsiyaat Aur Radio ............. Jang-e-September 1965 Ki Jangi Mosiqi
فلمی شخصیات اور ریڈیو ۔۔۔ جنگِ ستمبر 1965 کی جنگی موسیقی
تحریر شاہد لطیف
بھارتی فوج نے لاہور شہر پر قبضہ کی خاطر اچانک 5 اور 6 ستمبر 1965کی درمیانی شب بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہوئے زور دار حملہ کیا۔ بمباں والی راوی بیدیاں کنال المعروف بی آر بی پر تعینات ہمارے سپاہیوں نے نا ممکن کو ممکن بنانے کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ دشمن کو وہیں روک کر اُس کے دانت کھٹے کر دیے۔ مٹھی بھر سپاہیوں کا یہ یہ ملکی دفاع ہماری سنہری تاریخ ہے۔
دنیا نے اِس جنگ میں ایک بالکل ہی نیا ہتھیار دیکھا۔ وہ تھا قومی ولولہ ! یہ ہتھیار جب جب داغا گیا کامیابی کے 100 فی صد نتائج حاصل ہوئے۔پہلی مرتبہ اس ہتھیار کا استعمال کچھ یوں ہے: صبح ریڈیو پاکستان لاہور سے بھارتی حملہ کی خبر نشر ہوئی تو اُس کے فوراََ بعد فلم ’’ چنگیز خان‘‘ ( 1958 ) کا رزمیہ گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ زرا اب وقتِ شہادت ہے آیا ‘ کا گراموفون ریکارڈ نشرہوا۔
طفیل ؔ ہوشیارپوری کے اس گیت کو رشید عطرے کی موسیقی میں عنایت حسین بھٹی ا ور ساتھیوں نے بہت ولولے سے صدا بند کروایا تھا۔ اِس کے بعد تو پھر پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے اسی قسم کے فلمی ترانوں کے گراموفون ریکارڈ نشر ہونے لگے۔ جِس طرح گئے زمانے میں فوجی لشکر میں رِجز پڑھنے والے ہوتے تھے وہی کام پاکستانی فوج کے لئے شعراء، موسیقار، سازندوں اور گلوکاروں نے اپنی بہترین صلاحتیں استعمال کر کے کیا۔ یوں فلم اور ریڈیو کے فنکاروں نے جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔۔۔وہ بھی ایسا کہ آج تک ہمارے سامنے ماضی قریب میں ایسی کوئی اور مثال نظر نہیں آتی۔یہی پاکستانی جنگی موسیقی کا آغاز ہے۔
طفیل ؔ ہوشیارپوری کے اس گیت کو رشید عطرے کی موسیقی میں عنایت حسین بھٹی ا ور ساتھیوں نے بہت ولولے سے صدا بند کروایا تھا۔ اِس کے بعد تو پھر پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے اسی قسم کے فلمی ترانوں کے گراموفون ریکارڈ نشر ہونے لگے۔ جِس طرح گئے زمانے میں فوجی لشکر میں رِجز پڑھنے والے ہوتے تھے وہی کام پاکستانی فوج کے لئے شعراء، موسیقار، سازندوں اور گلوکاروں نے اپنی بہترین صلاحتیں استعمال کر کے کیا۔ یوں فلم اور ریڈیو کے فنکاروں نے جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔۔۔وہ بھی ایسا کہ آج تک ہمارے سامنے ماضی قریب میں ایسی کوئی اور مثال نظر نہیں آتی۔یہی پاکستانی جنگی موسیقی کا آغاز ہے۔
6 ستمبر کو صبح صدرِ پاکستان ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی جس میں بھارتی حملہ کے بارے میں بتایا گیا ۔ اس تقریر کے فوراََ بعد گلوکارہ منور سلطانہ، دھنی رام اورغلام فرید قادر فریدی کی آواز میں تنویر ؔ نقوی کا لکھا ہوا فلمی گیت نشر ہوا:
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو
بڑھے چلو، بڑھے چلو، بڑھے چلو
