امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی سپریم کورٹ کا مواخذہ۔۔۔اور ہم
امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی سپریم کورٹ کا مواخذہ۔۔۔اور ہم
تحریر شاہد لطیف
امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی ہاؤس جیوڈیشری کمیٹی نے ریاست کی پوری کی پوری سپریم کورٹ کے مواخذے کا فیصلہ کر لیا۔ان میں چیف جسٹس مارگریٹ ورک مین، جسٹس رابن ڈیوِس، جسٹس بیتھ واکر اور جسٹس ایلن لَوری شامل ہیں۔ پانچویں جسٹس مینیس کیچم تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے۔ان جسٹس خواتین و حضرات پر بد انتظامی، بد عنوانی، نا اہل ہونا، اپنا کام صحیح نہ کرنا اور کچھ بڑے جرائم کے الزامات لگائے گئے۔مذکورہ جیوڈیشری کمیٹی نے بتلایا کہ 4 ملین ڈالر جسٹس خواتین و حضرات نے اپنے دفاتر کی ’’ غیر ضروری شاہانا ‘‘ سجاوٹ، گاڑیوں اور کریڈٹ کارڈوں پر خرچ کیے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھاؤں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک ہی سپریم کورٹ نہیں ہے بلکہ ہر ایک ریاست کی اپنی الگ الگ سپریم کورٹ ہوتی ہے۔
میں نے ریاست ویسٹ ورجینیا میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔وہاں کے قانون سے بھی واسطہ رہا۔خاکسار اپنے کالموں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قانون کا ’’ نفاذ ‘‘ نظر آتا ہے۔خاص و عا م کے لئے قانون یکساں ہیں۔خواہ کوئی کتنا بڑا سراکاری عہدہ دار کیوں نہ ہو کسی کو نہ کوئی استثناء حاصل ہے نہ کوئی قانون سے برتر۔وہاں کے اعلی حکام اکثر شاپنگ سینٹروں ، میلوں ٹھیلوں اور عوامی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔یہ شاپنگ کرنے نہیں بلکہ عوام کا حال معلوم کرنے آتے ہیں۔خود میری ریاست کے گورنر سے عوامی جگہوں پر دو مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔
کل میں آن لائن خبریں دیکھ رہا تھا جب ویسٹ ورجینیا سے متعلق یہ خبر نظر سے گزری۔ میری دلچسپی پیدا ہونا قدرتی بات تھی۔
پوری کی پوری سپریم کورٹ کے مواخذے کی کہانی کا آغاز نومبر 2017 میں مقامی ٹیلی وژن کی اُس خبر سے ہوا جس میں بتلایا گیا تھا کہ عوام کے پیسوں سے جسٹس ایلن لَوری نے اپنے ذاتی چیمبر میں 32,000ڈالر کا صوفہ سیٹ اور اس کے لئے 1,700 ڈالر کے عالی شان کشن خریدے ۔ اس پر ضابطے کی کاروائی شروع ہوئی اور فروری 2018 میں جسٹس لَوری کو مواخذے کا سامنا کر نا پڑا ۔ انہیں 22 ا لزامات کے تحت 8 جون کو بغیر تنخواہ کے معطل کر دیا گیا۔ریاست کے گورنر کے کہنے پر بھی یہ مستعفی نہیں ہوئے۔ الزامات میں 16 فراڈ، 2 دھوکہ دہی، 1 گواہیوں کی چھیڑ چھاڑ اور 3 وفاقی تفتیشی اداروں سے جھوٹ بولنا۔ ایف بی آئی نے انہیں 20جون کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن بعد میں ضمانت پر چھوڑ دیا۔ان پر یہ الزام یہ بھی لگے کہ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لائے اور اس کا پٹرول بھی کلیم کیا۔پھر کورٹ ہاؤس سے فرنیچر بھی اپنے گھر لے جا کر استعمال کیا۔ جسٹس لوَری کے مقدمہ کی تاریخ 2 اکتوبر مقرر ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف جسٹس بننے سے پہلے ویسٹ ورجینیا کی سیاسی کرپشن کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف رہ چکے تھے۔
میں جب بھی کبھی ایسی خبر پڑھتا ہوں تو بے اختیار میرے ذہن میں اپنے ملکی حالات کا نقشہ گھوم جاتا ہے۔ہمارے طریقہ ء سیاست و طرزِ حکومت پر کئی محاورے چسپاں ہوتے ہیں۔مثلاََ آدھا تیتر آدھا بٹیر یا کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا یا دوسروں کو نصیحت اور خود ملا فضیحت اور سب سے بڑا محاورہ جو ہمارے حکمرانوں پر صادر آتا ہے وہ ہے ’’ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘۔
سب لوگ سب کچھ جانتے ہیں۔کچھ بھی چھپا نہیں۔اپنے انتخابات کی اشتہاری مہم پر سیاستدان جو رقم خرچ کرتے ہیں ۔۔۔ کامیاب ہونے کے بعد کیا وہ اسے بھول جائیں گے؟ جی نہیں ! اسی لئے تو خرچ کیا تھا۔۔۔ ’’ سرمایہ ‘‘ لگایا تھا تا کہ مع منافع اصل سرمایہ وصول کر سکیں۔کہاں سے؟ جی ہاں ! عوام کے پیسوں سے جو وہ ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔تو یہ روپیہ مختلف حیلے بہانوں سے سیاستدانوں کی ذاتی جیب میں آ جاتا ہے۔ نہ صرف وہ خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کو بھی نوازتے ہیں۔ کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ان کے سر پر کسی مواخذے کی تلوار نہیں لٹکتی ۔اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پھر ان کے ’’ عہدوں ‘‘ کو قانون کچھ نہیں کہے گا۔کہیں کوئی استثناء کام آ جاتا ہے تو کہیں یہ کسی قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
وہ ممالک جہاں جمہوریت رائج ہے وہاں مکمل قانون کا نفاذ ہے جس سے کسی گورنر، صدر یا چیف جسٹس کو کوئی استثناء حاصل نہیں۔اسی قانون کی تلوار کا خوف انہیں چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے آگے بڑھنے نہیں دیتا اور اگر یہ چھوٹی موٹی کوتاہیاں کبھی بے نقاب ہو جائیں تو انہیں معطل کرنے اور مواخذہ کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہیں۔ایسے میں بے اختیار میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش ہمارے ملک پاکستان میں بھی اسی طرح قانون کا راج ہو جہاں بڑے بڑے عہدیدار چھوٹے چھوٹے ہاتھ مارتے ہوئے بھی ڈریں کجا یہ کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے عہدیدار بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے۔ہم ہر آنے والی حکومت کی طرح اِس آنے والی حکومت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ قانون کا ’’ نفاذ‘‘ کرے گی ۔۔۔ مکمل قانون کا نفاذ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
11 اگست کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے صفحہ 11 پر
شائع ہونے والا کالم " الٹ پھیر"۔
Comments