Pakistan Main Paida Hounay Walay Bachay ............. Pakistani Shehriyat Kiwoon Naheen?



پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے ۔۔۔ پاکستانی شہریت کیوں نہیں؟


تحریر شاہد لطیف

وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالی اور افغان باشندوں کے بچوں کو پاکستانی شہریت دینے کے اعلان کے ساتھ ہی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران بھی اِس میدان میں کود پڑے ۔پیپلز پارٹی اور بی این پی مینگل نے قومی اسمبلی میں ایک مشترکہ توجہ دلاؤ نوٹس پیش کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کس ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں ؟جبکہ خود سعودی عرب کی بادشاہت میں کئی دہائیوں سے رہنے والے اور وہاں پیدا ہونے والے پاکستانیوں یا کسی اور ملک کے باشندوں کو سعودی شہریت کبھی نہیں ملتی۔واقعی کمال کی بات کہی ہے نفیسہ شاہ صاحبہ آپ نے!! پی ٹی آئی کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے بقول نفیسہ شاہ کو چاہیے کہ وہ تاریخ پڑھیں کیوں کہ وزیرِ اعظم آپ ﷺ کی ریاستِ مدینہ کی بات کر رہے تھے نہ کہ سعودی عرب کی موجودہ بادشاہت کی !

ممبر قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کے سوال میں ہی اُن کا جواب بھی ہے۔آپ خود کہہ رہی ہیں کہ برسوں سے رہنے والے اور وہاں پر پیدا ہونے والوں کو کنگڈم آف سعودی عریبیہ Kingdom of Saudi Arabia میں شہریت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ برسہا برس سے وہاں رہنے والے لوگوں اور پیدا ہونے والے بچوں کو سعودی شہریت حاصل ہونا چاہیے۔بالکل ہونا چاہیے! جیسا کہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔تو جناب ! جو چیز آپ چاہتی ہیں کہ سعودی بادشاہت میں رہنے والے مہاجرین اور اُن کے پیدا ہونے والے بچوں کو حاصل ہو وہ پاکستان میں برسہا برس رہنے والے اور اُن کے یہاں پیدا ہونے والے بچوں کو کیوں نہ حاصل ہو؟


یہ بھی عجیب دلیل ہے کہ چاہے کوئی کچھ ہی کیوں نہ کہتا رہے لیکن۔۔۔ میں نہ مانوں ! آپ پسند کریں نہ کریں لیکن پاکستان کا شہریت ایکٹ 1951 پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کو پاکستانی شہریت دینے کا کہتا ہے۔گویا یہ پیدا ہونے والے بچے کا بنیادی اور آئینی حق ہے۔ ہاں! البتہ سابقہ صدر زرداری کے بقول معاہدے، قانون اور آئین کون سے قرآن و حدیث ہیں ! ٹھیک ہے ! تو گویا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ اِن کے بچے پاکستانی شہریت حاصل کریں ۔ اسی طرح یہاں ایک زمانے سے دھکے کھانے والے شخص کو بھی آپ شہریت کا حق نہیں دیں گی۔ پھر مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے غیر بنگالی بھی پاکستان میں کبھی کھپائے نہیں جا سکیں گے۔ جب کہ بنگلہ دیش بننے سے پہلے یہ پاکستان کے ہی شہری تھے اب تو اُن کی بھی یہ تیسری نسل ہو گی جو بے وطن ہے۔ زرا یہ تو بتایئے کہ آپ لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے مغربی ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی جستجو میں کیوں رہتے ہیں؟ عرب ممالک تو غیر ملکیوں کو اپنے نام پر پراپرٹی نہیں لینے دیتے نہ آپ بغیر کسی مقامی عرب کے اپنے نام پر کاروبار ہی کر سکتے ہیں ۔ آپ لندن میں اِسی لئے صاحبِ جائداد ہیں کہ وہاں پر سعودی بادشاہت جیسا قانون نہیں۔آپ کے اپنے قریبی عزیزوں میں سے کتنے ہی ایسے ہوں گے جو پیدا تو پاکستان میں ہوئے لیکن نقلِ مکانی کر کے یورپ، کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ پھر اُن کے بچے بھی وہیں پیدا ہوئے۔آپ کی منطق کے لحاظ سے تو وہ وہاں شہریت کے اہل ہی نہیں تھے ۔جبکہ وہاں ان کو قانون کے مطابق شہریت بھی حاصل ہو گئی۔اور۔۔۔پاکستانی شہریت بھی برقرار رکھی ۔گویا اب وہ دُھری شہریت کے حامل ہیں ۔اِن کی سہولت کی خاطر نادرا نے بھی انگریزی میں اِن کے خصوصی سمندر پار شناختی کارڈ بنا رکھے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ پاکستان میں بلا ویزہ آ جا سکتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تو مکمل اندھیر نگری مچی ہوئی تھی۔اکثر پاکستانی سینیٹر، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ، ضلع و تحصیل کونسلوں کے چیئرمین حتیٰ کہ کونسلر تک بھی دھری شہریت کے حامل تھے۔ وہ تو بھلا ہو الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتِ عالیہ کا کہ اب اللہ اللہ کر کے اِس احساسِ برتری سے جان چھوٹی ہے کہ ’’ ہم تو فلاں ملک کے شہری ہیں ‘‘ ۔ آج کے سیاستدان کل کے وزیرِ اعلیٰ اور ملک کے وزیرِ اعظم ہوتے ہیں۔ بہت اچھا کیا جو حَکم لگایا کہ دھری شہر یت رکھنے والا انتخابات کے لئے نا اہل قرار پائے گا۔کیا ہی اچھا ہوتا جو یہ حَکم نوکر شاہی پر بھی لاگو ہو۔ 


قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ اور پی ٹی آئی کی شیریں مزاری میں خاصی نوک جھونک بھی ہوئی۔دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے مہاجرین کے بچوں کو شہریت دینے کا فیصلہ آئین اور قانون کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اورتمام پارلیمانی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔


یہ بھی ایک ہی رہی۔جب اپنا یا اپنے پیٹی بھائیوں کا مفاد عزیز ہو تو اسمبلی سے قانون میں ردو بدل کرو ا لو۔ جہاں آپ کے مفادات پر ضرب لگنے والی ہو یا جِس سے آپ کی ٹھیکیداری اور چودھراہٹ متاثر ہو نے والی ہو تو وہ قانون بھلا آپ اسمبلی میں کیوں بنانے لگے۔۔۔جیسے نفاذِ اُردو۔اور اُردو میں وفاقی اور صوبائی سول سروس کے تحریری اور زبانی امتحانات وغیرہ۔ا گر اسمبلی میں آنے کا مقصد قانون سازی کرنا ہے تو وہ آج تک کتنی کی گئی ؟چلیں موجودہ حکومت تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کی ہے ! پچھلی حکومت اور اُس سے پچھلی حکومت نے کتنی قانون سازی کی ؟ ہاں البتہ ہر دور میں وقتاََ فوقتاََ ممبرانِ اسمبلی ’’ مہنگائی ‘‘ کا رونا روتے ہوئے اپنی تنخواہیں اور سہولیا ت ضرور بڑھواتے رہے ہیں۔ 


ترقی یافتہ اقوام اپنے آئین کو تقدس کا درجہ دیتی ہیں۔اگر اس میں کوئی تبدیلی نا گزیر ہو تو اُس کا طریقہ بھی آئین میں درج ہوتا ہے۔آج وفاقی وزیر انسانی حقوق کہہ رہی ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بچے کو پاکستانی شہریت کا حق دینے کا فیصلہ آئین اور قانون اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا فیصلہ؟ جب 1951 کاایکٹ پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کو پاکستانی شہریت دیتا ہے تو وزیر ہو یا مشیر اُس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کو متنازعہ بنائے؟ آج اگر اس ایکٹ کو چھیڑا گیا تو پھر تو اسمبلی ممبران ہوں گے اور اُن کی خوہشات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔
کوئی مانے یا نہ مانے ایسے بحث اور مباحثے کرنے والے ملک اور قوم سے قطعاََ مخلص نہیں۔ منافقت کی حد ہے۔خودچاہتے ہیں بہتر سے بہتر علاج ہو۔اس کے لئے حتیٰ لا مکان سرکاری خرچ پر ملک سے باہر علاج کرواتے ہیں۔سرکاری گاڑیوں کے گھریلو استعمال کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔اِن کی اولادیں تو منہ میں سونے کے چمچے لے کر پیدا ہوتی ہیں۔انہیں کیا پتا کہ یورپ ، کینیڈا اور امریکہ میں کتنے ہی ہم وطن کس کس طرح سے قانونی حیثیت حاصل کرنے کے جتن کر کے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ بالآخر یہ وہاں کے کارآمد شہری بھی بنتے ہیں۔اور ایمانداری سے ٹیکس بھی دیتے ہیں ۔


آپ کی اس بات پر ناراضگی بجا کہ سعودی بادشاہت اور دیگر عرب ممالک پاکستانی اور اُن کے وہاں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت نہیں دیتے۔ یہ اگر نا انصافی ہے تو آپ کس منہ سے یہ کہنے کی جسارت کر تے ہیں کہ پاکستان میں ایک عرصہ کے رہنے والے مہاجرین اور اُن کے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو پاکستانی شہریت نہیں ملنا چاہیے!! کیا یہ نا انصافی نہیں؟آپ کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختتام 
یہ تحریر 29 ستمبر 2018 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔















 

Comments

Popular posts from this blog