گلوکار سلیم رضا وہ پہلے فنکار ہیں جو ریڈیو پاکستان لاہور آئے اور ملک و قوم کے لئے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نغمات ریکارڈ کروانے کا اعزاز بھی اِن کو حاصل ہے ۔ ان کے نغمات کی چند مثالیں : ’ اے ہوا کے راہیو بادلوں کے ساتھیو پَر فَشاں مجاہدو۔۔۔‘ اس کے نغمہ نگار محمود شام تھے یہ پاکستان ائیر فورس کو خراجِ تحسین ہے، ’ میرے لاہور شہر دیاں خیراں۔۔۔‘ نغمہ نگار اُستاد دامن، ’ جُگ جُگ نگری داتا کی۔۔۔‘ نغمہ نگار قیوم نظر، ’ توحید کے متوالو ! باطِل کو مٹا دیں گے۔۔۔‘ نغمہ نگار حبیب جالبؔ ، ’زندہ رہے گا زندہ رہے گا سیالکوٹ تو زندہ رہے گا، زندہ قوموں کی تارخ میں نام تیرا تابندہ رہے گا۔۔۔‘ موسیقار سلیم حسین، نغمہ نگار ناصرؔ کاظمی، ’ تو ہے عزیزِ ملت نشا ن ِ حیدر۔۔۔‘ نغمہ نگار ناصرؔ کاظمی۔ یہ عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر کو موسیقار، شاعر او ر گلوکار کا خراجِ تحسین ہے۔
پہلا جنگی ترانہ جنگ کے پہلے ہی روز ریڈیو پاکستان لاہور میں تیار ہوا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ صدرِ پاکستان نے ریڈیائی تقریر میں کہا تھا ’’ ہندوستانی حکمران ابھی نہیں جانتے کہ اُنہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ اسی جملے کو بنیاد بنا کر حمایتؔ علی شاعر نے موسیقار خلیل احمد کے ساتھ مل کر یہ گیت تیار کیا:
اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا
لے ہم بھی ہیں صف آراء
گلوکار مسود رانا اور شوکت علی نے مذکورہ گیت کو زبردست جوش اور ولولے کے ساتھ ریکارڈ کرایا۔ یہ نغمہ 6 ستمبر 5:30 بجے شام فوجی بھائیوں کے پروگرام میں نشر ہوا۔
جمعہ 10 ستمبر کو عین جنگ میں فلمساز ریاض بخاری اور ہدایتکار جمیل اختر کی فلم ’’ مجاہد ‘‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ کہانی نگار ریاض شاہد تھے۔اس فلم کا مرکزی جنگی نغمہ خلیل احمد کی موسیقی میں حمایتؔ علی شاعر نے لکھا تھا: ’ ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن۔۔۔‘ پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے یہ دن میں کئی کئی مرتبہ نشر ہو کر فوجی جوانوں اور عوام کے دلوں کو گرماتا تھا ۔
جہاں بھی اور جب بھی جنگِ ستمبر کا ذکر ہو گا وہاں ایک نام لازماََ لیا جائے گا۔۔۔ نورجہاں۔۔۔ یہ اُس دور میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی گلوکارہ تھیں لیکن سلیم رضا کی طرح انہوں نے بھی ریڈیو پاکستان لاہور ہی کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور تمام جنگی ترانے بلا معاوضہ ریکارڈ کروائے۔میری تحقیق کے مطابق جنگِ ستمبر میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے نورجہاں کے نغمات میں ایک کے علاوہ تمام نغمے اِن ہی کے کمپوز کیے ہوئے ہیں۔ چند مثالیں:
’ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رَب دیاں رکھاں۔۔۔ ‘ شاعر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم۔یہ نغمہ 8 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ ایہہ پُتر ہٹاں تے نیءں وِکدے۔۔۔‘ شاعر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم۔یہ نغمہ 10 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی۔۔۔‘ شاعر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم۔یہ نغمہ 11 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں۔۔۔‘ موسیقی میاں شہر یار اور نغمہ نگار جمیل الدین عالیؔ ۔تحقیق کے مطابق یہ نغمہ ’ رَن کَچھ ‘ کے جھگڑے کے پس منظر میں بنا تھا لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر نشر نہیں کیا گیا ۔ مذکورہ نغمہ 12 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ اُمیدِ فتح رکھو اور علَم اُٹھائے چلو۔۔۔‘ شاعر احسانؔ دانش۔یہ نغمہ 13 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کر نیل نی جرنیل نی ۔۔۔‘ شاعر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم۔یہ نغمہ16 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن۔۔۔‘ کلام علّامہ اقبالؒ ۔یہ نغمہ17 ستمبر کو نشر ہوا۔
