Khabardar Bacho ! Khwaab Bhi Angraizi Main Daikho ......................
خبردار بچو ! خواب بھی انگریزی میں دیکھو۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک ماں اپنی ننھی بچی کے اسکول کے ٹیسٹ اور ٹیچر کی تصریحات دیکھ رہی ہے۔ریاضی اور دیگر مضامیں میں اچھے نمبروں پر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ انگریزی کے ٹیسٹ میں مضمون ’ میرا خواب‘ نہ لکھنے پر ٹیچر کے لال قلم سے سوالیہ نشان پر بچی سے پوچھتی ہے کہ کیوں نہیں لکھا؟بیٹی معصومانہ جواب دیتی ہے ’’ خواب میں نانا نانی اور سب لوگ اپنی زبان ہی میں بات کر رہے تھے۔انگریزی میں نہیں، میں کیسے لکھتی۔۔۔‘‘
پڑھنے والے گاہے بگاہے اِن صفحات پر اُردو زبان کی حق تلفی پر احتجاج پڑھتے رہتے ہیں لیکن بھلا مقتدر طبقوں میں اُردو کی آواز!!!! لیکن ہم اُردو زبان کو اُس کا حق دِلوانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں بیٹھنے والے افراد نے کبھی اِس کو نافذ نہیں ہونے دیا۔ ہر ایک حکومت اُردو ذر یعہء تعلیم میں سب سے بری رُکاوٹ بنتی رہی ہے اور اب بھی ہے۔
پچھلے دِنوں ہمارے ملک کی سُپریم کورٹ نے بڑے کروفر سے حکومت کو کہا تھا کہ جلد از جلد تمام تر دفتری لکھت پڑھت اُردو زبان میں کی جائے نیز وفاقی اور صوبائی سطح کی مُلازمتوں کے تحریری اور زُبانی امتحانات بھی اُردو میں لئے جائیں۔ بجائے اِس کے کہ اِس پر فوری عمل درآمد ہوتا.......... کہا یہ گیا کہ ایسے کاموں کے لئے کچھ مہلت درکار ہو تی ہے........ کمال کی بات ہے کہ تمام ادوار کی حزبِ اختلاف، سیاسی پارٹیوں ، دینی پارٹیوں اور دیگر ’تھِنک ٹینکوں ‘ کی طرف سے اُردو کے نفاذ کی حمایت میں کوئی ایک بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ وہ تمام چہرے جو مختلف ٹی وی چینلوں پر تواتر سے نظر آتے ہیں اِس سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہتے ۔ گویا اُن کی نظر میں اِس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ؎
آج بھی طلباء کی اکثریت اُردو ذریعہء تعلیم کے تحت اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں بہترین نمبر لے کر اپنی قابلیت کی بُنیاد پر میڈیکل ، انجینیر نگ یا اِس طرح کے دیگر پیشہ ورانہ کالجوں میں آتی ہے۔لیکن یہاں سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جاتا ہے۔ اساتذہ اِن کی مُشکلات کو دیکھتے ہوئے اُردو میں سمجھا بھی دیں تو تقریباََ تمام ہی کِتابیں انگریزی میں ہوتی ہیں۔اُردو کے نفاذ میں یہ واقعی ایک بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔اور اِسی بات کو اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم دینے کی مُخالفت کرنے والے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ حیرانگی اِس بات کی ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین درس گاہوں کے حاضر اور ریٹائرڈ اساتذہ ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کرتا دھرتا، وزارتِ تعلیم کے بزرجمہروں نے بھی کبھی اِس مسئلہ کا حل نہیں سوچا۔کوئی کام نہ کرنے کے سو بہانے مگر قیامِ پاکستان سے قبل آخر جامعہ عثمانیہ بھی تو ایک مستند نام تھا۔کیا وہاں اُردو میں اعلیٰ تعلیم نہیں دی جاتی تھی؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں جِس کے دِل میں قوم کا درد ہو تو وہ خود اِس سلسلہ میں آگے بڑھ کر میڈیکل اور دیگر پیشہ ورانہ نصاب کی کتابوں یا ڈاکٹریٹ کرنے والوں کے مقالات کا اُردو ترجمہ کر ے یا کروائے ؟ کیا انجمنِ ترقیء اُردو سے یہ کام نہیں کروایا جا سکتا؟
وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے فیڈرل گورنمنٹ اسکول اور صوبائی حکومتوں کے تحت چلنے والے گورنمنٹ اسکولوں میں سب سے زیادہ طلباء اور طالبات ہیں۔اس اکثریت کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی ۔ نظامِ تعلیم کے تضاد نے واضح طور پر معاشرے میں دو نمایاں گروہ پیدا کر دیے ہیں... ......... پہلا گروہ اشرافیہ جو حکومت کرنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے اور دوسرا گروہ باقی 70 فی صد ہیں جو کبھی بھی اعلیٰ عہدوں پر نہیں پہنچ پاتے الا ماشاء للہ ....... اِس تقسیم نے مجموعی طور پر معاشرے میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
