Pakistan Bhi Turkey Aur Japan Ban Sakta Hay .............




پاکستان بھی ترکی اور جاپان بن سکتا ہے ۔۔۔ 

تحریر شاہد لطیف

مئی 2013 وہ یادگار دن تھا جب ترکی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم طیب اردگان کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضے کی آخری قسط ادا کی۔ ترکی اور آئی ایم ایف کی یہ کہانی 1958 سے شروع ہوئی ۔ قرضوں کی بھی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔بس ایک مرتبہ جو ملک اس کی دلدل میں اترا تو ۔۔۔ 


سوال یہ ہے کہ طیب اردگان کے پاس وہ کون سا چراغ الہ دین تھا جس کو رگڑا اور جن کو حکم دیا کہ تمام قرضے اُتر جائیں؟ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ سمت کا تعین درست تھا اور رہبر مخلص تھا ۔ پھر کامیا بیوں نے قدم چومے۔ قسمت کی دیوی کا مہربان ہونا بھی ایک اہم عنصر ہے لیکن حکومت پر قوم کا اعتماد سب سے زیادہ اہم ہے۔یہی وہ محرک ہے کہ جو عوام کو پیٹ پر پتھر باندھ کر خوشی خوشی کچھ کر گزرنے پر راغب کرتا ہے۔ جب ترکی نے آئی ایم ایف کا $23.5 بلین ڈالر قرضہ اُتار دیا تو پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لئے لکھتا چلوں کہ وہی آئی ایم ایف جو اپنی من مانی شرائط پر مقروض ترکی سے بات کرتا تھا اُس نے الٹا ترکی سے 5 بلین یورو کا قرضہ مانگا۔ 


اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رُخ پر۔آئی ایم ایف کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں پرتگال 21.7 بلین امریکی ڈالر، یونان 16.6 بلین ڈالر(واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل یونان کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا تھا۔صرف یورپی ملک ہونے کے ناطے اس کی جان بخشی ہو گئی ورنہ یہ کہیں ایشیا یا افریقہ میں ہوتا تو ۔۔۔) اور یوکرین 11.3 بلین ڈالر۔ اس کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے جس پر 5.8 بلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ 


عید کے اخبارات میں ایک اہم خبر نظر سے گزری کہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے: ’’ یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم غیر ملکی قرضے نہیں لیں گے ا لبتہ تمام قومی معاملا ت پر فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمان میں لائیں گے‘‘ ۔۔۔ ہماری نئی حکومت سے گزارش ہے کہ لللہ آئی ایم ایف سے مزید کوئی قرضہ نہ لیا جائے۔یہ تو سود در سود کا معاملہ ہو گیا ہے کہ ایک قرضہ لیا۔حکومتِ وقت نے اسے گل چھروں میں اڑا دیا اب اس کی ادا ئیگی کے لئے ایک اور قرضہ لیا گیا۔چوں کہ ملک میں ایف بی آر کا کوئی زور ’ طاقتور ‘ پر نہیں چلتا لہٰذا ٹیکسوں کے اہداف کبھی پورے ہی نہیں ہوتے۔موجودہ نظام میں کبھی پورے ہو بھی نہیں سکتے۔ اب قرض کیسے لوٹایا جائے؟ کوئی بات نہیں آئی ایم ایف سے ’ اُن کی شرائط ‘ پر ایک اور قرضہ لے لو۔۔۔ یہی تو وہ منحوس سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ پھر ماضی میں ہمارے ہاں کوئی طیب اردگان بھی دور دور نہیں تھا۔ قوم کا اعتماد اور یقین نئی حکومت پر خاصا مستحکم ہے۔ اب ہم اسد عمر کو کیسے یقین دلائیں کہ وہ خود قوم کو پیٹ پر پتھر باندھنے کو کہیں تو سہی ! پھر دیکھیں کہ قوم کس طرح اس ’ ان ہونی ‘ کو ہونی کروا کر دکھاتی ہے۔


موجودہ حکومت بھی جانتی ہے کہ یہ کچھ کرنے کرانے کا بہترین اور نایاب سنہری موقع ہے ۔ارادہ کر لیں کہ تمام بین الاقوامی قرضوں سے ہر قیمت پر جان چھڑانی ہے ۔ پیٹ پر پتھر باندھنے کی مثال ہمیں 1945 کی جنگِ عظیم دؤم میں جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکی ایٹم بموں کے گرنے پر ملتی ہیں۔ایٹم بموں کے گرنے کے فوراََ بعد جاپان کی عزتِ نفس، ملکی وقار اور اِقتصادی حالت کا کیا عالم تھا! یہ جاپانیوں سے بڑھ کر اور کون جان سکتا ہے ۔ جاپانیوں نے ملک کی عزت بحال کرنے کی بھاری قیمت ادا کی۔ بین الا قوامی منڈیوں میں کامیاب مقابلے کے لئے کم قیمتوں پر سمجھوتہ کیا، جِس کے لئے اُنہوں نے اپنے معاوضے کم کئے ۔اِس کے جواب میں حکومت نے صنعتوں اور دیگر شعبوں میں ’ مُستقل روزگار ‘ اور با وقار پینشن کی ضمانت دی ۔اِس سلسلے میں جاپان کے لیڈروں کے مثبت کردار کی تعریف کرنا پڑے گی۔اِن کی بات اِس سے شروع ہوا کرتی تھی کہ ’ ملک کے لئے کیا بہتر ہے؟ ‘ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے حلقے کی بہتری کے لئے سوچتے تھے جہاں سے وہ منتخب ہو کر آئے ہیں ۔یہی وہ اہم ترین وجوہات ہیں جِن کی بنا پر ایک بے وقار جاپان نے نہایت ہی کم وقت میں منظم ہو کر اپنے آپ کو کامیاب ترین تجارتی ملک میں تبدیل کر لیااور اُنہوں نے سب کچھ اپنی زبان اور ثقافت کو چھوڑے بغیر حاصل کیا۔