ان تمام جنگی نغمات لکھنے کے لئے ایک پس منظر ہوتا تھا جیسا کہ اولین جنگی نغمہ کو لکھنے کا محرک صدر ایوب کی تقریر کا ایک جملہ تھا۔اسی طرح پاک بھارت کے نامور فلمی گیت نگار تنویرؔ نقوی کا مندرجہ ذیل نغمہ بھی ایک زبردست پس منظر رکھتا ہے :
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سُرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
شہادتوں کی عظمت سے پُر اس لازوال نغمے کو لکھنے کے لئے شاعر تنویرؔ کاظمی خود اگلے مورچوں پر گئے تھے۔جہاں انہوں نے غازیوں اور شہیدوں کو دیکھا۔یہ 18 ستمبر کو نشر ہوا۔
بہرحال یہ تمام نغمات فوجی سپا ہیوں اور عوام کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ نورجہاں کی اِن خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے 18جنوری 1966 کو تمغہء خدمت سے نوازا اور ملکہ ء ترنم کا خطاب دیا۔
جنگِ ستمبر کے جنگی نغمات میں فلمی گلوکار عنایت حسین بھٹی کا اہم کردار ہے ۔بھٹی صاحب کے قریبی ساتھی جنگ کے دوران اُن کا ایک واقعہ بتلاتے ہیں کہ انہوں نے ایک قلیل رقم چھوڑ کر اپنی تمام جمع پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کروا دی ۔ ان کی بیگم نے خدشہ ظاہر کیا کہ جنگ طول پکڑ گئی تو کیا ہو گا؟ اِس پر عنایت حسین بھٹی نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا ’’ اگر میرا پیارا وطن ہی نہ رہا تو کیا ہو گا؟ لہٰذا میرا سب کچھ پاکستان کا ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کی۔محاذِ جنگ کو توپ و تفنگ کے ساتھ ساتھ عنایت حسین بھٹی کے اِس رزمیہ گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ زرا اب وقتِ شہادت ہے آیا۔۔۔‘ نے ہمیشہ خوب گرمایا۔
جنگِ ستمبر میں پاکستانی ہوائی فوج کے اہم مرکز سرگودھا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اعزازبھی اِن ہی کو حاصل ہے۔ شاعر ناصر ؔ کاظمی کا نغمہ : ’ زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر۔۔۔ ‘ ۔یہ اس پوری جنگ میں سرگودھا پر واحد نغمہ تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کی۔محاذِ جنگ کو توپ و تفنگ کے ساتھ ساتھ عنایت حسین بھٹی کے اِس رزمیہ گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ زرا اب وقتِ شہادت ہے آیا۔۔۔‘ نے ہمیشہ خوب گرمایا۔
جنگِ ستمبر میں پاکستانی ہوائی فوج کے اہم مرکز سرگودھا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اعزازبھی اِن ہی کو حاصل ہے۔ شاعر ناصر ؔ کاظمی کا نغمہ : ’ زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر۔۔۔ ‘ ۔یہ اس پوری جنگ میں سرگودھا پر واحد نغمہ تھا۔
فلمی گلوکار منیر حسین نے بھی اپنی آواز کے ساتھ دفاعِ پاکستان میں حصہ لیا: ’ دشمن اج للکاریا ساڈے دیس دے جاں نثاراں نوں۔۔۔‘ شاعر خواجہ عطا، ’ مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو۔۔۔‘ شاعر احسان دانش، ’ زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور۔۔۔‘ شاعر قیوم نظر۔