کبھی بھی کوئی چیز ناممکن نہیں رہی۔جب کسی نے کوئی کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تو پھر اُس کو مکمل کرنے میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئی۔اِس کی سب سے بڑی مثال تُرکی کے اتاترک مصطفےٰ کمال پاشا ہیں ۔ اُن کا فیصلہ غلط تھا یا درست ، اِس سے بحث نہیں لیکن اُنہوں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ تُرکی زبان عربی رسم الخط کے بجائے رومن رسم الخط میں لکھی جائے گی تو اِس کے نفاذ میں نہ کوئی دیر ہوئی نہ کوئی رُکاوٹ آئی ۔بالآ خر عوام نے نہ صرف اِسے قبول کیا بلکہ بغیر کسی لیت و لعل کے اِس پر عمل درآمد بھیکیا.......... کیوں؟ .......... اِس لئے کہ حکمران ایسا کرنے میں پر خلوص تھا اور نفاذ کی طاقت بھی رکھتا تھا۔
سُپریم کورٹ نے تو اُردو کو پورے ملک میں تمام سرکاری اورغیر سرکاری اداروں میں نافذ کرنے کا کہا تھا۔اب فرداََ فرداََ ہر ایک ادارے اور عدالتوں میں نفاذ کا وقت آ گیا ہے۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ عدالتوں میں چلنے والوں کیسوں پر تبصرے نہیں کرنے چاہییں، لیکن بچتے بچاتے یہ تو عرض کر ہی سکتا ہوں کہ اُردو کے نفاذ کا تو نہایت اہمیت کا معاملہ ہے !
چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ، یہ مِثل خود حکومتِ پاکستان کے نام نہاد عقلِ کُل کے کرتے دھرتوں پر سولہ آنے صادق آگئی ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اُردو کے نفاذ میں تو کچھ وقت لگے گا۔جب عدالتیں ایک معینہ وقت دیتی ہیں تو ڈھٹائی کا مظاہرہ کر کے مزید وقت مانگا جاتا ہے۔اللہ ہی جانے کہ وہ کون سی مصلحت کے تحت دے بھی دیا جاتا ہے۔ کیا عوام میں سے کسی کو افسر شاہی یا نوکر شاہی کامزہ لینا تا قیامت شجرِ ممنوعہ ہی رہے گا؟ بھلا کبھی گرامر اسکول اور چیف کالج کی پڑھی ہوئی نوکر شاہی عوام کو اپنے برابر آنے دے گی؟ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے قومی اسمبلی اور سینٹ کے جاگیردار ممبران سے جاگیرداری نظام کے خاتمہ کا قانون بنوایا جائے۔
چند تجاویزات: پہلی یہ جب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوتا تب تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن سی۔ایس۔ایس۔ کا تحریری اور زبانی امتحان انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی لے۔ آخر اسکول کالج وغیرہ میں انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی تو پرچے لئے جاتے ہیں اِسی طرح فیڈرل پبلک کمیشن کے امتحان پورے ملک کے لئے دونوں زبانوں میں کیوں نہیں لئے جا سکتے؟دوسری تجویز یہ کہ اصطلاحات اور مشکل ناموں کو انگریزی ہی میں رہنے د یا جائے ۔ آخر روز مرہ کی گفتگو میں کئی ایک الفاظ اُردو میں مسلمہ جگہ نہیں پا چکے ؟ جیسے: اسٹیرنگ وہیل، بریک، بریک شو، کلچ، گئیر، ریڈی ایٹر، ڈینٹنگ پینٹنگ وغیرہ ۔ ہاں ! یہ علیحدہ بات ہے کہ کام نہ کرنے کے لئے تاویلات بنائی جاتی رہیں گی۔ ہمارے سامنے ایک مِثال مردم شماری کی بھی ہے۔ وہ تو بھلا ہو آپریشن رد الفساد کا کہ یہ کام ہوا۔ مردم شماری اچھی بُری جیسی بھی تھی وہ فوج نے کروائی ورنہ حکومت ( کوئی بھی ہو ) نے تو یہ کبھی نہیں کروانا تھا۔مردم شماری کی طرح بے چاری مظلوم اُردو کے سر پر بھی کیا اب فوج اور رینجرز ہاتھ رکھے گی؟ کیا خواص کی ترجمان حکومتِ وقت کو بھی کوئی حتمی وقت دے سکے گا کہ فلاں تاریخ تک ہر حال میں اُردو کا ہر سطح پر نفاذ کر ایا جائے۔ شنید تو یہ ہے کہ کوئی عدالتی سرگرمی ہونے والی ہے ۔ لکھنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں لیکن ......... کیا اب زبردستی ہمارے بچوں کو انگریزی میں خواب دیکھنے پڑیں گے؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشنوں میں مورخہ 15 ستمبر 2018 کو کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔
Comments