یہ سب بجا لیکن کیا ہمارے اوپر کوئی ایٹم بم گرا؟ بحیثیتِ مفتوح کوئی ذلّت انگیز معاہدہ کیا گیا؟ کیا کوئی تاوانِ جنگ لاگو ہوا؟ ۔سب جواب نفی میں ہیں تو پھر ہم جاپان کیوں نہیں بن سکے؟ بہت آسان سا جواب ہے کہ :سب سے پہلے میں.... پھرمیں .... اور. پھر بھی میں! ..... ہماری ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے!!

وہاں حکومت نے درست سمت معین کر کے ملک کی ترقی کے لئے ایک پالیسی بنائی پھر اہل ترین لوگ، خواہ نوکر شاہی ہویا مقامی سطح کے افسران ہوں اِن کے اشتراک سے اِس کو نافذ بھی کیا۔ہمارے ہاں کیا ہوا؟...... شرم کے مارے قلم نہیں چلتا۔سوال یہ ہے کہ کچھ ہی عرصے میں وہ دُنیا کی ووسری بڑی معیشت کیسے بن گیا؟ یقیناََ اِس کے کچھ اسباب ہیں۔اِن میں عوام کو آنے والے کڑے وقت کے لئے تیار کرنا، حکومتِ جاپان کی پالیسیاں، پالیسی بنانے اور نافذ کرنے والوں کا علم اور متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھنا سرِ فہرست ہیں۔


جاپان کے فلاحی معاشرے کا بھرپورآغاز ایٹمی تباہی کے بعد شروع ہوا جب اقتصادی کساد بازاری کا دور دورہ تھا اور بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہو گئے؛ کیوں کہ جاپانی کرنسی کی وقعت کم ہونے کی وجہ سے اُس کی برآمدات بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر سکیں۔ بیرونی مملک کی منڈیوں میں اُس وقت جاپانی اشیاء بہت مہنگی تھیں ۔ایسے میں سمجھدار جاپانی پالیسی ساز وں نے صنعتی کمپنیوں کو دیوالیہ ہو نے سے بچانے کے لئے قانون سازی کر کے جاپان کو فلاحی معاشرہ بنا دیا ۔ اب حکومت نے ملکی کمپنیوں اور صنعتی یونٹوں کو قرضے دینے شروع کیے جنہوں نے آگے چل کر صنعت و حرفت اور ٹیکنالو جی کے میدان میں اپنے اور ملک کے نام کا ڈنکا بجا دیا ۔ حکومت اور تجارت کے پیشے سے متعلق لوگوں کے مابین مثالی تعاون پیدا ہو گیا۔ ایسا ہی مِثالی تعاون افسر شاہی اور بر سرِ اقتدار پارٹی اور حزبِ اختلاف کے مابین تھا ۔اِس کی وجہ سے 1950 سے 1973 تک جاپان کی مجموعی قومی پیدا وار بڑھ کر 10% سالانہ ہو گئی۔اور اب تو جاپان کی برآمدات 70% پہنچ چکی ہیں ۔


وہاں کے لیڈران ہر کام کرتے وقت یہ سوچا کرتے تھے کہ کیا یہ جاپان کے مفاد میں ہو گا؟ پاکستان کے پاکستانی لیڈراگر یہ سوچ رکھتے تو ہمارا ملک جاپان نہیں توکم از کم کوریا ہی بن جاتا جہاں جناب محبوب الحق کا مجسمہ اُن کے قومی لیڈروں کے بیچ ایستادہ ہے جنہوں نے کوریا کو کوریا بنایا۔ جاپانیوں نے اپنی انا اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر مستحکم معیشت بننے کے لئے بھاری قربانی دے کر غیر ملکی منڈیوں میں مقابلہ کیا اور ایسا کیا کہ چند برسوں میں سب کو مات دے دی ۔ اِس کو حاصل کرنے کے لئے پوری جاپانی قوم نے اپنا پیٹ کاٹا ۔افسوس کہ ہمارے ہاں اِس کا عشر عشیر بھی نہ ہو سکا۔

آخر میں موجودہ حکومت سے دردمندانہ درخوست ہے کہ قدرت نے عرصہ بعد عوام میں حکومت کے لئے ایک اعتماد اور اعتبار کی فضا پیدا کی ہے۔آپ رہبر بن کر اخلاص کے ساتھ قرضوں کی غلامی سے نجات کی تدبیر کیجئے ساری قوم آپ کا ساتھ دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 25 اگست کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشن کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔

































 

Comments

Popular posts from this blog