گلوکارہ نسیم بیگم نے بھی جنگِ ستمبر میں کئی ایک نغمے ریکاڑد کروائے۔انٹر نیٹ پر ایک سائٹ http://pakpatrioticliberary.blogspot.com/2014/09/jangi-taranay-1965-war.html
میں نسیم بیگم کا ممتاز ترین قومی اور جنگی نغمہ : ’’ اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔۔۔‘‘ کو جنگِ ستمبر کے جنگی گیتوں میں شامل کیا ہے۔ پھرجنگی نغموں پر تحقیق کرنے والے ابصار احمد کا کہنا ہے کہ شاعر مشیرؔ کاظمی کا لکھا ہوا یہ نغمہ میاں شہریار کی موسیقی میں13 ستمبر کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر بھی کیا گیا تھا۔ وِکی پیڈیا میں بھی اِسی بات کا ذکر ہے ۔
لگتا ہے کہ اس گیت کو سیف الدین سیفؔ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں بننے والی فلم ’’ مادرِ وطن‘‘ میں دوبارہ ریکارڈ کروایا۔یہ فلم جمعہ 28 اکتوبر 1966کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اِس فلم کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکارسیف الدین سیفؔ خود تھے۔ بہر حال مشیرؔ کاظمی اور نسیم بیگم کو دوام بخشنے والا یہی معرکۃ الآرا نغمہ ہے۔ ریڈیو پاکستان سے اِس فلمی گیت کے گراموفون ریکارڈ کی شہرت میں موسیقار بھائیوں سلیم اقبال کا بھی برابر کا حصہ ہے۔
لگتا ہے کہ اس گیت کو سیف الدین سیفؔ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں بننے والی فلم ’’ مادرِ وطن‘‘ میں دوبارہ ریکارڈ کروایا۔یہ فلم جمعہ 28 اکتوبر 1966کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اِس فلم کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکارسیف الدین سیفؔ خود تھے۔ بہر حال مشیرؔ کاظمی اور نسیم بیگم کو دوام بخشنے والا یہی معرکۃ الآرا نغمہ ہے۔ ریڈیو پاکستان سے اِس فلمی گیت کے گراموفون ریکارڈ کی شہرت میں موسیقار بھائیوں سلیم اقبال کا بھی برابر کا حصہ ہے۔
دوسری عالمی جبگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ چونڈہ کے میدان میں لڑی گئی۔ہمارے چند ٹینکوں نے 600 بھارتی ٹینکوں کو نہ صرف روکا بلکہ اللہ کی مدد سے پسپا بھی کیا۔کتنے ہی پاکستانی سپاہی یہاں شہید ہوئے ہوں گے ۔ اس پر قتیلؔ شفائی نے ایک اثر انگیز نغمہ لکھا جو نسیم بیگم کی آواز میں ریکارڈ ہوا:
لائی ہوں میں تمہارے لئے پیار کا پیام
اے پھول سے مجاہدو تم کو میرا سلام
اے مادرِ وطن اونچا ہو تیر ا نام
اُستاد امانت علی خان جنگی نغمات ریکارڈ کروانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے : ’ اے شہیدانِ وطن تم پر سلام۔۔۔‘ شاعر اثرؔ ترابی۔اس قومی نغمہ پر استاد امانت علی خان کو تمغہء خدمت دیا گیا۔احمد ندیم قاسمی نے بھی اِن کے لئے نغمہ لکھا: ’ وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو،مجھ کو اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو۔۔۔‘
ملکہ ء موسیقی روشن آرا بیگم نے حمایتؔ علی شاعر کا نغمہ : ’ اے بھائی تیرے ساتھ بہن کی ہیں دعائیں۔۔۔‘ ریکارڈ کروایا جو اپنی نظیر آپ ہے ۔
اُس وقت کے تمام جنگی نغمات سے ہٹ کر ملکہء موسیقی روشن آرا بیگم نے پاک فضایہ کے سیبر طیارے کے لئے ایک نغمہ صدابند کروایا: ’ اے پاک فضایہ تیرے سیبر کی خیر ہو۔۔۔‘
اُس وقت کے تمام جنگی نغمات سے ہٹ کر ملکہء موسیقی روشن آرا بیگم نے پاک فضایہ کے سیبر طیارے کے لئے ایک نغمہ صدابند کروایا: ’ اے پاک فضایہ تیرے سیبر کی خیر ہو۔۔۔‘
لوک فنکار عالم لوہار کی ’ جگنی پاکستان دی اے۔۔۔‘ مقبول ترین جنگی نغمہ تھا ۔اسے ڈاکٹر رشید انور نے لکھا تھا۔
صہباؔ اختر کا لکھا نغمہ : ’ دنیا جانے میرے وطن کی شان ۔۔۔‘ بھی عالم لوہار کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے ۔اس کے موسیقار میرے اساتذہ لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال صاحبان تھے۔یہ گیت فلم ’’ آزادی یا موت‘‘ کا ہے جو جنگ کے بعد عید الفطر پیر 24 جنوری کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔
صہباؔ اختر کا لکھا نغمہ : ’ دنیا جانے میرے وطن کی شان ۔۔۔‘ بھی عالم لوہار کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے ۔اس کے موسیقار میرے اساتذہ لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال صاحبان تھے۔یہ گیت فلم ’’ آزادی یا موت‘‘ کا ہے جو جنگ کے بعد عید الفطر پیر 24 جنوری کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔
ریڈیو پاکستان کراچی نے بھی جنگِ ستمبر میں بھر پور حصہ لیا۔ستار نواز، ارینجر ، فلم اور ٹیلی وژن کے موسیقار جاوید اللہ دتہ نے مجھے بتایا : ’’ جیسے ہی جنگ کا اعلان ہوا تو بلیک آؤٹ کے لئے تمام کھڑکیوں اور روشن دانوں پر کاغذ لگانے تھے۔ وطن کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کا ایک ولولہ ہمارے دلوں میں تھا ۔ میں نے بھی یہ کام کیا۔پھر ریڈیو اسٹیشن کو ہی اپنا ٹھکانا بنا لیا‘‘۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہاں ریکارڈ ہونے والے تمام جنگی نغمات میں ان کی بجائی ہوئی ستارہے۔ جاوید بھائی کی طرح دیگر میوزیشنوں نے بھی جنگی گیتوں کی تیاری اور ریکارڈنگوں میں جی توڑ حصہ لیا ۔واضح ہو کہ میوزشنوں کے بغیر یہ جنگی نغمات کچھ بھی اثر نہ رکھتے ۔ اے کاش کوئی اِن کے لئے بھی دو بول تعریف کے کہہ دیتا۔۔۔
بلیک آؤٹ میں موم بتی کی روشنی میں مسرورؔ انور نے یہ لازوال نغمہ لکھا ’ اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں، قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں۔۔۔‘‘ اِس کو مہدی حسن نے ریکارڈ کروایا ۔ بہت سے احباب سہیل رعنا کو اس نغمے کا موسیقار لکھتے ہیں جب کہ مسرورؔ بھائی کے بیٹے احمد فراز نے مجھے بتایا کہ اُن کو اُن کی تائی اماں نے بتایا کہ مذکورہ گیت کی دھن خو د مہدی حسن نے بنائی تھی۔ یہ نغمہ 9 ستمبر کو نشر ہوا۔
شاعر رئیس ؔ امروہوی روزانہ ایک جنگی گیت لکھتے تھے۔جیسے :
اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقین ہے
اب فتح مبین فتح مبین فتح مبین ہے
اس نغمہ کو مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان کراچی کے پروڈیوسر اور براڈکاسٹر عظم سرور کا کہنا ہے کہ دورانِ جنگ لاہور اور اس کے شہریوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا فیصلہ ہو ا لہٰذا ہم نے رئیسؔ امروہوی کو فون کیا۔امروہوی صاحب نے فوراََ ہی فی البدیہہ یہ تاریخی نغمہ فون پر لکھوا دیا۔اسے مہدی حسن اور ساتھیوں نے ریکارڈ کروایا:
خطہء لاہور تیرے جان نثاروں کو سلام
شہریوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام
ریڈیو پاکستان کراچی سے سب سے زیادہ جنگی ترانے گلوکار تاج ملتانی نے ریکارڈ کروائے ۔ ادہر جنگ چھڑی اُدھر محشر ؔ بدایونی کا نغمہ اُستاد نتھو خان کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ 6 ستمبر سے ہی نشر ہونے لگا :
اپنی قوت اپنی جاں
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ہر پل ہر ساعت ہر آن
جاگ رہا ہے پاکستان
تاج ملتانی کا سب سے یادگار ترانہ یہ ہے:
اج ہندوواں جنگ دی گل چھیڑی اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے ! جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی
رشید انور کے نغمے کی موسیقی استاد نتھو خان نے دی۔
پاک فضایہ کے لئے پہلا نغمہ بھی تاج ملتانی ہی کا اعزاز ہے : ’ شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک۔۔۔‘ اِس کو رئیسؔ فروغ نے لکھا اور فلم کی مشہور شخصیت رفیق غزنوی نے موسیقی دی۔
مشرقی پاکستان کے لئے سہیل رعنا کی موسیقی میں ابو سعید قریشی کا نغمہ : ’ آؤ چلیں اُس پار مانجھی ۔۔۔ ‘ بھی تاج ملتانی کا مقبول جنگی ترانہ ہے ۔
اِن کے گائے ہوئے یادگار گیتوں میں ’ ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کہتے ہیں۔۔۔‘ بھی شامل ہے۔اِس کو جون ایلیا نے لکھا تھا۔
’ تم نے جیت لی ہے جنگ یہ ، اے جوانو اے جیالو۔۔۔‘ سندھی لوک گیت ہو جمالو کی دھن پر تراب نقوی نے لکھا۔ تاج ملتانی، عشرت جہاں اور ساتھیوں کی آوازوں میں بہت مشہور ہوا تھا۔
پاک فضایہ کے لئے پہلا نغمہ بھی تاج ملتانی ہی کا اعزاز ہے : ’ شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک۔۔۔‘ اِس کو رئیسؔ فروغ نے لکھا اور فلم کی مشہور شخصیت رفیق غزنوی نے موسیقی دی۔
مشرقی پاکستان کے لئے سہیل رعنا کی موسیقی میں ابو سعید قریشی کا نغمہ : ’ آؤ چلیں اُس پار مانجھی ۔۔۔ ‘ بھی تاج ملتانی کا مقبول جنگی ترانہ ہے ۔
اِن کے گائے ہوئے یادگار گیتوں میں ’ ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کہتے ہیں۔۔۔‘ بھی شامل ہے۔اِس کو جون ایلیا نے لکھا تھا۔
’ تم نے جیت لی ہے جنگ یہ ، اے جوانو اے جیالو۔۔۔‘ سندھی لوک گیت ہو جمالو کی دھن پر تراب نقوی نے لکھا۔ تاج ملتانی، عشرت جہاں اور ساتھیوں کی آوازوں میں بہت مشہور ہوا تھا۔
فلمی پلے بیک سنگر احمد رشدی نے بھی کراچی میں ریڈیو اسٹیشن میں بہت سے نغمات ریکارڈ کروائے جیسے: ’ لالہ جی جان دیو لڑنا کیہہ جانو تسی مرلی بجاون والے جنگ تہاڈے وس دی نئیں‘ اس کو سلیم گیلانی نے لکھا تھا۔
’ ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی ،تجھ سے ہی یہ ملک بنے گا دنیا میں لاثانی۔۔۔‘ سہیل رعنا کی موسیقی میں حمایتؔ علی شاعر نے یہ گیت فلمساز وحید مراد کی فلم ’’ جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ ( 1963) کے لئے لکھا تھا۔یہ گیت پہلے ہی خاصا مقبول تھا لیکن جنگِ ستمبر میں یہ گراموفون ریکارڈ دن میں کئی کئی مرتبہ نشر ہوتا تھا۔
’ میرا پیغام پاکستان میرا انعام پاکستان، محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان۔۔۔‘ نیاز احمد کی موسیقی میں جمیل الدین عالیؔ کے اس نغمہ کو احمد رشدی نے ریکارڈ کروایا ۔یہی اصل نغمہ ہے ۔نصرت فتح علی کا نغمہ تو اس کا ری میک ہے۔یہ بات ریڈیو پاکستان کی سینٹرل لائیبریری سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ جنگی نغمات کے محقق ابصار احمد کے بلاگ: http://pakpatrioticliberary.blogspot.com/2011/11/mera-pegham-pakistan-lyrics-download.html
’ ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی ،تجھ سے ہی یہ ملک بنے گا دنیا میں لاثانی۔۔۔‘ سہیل رعنا کی موسیقی میں حمایتؔ علی شاعر نے یہ گیت فلمساز وحید مراد کی فلم ’’ جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ ( 1963) کے لئے لکھا تھا۔یہ گیت پہلے ہی خاصا مقبول تھا لیکن جنگِ ستمبر میں یہ گراموفون ریکارڈ دن میں کئی کئی مرتبہ نشر ہوتا تھا۔
’ میرا پیغام پاکستان میرا انعام پاکستان، محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان۔۔۔‘ نیاز احمد کی موسیقی میں جمیل الدین عالیؔ کے اس نغمہ کو احمد رشدی نے ریکارڈ کروایا ۔یہی اصل نغمہ ہے ۔نصرت فتح علی کا نغمہ تو اس کا ری میک ہے۔یہ بات ریڈیو پاکستان کی سینٹرل لائیبریری سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ جنگی نغمات کے محقق ابصار احمد کے بلاگ: http://pakpatrioticliberary.blogspot.com/2011/11/mera-pegham-pakistan-lyrics-download.html
پر اس بات کا ذکر ہے۔نیز وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اِن کے پاس احمد رشدی کا اصل نغمہ موجود ہے۔
پاک بحریہ نے اِس جنگ میں بھارت کے مضبوط بحری اڈے دوارکا کا ہلواڑہ کر دیا تھا۔ اس پر جون ایلیا نے ایک نغمہ لکھا جسے اُستاد نتھوخان کی موسیقی میں احمد رشدی نے نگہت سیما اور ساتھیوں کے ہمراہ ریکارڈ کروایا۔ پاک بحریہ کے لئے یہی سب سے پہلا نغمہ تھا ۔ یہ 9 ستمبر کو نشر ہوا:
فرماں روا ئے بحرِ عرب پاک بحریہ
بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ
اس نغمہ میں ایک عجیب تاثیر ہے جو آج بھی سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ یہ پورے نغمہ میں واضح محسوس ہوتی ہے۔ان سطور کو پڑھنے والے انٹر نیٹ پر ’ اصل ‘ نغمہ سُن کر خود اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
جنگِ ستمبر میں پاک فضایہ کے عالمی شہرت یافتہ غازی مجاہد ، ایم ایم عالم کو مشہور فلمی شاعر مظفرؔ وارثی نے خراجِ تحسین پیش کیا : ’ ناز ہے پاکستان کو تجھ پہ اے مشرق کے لال۔۔۔‘ اس کو گانے کا اعزاز بھی احمد رشدی کے پاس ہے۔
ریڈیو پاکستان میں ریکارڈنگ اسٹوڈیو کم پڑنے لگے تو ای ایم آئی یعنی گراموفون کمپنی آف پاکستان نے اپنی تمام سہولیات ریڈیو پاکستان کو بلا معاوضہ دے دیں۔ یہیں پر کئی تاریخی نغمات صدابند ہوئے جیسے: ’ سہیل رعنا کی موسیقی میں شاعرؔ لکھنوی کا گیت: ’ اے نگارِ وطن توسلامت رہے ۔۔۔‘۔اس کو حبیب علی محمد نے ریکارڈ کروایاجو 20 ستمبر کو نشر ہوا۔
گلوکارہ اقبال بانو نے بھی جنگِ ستمبر میں اپنا حصہ ڈالا ۔اُستاد نتھو خان کی موسیقی میں صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کا نغمہ: ’ اے جوانانِ وطن اے جوانانِ وطن ، تم سے ہی ہر لحظہ خنداں ہیں گلستانِ وطن۔۔۔‘ بہت پسند کیا گیا۔ لال محمد اقبال کی موسیقی میں بینش سلیمی کالکھا ہوا نغمہ بھی خاصا مقبول ہوا : ’ میرے وطن کے نوجواں وطن کے گیت گائے جا۔۔۔ ‘
صدارتی ایوارڈ برائے حُسنِ کارکردگی یافتہ نامور گلوکار سنی بینجیمن جَون المعروف ایس۔بی۔ جون پاکستان کا ایک قابلِ فخر اثاثہ ہیں۔اور ماشاء اللہ حیات ہیں۔اِن کی پہچان فلم ’’ سویرا‘‘ ( 1959) کا سپر ہٹ گیت ہے: ’ تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے۔۔۔‘ فیاضؔ ہاشمی کے گیت کی موسیقی ماسٹر منظور شاہ عالمی والے نے دی تھی۔ جہاں کسی گیت یا نغمے کا ذکر ہو وہاں اس کے گیت نگار اور موسیقار کا ذکر لازماََ کرنا چاہیے یہی میری کوشش ہوتی ہے۔ بہرحا ل میں نے آج یعنی 2 ستمبر 2018 جون بھائی سے جنگِ ستمبر میں جنگی نغمات کی تیاری اور ریکارڈنگوں کا پوچھا۔کہنے لگے: ’’ ادھر شاعر گیت لکھتے اُدھر موسیقار فنکاروں کو ریہرسل کروانے لگتے اور کم سے کم وقت میں ریکارڈ کرنے کی کوشش کرتے‘‘۔ میری تحقیق کے مطابق جون بھائی نے جنگِ ستمبر میں 8 گیت ریکارڈ کروائے۔اِن کا کہنا ہے: ’’ ساقی جاوید کے اِس گیت کی دھن میں نے
کمپوز کی تھی‘‘ :
کمپوز کی تھی‘‘ :
اے ارضِ وطن تو ہی بتا تیری صدا پر
کیا ہم نے کبھی فرض سے ا نکار کیا ہے
اس نغمے کے ذکر میں ایک دلچسپ بات بتلائی۔
’’ بھٹو صاحب کا بالکل ابتدائی دور تھا جب اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر ایک مینارٹی کانفرنس Minority منعقد ہوئی۔بھٹو صاحب اور کوثر نیازی کے بعد مجھے روسٹرم پر بلوایا گیا۔ میں نے وہاں یہی قومی نغمہ سنایا۔ابھی پہلا شعر ہی ادا کیا تھا کہ بھٹو صاحب نے اور دیگر حاضرین نے خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ بڑھایا۔نغمہ ختم ہوا تو بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کس کا لکھا ہوا ہے؟ میں نے ساقی جاوید کا نام لیا۔پھر پوچھا کہ کس نے دھن بنائی تھی۔جب میں نے کہا کہ میں نے، تو اپنے پاس بلوایا اور کہا کہ شام کے سیشن میں بھی یہ نغمہ سنانا‘‘۔ پھر جون بھائی نے شام کو بھی یہ نغمہ سنایا۔گویا پاکستان کی اقلیتیں کہہ رہی ہیں کہ جنگ ہو یا امن ! ہم نے اپنے فرائض نہایت ذمہ داری سے ادا کیے اور جنگوں میں اپنے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ! جیسے اسکوارڈن لیڈر ( میجر) پیٹر کرسٹی Peter Christy جنہوں نے جنگِ ستمبر میں حصہ لیا اور 6 دسمبر 1971 کو بھارتی ائیر فورس کے بیس جام نگر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپسی پر ملک اور قوم کی خاطر شہید ہو گئے ۔انہیں تمغہ جرات (1965)، ستارہ جرات( 1971)سے نوازا گیا۔پھر سسل چوہدری کا نام بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ یہ 1965 کی جنگ میں لاہور شہر کے اوپر ڈاگ فائٹ اور6 ستمبرہلواڑہ ایر بیس کے ’’ رن وے ‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ’ ہلواڑہ پیٹنے ‘ والے معرکہ کے ہیرو ہیں۔ہم ان کے یوں بھی شکر گزار ہیں کہ ان کے وجہ سے نیا محاورہ ’’ ہلواڑہ پیٹنا ‘‘ وجود میں آیا۔
سسل چوہدری نے 1971 کی جنگ میں اسکورڈرن لیڈر کی حیثیت سے بھی حصہ لیا۔ انہیں 1965 کے معرکہ میں ستارہ جرت اور 1971کی جنگ میں تمغہ جرت دیا گیا۔ جون بھائی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ سسل چوہدری اُن کی بیٹی کے چچا سسر تھے۔جون بھائی پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔اور یقیناََ یہ کرسچیئن برادری کے لئے بھی ایک اعزاز ہیں ۔
بات جنگی موسیقی کی ہو رہی تھی اس سلسلے میں ابھی کئی ایک نام ہیں لیکن جگہ کی تنگی کے سبب تمام کا احاطہ ممکن نہیں۔بہرحال حربیہ موسیقی جنگِ ستمبر میں بہت کامیاب رہی۔ اور دنیا کو دکھا دیا کہ فوج اور قوم دونوں ملک کے دفاع میں اپنی بہترین صلاحتیں کیسے سامنے لاتے ہیں۔
پاک فوج زندہ باد پاکستان پائندہ باد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشنوں کے صفحہ نمبر 12 پر شائع ہوئی۔
Comments